18 ترمیم اور ''الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا''

ہفتہ 6 جون 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ٹھیک پونے دو سال ہونے کو آئے ہیں، اور ٹھیک دو سال قبل الیکشن سے قبل عمران خان کے وعدے جو انہوں نے اپنی جماعت کی الیکشن کمپین میں بھرپور طریقے سے حصہ لیتے ہوئے کئے تھے آج بھی پاکستانی عوام کو یاد ہونگے، عمران خان پورے پاکستان میں نیشنل اسمبلی کی 5 نشست پر انتخاب لڑ رہے تھے، اورکامیاب ہوئے تھے۔

اسی الیکشن کمپینگ کے دوران انہوں نے پاکستان کے چھوٹے سے چھوٹے اضلاع میں بھی تحریک انصاف کے بڑے بڑے جلسوں میں اپنی بھرپور تقریروں میں عوام سے بہت سارے وعدے بھی کئے۔ اور انہی نعروں وعدوں اور اپنی پارٹی کی طرف سے بنائے گئے عطااللہ خان نیازی سمیت متعدد گلوکاروں کے گانوں کے شور، مستی، بھنگڑوں اور میوزک کی تھاپ پر ناچتے عوام کو بہت سارے سنہری خوابوں کو تعبیر کا روپ دینے کی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام نے عمران خان کو کامیاب کرایا۔

(جاری ہے)

ان کو اقتدار میں آئے پونے دو سال گزر گئے، پورے ملک کے عوام کی طرح مجھے بھی آج تک یاد ہے کہ عمران خان نے اسی الیکشن کمپین کے دوران ٹی وی پر بہت سارے انٹرویو بھی دیئے اور ان دنوں ٹی وی پر ان کے سب ہی انٹرویوز میں وہ پاکستانی عوام سے مختلف نوعیت کے بے شمار وعدے کرتے نظر آتے۔ مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان سے کسی ٹی وی اینکر نے سوال کیا کہ اگر آپ اس مرتبہ الیکشن جیت جاتے ہیں اور وزیراعظم بن جاتے ہیں تو آپ پہلا حکم کیا دیں گے؟ اس کا جواب عمران خان صاحب نے بڑا شاندار دیا، جس سے میری طرح اور بہت سے لوگ بہت متاثر ہوئے اور یہی امید کی کرن پیدا ہوئی کہ اگر ایسا ہو گیا تو شائد پاکستان کے تمام قرضے ایک ہی جھٹکے میں اتر جائیں، عمران خان نے اس ٹی وی اینکر کو جواب دیا کہ'' میرا پہلا حکم یہ ہو گا کہ لاہور مال روڈ پر واقع صرف ایک شخص کیلئے بنایا گیا '' گورنر ہاؤس'' اور اسی طرح کے پورے ملک میں موجود گورنر ہاؤسز کو سیل آؤٹ کر دیا جائے ،ان سب کو فروخت کرکے جو پیسہ حاصل ہو گا اسے پاکستان کی تعمیر و ترقی اور پاکستان میں پیدا ہونیوالے ہر فرد پر ایک لاکھ تیس ہزار روپے کے قرضے کو ادا کر کے ہر پاکستانی کو اس قرض سے نجات دلائی جائیگی'' ۔

جناب وزیراعظم صاحب آپ نے یہ بھی وعدہ کیا کہ صحت کا ایسا یکساں نظام نافذ کیا جائیگا کہ سندھ کے پسماندہ علاقہ میں قائم ہسپتال میں اور کراچی کے آغاخان ہسپتال میں صحت کا نظام ایک جیسا ہو جائیگا، جنوبی پنجاب کے علاقوں میں موجود غریبوں کا علاج بھی ویسا ہی ہو گا جیسا لاہور کے بڑے ہسپتالوں میں کیا جاتا ہے۔ خیبرپختونخواہ، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے دور افتادہ ہسپتالوں اور انہی صوبوں کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں علاج معالجہ میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔

انہی صوبوں کی ترتیب سے پورے پاکستان کے غریبوں کو وہی انصاف ملے گا جو بڑے شہروں میں موجود ایک امیر کو عدلیہ اور قانون کی طرف سے مل جاتا ہے۔ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے سے متعلق عمران خان صاحب آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ایچی سن کالج اورملک بھر کے پرائمری سکول کے بچے کیلئے ایک ہی نصاب رائج کیا جائے گا۔ لیکن جناب وزیراعظم آپ کو اقتدار میں آئے پونے دو سال سے اوپر کا عرصہ گزر چکا لیکن آپ کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا، پورے ملک کے گورنر ہاؤسز وہیں کے وہیں کھڑے ہیں اوراب بھی پہلے کی طرح اس میں ایک شخص جسے حرف عام میں لاٹ صاحب یا گورنرکہا جاتا ہے، براجمان ہے۔

ہاں کچھ عرصہ قبل آپ نے لاہور کے گورنر ہاؤس کو ہر اتوار کو عوام کیلئے ضرور کھولا اورتاکہ پاکستانی عوام کئی دہائیوں سے قائم اس طلسم کدہ کو اندر سے دیکھ سکے، لیکن یقین جانئے پاکستانی غریب عوام اسے اندر سے دیکھ کر مزید احساس کمتری کا شکار ہو گئے کہ دیکھو اس مصروف ترین سڑک کے کنارے تعمیر شدہ اس وسیع و عریض محل میں صرف ایک شخص گورنر پنجاب کا قبضہ ہے اور اس کا کام بھی کچھ نہیں سوائے اس محل میں ہی موجود اپنے آفس میں جا کر کچھ ضروری کاغذات پر دستخط کرنا اور زیادہ سے زیادہ اپنے گردونواح میں ہونیوالے سرکاری پروگراموں میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کرنا اور بس !.... کیونکہ بیورو کریسی اور حکومت میں ان کی کچھ نہیں چلتی اور ان کی حیثیت آٹے میں نمک کی سی ہے۔

تحریک انصاف ہی کے دور میں پاکستانی عدلیہ بھی کرپشن کے عظیم چکرویو میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ ابھی پچھلے ہی دنوں سے امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام جارج کے قتل کی خبریں سوشل میڈیا اور اخبارات میں بہت نمایاں ہیں، جس کے باعث آج 40 سے زائد امریکی ریاستوں میں گمسان کا احتجاج ہو رہا ہے اور کئی ریاستوں میں کرفیو تک لگ گیا ہے، سینکڑوں افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ کو اپنی حکومت کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔کیونکہ آنے والے نومبر میں امریکہ میں ہونیوالے الیکشن میں ٹرمپ کو اپنا صدارتی عہدہ ہچکولے کھاتا ہوا نظرآرہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر مزاح کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ جس پولیس آفیسر کے ہاتھوں سیاہ فام کا قتل ہوا ہے اگر اس کا کیس پاکستان ہائیکورٹ یا پاکستانی عدلیہ میں چلایا جائے تو اس کی ضمانت یقینی طور پر ہو جاتی، کیونکہ جس طرح سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاؤن،جتوئی قتل کیس،راؤ انواز کیس اور ڈی ایچ اے لاہور میں لودھراں کے ایم این اے عبدالرحمان کانجو کے بھائی نے ایک معصوم شہری کا قتل کیا، اور ان سب کی طرح امریکہ پولیس آفیسر کی بھی ناصرف ضمانت ہو جاتی بلکہ اگلے ہی روز اسے اپنی ملازمت پر بھی بحال کر دیا جاتا۔

اسی مناسبت سے حسن نثار صاحب کا ایک شعر یاد ا ٓ رہا ہے کہ
لوٹنے والا ہی منصف ہے ،عدالت میں نہ جا
چور تو چور کو ہی ازن رسائی دے گا
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا
ان سارے وعدوں کی بناء پر ہی2018ء میں پاکستانی عوام نے اپنا اکثریتی قیمتی ووٹ تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال کر عمران خان کو وزیراعظم تو بنا دیا، ان وعدوں میں سے ابھی تک کسی بھی وعدے کا ایفا نہ ہونے کی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ مشرف حکومت کے بعد اقتدار میں آئی پیپلزپارٹی کی زرداری حکومت نے 18 ویں ترمیم ختم کر دی تھی۔

اس کے نتیجہ میں تحریک انصاف کے منشور میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا تمام اختیار صوبائی حکومتوں کو منتقل کردیا گیا ،جس کی بناء پراب ان سارے وعدوں کو پورے کرنے کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں۔ جس کے بعد ایک طرف سے تو وفاقی حکومت نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا لیکن صوبائی حکومتیں اپنی ضد و ہٹ دھرمی دکھا رہی ہیں اور دوسری طرف عوام میں پھیلی بے چینی کسی صورت سنبھلتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔

لیکن یہی تمام حکومت بشمول پنجاب کے کوئی بھی عمران خان کے حکم کو درخوراعتناء ہی نہیں سمجھ پا رہی۔ بیورو کریسی کا جن پوری طرح تمام محکماجات پر چھایا ہوا ہے ان کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی ہلنے نہیں پا رہا ، اوپر سے عمران خان کے اردگرد اور صوبائی حکومتوں میں موجود فوج ظفر موج تعداد میں مشیر، وزیر اور انہی میں موجود مافیاز نے پوری طرح عمران خان کو جھکڑ رکھا ہے۔

وزیراعظم صاحب ۔۔ صرف انکوائری رپورٹوں کو پبلک کرنے سے کچھ نہیں ہو گا، ان پر ابھی تک کوئی سزا یا جرمانہ عائد نہیں کیا گیا یا ان مافیاز سے لوٹی گئی قومی دولت کی واپسی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ابھی تو کچھ تھوڑی بہت حرکت باقی ہے،اور متعدد محکماجات اور انتظامیہ آپ کے ساتھ ہیں ، جس کے باعث پاکستان کچھوے کی چال چل رہا ہے لیکن اگر جس طرح گزشتہ پونے دوسال گزرے ہیں اسی طرح باقی وقت بھی گزر گیا اور تو یقین جانئے اگلے الیکشن کے نتائج پھر ویسے ہی ہونگے جیسے آپ کی حکومت سے قبل ہوا کرتے تھے۔

آپ کی پارٹی کے ارکان اسمبلی اور کابینہ میں شامل کئی وزرا، لوٹے اور فصلی بٹیرے پھر اپنی اڑان بھر کر کسی دوسری سیاسی جماعت کے شجر پر اپنا بسیرا کریں گے، کئی ایک تو اب بھی ٹی وی ٹاک شوز میں یہی دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ فلاں نے اتنے ارب روپے اور فلاں اتنے ارب روپے کا فراڈ کر لیا ہے لیکن یہ پیسے ابھی تک واپس نہیں نکلوائے جا رہے اور اگر کہیں اس پیسوں کے فراڈ کے ثبوت اکٹھے مل بھی جائیں تو وہ فراڈیا بیورو کریٹ یا سیاست دا ن نواز شریف اور اسحاق ڈار کی طرح ملک چھوڑ کر بڑے اطمینان سے کسی یورپی ملک میں اپنی بقایا زندگی بڑے چین کے ساتھ گزرا رہا ہے۔

اور وہیں بیٹھ کر پاکستان دشمنی میں جو اس کے منہ میں آتا ہے بک رہا ہے۔جس کو دیکھ اور سن کر ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔وزیراعظم صاحب اللہ کے واسطے اب آپ کا فائنل راؤنڈ شروع ہونے کو ہے، جس میں آپ ہی نے پرانے پاکستان اور نئے پاکستان کا فرق عوام کے سامنے لانا ہے، اگرآپ نے اسی حسب سابق پالیسی پر چلتے ہوئے اپنا باقی وقت بھی گزار لیا تو یقین جانئے پاکستانی عوام سابق حکمرانوں کی طرح آپ کو بھی کبھی معاف نہیں کرے گی۔


اسی اوپر والے پیرا گراف کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے محب ارکان سے ہاتھ جوڑ کر التماس ہے کہ اگر آپ پاکستان کو اپنی پارٹی کے ہاتھوں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے جلد از جلد 18 ویں ترمیم کو وفاقی سطح پر مئوثر بنانا پڑے گا کیونکہ اسی ترمیم کے تحت ہی وفاق کو وہ اختیارات مل سکیں گے جس کے نفاذ کے بعد ہی وفاق صوبائی حکومتوں کو نکیل ڈال سکے گا۔

اس میں ٹیکس کا نظام بھی شامل ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل ہی نیب نے ٹیکس کی مد میں 10 ارب روپے پری بارگین کی مد میں واگزار کرا تو لئے ہیں لیکن ابھی بھی چار ارب روپے باقی ہیں، اور اگلے مالی سال کیلئے وفاقی و صوبائی بجٹ پیش کرنے میں چند روز باقی ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے قائد نے اور اپنے منشور میں جو جو بھی وعدے کر رکھے ہیں،جن میں سرمایہ کاری، تعلیم یافتہ اور غیرتعلیم یافتہ ٹیکنیکل افراد کیلئے روزگار کے مواقع، اور زراعت کے شعبوں میں غریب کسان کی فصل کی قیمت کواس کے دروازے تک پہنچانے کا وعدہ کیسے وفا ہو گا جبکہ ان سب محکموں کے تمام اختیارات صوبوں کے اپنے پاس ہے، اور اگر صوبے ہی بے وفا ہو جائیں تو وزیراعظم صاحب آپ کیا کریں گے ، لیکن پاکستان کے تمام عوام صرف اور صرف عمران خان کی طرف دیکھ رہی ہے اور وہی اس سارے معاملے اپنی بری امیج چھوڑ رہے ہیں۔

محکمہ ماحولیات تک وفاقی حکومت کے اختیار میں شامل نہیں۔ کسی بھی صوبے میں عوام کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں تعمیر ہونے والے پارک، اور پکنک سپاٹ تک اگر محکمہ ماحولیات تعمیر ہی نہ کرے یا ان کی دیکھ بھال کا انتظام نہ کر پائے تو اس کا ذمہ دار عمران خان کو صرف اسی لئے ہی ٹھہرایاجاتا ہے، اور وزیراعظم صاحب نے پہلے دن ہی سے وزیراعلٰی عثمان بزدار کو وسیم اکرم تو قرار دیدیا لیکن بزدار صاحب ابھی تک وزیر اعلٰی کی کرسی اور اس کے اختیارات کا استعمال نہیں کر پائے ، وزیراعظم کو اب وزیراعلٰی پنجاب کو چند بکریاں دے کر اصل میں بزداری کے کام پر لگا دینا چاہئے کیونکہ وہ اسی کیلئے بہتر ہیں، لیکن پاکستانی عوام پوری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی غلطیوں کا ذمہ دار عمران خان کو ہی قرار دیتے ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کے ہاتھ میں ہی کچھ نہیں، وہ18 ویں ترمیم کے باعث صوبائی حکومت اور بیورو کریسی کو اپنے زیر اثراور دائرہ کار میں لانے کی پوزیشن میں ہی نہیں، اورعوامی رائے اور خیالات میں برا عمران خان بن جاتا ہے۔ اسی بنا پر 18 ویں ترمیم میں ردوبدل اشد ضروری ہے اور اس کے لئے اپوزیشن پارٹی کا تحریک انصاف سے ہم خیال ہونابہت ضروری ہے۔

اس تعاون میں شامل ہونے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کی شرائط میں سب سے بڑی اور اول شرط یہ ہے کہ پہلے ہمارے قائدین پر قائم کرپشن کے تمام مقدمات ختم کئے جائیں، اس کے بعد ہم حسب اقتدار سے تعاون کا سوچیں گے اور یہ بہت مشکل نظر آتاہے۔ اور اگر 18 ویں ترمیم میں ردوبدل نہ کیا گیا تو عمران خان کی حکومت اگلے سوا تین سال پتہ نہیں کیسے چلے گی، اور اگر چلے گی تو کچھ کر بھی پائے گی یا یونہی عوام صرف اور صرف عمران کو ہی برا بھلا کہتے نظر آئیں گے۔ اس موقع پر سوال یہ ہے کہ اگر اگلے فائنل راؤنڈ سوا تین میں بھی عوامی مسائل جوں کے توں رہے تو ووٹوں کیلئے کس منہ سے عوام کے پاس جاؤگے ؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :