افغانستان اور کشمیر میں بھارتی مداخلت اور خطے پر اس کے اثرات

منگل 19 مئی 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

پوری دنیا اس وقت کرو نا جیسی منفرد وبائی مرض سے نمٹ رہی ہے۔دنیا کے تمام ممالک اس بیماری سے یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کی معیشت اور کاروبار زندگی ٹھپ ہو چکا ہے۔ اور اس وقت دنیا کے ہر دارالحکومت میں اسی بات پر غور ہو رہا ہے کہ کرونا سے نپٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں لیکن بدقسمتی سے بھارت دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو اس ہنگامی حالت میں بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے پورے خطے کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔

 خود بھارت کی اپنی حالت یہ ہے کہ مئی کے شروع میں جاری کیے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ مرنے والوں کی تعداد پندرہ سو سے زائد ہے۔ بھارت کی سب سے زیادہ متاثرہ ریاست مہاراشٹر ہے جہاں متاثرہ کیسز کی تعداد پندرہ ہزار ہے دوسرے نمبر پر گجرات کی ریاست ہے جہاں متاثرہ افراد کی تعداد 8 ہزار سے زائد ہے۔

(جاری ہے)

ان دونوں ریاستوں میں مرنے والوں کی تعداد غیر سرکاری ریکارڈ کے مطابق بالترتیب 750 اور 600 سے تجاوز کر چکی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ناگفتہ بہ حالات میں مودی حکومت اپنی شیطانی ارادوں کی تکمیل کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود اور ان کے تحفظ کے لئے کام کرتی اور کرونا کے سد باب کے لئے لیے موثر اقدامات کی طرف توجہ دیتی۔

لیکن مودی حکومت نے اس خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لئے کئی ممالک میں اپنی دراندازی کا سلسلہ جاری رکھا۔اور اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ ملنے والی تمام سرحدوں میں کسی نہ کسی انداز میں صورتحال تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش، پاکستان کے بعد اب اس کا اگلا نشانہ افغانستان ہے جہاں پر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل اس امر کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہاں پر اپنا اثر و نفوذ بڑھایا جائے تاکہ افغانستان میں بیٹھ کر بھی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جائے۔

خطے کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور شخص اس امر سے بے خبر نہیں کہ بھارت کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
افغانستان میں بھارتی کھیل بے نقاب :
افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کا شکار ہے۔ افغانستان میں ہونے والی بدامنی کا براہ راست اثر پاکستان کی سیاست معیشت اور شہری زندگی پر ہوتا ہے۔

افغان طالبان کے امن معاہدے کے دوران جس طرح بھارت کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا اس پر اب تک بھارتی حکومت پیچ و تاب کھا رہی ہے۔قطر میں ہونے والے امن معاہدے کے دوران پاکستان کے موثر کردار نے بھارت کی نیندیں حرام کر دیں۔ذرائع کے مطابق بھارت اس وقت افغانستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔اور اگر افغانستان میں امن کے نتیجے میں طالبان کو افغانستان کے بعض علاقوں پر حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے تو بھارت کی ساری سرمایہ کاری ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

بھارتی سیاست کے دو کردار دار عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی برا ہ راست بھارتی حکومت کے اثر میں ہیں اور گذشتہ دنوں بھارت اور امریکہ کی مشترکہ کاوش کے بعد شراکت اقتدار کے ایک فارمولے پر متفق بھی ہوئے ہیں اور بھارت کی ایماء پر پاکستان مخالف بیانات دینے میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ان کے دور حکومت میں پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ بھارت کے قونصل خانے قائم کیے گئے۔

جہاں بیٹھ کر براہ راست پاکستان کے شہری علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئیں۔
قندھار تو پاکستان مخالف سرگرمیوں کا مرکز رہا۔اسی طرح چمن کے ساتھ ملحقہ علاقوں میں بھی ہونے والی تمام تر دہشت گرد کارروائیاں بھارت کی ایما پر کی گئی۔موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس دراندازی کو روکنے کے لیے اس طویل سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا تب سے دراندازی کے واقعات میں کچھ کمی آئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اشرف غنی کے ذریعے اس امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے آئی کی کوشش کہاں تک کامیاب ہوتی ہے۔
افغان امن معاہدے کے باوجودافغانستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات تمام فریقین کے لیے لمحہ فکریہ بن چکے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک اسپتال میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ہے معصوم بچوں کو جس طرح گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اس کی اس سے قبل مثال نہیں ملتی۔

دہشت گردی کی ان کارروائیوں سے اس نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے کہ کوئی ایسا گروہ سرگرم عمل ہے جو اس معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے اور اس گروہ کے پیچھے بھارتی کوشش نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔لہذا یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان چین اور افغانستان ان تینوں ممالک کی سرحدوں پر بھارت کی طرف سے بدامنی پیدا کرنے کا سلسلہ جاری ہے جو پورے خطے کے لیے لیے انتہائی خطرناک ہے۔

کسی بھی فریق کی طرف سے معمولی بے احتیاطی کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔اقوام متحدہ سمیت تمام بڑی طاقتوں کو بھارت کے رویے کا نوٹس لینا ہوگا اور اس کو لگام ڈالنی ہوگی۔ورنہ پورے برصغیر کے امن کو تہہ و بالا ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک قیامت کا سماں ہے۔انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں مقبوضہ کشمیر میں تشدد کے 139 واقعات پیش آئے ان واقعات میں بھارتی افواج کے سپاہی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے۔

2019 میں 50 سویلین شہری بھی شہید ہوئے۔152 حریت پسند کشمیری جام شہادت نوش کر گئے۔جبکہ بھارتی افواج کے ہلاک شدہ اہلکاروں کی تعداد 80 رہی۔گزشتہ ایک سال کے دوران مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبا نوجوان لڑکوں اور خواتین سمیت 11 ہزار 8 سو دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گرفتار اور شہید ہونے والے تمام مجاہدین مقبوضہ کشمیر کے مقامی تھے ان میں سے ایک بھی باہر سے آنے والا مہمان مجاہد نہیں تھا۔

مقبوضہ کشمیر میں شہید ہونے والے افراد کے اہل خانہ میں سے 11خواتین بیوہ ہوئیں اور اٹھائیس بچے یتیم ہوئے۔ 55 خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات رپورٹ کیے گئے۔
بھارتی افواج نے گزشتہ ایک سال کے دوران 228 رہائشی مکانات کو نقصان پہنچایا۔جبکہ بیلٹ گنز کی فائرنگ سے 790 افراد زخمی ہوئے۔ اگست 2019 میں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بعد تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

ساتھ ساتھ بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول میں دراندازی کا سلسلہ جاری رکھا۔شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ جس دن لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی اطلاعات نہ ملتی ہو۔ہماری بہادر مسلح افواج بھارتی فائرنگ کا دندان شکن جواب دینے میں مصروف ہیں۔لیکن بھارت کے ان توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے پورا خطہ جنگ کی طرف تیزی سے جا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک پورے نظم کے ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔

نوجوان خواتین اور لڑکوں کوچن چن کر قتل کیا جارہا ہے۔ بھارت کے مختلف علاقوں سے پنڈتوں اور انتہا پسند ہندو وہاں لاکر آباد کیے جا رہے ہیں۔تاکہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے انتخابات کے ذریعے من پسند نتائج لانے کی کوشش کی جائے۔
بھارت میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی خطرناک کوشش کی جارہی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اب دنیا بھر کے ممالک بھارت کے اس اقدام پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

امریکا سمیت کئی ممالک کی طرف سے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے۔یہاں تک کہ بھارت کے قریب سمجھنے والے کئی عرب ممالک جن میں متحدہ عرب امارات اور قطر بھی شامل ہیں کی حکومتوں نے باقاعدہ طور پر اس نسل کشی پر بھارتی حکومت سے احتجاج کیا ہے۔دنیا بھر کی انسانی حقوق کی کمیٹیاں اس نسل کشی کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھا رہی ہیں۔ کیوں کہ دنیا اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اس خطے کو بدامنی کا شکار کرنے والا صرف ایک ہی ملک ہے جس کا نام بھارت ہے۔

بھارت کے کسی ایڈونچر کی وجہ سے اگر سرحدوں پر کشیدگی کی صورتحال بڑھتی ہے تو لازمی طور پر اس کا اثر پورے خطے کی صورتحال پر پڑے گا۔افغان طالبان کے ایک گروہ کی جانب سے بھارت میں حملوں کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ان طالبان کے اعلان کا اگرچہ باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے اور ان کے متعلق حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں تاہم اس بات کی طرف اشارہ ضرور ہے کہ اب دنیا بھر میں یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ آگے بڑھ کر بھارت کے ہاتھ روکنا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہاں سے جنگ کی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔

دوسری طرف چین کے ساتھ بھی سرحدی تنازعے کا آغاز کردیا گیا ہے۔لداخ کے ایک طے شدہ معاملے کو ایک متنازع انداز میں اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔چینی حکومت نے بھی اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ بھارت نے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پاکستانی حکومت کی طرف سے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے اعلان پر بھارتی وزارت خارجہ کے غیرضروری ردعمل نے پاکستان اور چین دونوں حکومتوں کو مضطرب کردیا ہے۔

پاکستان اور چین دونوں کی وزارت خارجہ نے بھارتی رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔لیکن بھارتی ردعمل نے ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ آخر کب تک دوسروں کے اندرونی مسائل میں مداخلت کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :