عظیم جنگ کا میدان بنتا مشرق وسطی اور پاکستان کے مسائل ۔ قسط نمبر1

منگل 1 دسمبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

 ایران کے جوہری پروگرام کے معمار محسن فخری زادہ تہران کے نواحی علاقے میں قتل اس ہفتے کی بڑی خبر تھی لیکن اس خبر سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب اور امریکی وزیر خارجہ کی موجودگی میں سعودی عرب کے مستقبل کے بادشاہ سے ہونے والی ملاقات کی بڑی خبر بھی سامنے آئی جس کے بارے میں فاکس نیوزسے انٹرویو میں مائیک پومپیو نے معنی خیزاندازمیں کہا”شاید ہوئی ہے یا شاید نہیں“ لیکن اس سے قبل اسرائیل کے وزیرتعلیم اس کی تصدیق جبکہ سعودی وزیرخارجہ ایک مختصرسے ٹوئٹ کے ذریعے تردید کرچکے تھے۔

اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت صدارت کا الیکشن ہار چکے ہیں لیکن ان کے وزیر خارجہ نے انتخابی نتائج کے بعد مشرق وسطیٰ کا اہم اور طویل دورہ کیا جبکہ ان کے واپس جاتے ہی امریکا کے قائم مقام وزیردفاع کرسٹوفر ملر”تھینکس گونگ “کا تہوار فوجیوں کے ساتھ منانے کے بہانے خطے میں آن وارد ہوئے اور ابھی تک وہیں موجود ہیں۔

(جاری ہے)

امریکی وزیرخارجہ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران ہی امریکی مرکزی کمان نے اعلان کیا کہ اس کے بی52 طیاروں نے مختصر نوٹس پر طویل فاصلے پر موجود ہدف کو کم سے کم وقت میں نشانہ بنانے کی مشق کی ہے امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے اسٹوری شائع کی کہ صدر ٹرمپ نے ایران کے کسی جوہری پروگرام کے مقام پر حملے کے لیے اپنی قومی سلامتی ٹیم سے مشاورت کی ہے پھر امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب کے فوری بعد رپورٹ شائع کی کہ ایران پر ممکنہ امریکی حملے اور ایران کی جوابی کارروائی کے پیش نظر اسرائیلی قیادت نے فوج کو تیاریوں کی ہدایت کردی ہے۔

یہ تمام خبریں خطے میں ایک نیا اور خطرناک منظرنامہ پیش کر رہی ہیں اور ان سب میں ایک ربط موجود ہے امریکی وزیرخارجہ کے دورہ مشرق وسطیٰ اور اس دوران اسرائیلی وزیراعظم کی نئے بسائے گئے سعودی ساحلی شہر نیوم میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ہونے والی ملاقات کی اگرچہ سعودی وزیرخارجہ اس ملاقات کی تردید کرتے ہیں لیکن اسرائیلی وزیراعظم کا دفتر باضابطہ تصدیق کے بجائے اس خبر کو لیک کرکے تماشائی بنا ہوا ہے۔

امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب کے 3 بڑوں کی ملاقات جو سعودی حکام کے مطابق ہوئی ہی نہیں، اسرائیلی اور امریکی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں گفتگو کا مرکز و محور ایران ہی تھا اگرچہ اس ملاقات میں سعودی اسرائیل تعلقات معمول پر لانے پر بھی بات ہوئی لیکن فوری طور پر معاہدہ طے نہیں پا سکا، مگر اس دورے سے کئی اہم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔

سعودی اور اسرائیلی حکمرانوں کا سب سے اہم مقصد تو یہ تھا کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ایک مضبوط اور موٴثر پیغام دیا جائے کہ وہ اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی دشمنی اور اختلاف بھلا کر ایک صفحے پر آسکتے ہیں اور ایران کے عزائم کے خلاف دونوں اکٹھے ہیں۔نومنتخب صدرجو بائیڈن ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں اور جوہری پروگرام پر ہونے والے بین الاقوامی معاہدے میں واپسی کے ارادے رکھتے ہیں، جو سعودی عرب اور اسرائیل کی شدید مخالفت کے باوجود ڈیموکریٹ انتظامیہ نے کیا تھا سعودی اور اسرائیلی حکمرانوں کو صدر ٹرمپ کی صورت میں وائٹ ہاوٴس میں ایسا اتحادی مل گیا تھا جس نے ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدے سے ناصرف نکلنے کا اعلان کیا تھا بلکہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباوٴ کی پالیسی اپنا کر اسے معاشی طور پر اس قدر مجبور بنا دیا تھا کہ وہ القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کوئی بڑی اور کھلی کارروائی بھی نہیں کرسکا تھا۔

اگرچہ سعودی تیل تنصیبات کو یمنی باغیوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن ایران کا بدلہ شاید پورا نہیں ہو پایا ایران سعودی عرب کے ساتھ خطے میں کئی پراکسی جنگوں میں مصروف ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ اگر اوباما دور کی پالیسی پر واپس آتی ہے تو سعودی عرب کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی بھی ایران دشمن پالیسی کمزور پڑ سکتی ہے مگر اسرائیل اب ”فائنل راؤنڈ“کے لیے تیار ہے اور وہ اس سے پیچھے ہٹنے پر تیار نظر نہیں آتا اسرائیل ایران کے ساتھ خفیہ جنگی کارروائیوں میں مصروف ہے اور شام میں ایرانی مفادات پر فضائی حملے کرتا ر ہاہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ مسلم دنیا کی آپسی دشمنیوں سے فائدہ اٹھاکر وہ انہیں ہرممکن حد تک کمزور کرسکتا ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جس قدر ایران دشمنی میں بھڑکے ہوئے ہیں اسرائیل اس صورتحال کا ہرممکن فائدہ اٹھانا چاہے گا مگر عربوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان انہیں اٹھانا پڑے گا اور وہ پہلے کی طرح محفوظ اور پرامن نہیں رہ سکیں گے ابھی تک ایک کچھ اخلاقی حدیں قائم ہیں جن کی وجہ سے ایران یا کوئی اور ملک عربوں خصوصا سعودیوں کی طرف آنکھ اٹھاکربھی دیکھنے کی جرات نہیں کرپایا لیکن اگر یہ اخلاقی حدیں عربوں کی جانب سے پار کی گئیں تو عرب بھی اپنے ملکوں میں محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

الجزیرہ کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل یمن کے جزیرے ”سوکرترا“میں انٹیلی جنس اڈاہ قائم کررہے ہیں جو بنیادی طور پر پاکستان اورگوادرہ سمیت خطے پر نظر رکھنے کے لیے ہے یواے ای کو اس سلسلہ میں وضاحت جاری کرنے کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو چاہیے کو وہ گوادر یا کراچی میں ایک بڑا انٹرنیشنل ہوائی اڈا قائم کرکے پاکستان کی 60کی دہائی کے اس انٹرنیشنل ہب کو بحال کرئے جوکہ پاکستان نے رضاکارانہ طور پر متحدہ عرب امارات کے حوالے کردیا تھا۔

پاکستان لیبر کے حوالے سے بھی عربوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہے لہذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ نئی مارکیٹ دیکھے اس سلسلہ میں پہلے بھی کئی بار نہ صرف اپنے کالموں کے ذریعے اپنی گزارشات پیش کرچکا ہوں بلکہ حکومت کو لکھے گئے خطوط میں بھی لکھ چکا ہوں کہ افریقہ لیبر کی بڑی مارکیٹ بن رہا ہے لہذا ہمیں ملک بھر میں سرکاری سکولوں میں شام کی شفٹوں میں ٹیوٹا اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے دیگر اداروں کو وزارت محنت افرادی قوت و سمند رپار پاکستانی ‘محکمہ تعلیم اور دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل ایک ون ونڈیو سینٹرقائم کرئے اور دنیا بھر کی مارکیٹ میں طلب کا جائزہ لے کر اس کے مطابق مختلف ہنر اور ان ملکوں کی بنیادی بول چال کے کورس کروائے جائیں دنیا بھر میں میل اور فی میل نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف‘لیب ٹیکنیشنزکی ہمیشہ طلب رہتی ہے لہذا اس شعبہ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے حکومت پاکستان یہ چند اقدامات کرکے نہ صرف ملک کو غربت سے نکال سکتی ہے بلکہ عربوں کی بلیک میلنگ سے بھی نکل سکتی ہے۔

اب واپس آتے ہیں کہ اسرائیل عربوں کے ساتھ مل کر کیا کھیل کھیلنے جارہا ہے سب سے پہلے سعودی عرب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی اہمیت حرمین شریفین کی وجہ سے لہذا سعودی عرب کا ایسا کوئی بھی اقدام اس کا اندرونی معاملہ قرارنہیں دیا جاسکتا کیونکہ حرمین شریفین کے کسٹوڈین ہونے کی حیثیت سے وہ دنیا کے دو ارب کے قریب مسلمانوں کی نمائندگی کررہا ہے اس کی اپنی حیثیت ایک عام ملک سی ہے حرمین شریفین اسے خاص بناتے ہیں لہذا سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسا اقدام انتہائی دور رس نتائج کا حامل ہوگا اور یہی وجہ آج تک سعودی عرب کو ایسے کسی اقدام سے روکے ہوئے ہے کیونکہ سعودی یہ جانتے ہیں کہ ان کے ایسے کسی اقدام سے کئی مسلمان ملک ایران کے دیرینہ موقف کے حامی بن جائیں گے کہ حرمین شریفین کو تمام مسلمان ممالک کی مشترکہ کسٹوڈین شپ میں دیدیا جائے یا انہیں ویٹی کن سٹی کی طرزپر خودمختیار ریاستیں قراردیا جائے جن کا انتظام سارے مسلمان ملک مل کر سنبھالیں ۔

ابھی تک موجودہ سعودی بادشاہ شاہ سلمان 2 ریاستی حل سے پہلے اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے لیکن محمد بن سلمان نے اس خفیہ میٹنگ سے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ انہیں 2 ریاستی حل سے پہلے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر کوئی اعتراض نہیں بظاہر تو شاہ سلمان کی زندگی میں باضابطہ سعودی اسرائیل تعلقات کا امکان نظر نہیں آتا، لیکن محمد بن سلمان نے اس ملاقات کے ذریعے بائیڈن انتظامیہ کی توجہ چند دیگر مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی ہے، جن کے متعلق انہیں خدشہ ہے کہ وہ وائٹ ہاوٴس کے ساتھ ان کی رسم و راہیں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

ان مسائل میں یمن کی جنگ، انسانی حقوق کارکنوں کی گرفتاریاں اور واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خشوگی کے قتل جیسے معاملات شامل ہیں اسرائیلی وزیرِاعظم نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی خبر خود لیک کی اور ملاقات سے پہلے دونوں فریقوں میں طے پایا تھا کہ اس لیک پر اعتراض نہیں کیا جائے گا بلکہ دوسرا فریق صرف تردید پر اکتفا کرے گایہ انکشاف بھی اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آیا ہے اسرائیلی وزیرِاعظم نے اپنے زیرِ استعمال رہنے والے ایگزیکٹو جیٹ کو استعمال کیا، اور تل ابیب سے ریاض کے لیے پرواز فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا سے چھپائی نہیں جاسکتی تھی اس مخصوص جہاز سے اسرائیلی وزیرِاعظم کے ریاض جانے کے اشارے صاف مل رہے تھے اور پھر بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے خود خبر لیک کرنی شروع کی اور اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو کی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیرتعلیم نے اسرائیلی فوجی ریڈیو سے گفتگو میں خود تصدیق کرکے وزیرِاعظم دفتر سے لیک کے تاثر کو مضبوط کیا۔

اسرائیل میں قومی سلامتی امور سے متعلق رپورٹنگ ممنوع ہے اور سینسر فوری حرکت میں آتا ہے لیکن سینسر حکام کا خاموش رہنا بھی سوچی سمجھی لیک کے تاثر کو پختہ کرتا ہے اسرائیلی وزیرِاعظم نے اس لیک سے اندرونی اور بیرونی سیاست میں بیک وقت کئی شکار کیے سب سے پہلے تو ان کے سب سے بڑے حریف لیکن اس وقت مخلوط کابینہ کا حصہ، وزیر دفاع بینی گانتز کو شرمندہ کیا گیا، جو پاور شیئرنگ فارمولا کے تحت ایک سال بعد وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے خواب سجائے بیٹھے ہیں دراصل اس لیک پر بینی گانتز نے بیان دیا کہ خبر لیک کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے نیتن یاہو نے اس سے پہلے عرب امارات کے ساتھ مذاکرات سے بھی بینی گانتز کو لاعلم رکھا تھا، یوں نیتن یاہو نے اسرائیلی ووٹرز کو پیغام دیا کہ خفیہ سفارتکاری میں بینی گانتز کو شریک نہیں کیا جاسکتا۔

نیتن یاہو نے بائیڈن انتظامیہ کو بھی پیغام دیا کہ وہ ایران کے متعلق ٹرمپ کی پالیسی رول بیک کرنے سے باز رہیں ورنہ امریکا کو خطے میں کوئی نہیں پوچھے گا اور ایران کے معاملے پر پورا خطہ یک زبان ہے اسرائیلی وزیراعظم 4 سے 5 گھنٹے سعودی سرزمین پر موجود رہے، اس لیے کھوج لگائی گئی کہ اس قدر طویل ملاقات میں کیا کچھ زیرِ بحث آیا تمام ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ ایران مرکزی موضوع تھا لیکن منصوبے کیا تھے اس پر الگ الگ رپورٹنگ ہوئی ایک بات جس پر تمام میڈیا ہاوٴسز کی رپورٹنگ متفق نظر آئی وہ یہ تھی کہ ایران پر حملہ زیربحث آیا تاکہ بائیڈن کو 2015ء کے جوہری معاہدے پر واپسی سے روکا جاسکے یہی مقصد ٹرمپ انتظامیہ کا بھی ہے بائیڈن انتظامیہ کے لیے پیغام واضح تھا کہ خطے میں امریکا کے 2 بڑے اتحادی ایران کے معاملے پر ان کی پرانی پالیسی کا ساتھ نہیں دیں گے۔

نیتن یاہو وائٹ ہاوٴس کی آشیرباد سے غزہ کے مغربی کنارے کا 30 فیصد حصہ ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھے تھے، لیکن بائیڈن انتظامیہ نے عرب دنیا میں پہلا رابطہ اردن کے شاہ عبداللہ سے کرکے اشارہ دیا کہ وہ 2 ریاستی حل کو ترجیح دیں گے اور اسرائیل کو پہلے جیسی کھلی چھوٹ نہیں ہوگی بائیڈن انتظامیہ سابق صدر اوباما کی پالیسی پر چلے گی جس میں فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی، ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی اور انسانی حقوق پر زور شامل ہے سعودی ولی عہد اور اسرائیلی وزیراعظم نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ بائیڈن انتظامیہ کے آنے سے ان کے مشترکہ مفادات کو زک نہ پہنچے دوسری اہم خبر ایران پر حملے کے لیے وائٹ ہاوٴس میں مشاورتی اجلاس اور امریکی مرکزی کمان کی طرف سے بی52 طیاروں کی مشقوں کی تھی صدر ٹرمپ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کو کسی نہ کسی امتحان میں ڈال کر ہی وائٹ ہاوٴس چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن انتقالِ اقتدار کا عمل شروع ہوچکا ہے اور پینٹاگون سمیت تمام اہم ادارے نو منتخب صدر کو بریفنگ دے رہے ہیں اور نئی انتظامیہ کو اداروں تک رسائی دی جاچکی ہے ان حالات میں امریکا کے براہِ راست حملے کا امکان بہت کم ہے یہ ہوسکتا ہے کہ ان مشاورتی اجلاسوں کی خبریں بھی کسی نہ کسی لیک کا حصہ ہوں لیکن اس کے باوجود حملے کے امکانات یکسر مسترد نہیں کیے جاسکتے اور اس کے لیے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کو گرین سگنل دے سکتی ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :