سال 2019 سیاست کے میدان میں صوبہ سندھ کے عوام کے لیے کوئی خوشی کی خبر دیئے بغیر رخصت ہوگیا۔ عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا کہ ”وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے اور دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے“۔ یہ بات آج بھی درست دکھائی دیتی ہے جبکہ عوام کی حالت کی جو بات انہوں نے کی تھی وہ آج بھی صادق آتی ہے کہ دیس کا ہر بلاول مقروض سے مقروض تر ہوچکا ہے۔ اور بینظیروں کے پاؤں نہ صرف ننگے ہیں بلکہ درندے ا ن کے درپے ہیں۔
دن بدن زبوں حالی کیوں ہے ؟
بلاول بھٹو زرداری نے راولپنڈی لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر جلسہ کیا، جہاں دھمال ڈالی جارہی تھی اور گانے بھی گائے جارہے تھے، نجانے کس خوشی میں، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے، یہ نہیں بتایا کہ غربت کیوں ختم نہیں ہورہی اور غریبوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ کیوں ہورہا ہے۔
(جاری ہے)
میڈیا جب یہ بتاتا ہے کہ صوبہ سندھ میں دو لاکھ افراد کو کتوں نے کاٹا ہے تووزیراطلاعات سعید غنی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کیا دوسرے صوبوں میں کتے نہیں کاٹتے۔
کراچی کے عوام پورا سال ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ بننے کا انتظار کرتے رہے۔ جتی کہ کچرا ٹھکانے لگانے کے مسئلہ پر ہر ایک نے سیاست کی لیکن گندگی کے ڈھیر جوں کے توں ہیں، بلکہ ایک دوسرے پر گندگی ڈالنے سے بھی کم نہ ہوئی۔
پانی کا مسئلہ حل کرنے کا دعوی سب نے کیا، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس ایشو پر باقاعدہ اجلاس بھی بلایا، تحریک انصاف کوشش کے باوجود ناکام رہی، میئر کراچی اپنی مدت کے اختتام پر پہنچ رہے ہیں لیکن وہی بے اختیاری کا رونا جاری ہے۔ دراصل ہر کسی نے دوسروں کے کام میں گھسنے کی کوشش کی اور عوام منہ دیکھتے رہ گئے، مگر سیاستدان پانی پانی نہ ہوئے۔
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل ہونے کی مشروط پیشکش کی ہے کہ وہ وفاق سے علیحدہ ہوجائے، عمران خان اور وفاقی حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے اپوزیشن کا ساتھ دیں۔ بلاول بھٹو کی اس پیشکش پر ایم کیو ایم نے جوابی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی مقامی حکومتوں کو قانونی ترمیم کے ذریعے بااختیار بنادے تو اس کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔
ہم وزارتوں کے بھوکے نہیں، اور کسی کی خواہش پر وفاقی حکومت سے الگ نہیں ہوسکتے۔
ادھر تحریک انصاف کے رہنما فردوش شمیم نقوی نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو کا وفاقی حکومت کو گرانے کا خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوگا ، ان سے سندھ حکومت نہیں سنبھل رہی وہ کچھ نہیں کرسکتے۔ کوئی جھوٹے وصیت نامے سے لیڈر نہیں بن جاتا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے ایم کیو ایم تقریباً 10 سال تک پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں شامل رہی ہے، مگر پانی، بجلی اور صفائی ستھرائی کے مسائل گھمبیر ہوتے گئے، اور عوام کی حالت بد سے بدتر ہوگئی، اور آج شہر قائد کے بیشتر علاقے کھنڈرات کا منظر پیش کررہے ہیں
وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے مختصر ، مختصر دورے کیے ، لیکن وفاق اور سندھ کے درمیان مل کر کام کرنے کا فارمولا نہ بن سکا۔
تھرکول پاور منصوبہ اس لیے کامیابی کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیرونی سرمایہ کاری ہے۔ دوست ملک چین کی وجہ سے یہ امتزاج کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے، گویا اگر بیرونی امداد آجائے تو ہم کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ورنہ اپنے وسائل سے کام کرنے کی سیاسی جرأت ناپید ہے۔
سال کے اختتام پر وفاقی حکومت نے نیب کا ترمیمی آرڈیننس جاری کرکے کاروباری برادری کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہت سے سیاستدان بھی اس سے مستفید ہونگے۔ اگرچہ یہ تحریک انصاف کے بیانیے کی نفی دکھائی دیتا ہے لیکن لگتا ہے کہ کاروباری برادری کے اہم ترین افراد کی آرمی چیف سے ملاقات میں بھی نیب پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے، یہ اسی کی روشنی میں متعارف کروایا گیا ہے۔
تحریک انصاف تقریباً 15ماہ کی حکومت میں کسی بڑے راہنما کو کرپشن کے مقدمات میں سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہوئی، البتہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت کو بیک فٹ پر لانے میں کامیاب ضرور ہوگئی ہے۔
اگرچہ اپوزیشن کی جماعتیں نیب ترمیمی آرڈیننس کو این آر او قرار دے رہی ہیں، ماضی کی طرح اس سے استفادہ سب ہی کریں گے۔
حکومت میں شامل لوگ بھی اس گنگا جل سے مستفید ہونگے اسی لیے یہ دکھائی دیتا ہے کہ تحریک انصاف نے نیب کے اختیارات میں کمی کرکے سیز فائر کردیا ہے۔ اسے توقع ہے کہ 2020ء میں کاروباری سرگرمیاں اسی وقت تیز ہوں گی جب سرمایہ داروں کو احتساب کے چنگل سے نجات دلائی جائے گی۔
سرمایہ دار اس نقطہ پر تو متفق تھے کہ وہ کچھ نہ کچھ ٹیکس دے گا ، لیکن اس کے پاس رقم کہاں سے آتی ہے، اس کا سوال نہ کیا جائے۔ کاروباری حضرات کے مطابق وہ دودھ د ینے والی گائے ہیں ، انہیں ذبح مت کریں اور اسی پر گذارا کریں۔
اسٹاک ایکسچینج میں رواں سال 10-20 فیصد بہتری کے ساتھ 3781 پوائنٹس کا اضافہ ہوا اور یہ سرگرمیاں نئے سال میں مزید تیز ہوسکتی ہیں، لیکن انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں ، رواں سال میں یہ اضافہ 35.87 فیصد تک ہوچکا ہے۔
پاکستان میں گیس کی کمی نے معاشی سرگرمیاں مانند کردی ہیں ، گھریلو صارفین بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں، سیاسی قائدین نے اس پر بھی سیاسی بیان بازی جاری رکھی ہوئی ہے ، حالانکہ ملک میں انرجی کے وسائل کم ہیں، بائیو گیس کے مواقع موجود ہیں، لیکن حکومتیں درآمدی گیس کو ترجیح دیتی رہی ہیں۔
ایران سے سستی گیس بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لیکن آزادانہ فیصلے کرنا ہمارے بس میں دکھائی نہیں دیتا، جس کا مظاہرہ ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس سے باہر ہونا ہے، تمام سیاسی جماعتیں، ایک میثاق پاکستان پر اتفاق کرلیں تو ابھی بھی استحکام اور باعزت بقاء کی نوید مل سکتی ہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے امید افزاء بیان دیا ہے کہ وہ صوبہ سندھ کے مسائل کے حل کیلئے وزیراعظم عمران خان سے بات کریں گے اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے مل کر مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی بات کریں گے، اگر ایسا ہوا تو کراچی کے عوام کو کوئی اچھی خبر مل سکے گی۔
کراچی سرکلر ریلوے، گرین لائن بس منصوبہ، پانی کی کمی دور کرنے کے لیے K-4 اور سیف سٹی منصوبہ ، کراچی کے عوام کا حق ہے، لیکن یہ حق آسانی سے ملتا ہوا نظر نہیں آرہا، یہی وجہ ہے کہ پرائیویٹ شعبہ میں نئے نئے آئیڈیاز سامنے آرہے ہیں۔
کریم ٹیکسی سروس نے کراچی میں بس سروس متعارف کروادی ہے، اس سے پہلے بھی دو بس سروس ایپ کے ذریعے عوام نے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ خود حل کرنا شروع کردیا ہے۔ یہی عمل جاری رہا تو کراچی میں حکومتی عمل دخل ، صرف حکومت میں ہونے تک محدود ہوجائے گا ۔ معاملات براہ راست عوام کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔