بہت ہوگیا…

منگل 8 جنوری 2019

Khalid Imran

خالد عمران

مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں قائم ہوئے پانچ ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے، لیکن ہنوز دعووٴں اور وعدوں کے سوا کچھ ایسا سننے، دیکھنے میں نہیں آرہا جسے پی ٹی آئی کا کریڈٹ قرار دیا جاسکے۔ حد تو یہ ہے کہ جس احتساب کے بلند بانگ دعوے کیے جارہے ہیں، اس کی بنیاد بھی ان مقدمات پر ہے جو 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے چلنا شروع ہوئے تھے۔

حکومتی عمائد کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ سابق حکمرانوں نے ملک کوکنگال کردیا، ملک کا سرمایہ لوٹ کر باہر بھجوادیا وغیرہ وغیرہ۔
لے دے کے ایک ریاست مدینہ کا نعرہ ہے جو کچھ حلقوں کو اس حکومت کی حمایت میں بولنے پر مجبور اور مخالفت سے باز رکھتا ہے، لیکن تابکے … وطن عزیز جن بحرانوں کا شکار ہے، ان سے نکلنا ناممکن نہیں، البتہ مشکل ضرور ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم سمیت حکومت اور حکومتی پارٹی کے بڑے چھوٹے بلند آہنگ میں جس طرح کی لن ترانی کررہے ہیں، اس نے اچھے خاصے سنجیدہ اور فی الحال حکومت کے ہمدرد سمجھے جانے والے حلقوں اور شخصیات کو بھی پریشان کرنا شروع کردیا ہے۔ ”تمام ادارے ایک پیج پر ہیں“ کو تکیہ کلام بنانے والے ارباب حکومت کی کارگزاری سے اس فقرے کی حقیقت بھی جلد کھلنے والی ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ حکومت عدلیہ کو مفلوج کرنا چاہتی ہے، معزز جج حضرات کے محسوسات کو واضح کرتا ہے۔ یہ امر تو واضح ہے کہ اصل مقتدرین عمران حکومت سے تعاون کو سرپرستی کی حد تک لے جاچکے ہیں، لیکن یہ صورت کب تک رہے گی؟ آخر جو کام حکومت کا ہے، وہ اسی کو کرنا ہے۔ دو دن پہلے بھی سپریم کورٹ کے فاضل رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ حکومت آئے چار ماہ ہوگئے لیکن ابھی تک ایک بل منظور نہیں کرسکی۔

وزیراعظم صاحب کا نئے پاکستان کا درددل اپنی جگہ، لیکن اس درد کی کوئی دوا بھی تو ہونی چاہیے۔ کم قسمتی ہے کہ فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔
حکومتی جماعت کی سیاست کاری کا یہ عالم ہے کہ سندھ کے معاملے پر یوں علی الاعلان دعوے کیے گئے جیسے وہاں پیپلزپارٹی کا دھڑن تختہ ہوا ہی چاہتا ہے، لیکن پیر صاحب پگارا جیسے سنجیدہ اور پی پی مخالف اپنے حلیف کو بھی ناراض کرلیا کہ انہوں نے وزیراعظم کے ہرکارے کو ملاقات کا وقت دینے سے ہی انکار کردیا۔

انورچراغ کا کہنا ہے کہ پیر صاحب پگارا نے شاید تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور نامور قانون داں جناب حامدخان ایڈوکیٹ کی اس کتاب کا مطالعہ کرلیا ہوگا جس میں خان صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے اس بھتیجے کا ذکر کیا ہے جوجج صاحب کے لیے پیسے پکڑتا تھا۔
سندھ حکومت کے بدلنے کے خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں، لیکن حضور یہ بھی تو یاد رکھیں کہ مرکز اور پنجاب میں آپ کی حکومت جن بیساکھیوں پر کھڑی کی گئی ہے، وہ بہت زیادہ مضبوط اور قابل اعتماد نہیں۔

اگر تحریک انصاف میں فوادچودھری، فیصل واوڈا قبیل کے سیاست دان ہی ہیں تو چودھری برادران کی ہی سن لیں۔ خبریں آرہی ہیں کہ ملک بھر میں بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے، تربیلا پن بجلی گھر کے ترجمان کے مطابق 15پیداواری یونٹ بند ہوگئے ہیں اور تربیلا ڈیم سے پانی کے اخراج میں مزید کمی کا سامنا ہے اور اب یہاں صرف 2یونٹ بجلی پیدا کررہے ہیں۔

ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال 2800میگاواٹ سے تجاوز کرگیا ہے، شہروں میں 12جبکہ دیہی علاقوں میں 14گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ راولپنڈی، کراچی اور لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں گیس بحران نے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردیے ہیں، سندھ میں 6دن سے سی این جی کی فراہمی معطل ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی نظام بدلنے کے بڑے دعوے کیے گئے تھے، یہ بدلاوٴ تو شاید آپ کے بس میں نہ ہو، لیکن جس انداز سے پنجاب کے بلدیاتی نظام کو معطل رکھا جارہا ہے، سنا ہے اس کا نتیجہ چودھری پرویزالٰہی نے وزیراعظم عمران خان کو بتا دیا ہے۔


معیشت درست کرنے کے جو دعوے گزشتہ پانچ چھ برس میں کیے گئے، ان کا یہ حال ہے کہ وزیرخزانہ رواں ماہ کے وسط میں منی بجٹ لانے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ منی بجٹ کے ذریعے ٹیکسوں میں مزید اضافہ، ڈیوٹیوں میں رعایت ختم اور چھوٹ میں کمی کرکے مہنگائی کا سونامی لانے کی تیاری ہے۔ ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم لانے کے خواہش مند ایک طرف تو آئین سے دانستہ اغماض برت رہے ہیں کہ تعلیم اب وفاق نہیں، صوبوں کے کنٹرول میں ہے اور دوسری طرف اتحاد تنظیمات مدارس کے ساتھ کیے گئے وعدے ایفا نہیں کررہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ مذہبی پہلو سے فی الحال حکومت کو کسی بڑے بحران کا سامنا نہیں، لیکن یہ دن جو دینی مدارس میں پڑھائی کے حوالے سے خاصے اہم ہوتے ہیں، ان دنوں دینی مدارس کی سب سے بڑی تنظیم وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت ”پیغامِ مدارس“ مہم کے سلسلے میں بڑے بھرپور اور منظم اجتماعات ہورہے ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن، اکاوٴنٹس، آڈٹ اور فورتھ شیڈول جیسے مسائل کے حوالے سے اہلِ مدارس کا اضطراب بڑھتا جارہا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی ایسا قدم اٹھانے کا عندیہ سامنے نہیں آرہا جو اہلِ مدارس کی تشویش کم کرسکے۔

شریف اور زرداری خاندان کی کرپشن کے خلاف جو کچھ احتساب عدالتوں میں ہورہا ہے اور اس حوالے سے تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی جو کچھ کررہی ہے، اس سب کو بالآخر ختم ہونا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس کے بعد حکومت کے پاس بیان کو کیا رہ جائے گا؟ اس وقت بھی حالت یہ ہے کہ جو کیس بھی نیب میں کھلتا ہے، پہلے تو حکومتی عمائد اس پر احتساب احتساب کا ڈھول پیٹتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ کیس ہم نے تو نہیں بنایا۔


بھلے لوگو! آپ نے یہ کیس بنائے ہوں یا نہ بنائے ہوں تو بھی ان کو آئین اور قانون کے مطابق چلنے دیں، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آئین اور قانون کے مطابق ان کے نتائج ملک وقوم کے حق میں نہیں نکلنے والے تو پھر ایسی قانون سازی کی طرف توجہ دیں کہ لوٹا ہوا سرمایہ واپس آسکے۔ چوروں کو صرف جیلوں میں ڈالنے سے بھی بھلا کبھی چوری کا مال واپس آتا ہے؟ اور چور بھی وہ جو چمڑی جائے دمڑی نہ جائے پر یقین رکھتے ہوں۔

اگر آپ باہر جانے والے سرمایے کو ہی روک لیں تو بڑی بات ہوگی۔ سپریم کورٹ میں اصغرخان کیس اور زرداری، پرویزمشرف وملک قیوم کے خلاف این آر او کیس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اس کے بعد تو حکومت کو اور بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
کراچی جیسے شہر میں دہشت گردی کی لہر کا سدباب شاید وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی ترجیح میں شامل نہیں، کراچی کے شہری ٹرانسپورٹ کے حوالے سے گرین لائن منصوبے سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے، لیکن یہ منصوبہ مکمل ہونے کی بجائے طویل ہی ہوتا جارہا ہے اور اس کی طوالت سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں، ان سے گورنر عمران اسماعیل اور صدر عارف علوی شاید اس لیے بے خبر ہیں کہ اب وہ پروٹوکول کی چَھتر چھایا میں ہوتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ کراچی کو بڑی مدت بعد یرغمالی کیفیت سے نجات ملی، لیکن روزگار، پانی، سیوریج، صفائی، ٹرانسپورٹ جیسے مسائل کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں میں ”لاوارث“ ہونے کا جو احساس پیدا ہورہا ہے، اس کے خطرناک نتائج خدانخواستہ صرف کراچی کو نہیں بلکہ پورے ملک کو بھگتنا پڑیں گے۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت پوری حکومت بولنے سے زیادہ سوچنے کو ترجیح دے اور پارٹی میں موجود عقابوں کو کنٹرول کرکے اپنے سرپرستوں اور حلیفوں سے مشاورت کا عمل شروع کیاجائے۔

پارلیمانی اور سیاسی ماحول کو ہمہ وقت گرم رکھنا حکومتوں کی نہیں اپوزیشن کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔ اگر حکومت یہ کام خود کرتی رہے تو پھر اپوزیشن کو حکومت کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ شاہ فیصل شہید نے کہا تھا ”جس ماحول میں بے چینی اور افراتفری مچی ہوئی ہو، لوگ عہدوں اور اقتدار کے پیچھے بھاگ رہے ہوں، وہاں نہ کسی قوم کی تعمیر واصلاح ہوسکتی ہے اور نہ ایسا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔“
بہت ہوگیا جناب! اب آپ خود کو حکومت سمجھنا شروع کردیں، یہ نہ ہو کہ آپ اپوزیشن والی عادت ترک نہ کریں اور نتیجتاً ایک بار پھر آپ کو اپوزیشن بننا پڑ جائے، پھر آپ بھی ہر آئے گئے سے پوچھنا شروع کردیں کہ اس ملک میں کوئی وزیراعظم اپنی مدت کیوں پوری نہیں کرتا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :