حکومتی 3 سالہ کارکردگی اور صدارتی نظام

اتوار 29 اگست 2021

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

کرونا وائرس کے باعث پوری دنیا کی طرح پاکستان پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کے باعث دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ پورے ملک کی معیشت ، تعلیم، اور صحت قابل ذکر حد تک متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے باعث سیاسی ، سماجی، ثقافتی اور معاشی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں ہیں۔یہ وائرس ہے کہ پوری دنیا کے کسی بھی ملک کی پکڑ میں نہیں آ رہا اور کئی ایک ممالک میں تو اپنی پکڑ پہلے سے مضبوط کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔

ابھی تک امریکہ، برطانیہ، اٹلی، چین اور ساؤتھ امریکہ کے قابل ذکر ممالک سرفہرست ہیں اور برطانیہ میں تو آہستہ آہستہ اس کے اثرات بڑھتے بڑھتے امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آ گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں اس قدر بے احتیاطی کے باوجود ابھی تک اس کے وہ نتائج سامنے نہیں آ سکے جس کا اندازہ چند ہفتے پہلے لگایا جا رہا تھا۔

(جاری ہے)

موجودہ قومی حکومت کے ساتھ صوبائی حکومتوں کا تعاون نہ کرنے کا عمل ابھی تک جاری ہے۔

وزیراعظم عمران خان پہلے ہی دن سے اس بات پر زور دیتے رہے کہ ملک میں کرفیو کی طرز پر لاک ڈاؤن نہ کیا جائے کیونکہ کرفیو کی طرز پر لاک ڈاؤن کرنے سے غریب مزدور طبقہ کے روزگار پر بہت سخت صورتحال سامنے آئیگی اور وہ روزانہ کی بنیاد پر جو کچھ کماتا اور کھاتا ہے اس سے محروم ہو جائیگا لیکن سندھ حکومت نے حسب سابق اس کے برعکس فیصلہ کرتے ہوئے عید سے قبل مکمل کرفیو لاک ڈاؤن لگا دیا جس پرعوامی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور اس دوران وفاقی حکومت کی جانب سے دی جانیوالی سندھ حکومت کی امداد کو بھی غریب تک پہنچنے نہیں دیا گیا جس سے سندھی عوام میں بے چینی اور اضطرابی کیفیت پیدا ہونا قدرتی امر تھا۔

اس کے اوپر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ تقریباً چار ارب روپے سے زیادہ کی گندم کی چوری کو پکڑتو لیا گیا لیکن اس کا حساب کون دے جو گندم اس سے قبل خردبردہو چکی اور اس کا ریکارڈ کہیں بھی موجود نہیں؟ یا جس کو دیوہیکل گوداموں میں چوہے کھا گئے جس کا کوئی حساب نہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ پورے ملک میں صرف اور صرف عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں باقی وزراء، مشیراور معاون خصوصی صرف اور صرف تیل دیکھواور تیل کی دھار دیکھو پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔

عمران خان کے بارے میں تو اپنے پارٹی ورکر تو کیا اپوزیشن کے تمام لوگ یہی کہتے ہیں کہ کم از کم عمران خان نے ابھی تک کوئی کرپشن نہیں کی اور نا کسی کرپشن کا حصہ رہا ہے، اور اگر اسے اپنی کابینہ یا ٹیم کے کسی بندے کے بارے کوئی بھی کرپشن کا پتہ چلے تو یہ اس بات سے کبھی نہیں گھبراتا کہ وہ اس کا رائٹ ہینڈ ہے یا لیفٹ ہینڈ، فوراً متعلقہ بندے کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

اس دوران ملک کے سب ہی ٹی وی چینلز پر ٹی وی ٹاک شوز میں مختلف تجزیہ نگاروں کی زبانی یہ بات ایک بار پھر گونجتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام لانے کیلئے راہ ہموار ہو رہی ہے یا نہیں؟کیونکہ بحیثیت وزیراعظم عمران خان کو اگر اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد اگر کچھ سیاسی چالوں کی سمجھ آنے لگ ہی گئی ہے تو کوئی نا کوئی رکاوٹ ان کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کے پاس واضح اکثریت موجود نہیں ، جس پارلیمینٹ سے قانون پاس کرانے کیلئے اسے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے وہاں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اوپر سے پورے پاکستان کے تمام محکموں میں موجود بڑے بڑے بیورو کریٹ وزیراعظم تک کے حکم کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کی پالیسی پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔

اگر چینی کیس کھلنے پر ن لیگی لیڈر کے ساتھ ساتھ جہانگیر ترین، خسروبختیار اور مونس الہٰی کا نام آتا ہے تو وزیراعظم عمران خان پر اس قدر پریشر ڈال کر بلیک میل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کو دھمکاتے ہوئے یہ سب بڑے بڑے سیاست دان اتنا تک کہہ جاتے ہیں کہ اگر ہم پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھر تحریک عدم اعتماد سمجھیں آئی کہ آئی۔ ظاہر ہے مسلم لیگ ق والے مونس الہٰی کے نام پر آنچ تو آنے نہیں دیں گے۔

جہانگیر ترین کا تو پہلے ہی سیاسی مستقبل ختم ہو چکا ہے لیکن جہانگیر ترین گزرے وقتوں میں عمران خان کے بازو کے طور پر پہچانے جاتے رہے ، سیاسی مستقبل ختم ہونے کے باوجود ان کا اثر ورسوخ چینی کیس سے قبل بھی کسی وزیر مشیر سے کم نہیں تھا۔ خسرو بختیار تو پہلے ہی پارٹی تبدیل کر کے تحریک انصاف میں شامل ہونیوالوں میں شامل ہیں، وہ تو کسی بھی وقت تحریک انصاف کے پیڑ سے اڑ کر پھر کسی نئی یا پرانی پارٹی کے درخت پر جا بیٹھیں گے، ان سارے خطرات کی تلوار عمران خان پر لٹک رہی ہے، کہ اگر ان سیاسی مخالفین کے ساتھ عمران خان انہی کی مرضی کے مطابق سلوک نہیں کرتے تو یہ لوگ اپنی وفا داریاں تبدیل کر سکتے ہیں جس کا نقصان یہ ہو گا کہ عمران خان وزیراعظم نہ رہ پائیں، یہ شائد ان لوگوں کو پتہ نہیں کہ اس کا وزیراعظم عمران خان کو ناکوئی خوف ہے نا ڈر۔

اس ساری صورتحال کو گزشتہ دنوں وہ اسلام آباد میں اپنی 3 سالہ کارکردگی کے کنونشن میں بڑے پرجوش انداز میں تقریر کر کے بیان کر چکے ہیں۔ جسے پاکستانی میڈیا اور تجزیہ نگاروں نے خوب سراہا ہے۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہماری ناچیز سی رائے یہ ہے کہ اگر ملک میں دو سال بعد منعقد ہونیوالے انتخابات سے قبل ایک عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کرا دیا جائے جس میں عوام سے یہ رائے لی جائے کہ موجودہ پارلیمانی نظام جیسے چل رہا ہے ویسے ہی چلتا رہے یا پھر صدارتی نظام رائج کیا جائے؟ جیسے ترکی کے صدر نے کچھ عرصہ قبل اپنے ملک میں چند فوجی باغیوں کی جانب سے ہونیوالی بغاوت کے نتیجہ میں ریفرنڈم کرانے کے بعد صدارتی نظام رائج کیا تھا، اس سے پاکستانی قوم کا بھی پتہ چل جائیگا اور اسی ریفرنڈم میں پاکستان میں نیا رائج شدہ الیکٹوریل سسٹم کا تجربہ بھی ہو جائیگا جس سے پتہ چلے گا کہ الیکٹوریل مشین پر انتخابات میں دھاندلی کی گنجائش پر کتنے فیصد قابو پایا جا سکے گا؟ پاکستان کے کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان اسلامی صدارتی نظام پر ہی بہتر چلایا جا سکے گا کیونکہ پاکستان میں فیوڈل ازم کے نظام کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن افسوس کہ قائداعظم کو قدرت نے زیادہ مہلت نہ دی وہ بہت جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے ۔

جس کے بعد پاکستان آج تک کسی بھی مخلص لیڈر کے ہاتھوں میں نہ آیا۔ اس کے برعکس ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو بھی پاکستان سے ایک دن بعد آزادی ملی لیکن بھارت نے آزادی ملنے کے فواً بعد اپنے ملک سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا، لیکن اس جاگیرداری نظام کا پاکستان میں خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا، ہر جاگیردارپاکستان کے سیاسی پارلیمانی نظام میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہوئے اسے اپنے ابا جان کا مال سمجھ کر لوٹا، وہ نہیں چاہتے کہ ہماری جاگیرمیں کام کرنے والے غریب ہاریوں کا بیٹا، بھائی یا رشتہ دار پڑھ لکھ جائے اور اس کے بعد وہ اسی کے مقابلے میں الیکشن لڑکر اسی کے سامنے آ کھڑا ہو۔

پوری پاکستان کی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک سیاست دان آئے جنہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ کو ثواب سمجھ کر کھینچا۔ 1954ء میں ملک کا پہلا منشور ڈرافٹ بنایا گیا، اور بہت جلد اسے منسوخ کر دیا گیا، 1956ء میں دوبارہ منشور ڈرافٹ تیار کیاگیا، 1958ء میں سکندر مرزا نے پہلا مارشل لاء لگایا اور اسی کے تحت فیلڈ مارشل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگا دیا گیا، تھوڑے ہی عرصے بعد صدر پاکستان سکندر مرزا بیماری کے باعث مستقل طور پر لندن بھیج دیئے گئے، ان کے پیچھے فیلڈ مارشل ایوب خان نے صدر و مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور ملک کی بھاگ ڈور سنبھالی۔

ایوب خان کے خیال میں ملک صدارتی نظام کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا پارلیمانی نظام ہی پاکستان کیلئے بہتر ہے۔ اس دور میں قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح صاحبہ نے ایوب خان کی مخالفت کی اور انہوں نے اسی پر زور دیا کہ پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام ہی پاکستان میں نافذ ہونا چاہئے۔ اس دور میں الیکشن میں ایوب خان ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے اور 1970ء میں جنرل یحیٰی خان نے ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء لگاتے ہوئے ایوب خان کو گھر بھیج دیا۔

جنرل یحیٰی خان پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر بن گئے۔ جنرل یحیٰی نے دوبارہ الیکشن کروائے جس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کی صورت میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نئے صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر چن لئے گئے۔ ان الیکشن میں پاکستان کو ایک نقصان یہ اٹھانا پڑا کہ مغربی پاکستان بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشہ میں وجود میں آ گیا۔

اس کے بعد 1977ء میں بھٹو کی حکومت جنرل ضیاء الحق نے ختم کی اور خود جنرل ضیاء الحق صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ 1985ء میں عوامی احتجاج کے باعث انہوں نے غیرجماعتی بنیادوں پر الیکشن تو کرایا لیکن اس کے نتیجہ میں بننے والی محمد خان جونیجو کی کٹھ پتلی حکومت بھی زیادہ نہ چل سکی اور اسے بھی جنرل ضیاء الحق نے گھر بھیج دیا۔ اور وہیں سے صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام جاری رکھا۔

1988ء میں جہاز کے حادثے میں ہلاکت کے بعد دوبارہ الیکشن کروائے گئے جس کے نتائج یہ نکلے کہ بے نظیر بھٹو پاکستان اور امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر چن لی گئیں۔ اس کے بعد پاکستان میں نواز شریف اور پھر بے نظیر بھٹو اور پھر نوازشریف حکومتوں کی باری کا دور شروع ہوا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو گھر بھیجا اور خود صدر و مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔

جنرل پرویز مشرف کا دور 2008ء تک چلا اور وہ اپنی وردی اتارنے کے بعد فارغ ہو گئے۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ اور قتل کے نتیجے میں ہونیوالے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور صدر کے عہدہ پر آصف علی زرداری تعینات ہوئے۔ انہوں نے اپنی مدت پوری توکی مگر آخری چند ماہ سے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نااہل ہو کر گھر چلے گئے، باقی مدت راجہ پرویز اشرف کو پیپلزپارٹی کی طرف سے وزیراعظم نامزد کیا گیا، اور 2013ء میں ملکی الیکشن میں ن لیگ مریض اعظم نوازشریف نے دوبارہ کامیابی حاصل کی اور آئین میں ترمیم کرتے ہوئے تیسری بار وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے، اس بار بھی حسب سابق وزیراعظم نواز شریف کو حکومت راس نہ آئی اور پانامہ، منی لانڈرنگ اور کئی دوسرے کرپشن کیس میں ملوث ہونے کے بعد وہ تاحیات نااہل قرار پا گئے، اور پوری دنیا میں '' مجھے کیوں نکالا'' کا نعرہ لگوا کر اپنے آپ کا تمسخر ابھی تک اڑوا رہے ہیں۔

اس کے بعد آتا ہے موجودہ تحریک انصاف کا دور جس نے 2018ء کے الیکشن میں کامیابی تو حاصل کر لی لیکن واضح اکثریت حاصل نا کر سکی پھر بھی آزاد اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، جو ابھی تک چل رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک اسی طرح کی غیراطمینانی صورتحال کے باعث پاکستان ابھی تک سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہو سکا۔

اس کا آج کے دور میں واحد حل اسلامی صدارتی نظام کا رائج ہونا ہے۔ اس نظام کو رائج کرنے میں بہت سی حائل رکاوٹوں کو دور کرنا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔اسلامی صدارتی نظام کے انعقاد کی صورت میں ایم این اے اور ایم پی اے کی اجارہ داری اور حیثیت ختم ہو جائیگی اور اس کا انتخاب کلی طور پر ملک کا صدر کر سکے گا، اسمبلیاں تو ہونگی لیکن ان کا انتخاب اچھی اور ایماندارانہ شہرت کے حامل افراد پر مشتمل ہو گا، اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر وہ صرف ملکی صدر پر نظر رکھیں گے کہ وہ کوئی غلط کام نہ کرنے پائے، صدر ہی مختار کل ہو گا۔

امید ہے کہ اس مکمل اختیاراتی صدارتی نظام کے رائج ہونے کے بعد اور عمران خان جیسے کرپشن پروف اور ایماندار محب وطن کی قیادت میں ملک بھرپور ترقی کرے گا۔ انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :