اعتماد کا ووٹ۔۔۔تاریخی فیصلہ، تاریخی دن

پیر 8 مارچ 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

سینٹ انتخابات میں صرف ایک وفاقی سیٹ پر حکومتی شکست سے ہر حلقے سے وزیراعظم عمران خان کے لئے آواز بلند ہوئی، میڈیا، تجزیہ نگار اور ہر شخص اعتماد کا ووٹ لینے کے مشورے دے رہا تھا، وزیراعظم عمران خان نے پر اعتماد اور اخلاقی جرات کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی اور اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے سے اپوزیشن کو اتنی خوشی نہیں ہوئی، کیونکہ اخلاقی لحاظ سے شکست کھانے کے بعد قانونی تاویلیں ڈھونڈنا شروع ہو گئے ہیں، کیا یہ درست رویہ ہے، وزیراعظم نے کھل کر جمہوری انداز اپنایا اور کہا کہ جو سمجھتا ہے کہ میں اس قابل نہیں ہوں، وہ کھل کر مخالفت کرے، میں خوش ھوں گا، اگرچہ یہ پریکٹس میاں نواز شریف ایک مرتبہ کر چکے ہیں، اس وقت سب آئینی تھا ، عمران خان  کے وقت اپوزیشن بائیکاٹ  کر کے آئینی جواز تلاش کر رہے ہیں، وہ سولہ ارکان بھی شامل تھے  جنہوں نے کسی بھی وجہ سے یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا ،وہ مقابلہ حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان تھا۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی کی دیرینہ رہنما فوزیہ ارشد تو واضح اکثریت لے کر جیت گئیں، عمران خان میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے خلاف بولنے والوں کو کھل کر بات کرنے کی اجازت دیتے ہیں، لوگوں کو یاد ہوگا جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑی، بہت الزامات لگائے مگر عمران خان نے ایک لفظ بھی جواب میں  نہیں کہا، ریحام خان نے الزامات کی بارش کی، عمران خان نے جواب نہیں دیا، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں اور دیگر لوگوں نے' یہودی ایجنٹ" تک کہا، عمران خان نے جواب نہیں دیا، انہی لوگوں کی سازش سے جمائما خان کو طلاق لینی پڑی عمران خان نے انتقام کی بات نہیں کی، بعض رہنما تو 2013ء کے الیکشن میں ویڈیوز اور کیسٹس لے کر میڈیا کے پاس پہنچے، خود معروف صحافی حامد میر نے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف مسلم لیگ ن کی طرف سے جعلی سمعی و بصری مواد مجھے بھیجا گیا ہے، عمران خان نے کچھ نہیں کہا، عمران خان نے اگر کسی کے خلاف زبان کھولی ھے، تو وہ ایک ہی بات تھی کہ"ملک کا پیسہ واپس کر دو"قومی اثاثے واپس کرو, چوروں کو، بددیانتی کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔

اس کے علاؤہ عمران خان نے کیا گالی دی ہے؟ کارکنوں کی طرف سے آج بھی بدمزگی ہوئی ہے، یہ پاکستانی سیاست کی پرانی روایت ہے، شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم پر اعتماد کی قرارداد پیش کی، پی ڈیم ایم جواب میں توپوں رخ سیدھے کیے  ہوئے ہے، وزیراعظم عمران خان نے 178 ووٹ حاصل کر کے پھر سے جدوجہد کا آغاز کیا ہے، فیصل واوڈا اور اسپیکر قومی اسمبلی نے ووٹ اندراج نہیں کروایا، مئی 1993ء میں وزیراعظم نواز شریف نے شو آف ھینڈ کے ذریعے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا تھا، وہاں صدر نے حکومت کو چلتا کیا تھا اور عدالت نے بحال کیا تھا، یہاں جمہوری چیلنج تھا جو اپوزیشن کی تحریک کا مطالبہ تھا، گویا عوام اور عوام کے نمائندوں نے پھر عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، چیلنج  سخت ہے وزیراعظم کو پارلیمنٹ سے باہر ہونے والے واقعے اور اپنے سولہ ممبران اسمبلی پر بھی موثر کاروائی کرنی چاہیے ، ایک بات واضح ہے کہ الیکشن کمیشن کو معمالات پر ورکنگ کرنی چاہیے تھی، وہ کسی طور پر اپنے آپ کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا، آرٹیکل 218 کے مطابق یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے جو اس نے پوری کرنی ہے، شفاف انتخابات، کیا سینٹ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری نہیں تھی،  سندھ اسمبلی میں ووٹنگ میں کیا ھوا، الیکشن کمیشن کی آنکھیں بند تھیں، وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن سے یہ سوال کیا کہ میں الیکشن کمیشن کی آزادی کے لیے لڑ رہا ہوں، میں کیسے آزادی میں رکاوٹ ڈال سکتا ہوں، ایک بات وزیراعظم نے سب سے اہم کی ہے کہ اس کرپٹ نظام کے خلاف پورے معاشرے کو مل کر لڑنا ہو گا،سیاسی پس منظر دیکھیں چارٹر آف ڈیموکریسی میں وعدے کرنے والے شفاف انتخابات کے لئے اس مرتبہ کہاں تھے؟، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی اسمبلی اجلاس میں یہی سوال اٹھائے، کیا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال جیسے لوگ اسپیکر کا گھیراؤ کرنا، عوام کے لیے کیا پیغام دیا ہے، وزیراعظم عمران خان کو عوام نے منتخب کیا ہے اس کا احترام ضروری ہے،معیشت، لائن آف کنٹرول، کوڈ 19 کے بڑے بڑے چیلنجوں سے عمران خان نکلے، مگر سندھ کی غربت، اور اصلاحات حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہیں  وزیراعظم عمران نے 2018ء میں 176 ووٹ لئے تھے، اب 178 ووٹ لئے ہیں جس سے عمران خان نے اخلاقی اور قانونی برتری حاصل کر لی ہے، نفسیاتی اعتبار سے ابھی تک یوسف رضا گیلانی صاحب کی جیت اور حفیظ شیخ  کی ہار کا شکار رہیں گے۔

اس سے نکلنے کے لیے کارکردگی دیکھانا ہو گی، جس ریاست مدینہ، اللہ اقبال کے خواب اور قائد اعظم کی جدوجہد کی وزیر اعظم نے بات کی ہے اس پر عمل ضروری ہے، "قوم کا مشترکہ نصب العین ہی نظریہ کہلاتا ہے"اس نظریے پر عمران خان نے بہت مرتبہ، بہت کچھ کہا ہے، اب عمل ضروری ہے، معیشت، برآمدات، زراعت اور پیدواری صلاحیت بڑھانے کے لیے جامع لائحہ عمل تیار کرنا ھو گا۔

اقبال نے ہی کہا تھا کہ۔
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصہ محشر میں ھے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے،
عوام کی حالت سب سے اہم لٹمس پیپر ہوتا ہے، آپ کا وثزن ھے کہ "کوئی بھوکا نہ سوئے"، یہاں تو مہنگائی سے وہ لوگ بھی بھوک میں مبتلا ہو گئے ہیں جو پیٹ بھر کر کھاتے تھے، سب سے زیادہ متاثر میڈل کلاس طبقہ ہے، جو مانگ بھی نہیں سکتا، اپر کلاس نے پیسہ، آٹا چینی، روٹی، دال اور روزگار روک لیا ہے، مزدور کو پہلے مزدوری پوری نہیں ملتی تھی، اب آدھی بھی نہیں مل رہی، یہ کون سوچے گا؟ کیا آئی ایم ایف ھمارے مسائل دور کر سکتا ہے؟، 2008ء سے 2018ء تک " معاشی اندھیروں " کے سال تھے،  لیکن اب تو روشنی کی کرن نکلنی چائیے، کیا وزیراعظم کو اصلاحات کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو ایک دعوت نہیں دینی چاہیے تھی، آخر ان میں کچھ تو سوچتے، امید تو کم ہے مگر دعوت دینا آپ کا فرض ہے۔

کیونکہ آپ نے ملک کو آگے لے کر جانا ھے، لوگوں کی آپ سے امیدیں وابستہ ہیں۔وہ آپ کو فاشسٹ کہہ رہے ہیں، آپ نے یہ ثابت کرنا ہے کہ جمہوریت کی اصلیت کیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :