امریکی صدارتی الیکشن مکمل ھوئے، دنیا بھر کی نظریں اس انتخاب پر مرکوز تھیں، موقع پرست ممالک اور سربراہوں کی طوطا چشمی تجزیوں، جائزوں اور مقبولیت کے ساتھ ہی ادھر ادھر ھونا شروع ھو جاتی ہے، ایک سفر نامہ نگار نے لکھا ہے کہ امریکہ کی ہر چیز سپر لیٹو ڈگری میں ہی پکاری جاتی ہے، جیسے سب سے بڑا پل، سب سے بڑا شہر،سب سے بڑی لائیبریری، سب سے بڑی ٹیکنالوجی، اور سب سے بڑے الیکشن، سب سے اھم الیکشن اور اس مرتبہ تو سب سے زیادہ متنازع الیکشن کا بھی ریکارڈ بنا، موجودہ صدر اور ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی دھاندلی، الیکشن چرانے اور مردوں کے ووٹ ڈالنے کا شوشہ چھوڑ دیا تھااور اقتدار نہ چھوڑنے جیسی باتوں سے سیاسی ارتعاش پیدا کر رکھا ہے، کورونا کی وجہ سے ارلی ووٹنگ کی زیادہ تعداد نے ایک نئی بحث چھیڑ دی تھی، تقریباً دس کروڑ افراد نے ارلی ووٹنگ میں حصہ لیا مباحثوں اور تجزیوں میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کا پلڑا بھاری رہا، جس کے بعد کہا جا رہا تھاکہ اس مرتبہ ڈیموکریٹس جیت جائیں گے، 2016ء کے الیکشن میں بھی ھیلری کلنٹن کے بارے میں یہی رائے تھی تاھم الیکٹرول ووٹ میں کمی کی وجہ سے وہ الیکشن نہیں جیت سکی تھیں، اس مرتبہ بھی یہ خدشہ تھا کہ ٹرمپ کے بعض اقدامات امریکی عوام اور افغانستان اور عراق سے فوج واپس بلانے کے اعلانات ہوں یا عرب اسرائیل تعلقات اور معاہدوں کی وجہ سے ٹرمپ کو فایدہ ھوگا، ٹرمپ ایک متلون مزاج اور لاابالی پن کی وجہ سے خاصے بدنام تھے ، مسلمانوں کے لیے ویزہ پالیسیوں میں سختی، نسل پرستی کے نئے رحجانات اور سیاہ فام امریکیوں کے مظاہروں نے ٹرمپ کو دھچکا لگایا ، جس کے نتائج انتخابات میں صاف نظر آئے، اور ٹرمپ محض 214 الیکٹرول ووٹ حاصل کر سکے، جبکہ 538 الیکٹرول ووٹوں میں سے ٹرمپ کے مد مقابل ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈن نے 290 سے زائد ووٹ حاصل کئے جس کے بعد جو بائیڈن کی جیت کا اعلان کر دیا گیا، آخری لمحات میں جو ریاستیں باقی تھیں ان میں جارجیا، پنسلوانیا، نیواڈا اور نارتھ کیرولینا کے نتائج اھم تھے جس میں جو بائیڈن نے برتری حاصل کی اور امریکہ کے سب سے معمر ترین صدر منتخب ھو گئے، اگرچہ کہ ٹرمپ ابھی تک اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور دھاندلی کا شور عام ھے جیسے پاکستان ہو، سپورٹرز میں گرمی، سردی بھی چل رہی ہے تاھم جو بائیڈن کے گرد ملکی سیکورٹی حصار بن چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ معمر ترین صدر اور ملکی اور بیرون ملک موجود چیلنجوں سے کس طرح نبرد آزما ھوتے ھیں، پاکستان میں موجود انٹیلجنشیا ٹرمپ کی حامی تھی سب سے اھم وجہ افغانستان میں قیام امن اور طالبان امریکہ معاہدہ تھا اب جو بائیڈن کے خیالات اور پالیسی میں تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں، وہ افغانستان سے فوج جلد بلانے کے حق میں نہیں ہیں، دوسرا بڑا خطرہ داعش اور القاعدہ کی افغانستان میں نئی صف بندی ھے، حالانکہ طالبان معاہدے میں بھی اور عملاً کہہ چکے ہیں کہ داعش اور القاعدہ کو وہ کبھی طاقت فراہم نہیں کریں گے مگر تازہ جنگی کاروائیوں نے داعش کی موجودگی ثابت کر دی ہے، انداز جنگ اور دھماکوں و حملوں کی حکمت عملی طالبان سے مختلف نظر آرہی ہے، اس وجہ سے امریکہ کی افغان پالیسی میں تبدیلی آ سکتی ہے افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کا ایک دور مکمل کر چکی مگر اب سرعت کے ساتھ پیچھے ھٹ رہی ہے اور اس نے وہ موقع پرستی دکھائی کہ تجزیہ نگار دنگ رہ گئے جو بائیڈن کے جیتنے کے تجزیوں سے ہی اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ اور دیگر رہنماؤں کے رویوں میں تبدیلی آگئی تھی، بھارت کی طرف رخ، پاکستانی بارڈر پر کاروائیاں، طالبان سے دوری کا آغاز نمایاں ہے، پاکستان چونکہ ٹرمپ انتظامیہ کو مذاکرات کے لئے قائل کر چکا تھا لہٰذا پاکستان کے لیے یہ ایک دھچکا ضرور ہے، امریکی نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمیلا ھیرس نے الیکشن مہم کے دوران بھارت کے 5اگست کے اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا جس کی وجہ سے انسانی حقوق کا مسئلہ اھم ھو سکتا ھے۔
(جاری ہے)
جو بائیڈن امریکہ میں موجود مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے اور کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ملازمت شہریت اور دیگر پالیسیوں میں تبدیلی واقع ھو گی، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہا ہے، صدر آئزن ہاور، ریگن، بش سنیئر اور جونئیر کے دور میں پاک امریکہ تعلقات بہتر رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ صدور سارے ریپبلکن تھے جبکہ ڈیموکریٹس کے دور حکومت میں پاکستان کو کوئی خاص حمایت حاصل نہیں رہی، نئے حالات میں پاکستان کو آگے بڑھ کر سفارت کاری میں جارحانہ ،مگر دور رس انداز اپنانا ہوگا امریکہ خود کورونا اور معیشت کے بڑے چیلنجز کا شکار ہے بائیڈن کی سب سے پہلی ترجیح ھو گی کہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کیا جائے، مگر پاکستان کی علاقائی اھمیت کے پیش نظر تعلقات میں بہتری آ سکتی ھے۔ٹرمپ فوج واپس بلانا چاھتے تھے، انہی بنیادوں پر شدید اختلاف پایا جاتا تھا اب اس فیصلے کی ڈور ڈیموکریٹس کے ھاتھ میں ھو گی اور بڑی امید بھی یہی ہے کہ فوج واپس بلائی جائے گی البتہ جلد بازی سے گریز کیا جائے گا۔وقت بہتر فیصلہ کرے گا، امریکن الیکشن میں میڈیا کا کردار بھی ھمارے میڈیا کے لئے ایک سبق ھے، گزشتہ دنوں سی این این، اے بی سی نیوز، اور سی این بی سی چینل نے ٹرمپ کی براہ تقریر نشر کرنے سے انکار کردیا، بلکہ سی این این کے نمائندوں نے یہاں تک کہا کہ ٹرمپ جھوٹ بولتا بلکہ جھوٹ کے بعد جھوٹ کے الفاظ استعمال کیے کہا کہ وہ ریاستی اداروں پر الزام تراشیاں کر کے ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہے، جھوٹ کے بعد پھر جھوٹ بول رہا ہے، ھمارے میڈیا پر ریاست مخالف بیان بھی چلتے ہیں اور جھوٹے بیان بھی چلائے جاتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ امریکہ کی مضبوط جمہوریت، آزاد میڈیا، وطن سے محبت کرنے والے عوام اس طرح کی ڈس انفارمیشن پسند نہیں کرتے، ٹرمپ کسی قدر تفریق پیدا کرنے میں کامیاب رہے دیکھنا یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ اس الیکشن پر کیا جواب دیتا ہے، اور پرامن منتقلی اقتدار انتظامیہ کا رد عمل دکھائی گی۔یہ بات کہنا درست ہوگا کہ امریکی پالیسیوں میں کچھ تبدیلیاں ضرور رونما ھوں گی، جن کا تعلق ایران، پاکستان، افغانستان اور چین کے لئے ھر دو صورتوں میں اہم ھو گا، تاھم سود و زیاں کو مدنظر رکھ کر ہی امریکہ کوئی قدم اٹھائے گا۔البتہ پاکستان کو نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ضرورت اور اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔