''پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی''

جمعہ 19 مارچ 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

20ستمبر 2020ء کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں بلاول بھٹو کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں 26نکاتی قرارداد منظور ہوئی۔حزب اختلاف کی 11جماعتوں نے متفقہ طور پر وزیراعظم عمران خان کے فوری استعفی کا مطالبہ کیا۔اس اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی(ولی)، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل)، جمعیت اہلحدیث،جمعیت علمائاسلام (ف)، نیشنل پارٹی (بزنجو)،پختونخواہ ملی عوامی پارٹی،پختون تحفظ موومنٹ، قومی وطن پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کو پی ڈی ایم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔پی ڈی ایم کے زیر اہتمام 16اکتوبر 2020ء کو گوجرانوالا میں مسلم لیگ (ن) کی میزبانی میں پہلا عوامی اجتماع ہوا۔

(جاری ہے)

اسکے بعد کراچی، کوئٹہ، پشاور، ملتان اور لاہور میں جلسے ہوئے۔گوجرانوالا جلسہ میں نواز شریف کے خطاب پر ہی پی ڈی ایم میں اختلاف رائے دیکھنے میں آیا۔نوازشریف نے اداروں پر ہی نہیں شخصیات پر تنقید کی۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے اس طرز تکلم پر اعتراض کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی روز اول سے ہی جمہوری طریقہ سے آگے بڑھنے پر زور دیتی آرہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) نیآر یا پار کا موقف اپنایا۔اسمبلیوں سے استعفے اور لانگ مارچ پر اگرچہ تمام پارٹیاں متفق تھیں مگر پی پی پی کی قیادت استعفے کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں تھی۔

سسٹم کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھنا پی پی پی کا موقف رہا۔ ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں شرکت کے فیصلوں پر پی ڈی ایم کی قیادت کو پی پی پی نے ہی رضا مند کیا۔صمنی انتخابات میں کامیابی اور سینٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کی بطور سینیٹر کامیابی سے حکومت پر پریشر بڑھا۔ اس سیاسی حکمت عملی کے نتیجہ میں وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔


قارئین کرام! سیاست کے طالب علم اور ملکی سیاست میں گہری دلچسپی رکھنے والے احباب کے حافظوں میں محفوظ ہے کہ آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔سیاسی لڑائی سیاسی میدان میں شروع کی۔ پی پی پی کی قیادت محترمہ بینظیر کی شہادت سے اس سیاسی فلسفہ کو لیکر میدان سیاست میں سرگرم ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اس سے بہتر کوئی انتقام نہیں۔

نواز شریف تو 2007ء میں بھی الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن پیپلزپارٹی نے ہمیشہ کی طرح جمہوریت کے لیے جدوجہد کی-
اس حکمت عملی سے پہلی بار حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی۔ نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے۔ آج بھی اب تکPDM کو جتنی بھی کامیابی ملی ضمنی الیکشن یا سینٹ میں وہ سب جمہوری فیصلوں کا نتیجہ ہے۔پیپلزپارٹی کے کارکنان بھی اسمبلیوں سے استعفے دینے کی مخالفت کرتے ہیں۔


16مارچ کو پی ڈی ایم کا اہم اجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ اس پر سیاسی اور صحافتی حلقوں میں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اجلاس کا ایجنڈہ 26مارچ کے لانگ مارچ کے حوالہ سے تھا۔استعفوں پر پی پی پی کے تحفظات تھے۔سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن اجلاس کے بعد لانگ مارچ ملتوی کرکے چلے گئے۔مولانا فضل الرحمن نے پی پی پی کے رویے کو غیر جمہوری قرار دیا۔


آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہا پی پی پی کسی صورت اسمبلوں کو نہیں چھوڑے گی۔اسمبلوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنا ہے۔انہوں نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تشریف لائیں۔پی پی پی جمہوری پارٹی ہے پہاڑوں پر نہیں پارلیمان میں رہ کر لڑتے ہیں۔میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر شاید میرا ڈومیسائل مختلف ہے۔

انہوں نے کہا میاں صاحب آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں اگر جنگ کے لیے تیار ہیں تو پاکستان آئیں۔جب نوازشریف پاکستان آئیں گے تو ہم استعفے جمع کروائیں گے۔ جدوجہد ذاتی عناد کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونی چاہئیے۔
اب پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا۔۔۔؟ آصف علی زرداری نے سب واضح کردیا۔کچھ بھی غیر متوقع نہیں پی پی پی اور مسلم لیگ کی اپنی الگ الگ تاریخ اور شناخت ہے۔

دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ چل نہیں سکتیں۔پی ڈی ایم صرف عمران خان کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ سسٹم کی بہتری اور انقلاب یہ ثانوی باتیں ہیں۔
 ماضی میں زندہ نہیں رہاجاسکتااور ماضی کو نظر انداز کرکے مستقبل کی منصوبہ بندی بھی ممکن نہیں۔موجودہ صورتحال میں پی ڈی ایم کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اختلافات کو کم سے کم کریں۔


پی ڈی ایم کو کمزور کرنے کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈالنے سے فائدہ بر صورت موجودہ حکومت کو ہی ہوگا۔ حکومت کے فوری خاتمہ کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ سیاسی عمل کے ذریعے ہی حکومت کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اپوزیشن متحد رہتی ہے تو حکومت کو چیلنچ درپیش رہے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی قیادت میں 2008ء سے پارلیمان کی سیاست کر رہی ہے۔

اس طرز سیاست سے انہوں نے بہت ساری کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ان کامیابیوں کاتعلق انکی ذات سے نہیں سسٹم سے ہیں۔مشرف کی رخصت، آٹھارویں ترمیم،نواز شریف کے لیے تیسری بار اقتدار کا راستہ کھلنا، حکومتوں کا آئینی مدت پوری کرنا، پی پی پی کبھی بھی سیاست کو انتشار کی طرف نہیں لے کر جائے گی۔ آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد ہی آصف علی زرداری کا انداز سیاست ہے۔سیاست ناممکن کو ممکن بنانے کا نام ہے۔ جوموجودہ سیاست کو سمجھنا جاتے ہیں اس شعر کی گہرائی سمجھیں سب کچھ واضح ہوجائے گا۔بقول شاعر
مَیں پہلی بار کبھی مُنکشف نہیں ہوتا
مثالِ حَرفِ مشّدّد ہوں، پھر پڑھو مُجھ کو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :