آل پارٹی کانفرنس:اپوزیشن کے فیصلے

پیر 21 ستمبر 2020

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ میں سیاستدانوں کی آل پارٹی کانفرنس منعقد ہوئی۔ بلاول زرداری صاحب چیئرمین پیپلز پارٹی نے کمپیئرنگ کے فرائض ادا کیے ۔سب سے پہلے سابق صدر پاکستان اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماآصف علی زرداری صاحب نے آن ایئر صدارتی خطاب کیا۔ اس کے بعد نون لیگ کے سرپرست اور سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے بظاہر سخت بیماری کے باوجود مگر ہشاش بشا ش موڈ میں لندن سے آن ایئر خطاب کیا۔

تیسرے نمبر پر پارلیمنٹ میں لیڈر آف حزب ا ختلاف اور نون لیگ کے صدر شہباز شریف صاحب نے خطاب کیا۔مولانا فضل ا لرحمان صاحب سربراہ جمعیت علمائے اسلام اور دیگرنے خطاب کیا۔ مرحلہ وار ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان ہوا۔ جنوری میں فیصلہ کن لانگ مارچ کریں۔

(جاری ہے)


مولانا فضل ا لرحمان نے اسمبلیوں سے استعفیٰ کا اپناپرانا کمزور مطالبہ آل پارٹی کانفرنس کے سامنے رکھا۔

اس سے پہلے نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ مولانا کی ہر بات کو مانا جائے گا۔ آل پارٹی کانفرنس کے فیصلوں سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ٹی وی ٹاک شوز پر تبصرہ اور تجزیہ کار مولانا کی استعفیٰ والی بات کو مشکل کام کہہ رہے ہیں۔ جب ڈکٹیٹر مشرف کے وقت اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کی بات ہوئی تھی تو مولانا نے خیبر پختون خواہ کی اپنی صوبائی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی بات نہیں مانی تھی۔

اب مرکز اور سندھ حکومت سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس وقت مولاناکی بات نہ ماننے کی وجہ سے تو متحدہ مجلس عمل میں اختلافات ہوئے اورپھر ہر کوئی علیحدہ ہو گیا تھا۔ مولانا ہر دور میں حکومتی پارٹیوں کے ساتھ شامل رہ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اقتدار میں نہیں۔ دوسروں کو بھی اقتدار میں دیکھنے کے بجائے استعفیٰ دینے پر زور دے رہے ہیں۔

سیاست دان اربوں خرچ کر کے قومی ،سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہیں۔ مولانا کی بات کیسے مانیں گے؟۔ مذید یہ ہوا کہ مولانا کی آل پارٹی کانفرنس میں کی گئی تقریر کو بھی آن ایئر نہیں کیا گیا۔ مولانا نے پیپلز پارٹی سے شکایت کی کہ پہلے تو میڈیا میری تقریریں نشر نہیں کرتا، آپ نے بھی آل پارٹی کانفرنس کی میری تقریر آن ایئر نہیں کی۔

پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لیڈر مولانا کو مناتے رہے مگر لگتا ہے کہ وہ راضی نہیں ہوئے۔
ُ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو کابینہ کے لوگوں نے کہا کہ ہمیں پیمرا کو خط لکھنا چاہیے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ کی صرف سے سیاست میں تاحیات نااہل قرار دینے اور نیب کورٹ سے کرپشن میں سزا پانے والے شخص نواز شریف کی تقریر نشر نہ کرنے دے۔

قانون کے مطابق روک دے۔عمران خان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ نواز شریف ساری جھوٹی باتیں کریں گے۔ جسے عوام سن کر خود اس کے خلاف رد عمل دیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ کرپٹ مایا لوٹاہوا مال بچانے کے لیے ایک بار جمع ہوگئے ہیں۔ واقعی ہی یہ عمران خان کا بالغ نظری کا فیصلہ تھا۔ نواز شریف نے پھر عدلیہ اور فوج خلاف پرانا بیانیہ ہی دُورایا۔

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سپریم کورٹ کی طرف سے آئین پاکستان کے شق نمبر ۶۲۔۶۳ پر پورا نہ اُترنے پر تا حیات سیاست سے نا اہل قرار دینے اور نیب عدالت سے کرپشن پر قید کی ساز ملی تھی۔جس میں جے آئی ٹی کی تحقیق نے کلی کھولی تھی۔ اس جے آئی ٹی میں فوج کے نمایندے شامل تھے۔ اسی وجہ سے پاکستان کے شہروں شہر ،اپنی ریلیوں اور جلسوں میں ملک کی معزز عدلیہ اور ملک کی محافظ فوج کے خلاف عوام کو غیر قانونی طور پر اُکساتے رہے۔

نواز شریف کے اس بیانیہ کے بعد اب تک نواز شریف کے ووٹر نادانستہ طور یا جان بوجھ کر سوشل میڈیا میں عدلیہ اور فوج کے خلاف ناجائز طور پر پروپیگنڈا مہم شروع کی ہوئی ہے۔ اس پر پارلیمنٹ نے فوج کے خلاف ناجائز بیان بازی پر جرمانے اور قید کی قانون سازی کی ہے۔ کیا نواز شریف آل پارٹی کانفرنس میں پرانا بیانیہ دھرانے پر فوج اور عدلیہ سے کسی ریلیف کی توقع کر سکتے ہیں؟ بلکہ لگتا ہے کہ اب ملک کی معززعدلیہ کے خلاف ناجائز بیان بازی پر بھی حکومت کو پارلیمنٹ بھی قانون سازی کرنے پڑے گی۔

سوشل میڈیا میں وائرل ویڈیو میں دکھایا گیا کہ عدلیہ کے جج سے ملاقات کر کے اسے رشوت کی پیش کش کر کے اپنے حق میں فیصلہ کرانے میں ملوث رہے؟۔ جب ایک کیس میں عدلیہ نواز شریف کے حق میں فیصلہ کرے تو بلے بلے۔ جب دوسرے کیس میں نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرے تو عدلیہ کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا؟ذرائع تو کہتے ہیں جب ۱۹۸۵ء میں جرنل جیلانی نواز شریف کو سیاست میں انڈکٹ کریں تو فوج اچھی۔

جب نوازشریف ڈکٹیٹر جرنل ضیاء کو اپنا آئیڈیل بنائیں تو واہ واہ۔ اس پر تو پیپلز پارٹی نواز شریف کوایک مدت تک فوج کی باقیات سے تعبیر کرتی رہی ہے۔ جب پاک فوج کے سپہ سالار کاہوائی جہاز فضا میں تھا، نواز شریف اسے بغیر وجہ کے معزول کر دے۔ وہ سپہ سالار کہے کہ کسی چپڑاسی کو بھی نکالا جاتا ہے تو پہلے توٹس دیا جاتا۔ فوج اس کو اپنے سپہ سالار اور فوج کی بے عزتی سمجھتے ہوئے ۔

نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کرے تو فوج بُری ہو گئی۔ کیا پاکستانی فوج کے کسی سپہ سالار سے آپ کی انڈر اسٹیڈنگ رہی؟ آپ فوج کو بھی پنجاب کی گلو بٹ جیسی پولیس بنانا چاہتے تھے۔ فوج تو کبھی بھی ایسی نہیں بنے گی ۔ فوج ایک نظم ادارہ ہے۔ حلف وفاداری کی خلاف کرتے ہوئے سیکورٹی کونسل کے فیصلہ کو لیک کیا۔ گرفت پھر اپنے وزیر کو باہر نکالا۔ ذرائع کہتے ہیں” آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی“۔

ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے مطابق عمران خان کو فوج اقتدار میں لائی ہے۔ اگر فوج نواز شریف کو تین مرتبہ انتخابات میں کامیاب کرائے تو ٹھیک اور اگر ایک دفعہ عمران خان کو جیتوا دے تو برداشت نہ کریں۔ غدار وطن شیخ مجیب کی مثالیں نہ دیں۔ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اگر تلہ سازش کا سرخنہ تھا۔ آپ اپنی کرپشن کا جواب دیں اور فوج کے خلاف پروپیگنڈا کر کے بھارت کے ہاتھ مضبوط کر کے ملک کو نقصان نہ پہنچائیں۔

ویسے بھی بنگلہ دیش کی وفادار فوج نے غدار پاکستان شیخ مجیب کو سبق سکھا دیا تھا۔
 جب عالمی میڈیانے دوسرے افراد کے ساتھ ساتھ آپ کے خاندان کے نام بھی آف شور کمپنیوں میں شامل کیا تو آپ کے ہوش اُڑگئے تھے۔ پہلے دو دفعہ میڈیا میں اپنے خاندان کی صفائی پیش کی۔ پھر پارلیمنٹ میں صفائی پیش کرتے ہو کہا کہ جناب ِاسپیکر یہ ہیں ہمارے آمدنی کے ثبوت ! جب عدالت نے ڈاکومنٹری ثبوت مانگا تو قطری شہزادے کاخط پیش کر دیا۔

پھرخط والا شہزادہ کورٹ میں گواہی دینے سے مکر گیا۔ مریم صفدر اعوان صاحبہ نے کہا میری باہر کیا، پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں؟ میں تو اپنے والد کے گھر رہتی ہوں۔پھر جائیداد کیسے نکل آئی۔ جائیداد کے جعلی کاغدات کی کیا کہانی ہے؟نواز شریف نے کرپشن کو چھپانے کی آڑ میں پاکستان کی فوج اور اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بیان بازی کی۔ کہا مجھے کیوں نکالا۔

ووٹ کو عزت دو۔ بھائی آپ کو آئین پاکستان کی دفعہ ۶۲۔۶۳ پر پورا نہ اُترنے۔ صادق اور امین نہ ہونے اور کرپشن کی وجہ سے نکالا۔ آپ کو چاہیے تھا کہ عدالت میں اپنے بے گناہی ثابت کر کے سرخ رو ہو جاتے۔ مگر الٹا آپ نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور ملک کی محافط فوج پر حملے شروع کر دیے۔کسی نے آپ کو نہیں نکالا صرف اللہ نے آپ کو نکالا۔ نہ پہلے عوام نے نواز شریف کے اس غلظ بیانیہ پر گھاس ڈالی تھی اور نہ اب ڈالے گی؟
 رہی آل پارٹی کانفرنس میں زرداری کی بھڑکیں کہ میں حکومت ہٹاؤ تحریک کاپہلا قیدی ہو نگا۔

زرداری پاکستان اور بیرون ملک میڈیا میں مسٹر ٹین پرسنٹ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ زرداری کا کہنا کہ کرپشن میں مجھے پہلے بھی کوئی نہیں پکڑ سکا اور نہ اب بھی مجھے کوئی نہیں پکڑ سکے گا۔ تو ذرائع اس پر تبصرہ کر رہے ہیں کہ جب آپ کی پیپلز پارٹی سالوں اقتدار میں رہ کر پاکستان کے ہر محکمے میں اپنے بندے بھرتی کرے گی۔ وہ آپ سے وفاداری نبھاتے ہوئے کرپشن کے ریکارڈ کو آگ لگا دیں گے یاریکارڈکو غائب کر دیں گے تو پھر نیب یہ کہتے ہوئے آپ کے میگا کرپشن کیس دفتر داخل کر دے گی کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا؟ آپ کے سوئس بنکوں میں کرپشن کے پیسے واپس پاکستان لانے کے لیے سوئس حکومت ایک خط لکھنے کا کہے اور پاکستان کی سپریم کورٹ آپ کے وزیر اعظم کو سوئس حکومت کو مطلوبہ خط لکھنے کے آڈر پاس کرے۔

آپ کا وفادار وزیر اعظم سپریم کورٹ کے فیصلہ ہر عمل نہ کرے اور گھر جانا قبول کر لے تو جناب زرداری پھر تو آپ صحیح کہتے ہیں۔ مگر پہلے والا زمانہ اور تھا اور اب عمران خان کا زمانہ ہے، جو کرپشن کے خلاف پہاڑ بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔
 شہبا ز شریف صاحب ہمیشہ سے معتدل رویہ والے سیاست دان ہیں۔ وہ فوج اور عدلیہ کے ساتھ ٹکرانے والی سیاست نہیں کرتے۔

جو کچھ انہوں نے آل پارٹی کانفرنس میں فرمایا وہ اپنی پوزیشن کو نواز لیگ میں برقرار رکھنے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔بہت جلد وہ مر یم صفدر اعوان کو سیاست میں بچھاڑ کر نون لیگ پر قبضہ کر لیں گے۔
 اسٹریٹ پاور رکھنے والی جماعت اسلامی کے امیر اورسینیٹر سراج الحق صاحب کا کہنا ہے کہ ہم اصل اپوزیش ہیں۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے فیٹف قانون پر حکومت کا خاموشی سے ساتھ دیا۔

ا س قانون کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کو استعمار کے حوالے کرنے کا سامان مہیا کردیا گیا ہے۔کاش کہ عمران خان ڈالر کی چمک کے سامنے ہتھیا نہ ڈالتے ۔ اس قانون کی آڑ میں استعمار کے کہنے پر ہماری مساجد اور مدارس پر ڈھاکا ڈالا گیا۔ اب اوقاف کی مساجد اور مدارس اپنے اخراجات کے لیے فنڈ اکٹھا نہیں کر سکیں گے۔ مساجد میں کشمیر اور فلسطین پر بات کی گئی تو اسے دہشت گردی تصور کیا جائے گا۔

اب وقف بورڈ کا ڈاریکٹر ،روڈ اور سوریج بنایا کرے گاجسے کسی عدالت میں چلینج نہیں کیاجا سکتا۔ جماعت اسلامی نے اس بل کے خلاف پارلیمنٹ میں آواز اُٹھائی۔ سراج الحق نے صحیح کہا کہ ہم اس لیے آل پارٹی کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے کہ دونوں بڑی پارٹیاں اپنے لیڈروں کی کرپشن بچانے کے لیے مصنوعی اپوزیشن کا کرادار ادا کر رہی ہیں۔ اگر عوام کے ایشوز پر آل پارٹی کانفرنس کی جاتی تو ہم بھی شریک ہوتے۔ نواز شریف ایک طرف کہتے ہیں کہ کسی بھی وزیر اعظم کو پانچ سال پورے نہیں کرنے دیے گئے اور خود عمران خان حکومت کو پانچ سال پورا ہونے سے پہلے ہی گرانے کے لیے نکل پڑے ہیں۔ پہلے بھی کئی آل پارٹی کانفرنسز ہوئیں مگر نتیجہ ہ صفر رہا۔ دیکھیں آگے آگے کیا ہوتا ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :