پاکستان اور سعودی عرب تعلقات اور افواہوں کی حقیقت!!

اتوار 30 اگست 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات اس وقت مخالفانہ ہیں، مخاصمانہ، یا دوستانہ اور  برادرانہ؟ اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان ھمیشہ حالات اچھے، خوشگوار اور برادرانہ رہے ہیں اور اب بھی شاید ایسا ھی ھو تاہم پاکستان کو سعودی عرب سے والہانہ تعلقات نبھانے میں بہت سے معاشی مفادات کا عمل دخل رہا ہے مگر ان معاشی مفادات اور مذھبی مقامات کی خاطر جان قربان کرنے والا پاکستانی معاشرہ مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب سے اکثر نالاں رہا ہے، جبکہ سعودی عرب کی وجہ سے ایران جو پاکستان کا پڑوسی ملک ھے کہ ساتھ کوئی نہ کوئی مخاصمت چلتی رہی ہے، کبھی گوادر پر ، کبھی فرقہ وارانہ اور کبھی افغانستان اور بارڈر پر کشیدگی کی وجہ سے، تاھم ایران اور پاکستان کے درمیان کوئی بڑی خلیج حائل نہیں رہی ماضی میں اور اب بھی سعودی حکومت اور پاکستانی حکمرانوں نے دوستی کا نعرہ لگایا ، سعودی ولی عہد پاکستان آئے تو وزیر اعظم عمران خان سے ذاتی دوستی کا اظہار کیا، سعودی عرب میں او وبھگت بھی ھوئی، خصوصی طیارے، تین سالہ قرض، ادھار تیل، حج، عمرہ کی سہولتیں، پاکستانی قیدیوں کی رہائی اور بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، آئل ریفائنری جیسے معائدے ھوئے، یہ تعلقات ھمیشہ رہے ہیں اور سعودی عرب نے پاکستان کی امداد میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، پاکستان کے لاکھوں افراد سعودی عرب میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں، یہ بھی ایک بڑے تعاون کا حصہ ہے، جواب میں پاکستان نے بھی سعودی عرب کی قدر کی، پاکستانی افواج نے سعودی اہلکاروں کو بڑے پیمانے پر تربیت دی، حرمین شریفین کی حفاظت اور خدمات کو ایمانی جذبے کا حصہ سمجھا، ھر مشکل میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا، سعودی عرب، یمن لڑائی میں ثالثی یا سعودی تنصیبات کی حفاظت ھو سابق وزیراعظم نواز شریف، اور وزیر اعظم عمران خان نے بڑا کردار ادا کیا، ان سب چیزوں کو ایک لمحہ کے لیے ایک طرف رکھ دیں، پھر بھی پاکستانی قوم اور حکومت کا سعودی عرب سے قلبی اور ایمانی لگاؤ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، مکہ اور مدینہ جانے کی خواہش کے علاؤہ جان کی قربانی دینا اعزاز سمجھا جاتا ھے، ان سب باتوں کے باوجود حال ہی میں افواہیں یا کچھ حقیقت سرگرم رہی کہ سعودی عرب نے پاکستان سے قرض واپس مانگ لیا، ادھار تیل کی سہولت واپس لے لی جبکہ وزیرِ خارجہ پاکستان نے بھی کشمیر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ھماری لائف لائن ھے، او آئی سی اور سعودی عرب کو بھارت کے حوالے سے اپنی پالیسی بدلنی ھو گی، اس کے بعد خبریں زبان زدِ عام ھو گئیں،  دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس  کے اعلامیے میں فلسطین اور کشمیر پر کھل کر موقف اختیار کیا  تھا، لیکن آہستہ آہستہ او آئی سی سے کشمیر کے حل کے لیے ورکنگ گروپ، تجاویز اور مطالبات نہ صرف کم ھو گئے بلکہ گزشتہ سال بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا، کرفیو لگایا، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف متنازع شہریت بل لایا، بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا آغاز ہوا، ظلم کی داستانیں رقم کرنے والے مودی یو اے ای، اور سعودی عرب کی آنکھوں کا تارا بنے رہے، سعودی عرب نے بھارت سے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے، نہ صرف یہ بلکہ مودی کو اعزازات سے بھی نوازا، ان سب باتوں کے باوجود پاکستان نے سخت ردعمل نہیں اختیار کیا، ترکی، پاکستان، ایران اور ملائیشیا کے درمیان ھونے والی کانفرنس میں سعودی عرب نے رکاوٹ ڈالی، عمران خان سعودی عرب گئے اور واپسی پر کھل کر سعودی دباؤ کا اظہار کیا، کانفرنس میں شرکت نہیں کی او آئی سی دیکھنے میں تو مسلم ممالک کی تنظیم ھے مگر عملاً سعودی عرب کے زیر اثر ھے، اس لیے کشمیر پر سافٹ بیان بازی کے علاؤہ کچھ نہیں کیا گیا، سعودی عرب کی ترکی سے بھی مخاصمت ھے اور اس کی بنیاد سو سالہ معاہدے کا قرب اختتام ھے، ترکی کی صف بندی اور سیاسی اثر رسوخ اور ایران کی کوشش کو روکنا سعودی عرب کا مشن ہے، اس لئے وہ اکثر پاکستان اور حکومت پاکستان پر دباؤ، دھمکی یا بلا کر کوئی نہ کوئی ایجنڈا دینے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے حالیہ حکومت نے پہلی مرتبہ دباؤ سے نکلنے، اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھایا تو شور برپا ھونا فطری تھا لیکن چند نادان لوگوں نے اس کو زیادہ ھوا دے دی تھی، ایک دوسری وجہ۔

(جاری ہے)

اسرائیل۔ کو تسلیم کرنے کا پاکستان پر شدید دباؤ بھی پیش نظر تھا جسے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، حالانکہ چند ھی روز پہلے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات  کے درمیان تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ ھوا ھے، اگرچیکہ عرب ممالک، ترکی اور پاکستان کے ساتھ اسرائیل تسلیم کرنے کے بیک ڈور  تعلقات دوسرے اور تیسرے درجے کی سفارت کاری ھوتی رہی ہے مگر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سخت موقف اپنائے رکھا، اسے ضمیر کے خلاف سمجھا سفارت کاروں کو مایوسی ہوئی، دیکھنا یہ کہ کیا اب بھی سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل تسلیم کروانے کا پاکستان پر دباؤ تھا؟اگر تھا بھی تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کے دورہ سعودی عرب کے بعد خود سعودی وزیر خارجہ نے اسرائیلی حکومت کے فلسطینی ریاست کے حقوق پامال کرنے اور قبضہ کرنے کو مسترد کرتے ہوئے کسی قسم کے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، اس سے یہ افواہ بھی دم توڑ گئی، گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ھمارا مسقبل چین اور سی پیک سے جڑا ہوا ہے، تو ایک اور بات میری فکر کا باعث بنی کہ کیا امریکہ نے سعودی عرب کے ذریعے پاکستان اور چین کے درمیان موجود منصوبے سی پیک پر کوئی دباؤ تو نہیں ڈالا؟ اس بات کا امکان تو موجود ھے لیکن اب دنیا کو پتہ ہے کہ پاکستانی عوام، حکومت، فوج اور دیگر ادارے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے، البتہ امریکہ کے اتحادی بھارت کی ناکامی اور چین کے خلاف مہم کی پسپائی پر امریکہ پریشان ضرور ہے، ساتھ بنگلہ دیش، ایران اور نیپال کا چین سے مل جانا بھارت اور امریکہ کے لیے شدید پریشان کن ھے، امریکہ افغانستان میں پاکستان کی سہولت کاری اور اندرونی مسائل کی وجہ سے خاموش ہے البتہ یو اے ای نے اسرائیل سے معاہدہ کر کے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات میں جان ڈال دی ہے، کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ اس کا ٹرمپ کو بہت فائدہ ھو گا،ٹرمپ نے یو اے ای اسرائیل معائدے کا زبردست خیر مقدم کیا ہے، اس ساری سیاست میں پاکستان اور سعودی عرب کے کہاں کھڑے ہیں اس کے لیے وزیراعظم پاکستان کا موقف اسرائیل، کے بارے میں بالکل واشگاف ھے، اگرچہ عرب ممالک کا پیچھے ھٹ جانا بہت معنی خیز اور مستقبل  کے لیے بڑا پالیسی شفٹ ھو گا، ایک چیز جو سب کو سامنے رکھنی چاہیے وہ ھے قومی ریاستوں کے اندر رہ کر خود مختار پالیسیاں بنانے کا حق ، جس کو مقدم رکھنے سے ھی مسئلہ حل ہو گا، کشمیر کے مسئلے کو او آئی سی کی سطح پر انفرادیت ملنی چائیے، تاکہ جاندار کردار سامنے آ سکے، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مذھبی رشتہ بہت مضبوط، تعاون کے اعتبار سے دیر پا ھے تاھم سیاسی افق پر کچھ بادل ضرور ھیں جو جلد چھٹ جائیں گے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے دورہ سعودیہ سے کمی آئے گی، دونوں ممالک کو وسیع تر مفاد میں مشرق وسطی کے حالات دیکھ کر اور دوست، دشمن کی پہچان رکھتے ہوئے بات چیت اور تعاون جاری رکھنا چاہیے۔

تاھم وزیر خارجہ نے تازہ حالات کا نقشہ یہ کہہ کر کھینچنے کی کوشش کی کہ سعودی عرب نے نہ تیل عکس اور نہ قرضہ مانگا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورہ سعودی عرب کامیاب رہا، مستقبل کے حالات اور وضاحت کر دیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :