
نظریہ ضرورت
پیر 19 اکتوبر 2020

ڈاکٹر شاہد صدیق
(جاری ہے)
O , monkey it is not you but the height of the tree, is insulting me .
اپنے بچے نواسے پوتے پوتیاں باہر لئے بیٹھا اس بیٹی کو چھوڑ کے گیا ہے جو خود اپنے لندن جانے اور اگلی دفعہ وزیر اعظم بنائے جانے کی ڈیل کی ناکامی پہ جنرل مشرف پہ برستی یہ بھول گئی ہے کہ مشرف صاحب کو باہر بھجوانے والا اس کا نظریاتی باپ تھا جس کا ہر نظریہ اس کے اپنے مفاد کے گرد گھومتا ہے ۔ وہ نظریاتی ظہیرالاسلام کے دھمکی دینے کی بات تو کرتا ہے لیکن اس ہمت و جراءت کی بات نہیں کرتا جو لندن پہنچتے ہی اس میں عود آئی ہے لیکن پاکستان رہتے ظہیر الاسلام سے بطور وزیر اعظم اس جرم پہ جواب نہ لے سکی تھی ۔ ہر بات پہ اپنی غداری کے مقدمات کا ذکر کرتے وہ نجم سیٹھی ، ملیحہ لودھی صاحبہ ۔ جیو نیوز پہ بندش کی اپنی کالی کرتوتوں کو بھول چکا ہے ۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک کہتے ان پہ راجیو گاندھی کو سکھوں کے ناموں کی دی گئی لسٹوں کے ان الزامات کو بھول گیا ہے جس کا گواہ آج بھی وہ جلسہ اور اس کے سامعین ہیں جن کے خون گرماتا وہ ان کے سامنے اپنی حب الوطنی پہ مہر ثبت چاہتا تھا ۔ وہ شخص جو دہلی میں کشمیری راہنماؤں کی بجائے ہیما مالنی سے ملنے کو ترجیح دیتا رہا آج کشمیر پہ بات کرتا مضحکہ خیز ہی تو لگے گا صاحب ۔ جس واجپائی صاحب کے دورے کی وہ بات کر رہا ہے اس میں بھی اس نے بھارت کی مدد ہی کی تھی ۔ بھارت نوازی میں پٹھان کوٹ کی گوجرانوالہ میں کاٹی گئی ایف آئی آر آج بھی گوجرانوالہ تھانہ میں اس کے کارناموں میں ایک کارنامہ ہے جو اس نے نظریاتی پیرہن میں انجام دیا ہے ۔ میں اسے فن ظرافت کا بے مثال اداکار اس لئے کہتا ہوں کہ الیکشن میں دھاندلی کا الزام دوسروں پہ لگاتے وہ اس کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنا گیا ہے جو شام آٹھ بجے ہی فون کر کے اپنے لئے مدد مانگتا رہا تھا جن پہ تیر سادھے وہ سیدھے نشانے لگا رہا ہے ۔ملک میں جب تک یہ سورما رہا تو خلائی مخلوق کہتا رہا اور جب رسائی سے باہر گیا تو نام لے لے کے وہ لطیفے سنا رہا ہے کہ مجھے کہنا پڑ رہا ہے-واہ مصنوعی کھال میں چھپے ببر شیر تو کل بھی فلم تھا اور آج بھی ڈرامہ ہے . تیری کہانی خلائی مخلوق سے باجوہ تک باکس آفس پہ پٹ گئی ہے- جب ضرب عضب یا ملک سے دہشت گردی کی بات ہو تو خود ان کا ہی لیڈر بن جاتا ہے جن پہ وہ ہر قسم کی حکمرانی میں ناکامی کی چارض شیٹ لگا دیتا ہے لیکن میٹھا کھاتے کڑوے کو وہ یوں نکال پھینکتا ہے کہ اس کا والی وارث بھی نہیں بنتا – مجھے تو یہ پتہ ہے جب ضرب عضب چل رہی تھی تو یہ اپنے نواسے نواسیوں کا لندن بھیج آیا تھا کہ یہ دھماکوں کی وہ آواز بھی نہ سنیں جو دل دھلا رہی تھیں- کیا یہ وہی نہیں جو طالبان سے امان چاہتا اس سب سے لاتعلق ہونا چاہتا تھاکہ جس کے نتیجے میں روز کئی پاکستانی لقمہء اجل بنتے تھے- میں تو اس نظریہ ضرورت کے سیاست دان سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس کے پیرو کاروں پہ پھر سختی آئی اور اس کی پکڑ دھکڑ میں برطانوی حکومت راضی ہو گئے تو وہ جدہ کی طرح امریکہ تو نہیں ملے گا-
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر شاہد صدیق کے کالمز
-
چرخ کا سنگ فساں روتا ہے
پیر 10 جنوری 2022
-
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں
ہفتہ 8 جنوری 2022
-
سوتے،جاگتے ضمیر
جمعرات 18 نومبر 2021
-
آ جا ، تے بہہ جا سائیکل تے
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
بائیڈن کی بھیانک منصوبہ بندی
پیر 23 اگست 2021
-
اخلاقیات کا مدفن
پیر 9 اگست 2021
-
ارتقائے معکوس
بدھ 28 جولائی 2021
-
اونٹ رے اونٹ تیری کون سے کل سیدھی
جمعرات 1 جولائی 2021
ڈاکٹر شاہد صدیق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.