نظریہ ضرورت

پیر 19 اکتوبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

مجھے شرم آتی ہے جب میرے لیڈر فاطمہ جناح اور قائد اعظم محمد علی جناح کی بات کرتے ہیں – وہ لوگ جنہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت سیاست کے دھارے موڑے رکھے کبھی کسی چیز سے تشبیہہ کو لالٹین لٹکائی رکھی تو کبھی سکند مرزا کو محمد علی جناح سے بڑا لیڈر قرار دیا – کسی نے کہا کہ وہ پاکستان بنانے کی جرم میں شریک نہیں تھا تو کسی نے آج تک پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگایا-ان میں سے اکثریت گوروں کی دربان اور دربار کی خوشامدانہ شان تھی جس کے عوض یہ سب نوازے گئے- کوئی بیٹھ کے انڈیا کے ٹینکس پہ پاکستان آیا اور کسی نے اپنے پیرو کاروں کو چھوڑ کے جدہ کی راہ لی – آج کل وہ لندن بیٹھا تقاضا کر رہا ہے کہ پھر اس کے لئے سڑکوں پہ کوئی لاٹھیا ں کھائے تاکہ وہ حکومت کے مزے اٹھائے- وہ آج بھی ٹی وی سکرین پہ پر جوش ہے اور  اپنے استاد مرحوم کے بعد فن ظرافت کو نہایت سنجیدگی سے نئی جہت دے رہا تھا ۔

(جاری ہے)

اس کی رنگ رنگیلی شخصیت اس کے بدلتے رنگ ہر لفظ میں ایک قہقہہ چھپائے ہوئے تھے ۔ اس نے جب کہا کہ اس کے دور حکومت میں کرپشن کا کوئی اسکینڈل نہیں تھا تو واقعی وہ اس مزاحیہ فلم کا کلائیمیکس تھا ۔ وہ جب بات عدلیہ کی کر رہا تھا تو شاید وہ ان کو نظر انداز کر گیا تھا جن کی بدولت اس کی شخصیت کو بقا اور اس کی حکومت کو استحکام میسر تھا ۔ شاید وہ ان کو ان کے کئے گئے کار ہائے نمایاں پہ صدارت، گورنر شپ اور اٹارنی جنرل شپ کے عہدے دے چکا تھا اس لئے اب انہیں قصہ پارینہ سمجھتا نئے اور موجودہ کرداروں کو للچا رہا تھا ۔

آج کے اس ڈیجیٹل دور میں وہ آن لائن بیٹھا نئے زمانے میں وہی میلہ سجائے اپنے سامعین سے اپنے ہر جملے پہ داد چاہتا ہاتھ کھڑے کرواتا اور عہد مانگتا کچھ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ان کے ذریعے چوتھی دفعہ کی حکومت کی بھیک چاہتا ہو تا کہ وہ کچھ ایسا کر دکھائے جو پچھلی تین دفعہ نہیں کر سکا تھا لیکن میں جب ماضی پہ نظر دوڑاتا ہوں تو یہ اس کا پرانا طریقہ واردات ہے ۔

ہر دفعہ وہ یہی کچھ کرتا آتا ہے اور پھر نظریاتی بن کے وزارت عظمی کی کرسی پہ براجمان ہو جاتا ہے "اگر وہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے " کی عملی تصویر بنا ہر چاند چڑھاتا ہے کہ پانامہ لیکس کے عظیم کردار کی صورت نظر آتا ہے ۔ وہ جنرل جیلانی ۔ جنرل ضیا صاحب کی تعلیم و تربیت اور جنرل حمید گل سے لئے گئے پیسے بھول کے جنرل کیانی کے احسانات اور کامیاب لانگ مارچ سے بھی نظریں چرا لیتا ہے ۔

ضرورت پڑے تو وہ اسامہ کو دہشت گرد اور مولوی فضل اللہ کو اپنا پیش امام بنا لے ۔ کبھی وہ ان کی فرزندی میں آئے تو کبھی وہ ان کرداروں کو بھی بھول جائے جن کی بدولت وہ جاتی امراء کے آئی سی یو اور نہایت ہی کم پلیٹلٹس کی بیماری سے شفا پاتا لندن کے پارکوں اور ریستورانوں میں نظر آتا ہے ۔ اسے اس حالت میں دیکھ کے مجھے بچپن کی پڑھی ایک کہانی یاد آتی ہے جس میں درخت کے نیچے کھڑا ایک اصلی شیر کہتا ہے
O , monkey it is not you but the height of the tree, is insulting me .
اپنے بچے نواسے پوتے پوتیاں باہر لئے بیٹھا اس بیٹی کو چھوڑ کے گیا ہے جو خود اپنے لندن جانے اور اگلی دفعہ وزیر اعظم بنائے جانے کی ڈیل کی ناکامی پہ جنرل مشرف پہ برستی یہ بھول گئی ہے کہ مشرف صاحب کو باہر بھجوانے والا اس کا نظریاتی باپ تھا جس کا ہر نظریہ اس کے اپنے مفاد کے گرد گھومتا ہے ۔

وہ نظریاتی ظہیرالاسلام کے دھمکی دینے کی بات تو کرتا ہے لیکن اس ہمت و جراءت کی بات نہیں کرتا جو لندن پہنچتے ہی اس میں عود آئی ہے لیکن پاکستان رہتے ظہیر الاسلام سے  بطور وزیر اعظم اس جرم پہ جواب نہ لے سکی تھی ۔ ہر بات پہ اپنی غداری کے مقدمات کا ذکر کرتے وہ نجم سیٹھی ، ملیحہ لودھی صاحبہ ۔ جیو نیوز پہ بندش کی اپنی کالی کرتوتوں کو بھول چکا ہے ۔

وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک کہتے ان پہ راجیو گاندھی کو سکھوں کے ناموں کی دی گئی لسٹوں کے ان الزامات کو بھول گیا ہے جس کا گواہ آج بھی وہ جلسہ اور اس کے سامعین ہیں جن کے خون گرماتا وہ ان کے سامنے اپنی حب الوطنی پہ مہر ثبت چاہتا تھا ۔ وہ شخص جو دہلی میں کشمیری راہنماؤں کی بجائے ہیما مالنی سے ملنے کو ترجیح دیتا رہا آج کشمیر پہ بات کرتا مضحکہ خیز ہی تو لگے گا صاحب ۔

جس واجپائی صاحب کے دورے کی وہ بات کر رہا ہے اس میں بھی اس نے بھارت کی مدد ہی کی تھی ۔ بھارت نوازی میں پٹھان کوٹ کی گوجرانوالہ میں کاٹی گئی ایف آئی آر آج بھی گوجرانوالہ تھانہ میں اس کے کارناموں میں ایک کارنامہ ہے جو اس نے نظریاتی پیرہن میں انجام دیا ہے ۔ میں اسے فن ظرافت کا بے مثال اداکار اس لئے کہتا ہوں کہ الیکشن میں دھاندلی کا الزام دوسروں پہ لگاتے وہ اس کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنا گیا ہے جو شام آٹھ بجے ہی فون کر کے اپنے لئے مدد مانگتا رہا تھا جن پہ تیر سادھے وہ سیدھے نشانے لگا رہا ہے ۔

ملک میں جب تک یہ سورما رہا تو خلائی مخلوق کہتا رہا اور جب رسائی سے باہر گیا تو نام لے لے کے وہ لطیفے سنا رہا ہے کہ مجھے کہنا پڑ رہا ہے-واہ مصنوعی کھال میں چھپے ببر شیر تو کل بھی فلم تھا اور آج بھی ڈرامہ ہے . تیری کہانی خلائی مخلوق سے باجوہ تک باکس آفس پہ پٹ گئی ہے- جب ضرب عضب یا ملک سے دہشت گردی کی بات ہو تو خود ان کا ہی لیڈر بن جاتا ہے جن پہ وہ ہر قسم کی حکمرانی میں ناکامی کی چارض شیٹ لگا دیتا ہے لیکن میٹھا کھاتے کڑوے کو وہ یوں نکال پھینکتا ہے کہ اس کا والی وارث بھی نہیں بنتا – مجھے تو یہ پتہ ہے جب ضرب عضب چل رہی تھی تو یہ اپنے نواسے نواسیوں کا لندن بھیج آیا تھا کہ یہ دھماکوں کی وہ آواز بھی نہ سنیں جو دل دھلا رہی تھیں- کیا یہ وہی نہیں جو طالبان سے امان چاہتا  اس سب سے لاتعلق ہونا چاہتا تھاکہ جس کے نتیجے میں روز کئی پاکستانی لقمہء اجل بنتے تھے- میں تو اس نظریہ ضرورت کے سیاست دان سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس کے پیرو کاروں پہ پھر سختی آئی اور اس کی پکڑ دھکڑ میں برطانوی حکومت راضی ہو گئے تو وہ جدہ کی طرح امریکہ تو نہیں ملے گا-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :