میرا کشمیر جل رہا ہے، قومی سیاسی قیادت سو رہی ہے

جمعہ 5 فروری 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 آج 31 واں یوم یک جہتی کشمیر ہے، کشمیر کی آذادی کی جنگ نئی نہیں ، یہ قیام پاکستان سے پہلے سے جاری ہے، قیام پاکستان کے بعد تو کشمیری قوم کے ساتھ ایک نیا دھوکہ ہوا، انہیں راجا ہری سنگھ نے بہت سستا بیچ دیا، مگر کشمیری یہ فیصلہ کہاں یہ تسلیم کرنے والے ہیں، کشمیر خود بھی تاریخ ہے اور آزادی کی جنگ بھی ایک تاریخ ہے، یہ جنگ ایک روز ضرور کامیاب ہوگی اور کشمیری یاد رکھیں گے کہ کون اس جنگ میں ان کے ساتھ کھڑا تھا اور کون کنارے پر کھڑا تھا… بہت سادہ الفاظ میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ کشمیر جنت نظیر ہے، یہ کہنا بہت آسان ہے مگر جنت کے لیے جان دینا بہت مشکل ہے، مگر جو اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں جن کی وجہ سے قبرستان آباد ہورہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے قاضی حسین احمد کے دل میں درد تھا، ان کے جگر میں درد تھا، جب بھی پانچ فروری آتا ہے اور آئے گا قاضی حسین احمد کا نام بھی لیا جائے گا یہ اعزاز انہیں اللہ نے ان کے نصیب میں لکھ دیا ہے اور انہیں دے دیا ہے، پاکستان کے بائیس کروڑ عوام، دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری اور کشمیریوں کی جدوجہد کے ہامی مرد مجاہد قاضی حسین احمد کی دی ہوئی اذان پر لبیک کہتے ہیں اور عزم تازہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہیں، ان کا خون ہمارا خون ہے ان کی جانیں ہماری جانیں ہیں، یہ بیگانہ خون نہیں ہے کہ اسے بہنے دیا جائے گا…… جب کشمیری نوجوان نے فیصلہ کیا کہ ہم کشمیر کے لیے جانیں دیں گے اور پاکستان ان کی پشت ہے نوجوانوں نے پاکستان کی جانب دیکھا تو قاضی حسین احمد نے پانچ فروری کو یوم یک جہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا آج یہ دن ایک قومی دن بن چکا ہے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام مجاہد قاضی کی آواز پر آج اٹھیں گے اور عزم کا اظہار کریں گے کہ
 لے کر رہیں گے کشمیر، کشمیر بنے گا پاکستان،
آج دنیا بھر میں، جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری رہتے ہیں، یوم یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے 5فروری کو پوری پاکستان قوم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ دن مناتی ہے 1990ء میں جماعت اسلامی کے سربراہ قاضی حسین احمد مرحوم کی جانب سے دی گئی تھی اس وقت پنجاب میں آئی جے آئی کی حکومت تھی، نواز شریف اس کے سربراہ تھے، اور پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی مرکز میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔

(جاری ہے)

پنجاب اور وفاقی حکومت کو بھی اس دن کو اپنانا پڑا، اور یوں یہ ایک قومی تہوار کے طور پر منایا گیا۔ اس کے بعد سے ہر سال اہل پاکستان اور اہل کشمیر یہ دن مناتے اور ایک دوسرے کے شا نہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ دن سرکاری طور پر منایا جاتا اور کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ 30 برس سے یہ دن منایا جارہا ہے لیکن کشمیریوں کے حالات میں بہتری نہیں آئی، یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس عرصے کے دوران بھارتی مظالم میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

نریندر مودی نے دوسری مرتبہ اقتدار سنبھالنے کے بعد تو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے ہیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو حاصل خود مختاری تک ختم کردی، بھارت کے شہریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کا حق نہیں تھا۔ لیکن اب بھارتی شہری وہاں پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل والا راستہ اپنایا ہے کہ اپنے شہری لاکر کشمیر میں آباد کر دیئے جائیں تاکہ آبادی کا تناسب بدلا جا سکے۔

کئی بین الاقوامی تجزیہ کار یہ دور کی کوڑی بھی لا رہے ہیں کہ بھارت سرکار اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر کشمیر میں رائے شماری پر آمادگی بھی ظاہر کرسکتی ہے کیونکہ پھر کوئی مخالف نتیجہ آنے کی توقع نہ ہوگی لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے، اس کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑیں گے وہ بھارتی قابضین کے بس میں نہیں ہوں گے۔یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیریوں کا حوصلہ ٹوٹنے نہیں پایا۔

ان کا عزم مزید پختہ ہوا ہے۔ ہر قسم کے مظالم ڈھائے گئے، ہزاروں جوان شہید ہوئے عزتیں لوٹ لی گئیں لیکن پھر بھی جذبہ خود ارادی مدہم نہیں پڑسکا۔ بھارت نے کاغذوں میں تو کشمیریوں کے حقوق غصب کرلیے لیکن عملی طور پر کشمیر میں ڈیڑھ سال سے کرفیو نافذ ہے کشمیریوں کا یہی عزم اور یہی جذبہ یوم یکجہتی کشمیر پر تنقید کرنے والوں کا بہترین جواب ہے۔

اہل پاکستان کا اہل کشمیر سے اظہار یکجہتی بھی عزم و ہمت کی منفرد کہانی سناتا ہے۔ یہ کشمیریوں کے لیے پیغام ہے کہ ہم انہیں بھولے ہیں، نہ بھولیں گے، آج بھی ہر پاکستانی کشمیرکا دکھ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے،پاکستان نے ہر فورم پر کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے اور لڑرہا ہے۔ چند روز قبل ہی بھارتی مخالفت کے باوجود اقدام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھارت اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرورز مشن کے لیے فنڈنگ کی منظوری دی۔

بھارت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح اس مشن کا بوریا بستر گول کردیا جائے تاہم اس کی شنوائی نہیں ہوسکی۔ اسی طرح یورپی یونین اور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی مسئلہ کشمیر پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ دنیا پر واضح ہورہا ہے کہ مسئلہ کشمیر تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ دھیرے دھیرے دنیا اس طرف متوجہ ہورہی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک کیا جارہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن حل دنیا کے امن کے لیے ناگزیر ہے۔

وزیراعظم عمران خان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ ملاقات میں بھی اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن یہ تمام تفصیل اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ سری نگر اسلام آباد کی طرف دیکھتا ہے اور دونوں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔

ہمیں سفارتی محاذ پر اس جنگ کو بھرپور انداز میں لڑنا ہے۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم اب ہر دیکھنے والی آنکھ پر عیاں ہیں۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائی کو اہل کشمیر کے جذبہ آزادی کو اجاگر کرنے کے لیے صرف کرنا ہوگا۔ عالمِ اسلام میں بھی، اور عالمِ اسلام کے باہر بھی۔ 5 فروری کا پیغام یہی ہے کہ عزم پختہ ہے۔ کشمیر کو آزاد کرائے بغیر، پاکستان کا حصہ بنائے بغیر ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا، جب کشمیر بنے گا پاکستان۔
آج پانچ فروری ہے اب ہمں نعروں سے باہر نکلنا ہوگا، عملی شاہراہ پر آنا ہوگا، جس پر چل کر ہمیں خون دینا ہوگا، شہادتوں کو سینے پر سجانا ہوگا، آج کے روز دنیا بھر میں کشمیری عوام یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں آج صرف پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ ہی یہ دن نہیں منا رہے بلکہ یہ دن اب آزادی کی تحریک کے حوالے سے عالمی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے چنانچہ اس روز دنیا بھر میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس روز انسانی حقوق کے ہر عالمی اور علاقائی فورم پر اور پوری اقوام عالم میں مظلوم کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے اور انسانیت کے خلاف جرائم پر بھارت کی مذمت کی جاتی ہے۔

بھارت کی بی جے پی حکومت نے اس وقت مقبوضہ وادی میں عملاً کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے جس کے خلاف آج یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اقوام عالم کو بھرپور انداز میں آگاہ کرنے کا یہی موقع ہے چنانچہ آج ملک کے تمام دارالحکومتوں اور دوسرے شہروں میں ریلیوں، مظاہروں اور کانفرنسوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھائی جائے گی تاکہ عالمی برادری بھی کشمیریوں کی بے پایاں جدوجہد اور ان پر توڑے جانے والے بھارتی مظالم سے مکمل آگاہ کیا جائے گا پوری دنیا جانتی ہے اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کر رکھا ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان اور کشمیر کے عوام مقبوضہ وادی کے عوام کے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھاتے اور رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔

بھارت کی بی جے پی سرکار نے-5 اگست 2019 کو کشمیریوں کا حق خودارادیت غصب کرنے کے لئے مقبوضہ وادی میں اضافی فوج داخل کی اور ان کا عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کیا اور پوری مقبوضہ وادی کو کرفیو کے حوالے کردی گئی ہے، بدترین لاک ڈاؤن ہے، اب آبادی کا تناسب تبدیل کیا جارہا ہے، وادی سے باہر کے ہندوؤں کو یہاں بسایا جارہا ہے، انہیں ڈومی سائل دیے جارہے ہیں،کشمیریوں کو عملاً ان کے گھروں میں محصور کر دیا گیا جس کے خلاف کشمیری سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آنے لگے تو بھارتی فوج بے دریغ فائرنگ کر کے ان کا قتل عام کرتی ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس بند ہے جس سے باہر کی دنیا تک ان کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے، اس کے باوجود خواتین اور بچوں سمیت کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اور کشمیری خواتین اس جدوجہد میں بھارتی فوجیوں کی جنسی زیادتی بھی برداشت کر رہی ہیں۔

یہ کشمیری عوام کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج امریکی کانگرس، یورپی پارلیمنٹ اور برطانوی پارلیمنٹ میں بھی بھارتی مظالم کے خلاف اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لئے آوازاٹھائی جا رہی ہے۔ آج مقبوضہ وادی میں لاک ڈاؤن کے ڈیڑھ سال گزر گیا ہے جس کے دوران کشمیریوں کو ان کی منشاء کے بغیر اور غیر قانونی طور پر گھروں میں محصور کیا گیا ہے، جس کے خلاف چین، ترکی، ملائیشیا اور ایران کی جانب سے بھی بھرپور آواز اٹھائی گئی ہے جبکہ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے ایک مضبوط اعلامیہ جاری کیا ہے جب کہ ہمیں عالم اسلام کی ایک مضبوط حمائت چاہیے، انصاف پسند دنیا کی حمائت چاہیے، مگر کہا جارہا ہے کہ ہمیں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے کچھ نہیں ملے گا…… یہ سب امریکہ کے ساتھ ہیں اور امریکہ بھارت کے ساتھ ہے…… وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے سفیر بنیں گے مگر کب؟ انہیں تو ٹیپو سلطان بھی بننا تھا، جس نے کہا تھا گیڈر کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک سال کی زندگی بہتر ہے، اب تو دنیا کا ہر گیڈر بھی کہہ رہا ہے کہ کیوں مذاق کرتے ہو، سلامتی کونسل بھی عالمی ادارہ ہے، جس نے مقبوضہ وادی میں جاری بھارتی مظالم اور اس کے -5 اگست 2019ء کے اقدام کے خلاف یکے بعد دیگرے اپنے دو ہنگامی اجلاس بلائے ہیں اس کے علاوہ جرمنی، سویڈن اور فن لینڈ نے بھی مقبوضہ وادی کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے مگر یہ سب کچھ بھی کافی نہیں ہے دنیا آگے بڑھے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ رائے شماری کے لیے تیار ہوجائے، وہاں آبادی کا تناسب تبدیل نہ کیا جائے دنیا کی طاقتور اقوام کو کشمیر پر خاموش رہنا چاہئے نہ مصلحتوں کے لبادے اوڑھے رکھنے چاہئیں اور کشمیریوں کو ان کا استصواب کا مسلمہ حق دلوانے کے لئے ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے……
بھارت کی مودی سرکار درحقیقت ہندوتوا کے فاشسٹ نظریہ کے تابع عالمی اور علاقائی امن و سلامتی غارت کرنے پر تلی بیٹھی ہے جس کے لئے وہ آزاد کشمیر اور پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں ہے اس کے دوران بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بعیدازقیاس نہیں چنانچہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی میں پوری انسانیت کی تباہی کی راہ پر گامزن ہے۔

فی الوقت اس کے ہاتھوں کشمیریوں کا قتل عام روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی بھارتی کارروائیاں جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔اس حوالے سے نیم دلی کے ساتھ تیسرے فریق کے ذریعے ثالثی کی بات کی جاتی ہے مگر بھارت اس راہ پر بھی نہیں آتا اور وہ ثالثی کی ہر پیش کش مسترد کر چکا ہے اس صورت حال میں آج اولین ترجیح کشمیریوں کو بھارتی فوجوں کے ہاتھوں قتل عام سے بچانے کی ہونی چاہئے جس کے لئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سلامتی کونسل کے حالیہ اعلامیوں کی روشنی میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے بھارت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اس طرح کشمیر کے لئے امن فارمولا طے کیا جا سکتا ہے جس کے لئے جموں و کشمیر کے نمائندگان کی رائے لی جا سکتی ہے۔

اس حوالے سے پاکستان اور کشمیر کے عوام یہ رائے قائم کر چکے ہیں کہ اگر آج مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم نہ روکے گئے تو پھر اس کے لئے کوئی روائتی سفارتی اور سیاسی دباؤ بھی قابلِ قبول نہیں رہے گا۔ ہمیں بہرصورت بھارت پر عالمی دباؤ ڈلوانے کی حکمتِ عملی اختیار کرنی ہے تاکہ اس کے ہاتھوں مظلوم کشمیریوں کا قتل عام رکوایا جا سکے۔ پاکستان تو بھارت کی کسی بھی فوجی مہم جوئی کا مقابلہ کر نے کے لئے مکمل تیار ہے۔ چنانچہ آج یہ اقوام عالم کا امتحان ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے 1945 ء کے وضع کردہ چارٹر کی بنیاد پر تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے کیا کردار ادا کرتی ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :