کیا واقعی ہمارا قومی ضمیر مر چکا ہے؟

پیر 16 نومبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

قومی سیاست میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں قومی وقار مجروح ہو رہا ہے اپوز یشن پارلیمانی جمہوریت کا حسن ہے لیکن دورِ حاضر کے اقتدار پرست عوامی نمائندوں نے ذاتی مفادات کے لئے پاکستان کے وقار کو داﺅ پر لگا رکھا ہے، قومی ،سوبائی اسمبلیاں اور سینٹ مچھلی بازار بنا ہے، گالی کی سیاست کا تو سابق دورِ حکمرانی میں آغاز ہو چکا تھا لیکن گلگت بلتستان کے انتخابات سے قبل عوامی جلسوں میں جو زبان استعمال ہوئی اس سے پاکستان اور قومی اداروں کا وقار مجروح ہوا قوم سب کچھ اور سب کو جانتی ہے لیکن قومی سطح پر حقائق کو نظر انداز کیا جارہا ہے اس لئے لگتا ہے کہ مستقبل میں پارلیمانی جمہوریت کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو ذمہ دار آج کی اپوزیشن ہو گی ۔

(جاری ہے)

سابق وزیر، اعظم میاں محمد نواز شریف نے برطانیہ میں بیٹھ کرافواجِ پاکستان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے پاکستان میں اپوزیشن اس کے بیانئے کا ساتھ دے رہی ہے پاکستان دشمن قوتیں میاں محمد نواز شریف کے بیا نیئے کو اچھال رہی ہیں پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے آفیشل اکاونٹ پر مسلم لیگ ن کے اقبال احسن کے اس بیان کو شیئر کیاگیا،
  ٹرمپ کی شکست دنیا بھر کے آمروں کے لئے ایک دھچکا ہے ہمارے پاکستان میں بھی ایک شخص ایسا ہے اسے بھی جلد باہر کا راستہ دکھایا جائے گا ۔


میاں محمد نواز شریف کا ٹارگٹ افواج پاکستان کے چیف ہیں حکومت کا کہنا ہے کی احسن اقبال کا اشارہ وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب ہے لیکن قوم جانتی ہے کہ اشارہ کس کی طرف ہے ،بابائے قوم کے مزار کی بے حرمتی سندھ پولیس کی چشم پوشی قومی ادارے کی جاگتی غیرت اپوزیشن کا احتجاج اور مسلم لیگ ن کی بے شرمی سے پاکستان کا ہر محبِ وطن شہری بخوبی واقف ہے وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ استحکام پاکستان اور استحکام جمہوریت کے خلاف گھناونی سازش ہے آرمی چیف نے استحکامِ پاکستان اور قومی ادارے کی عظمت کے لئے پیپلز پارٹی کی قیادت سے فو ن پر رابطے میں وعدہ کیا کہ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی ہوگی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وعد ہ پورا کیا ۔

بلاول بھٹو نے آرمی چیف کے فیصلے کو سراہا لیکن میاں محمد نواز شریف نے یہ کہتے ہوئے مسترد کرد یا کہ آرمی چیف کی انکوا ئری دراصل حقائق کو چھپانا جونیئر کو قربانی کا بکرا بنانا اور اصل مجرموں کو بچا نے کے مترادف ہے لیکن ان حقائق کہ باوجود پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کو اپنے کندوں پر سوار کیے ہوئے ہے !
 سینٹ کے سابق چئیر مین میاں رضا ربانی کی تجویز قابلِ غور ہے وہ کہتے ہیں کہ قومی اور جمہوری استخام کے لئے تین آئینی اداروں انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے مابین فوری مزاکرات وقت کی ضرورت ہیں اس لئے کہ آئین کی بالا دستی کے سوا کوئی بھی دوسرا راستہ وفاق کو کمزور کر دے گا موجودہ حالات میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین مذاکرات کا معاملہ نہیں !!
قومی ا ستحکام کے لئے قوم اور وطن سے محبت کرنے والوں کی یہ ہی سوچ ہے لیکن اقتدار پرستوں نے ایسی باتوں ایسی تجاویز کو کھبی اہمیت نہیں دی اس لئے کہ ہر برسرِ اقتدار حکومت اور اس کے درباری عدلیہ اور انتظامیہ کو اپنے اشاروں پر رقصاں د یکھنا چاہتے ہیں ۔

ان خود پرستوں کا قوم اور قومیت سے کوئی سرو کار نہیں وہ اپنی نظر میں فرشتہ ہیں اور مدِ مقابل شیطان پرست۔ یہ لوگ ذاتی مفاد میں بولتے وقت بھول جاتے ہیں کہ ان کا آج کل بھی ان کی سوچ کے ساتھ زندہ رہے گا مولانا فضل الرحمان تو خود کو عالم دین کہتے ہوئے بھی بھول گئے ہیں کہ نواز شریف کل ان کی نظر میں کیا تھا اور آج کیا ہے مسلم لیگ ن اپنے دورِ اقتدار میں آئین اور قانون کے گیت گاتے رہے لیکن اپنی ذات کے لئے ان کی نظر میں آئین اور قانوں کی کوئی اہمیت نہیں گذشتہ کل یہ لوگ کیا کہتے رہے ملاحطہ فرمائیں
   اپوزیشن الیون کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ۳۹۹۱ میں قومی اسمبلی کے فلور پر میاں محمد نواز شریف کوچور،ڈاکو،اور لٹیرا کہا ،آج وہ چور ڈاکو اور لٹیرا ان کی نظر میں فرشتہ ہیں ، مولانا فضل الر حمان کے ترجمان حافظ حسین احمد نے اپنے ضمیر کی آواز پر افواجِ پاکستان کے خلاف سخت بیان پر کہا کہ میاں محمد نواز شریفآستین کا سانپ ہیں میں اس ملک کا باشندہ ہوں ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے میاں محمد نواز شریف نے وہ حد پار کر دی حافظ حسین احمد نے حق اور سچ کی آواز بلند کی اس جرم میں انہیں ترجمانی کے منصب سے ہٹا دیا گیا میاں محمد نواز شریف نے دورِ حکمرانی میں کہا تھا پاکستان کی سب سے بڑی بیماری آصف علی زرداری ہیں لیکن آج ا س بیماری کو گلے لگا کر ان کی بیٹی مر یم صفدر کہہ رہی ہیں پاکستان کی سب سے بڑی بیماری عمران خان ہیں ۔


  مسلم لیگ ن اپنے دور ، حکمرانی میں جنرل مشرف کی بیماری اور بیرون پاکستان علاج کے لئے جانے کی درخواست پر کیا کہتی رہی قوم جانتی ہے لیکن جانے مسلم لیگ ن کی قیادت کا ضمیر کیوں سو گیا ہے ! ان کی وڈیو ریکارڈنگ شوشل میڈیا پر آج بھی موجود ہ ہے ۔پرویز رشید نے کہا تھا، پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ قانون کا مجرم علاج کی غرض سے بیرون پاکستان چلا جائے! لیکن میاں محمد نواز شریف کے لئے ان کا قومی قانوں اور ضمیر سو گیا!
  سعد رفیق کہتے رہے ،، اگر پرویز مشرف کی اینجیو گرافی کے لئے بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی بات مان لی جائے تو جیلوں میں ان قیدیوں کا کیا ہوگا جو دل کے مریض ہیں پرویز مشرف انوکھا لاڈلا نہیں ،پرویز مشرف یہ ڈرامے بازی بند کر دیں اور مرد کے بچے بنیں ہمیں عوام نے ووٹ کا مینڈیٹ مجرموں کو پکڑنے کے لئے دیا ہے چھوڑنے کے لئے نہیں! احسن اقبال کہا کرتے تھے پرویز مشرف اور ان کے وکلاءکی ٹیم ملک کے اندر جو بحران پیدا کرنا چاہتے ہیں یہ ایک بدترین سازش ہے پاکستان اس قسم کے ڈرامے بازیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا اگر عدالت کا سامنا کیے بغیر مشرف بیرون پاکستان جاتا ہے تو سیاست سے میری توبہ!
ان بیانات کے باوجود اگرہم پاکستان کے عوام ایسی سوچ کا ساتھ دے رہے ہیں تو ہم اپنے بارے میں یہ ہی سوچیں گے کہ واقعی ہم سیاسی شخصیات سیاسی غلام ہیں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہمارا قومی ضمیر مر چکا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :