دعوی کے برعکس فیصلے

اتوار 7 جون 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

کابینہ کی اقتصادی کمیٹی نے ایک سمری کی منظوری دی جس کے تحت 2015ء سے بندش کی شکار پاکستان سٹیل ملز کے 9350ملازمین کوایک ماہ کے نوٹس پر واجبات اور ادائیگیوں کے بعد فارغ کر دیا جاِئے گا۔پاکستان سٹیل ملز آج سیاسی،صحافتی حلقوں میں زیر بحث ہے کیونکہ ماضی کی حکومتیں طویل عرصہ سے مشکلات کا شکار اس یونٹ کو چلانے یا اسکی نجکاری کی کوشش کر چکی ہیں مگر ناکام رہیں۔

الیکشن سے قبل جہاں کروڑوں نوکریاں دینے کا وعدہ پی ٹی آئی نے کیا تھا وہاں پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا تھا کہ اگر انکی حکومت آئی تو وہ سٹیل ملز کو دوبارہ چلا کر دکھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا میری ویڈیو ریکارڈ کر لیں تاکہ اگر میں اپنے بیان سے پیچھے ہٹوں تو کل آپ مجھے یہ دکھا کر شرمندہ کر سکیں۔

(جاری ہے)

میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اگر پی ٹی آئی کی حکومت آئی اور سٹیل ملز مزدوروں کے خلاف کوئی فیصلہ آیا تو میں تحریک انصاف کے ساتھ نہیں بلکہ مزدوروں کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔
اب یہی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام آدمی پوسٹ کر رہا ہے۔اسد عمر کو انکے کہنے کے مطابق شرمندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اقتصادی کمیٹی کا یہ فیصلہ وفاقی وزیر کے لیے شرمندگی کا باعث تو کیا بنتا،جبکہ اس سے قبل عمران خان نے بھی آئی ایم ایف جانے سے پہلے خودکشی کرنے کی بات کی تھی۔

برسراقتدار آکر بطور وزیراعظم وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے۔ کروڑوں نوکریاں، ٹیکس وصولی، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی، کوئی ایک دعوی بھی تو ایسا نہیں جو پورا ہوتا نظر آئے۔ یہ سب دعوے تھے۔ثابت ہوا الیکشن کی باتیں اور حکومتی کارکردگی ایک نہیں ہوتے۔
وفاقی وزیر شبلی فراز کا کہنا ہے سٹیل ملز کو موجودہ حالت میں ٹھیک کرنا ممکن نہیں، سٹیل ملز کے متعلق پہلے کسی نے کچھ کہا تو اسے چھوڑیں۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے پاکستان سٹیل ملز پر211ارب روپے کا قرض ہے اور خسارہ 176ارب روپے ہے۔ مل 2008,2009 ء کے درمیان خسارے میں گئی۔ 2015ء سے بند ہے۔ اب قرضہ ری اسڑکچرنگ کے بعد نجکاری کی طرف جائیں گے۔ ماضی میں عمران خان کہتے تھے مینجمنٹ لاکر سٹیل ملز کو بہتر بنائیں گے۔ جبکہ حکومت میں آکر 9350ملازمین کو ہی فارغ کردیا۔ ملازمتوں سے مزدوروں کو فارغ کرنا پی ٹی آئی کا منشور نہیں۔

کورونا وباکے دوران حکومت نے واضح ہدایت دی تھی کہ کوئی پرائیویٹ فیکڑی سے بھی مزدور کو فارغ نہ کیا جائے۔غریب آدمی سے محبت میں وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاون میں نرمی کا فیصلہ کیا مگر یہ معاملہ سٹیل ملز کے مزدوروں کا ہی نہیں بلکہ 9ہزار خاندان کو بے روزگار کرنے کا فیصلہ ہے۔ اس کی تائید ممکن نہیں۔پاکستان میں گولڈن شیک ہینڈ کے بعد آج تک کسی کو پینشن نہیں ملی۔

ایسے میں گولڈن شیک ہینڈ کی بات بھی مناسب نہیں۔نجکاری میں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ادارے کے تمام ملازمین کو فارغ کر دیا جائے۔نجکاری کے معاہدے میں یہ طے پاتا ہے کہ 2یا3سال تک کسی کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے پاس ہر مسئلہ کا حل موجود تھا۔ مگر بر سر اقتدار آتے ہی وقت ثابت کرنا شروع ہوگیا کہ وہ صرف سیاسی جملہ بازی تھی۔


قارئین کرام! یاد رہے پاکستان سٹیل ملز ملک میں سٹیل کی پیداوار کا سب سے بڑا کارخانہ ہے۔1971ئمیں سوویت یونین اور حکومت پاکستان کے درمیان مالی و فنی امداد کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے، جسکے مطابق 30دسمبر 1973ئکو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان سٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا۔سوویت یونین کے ماہرین کی نگرانی میں پاکستان کی تعمیراتی کمپنیوں کے کنسورشیم نے تعمیراتی خدمات انجام دیں۔

اس تجربہ سے مقامی ٹھیکیداروں نے اتنی قابلیت اور فنی مہارت حاصل کرلی
 کہ اسکے بعد مشرق وسطی میں بڑے بڑے منصوبے شروع کیے گئے۔25ارب کی لاگت سے پاکستان سٹیل ملز ''دی مدر آف انڈسڑی'' قائم ہوئی تھی۔سٹیل ملز کا رقبہ 19000ایکڑ ہے، جبکہ کارخانہ 4500ایکڑ پر قائم ہے۔110میگا واٹ کا تھر مل بجلی گھر، فعال حالت میں 3500ٹن روزانہ پیداوار، 14000ہزار کل وقتی یا جزوقتی ملازمین، پورٹ قاسم پر اپنی جیٹی، سٹیل ملز کا اپنا ریلوے کا نظام،110ملین گیلن پانی کا ذخیرہ اور فلڑ پلانٹ، 100بستر کا اپنا ہسپتال، یہ تھا پاکستان سٹیل ملز کا اثاثہ، اسکی اہمیت اور ضرورت اب بھی اسی طرح موجود ہے۔

اب جبکہ سی پیک منصوبوں پر عملدرآمد سست روی کا شکار ہیں مگر اول آخر مکمل ضرور ہونگے۔گوادر بندرگاہ، سپیشل اکنامک زونز، انفرا سٹرکچر کے منصوبہ جات جاری ہیں۔مستقبل کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔حکومت پاکستان 415ارب روپے کا خسارہ بتا کر سٹیل ملز کو چلانے سے انکاری ہے یہ مستقبل کے فیصلوں سے مطا بقت نہیں رکھتا۔سٹیل ملز کے حوالہ سے بلند و بانگ دعوے سب مسترد، پہلے تو حکمران کرپٹ تھے، اب تو ایماندار قیادت ہے پاکستان کو ترقی کرنی ہے سٹیل ملز کو چلنا چاہیے۔

پاکستان سٹیل ملز منافع بخش یونٹ تھا۔1993ء پاکستان سٹیل ملز کا بہترین پیداواری سال تھا۔ملک کا واحد ادارہ ہے جو ٹیکس کی مد میں حکومت کو اب تک 105ارب ادا کرچکا ہے۔ دیکھنا تو یہ تھا کہ یہ ادارہ بھر خسارے میں کیسے چلا گیا۔۔۔؟
پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کی کوشیش بھی ہوئیں۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے نجکاری کے تحت سٹیل ملز کو عالمی نجی ملکیت میں دینے کی متنازعہ کوشش کی۔

اس متنازعہ اور غیر شفاف نجکاری کو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے قانونی تقاضوں کے برعکس قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس نجکاری کو روکنے کے بعد صدر مشرف نے شوکت عزیز کے کہنے پر افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا۔ سٹیل ملز کی نجکاری تو سپریم کورٹ نے روک دی، مگر پھر وکلاء تحریک اور افتخار چوہدری کی معزولی نے حکومت بھی کمزور کردی۔

وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے نیشنل پروگرام کے
 تحت سٹیل ملز کا انتظام واپس لیا۔
 وزیراعظم نوازشریف نے بھی سٹیل ملز کی نجکاری کی کوشش کی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔اب وزیراعظم عمران خان بھی سٹیل ملز پر ماضی کی حکومتوں والی پالیسی اپنانے جارہے ہیں۔ملازمین کی نوکریاں ختم کرکے سٹیل ملز کی فروخت، جبکہ ملز کو اپنے پاوں پر کھڑا کر نے کے چیلنج کو قبول کرتے، روزگار میں اضافہ نہ سہی بے روزگاری کا سبب تو نہ بنیں۔

پاکستان سٹیل ملز ایک ادارہ ہی نہیں ایک شاندار ورثہ ہے، کرپشن بھی اس تاریخ کا حصہ ہے مگرکرپشن کو ختم کرکے مستقبل کو بہتر بنانے کی بجائے اس یونٹ کو تاریخ تک محدود کرنے جارہے ہیں۔ ان وعدوں کا کیا۔۔؟ ان دعووں کا کیا۔۔۔؟ عوام آسانی سے یہ بھول نہیں سکتے۔۔نیا پاکستان ایک امید تھی، بہتر مستقبل کی نوید تھی۔ روزگار اور نوکریاں دینا آپکا وعدہ تھا،پھر سب کچھ الٹ کیوں ہو رہا ہے۔

۔۔؟سٹیل ملز کی موجودہ سی بی اے لیبر یونین جسکا تعلق موجودہ حکومت سے ہے جو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کو انکے وعدے یاد دلوانے کی مہم جاری ہے۔یہاں یہ ثابت ہوا تمام حکمران ایک سے ہوتے ہیں، تبدیلی کا مطلب حکومت ہی کی تبدیلی ہے۔عوامی مسائل کا حل اشرافیہ کی ترجیح ہی نہیں ہوتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :