محترمہ بینظیر بھٹو

ہفتہ 20 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 میں پیدا ہوئیں۔اور 2007 کے آخر میں راہی ملک عدم ہو گی۔انہوں نے زندگی کے تمام مراحل جتنی تیزی سے طے کئے یوں لگتا تھا جیسے وہ بہت جلدی میں ہوں۔لیکن ان کی تیز رفتار زندگی میں مصائب و آلام اور مشکلات کے ایسے پہاڑ بھی موجود تھے جن کو عبور کرتے کرتے ان کا بدن اور روح زخمی ہوتے رہے۔پیدا تو وہ سندھ کے ایک جاگیردار اور خاندانی نواب کے گھر ہوئیں تھیں لیکن ان کی زندگی کے ماہ و سال ایسی مشقت میں گزرے کہ ان کے مطالعہ سے ہی ان صعوبتوں کا اندازہ ہو جاتا ہے جن سے نازونعم میں پلی بے نظیر بھٹو کو واسطہ پڑا۔

اقتدار،اختیار اور طاقت کے لیے سبھی قربانیاں دیتے ہیں لیکن جو قربانیاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیں جدید دنیا میں ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔

(جاری ہے)

لوگوں کو اقتدار ملتا ہے تو ساتھ اختیار بھی ملتا ہے لیکن طویل قربانیوں اور جدوجہد کے بعد محترمہ کو جو اقتدار ملا وہ اختیار کے بغیر تھا۔لوگ حکومت میں آتے ہیں تو سکون کے ساتھ اپنی پالیسی بنا کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو ایسی خاتون تھیں جو الزامات کا سامنا کرتی رہیں اور سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کا دور اقتدار گزر گیا۔

ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود مقتدر حلقوں نے ان کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کیا۔وزیراعظم بنیں تو مرضی کا وزیر خارجہ نہ رکھ سکیں اور مرضی کا وزیر خزانہ بھی نہ رکھ سکیں لیکن جب حساب کتاب کے دفتر کھلے تو انہوں نے ان الزامات کی بھی سزا بھگتی جو انہوں نے کیے ہی نہیں تھے۔اپنی عمر عزیز کا کم و بیش نصف صدی پر مشتمل حصہ انہوں نے مصائب و آلام،تکالیف اور حادثات کا سامنا کرتے گزارا۔

لیکن ان تمام تلخیوں کے باوجود انہوں نے کڑواہٹ کو اپنی شخصیت کا حصہ نہ بننے دیا۔اور عملی سیاست میں بدترین مخالفین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ قائم کر کے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ واقعی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ذوالفقارعلی بھٹو کی تمام اولاد میں سے وہ اپنے والد کی نگاہ کا مرکز تھی۔ذوالفقارعلی بھٹو کی تمام توجہات اور امیدیں بے نظیر بھٹو پر مرکوز تھی۔

21 جون 1978کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی سے ایک خط محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام تحریر کیا۔یہ ایک طویل خط ہے لیکن میں اس کا وہ حصہ نقل کر رہا ہوں جو صحیح معنوں میں بے نظیر بھٹو کا تعارف ہے۔بھٹو لکھتے ہیں،میری بیٹی،جواہر لال نہرو کی بیٹی کے مقابلے میں جس کو بھارت میں دیوی کہا جاتا ہے، کہیں بہتر ہے۔میں جزباتی یا ذاتی قسم کا اندازہ نہیں لگا رہا بلکہ یہ میری دیانت دارانہ رائے ہے۔

لیکن تم میں اور اندرا گاندھی میں ایک قدر مشترک ہے کہ تم دونوں یکساں طور پر بہادر ہو تم دونوں فولاد کی بنی ہوئی ہو، تم دونوں کی قوت ارادی فولادی نوعیت کی ہے، لیکن تمہاری صلاحیت تمہیں کہاں لے جائے گی؟یہ کہنا قبل از وقت ہے۔جس طرح کہ ابتدا میں عرض کیا محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی زندگی کے مراحل بہت تیزی سے طے کیے۔پندرہ برس کی عمر میں او لیول کے لیے کراچی گرامر سکول میں داخل ہوئیں۔

1969 سے 1973 تک ریڈ کلف کالج اورہارووڈ میں پڑھتی رہی۔1973 سے 1977 تک آکسفورڈ یونیورسٹی کے کالج لیڈی مارگریٹ ہال سے فلسفہ اور معاشیات کی تعلیم حاصل کرتی رہیں۔ مجھے اپنے بھانجے طلحہ جمال کے ہمراہ ان کے کالج اور ان کے ہاسٹل کو دیکھنے کا موقع ملا۔اکسفورڈ یونیورسٹی کی در و دیوار آج بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادوں سے مہک رہی ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی سے کء پاکستانی رہنماؤں نے تعلیم حاصل کی۔

موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہم عصر رہے۔لیکن جو مقام و مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو آج بھی حاصل ہے وہ کسی پاکستانی کے حصے میں نہیں آیا۔دسمبر 1976 میں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی جانشینی کے لیے بیٹوں کے بجائے اپنی صاحبزادی کو منتخب کیا۔اور وقت نے ثابت کیا کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا یہ سیاسی فیصلہ درست تھا۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے سیاسی طرز عمل سے ثابت کیا کہ وہ اپنے والد کا بہترین انتخاب تھیں۔
ایوب خان کی حکومت سے الگ ہونے کے بعد بھٹو نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلانے میں اہم کردار ادا کیا جس پر اس وقت کی حکومت نے ان کو جیل میں بند کر دیا۔28 نومبر 1968 کو ساہیوال جیل سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا،مجھے حقیقتاً اپنی بیٹی پر فخر ہے،جو اس قدر ذہین ہے کہ مجھ سے بھی تین سال کم یعنی پندرہ برس کی عمر میں او لیول کر رہی ہے اگر یہی رفتار رہی تو ایک دن تم صدر بن جاؤں گی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی اس لیے حوصلہ افزائی کے باعث محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوصلہ بھی بلند ہوتے رہے۔ اور وہ اپنی تعلیمی منازل طے کرتی رہیں۔تعلیم کے دوران بھی زوالفقارعلی بھٹو کئی اہم مواقع پر محترمہ بے نظیر کو اپنے ساتھ رکھتے۔ اہم غیر ملکی دوروں پر ان کو اپنے ہمراہ لے جاتے۔غیر ملکی شخصیات کی آمد پر استقبالیہ تقریبات میں وہ اپنے والد کے ساتھ ہوتیں۔

1963 میں جب بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے تب وہ صدر کینیڈی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے مسلسل ان کو آگاہ کرتے رہے۔بے نظیر بھٹو صاحبہ بہت کم عمر میں ہی بین الاقوامی حالات میں اپنی خصوصی دلچسپی ظاہر کرنے لگیں۔وہ چینی رہنما ماؤ زے تنگ سے بہت متاثر تھی۔چینی رہنما کے متعلق تمام تر معلومات ان کو اپنے والد کی طرف سے ملی تھیں۔

جب ان کے والد نے وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے کر ایوب مخالف تحریک چلائی تب بھی وہ اپنے والد کی تمام تر سرگرمیوں سے بخوبی آگاہ رہیں۔5 جولائی 1977 کے واقعات کے عینی گواہ تھیں۔جب فوج نے بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا تھا اس وقت وہ وزیراعظم ہاؤس میں مقیم تھیں۔5 جولائی کے واقعہ نے ان کی شخصیت پر گہرا اثر مرتب کیا تھا۔وہ ذہنی طور پر بہت حساس ہو گئی تھیں۔

اور یہ حساسیت آخر وقت تک قائم رہی۔عملی زندگی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی طرح متحرک تھیں۔ان کی شخصیت پر اپنے والد کی کرشماتی شخصیت کا واضح اثر موجود تھا۔وہ بہت معاملہ فہم،دوراندیش، اور زیرک خاتون تھیں۔ایک طرف تو وہ روایتی خواتین کی طرح ہر معاملہ کی جزئیات سے مکمل آگاہ رہتیں۔دوسری طرف کوئی بھی معاملہ طے کرنے سے قبل اس کے پس منظر اور پیش منظر کے متعلق ایک واضح فہم ان کے ذہن میں موجود ہوتا تھا۔

ان کا مشاہدہ حیرت انگیز تھا۔ان کو قدرت نے وہ صلاحیت عطا کی تھی کہ وہ ایک ہی نظر میں کسی بھی شخصیت کی اصلیت کو پہچان لیتی۔وہ ایک مضبوط اعصاب کی مالک خاتون تھیں۔انہوں نے بہت کم خوشیاں دیکھی تھی۔دکھوں کا ایک سیلاب ان کی زندگی میں ہر وقت جاری رہا۔لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنی شکستگی ظاہر نہ ہونے دی۔5 جولائی 1977 کے بعد تکالیف اور مصائب کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا جو ان کی وفات تک ان کا پیچھا کرتا رہا۔

ان کے سامنے ان کے والد کو معزول کرکے جیل میں ڈالا گیا،مخالفین نے ان کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی،ان کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا گیا،بدترین نفسیاتی تشدد کیا گیا،لیکن ان تمام تکالیف کے باوجود ان کے اعصاب اپنی جگہ پر قائم رہے۔دختر مشرق کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب وہ اپنے والد سے ملاقات کرنے جاتیں تو خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت کا شکار ہوتیں۔

لیکن ان کی آخری ملاقات کے اثرات سے وہ شاید زندگی بھر نہ نکل سکی۔اگر ان کی زندگی کے واقعات کو ترتیب سے دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے برطانوی تعلیمی اداروں سے گریجویشن کرنے کے بعد پاکستان صرف اس لیے آئیں تھیں کہ وہ اپنے والد کی حکومت کو معزول ہوتا دیکھیں۔ اپنی والدہ اور بھائیوں اور خود پر تشدد دیکھیں اپنے والد کی کی پھانسی کا منظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو وہ جیل سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر سہالہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں نظربند تھین۔بہادری کا یہ عالم تھا کہ اپنے والد کی نعش خود وصول کی اور ان کا سامان بھی۔اعصاب شکن ماحول میں بھی ان کے حواس اس حد تک سلامت تھے کہ سامان کی وصولی کے وقت وہ اپنے والد کی انگوٹھی وصول کرنا نہ بھولیں جو ایک جیلر نے اتار کر اپنی جیب میں ڈالی تھی۔

ان کی سوانح میں لکھا ہے کہ بھٹو نے پھانسی کے وقت جو انگوٹھی پہن رکھی تھی وہی انگوٹھی بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت کے وقت اپنی انگلی میں پہن رکھی تھی۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر ان کے دکھوں کا تذکرہ عجیب لگتا ہے لیکن کیا کریں کہ ان کی زندگی کے ہر صفحے پر دکھوں کی داستان زیادہ ہے اور خوشیوں کے نغمے کم ہیں۔دنیا اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کے لحاظ سے خوش قسمت خاتون تھیں۔

اپنے بڑے ذاتی سانحات دیکھنے کے بعد وہ دوبارہ میدان عمل میں اتریں۔اپنی جماعت کو منظم کیا۔پاکستان واپسی پر ایسا شاندار استقبال ہوا کہ آج تک کوئی بھی سیاسی رہنماؤں ریکارڈ نہیں توڑ سکا۔10 اپریل 1988 کو ہونے والا عظیم الشان جلسہ اس لحاظ سے بھی فقیدالمثال تھا کہ جس میں کرسیوں کے بجائے دریاں بچھا گئی تھیں۔لیکن اس کے باوجود لوگوں کا اژدھام اتنا تھا کہ لاہور کی ہر گلی اور ہر شاہراہ جلسہ گاہ بن گئی۔

سیاسی ریلی کے دوران ان محترمہ بے نظیر بھٹو ٹرک پر سوار تھیں کہ چھت پر ایک کھڑی ایک خاتون نے ان کو آئس کریم پیش کی۔ لاکھوں کے مجمع نے دیکھا کہ چھت پر کھڑی عورت نے اوپر سے آئس کریم محترمہ بینظیر بھٹو پر پھینکی۔اس کا کچھ حصہ انہوں نے کھایا۔اس طرح کے دلیرانہ مناظر اور عوام کی والہانہ محبت کا انداز محترمہ کے علاوہ کسی اور سیاسی لیڈر کے حصے میں نہیں آیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو بھرپور ذہانت، مستقل مزاجی،اور معاملہ فہمی کی بدولت دو دفعہ ملک کی وزیر اعظم بنیں لیکن دونوں دفعہ اپنی مدت پوری نہ کر سکیں۔اس دوران انہوں نے بیشمار الزامات کا سامنا کیا جن کو کہیں بھی ثابت نہ کیا جا سکا۔موجودہ نسل کے سیاستدانوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون سیاستدان تھیں جن کی کردار کشی کی گئی لیکن اس شرمناک مہم کے باوجود وہ میدان عمل میں موجود نہیں بلکہ مستقل طور پر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے سیاسی خطرہ بنی رہی۔


وہ ایک شاندار خطیب تھی۔وہ جانتی تھی کہ برصغیر میں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ لوگ پڑھنے سے زیادہ سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں آکسفورڈ کے تقریر کلب کی متحرک رکن تھی۔اور اپنی تقریروں کی بدولت پوری یونیورسٹی میں ان کی الگ شناخت تھی۔انہوں نے اس معاشرے میں اپنے خطابت کا لوہا منوایا جہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح،جواہر لال نہرو،ذوالفقار علی بھٹو،آغا شورش کاشمیری،اور عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے خطیب موجود تھے۔

ان کو اردو پر اگرچہ مکمل عبور حاصل نہ تھا تاہم انہوں نے اپنی اس کمزوری کو اپنا سٹائل بنایا۔اپنے والد کے انداز میں جب لاکھوں کے مجمع سے خطاب کرتی تو لوگوں کے دلوں کے تاروں کو چھیڑ جاتیں۔اس حقیقت کے باوجود انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ملک سے باہر گزارا تھا۔لیکن وہ یہاں کے رسوم و رواج ثقافت اور لوگوں کے رویوں سے بخوبی آگاہ تھیں۔

وہ ایک کامیاب سیاستدان کی طرح ہر شخص سے ان کی ذہنی استعداد اور اسکی افتاد طبع کے مطابق گفتگو کرتیں۔
90 کی دہائی میں انھوں نے مزاحمتی سیاستدان کا روپ اختیار کیا۔ میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان اقتدار کا کھیل ایک دہائی تک جاری رہا۔یہ دونوں لیڈر مختلف قوتوں کے یرغمال بنتے رہے۔دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی خاتون کو خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔

لیکن بیرون ملک رہ کر بھی وہ اپنے ملک کی سیاست اور پارٹی معاملات سے غافل نہ رہیں۔بین الاقوامی معاملات پر محترمہ بینظیر بھٹو ایک مختلف اور دور رس اپروچ رکھتی تھیں۔دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں ان کی بات غور سے سنی جاتی تھی۔اس وقت کے تمام عالمی رہنما کسی نہ کسی حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے رابطے میں رہتے تھے۔اگر ان کو خارجی محاذ پر آزادی سے کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو پاکستان بین الاقوامی محاذ پر ایک مختلف جگہ پر ہوتا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا بریک تھرو میثاق جمہوریت تھا۔انہوں نے لندن میں میاں نواز شریف کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک تاریخی معاہدہ تھا۔جس کے کچھ مندرجات پر عمل بھی ہوا۔مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین تلخیاں کم ہوئیں۔دوستانہ روابط بحال ہوئے۔یہ جمہوریت کے لیے ایک نیک شگون تھا۔

ان کے انہی اقدامات کی بنا پر ان کو کئی دفعہ جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جا چکی تھی۔لیکن وہ کبھی موت سے خوفزدہ نہ ہوئیں۔
جلاوطنی سے واپسی پر سانحہ کارساز ہوا۔ان کے سامنے ان کے کارکنان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔لیکن وہ خوفزدہ ہونے کے بجائے اپنے کارکنان کے گھروں میں بھی گئیں،ان کو دلاسہ دیا۔سانحہ کارساز میں تو ان کی زندگی محفوظ رہی لیکن 27 دسمبر کو وہ دہشتگردوں کا نشانہ بن گئیں۔

اس دن میں اپنی انتخابی مہم کے سلسلہ میں اپنے حلقہ میں تھا۔انتخابی مہم زوروں پر تھی۔مسلم لیگ کی مرکزی قیادت میرے حلقہ میں موجود تھی۔شام کو جب ان کی شہادت کی اطلاع ملی تو تمام سرگرمیاں معطل ہو گئی۔ان کی شہادت کا دکھ آج بھی کل کی طرح تازہ ہے۔27 دسمبر کی شام پاکستان کی سیاست کا ایک بے نظیر کردار منوں مٹی تلے سو گیا۔جمہوریت کے تحفظ سیاسی اقدار کو فروغ دینے والی عظیم شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔

بلاول بھٹو زرداری نے ان کی وفات کے بعد اپنی صلاحیتوں کا خوب لوہا منوایا۔2018 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ہر موضوع پر ان کی تقریر پارلیمنٹ کی بہترین تقاریر میں شمار کی جاتی ہے۔اپنی والدہ کی طرح انکو بھی اردو پر مکمل عبور حاصل نہیں۔لیکن وہ اپنا مافی الضمیر اتنے احسن انداز میں بیان کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے جہاندیدہ ارکان کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ان کے لہجے میں اپنی والدہ اور نانا کی گھن گرج موجود ہے۔لہجے کی شائستگی انکی سیاسی تربیت کا پتہ دیتی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان سیاستدانوں جن میں بلاول بھٹو کے ساتھ ساتھ محترمہ مریم نواز،چوہدری مونس الٰہی چوہدری سالک حسین ،مولانا اسعد محموداور حمزہ شہباز جیسے باصلاحیت لوگ شامل ہیں ان نوجوانوں کی مناسب سیاسی تربیت اور رہنمائی کی جائے تو یہی نوجوان قیادت آنے والے وقت میں ملک کو تذبذب کے عالم سے نکال کر حقیقی معنوں میں عوام کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :