اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 ستمبر2025ء) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے مشرقی محاذ سے بلااشتعال جارحیت کا فیصلہ کن جواب دیا، دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا، پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم امن جیتنے کے خواہاں ہیں، صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں، وہ بروقت اور فیصلہ کن مداخلت نہ کرتے تو مکمل جنگ کے نتائج تباہ کن ہوتے، سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی اعلان جنگ کے مترادف ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر جلد ختم ہو جائے گا، غزہ میں اسرائیل نے ناقابل بیان دہشت پھیلا دی ہے، فوری جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا، فلسطین کو اب آزاد ہونا ہوگا، پاکستان کو بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، دہشت گرد گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں، افغانستان کی عبوری حکومت دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کرے، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑے نقصانات کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لئے جانے والے قرضے معیشت کے لئے تباہ کن ہیں، ہم بھرپور محنت کریں گے، ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بنائیں گے۔
(جاری ہے)
انہوں نے ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کے جنرل مباحثہ میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کی نومنتخب صدر کو جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو بھی مشکل حالات میں ان کی جراتمندانہ قیادت پر خراج تحسین پیش کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج کی دنیا پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، تنازعات بڑھ رہے ہیں، بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، انسانی بحران بڑھتے جا رہے ہیں، دہشت گردی اب بھی ایک طاقتور خطرہ ہے، غلط معلومات اور فیک نیوز اعتماد کو مجروح کرتی ہیں، اسلحے کی بے لگام دوڑ اور نئی ٹیکنالوجیز تباہ کن غلطیوں کے خطرے کو بڑھا رہی ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی ہماری بقاء کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کثیرالجہتی نظام آج کوئی آپشن نہیں بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے وژن پر مبنی ہے جس کی بنیاد امن، باہمی احترام اور تعاون ہے، ہم مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل پر یقین رکھتے ہیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ برس اسی فورم پر میں نے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کسی بھی بیرونی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دے گا، یہ الفاظ اس سال مئی میں اس وقت سچ ثابت ہوئے جب مشرقی محاذ سے ہم پر بلااشتعال جارحیت کی گئی، دشمن غرور میں لپٹا آیا اور ذلت کے ساتھ واپس لوٹا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی ہماری پیشکش کو مسترد کرکے انسانی المیے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے ہمارے شہروں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا، جب ہماری علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کی خلاف ورزی ہوئی تو ہم نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا بنیادی حق استعمال کیا، ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت، بہادری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا، ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو کی قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضائوں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرتے ہوئے سات بھارتی طیاروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ، جارحیت کرنے والوں کو ہمارا فیصلہ کن جواب تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس فتح کا سہرا ہمارے ہر افسر اور جوان اور شہداء کے ورثاء کے سر ہے، ان کی عظمت امر ہے، ہمارے شہداء کی مائوں کا حوصلہ ہماری رہنمائی کرتا ہے، ان کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی، ہر پاکستانی اس صورتحال میں ایک مضبوط دیوار ’’بنیان مرصوص‘‘ بن کر کھڑا رہا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم طاقت میں ہونے کے باوجود جنگ بندی پر آمادہ ہوئے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جراتمند اور بصیرت افروز قیادت سے ممکن ہوئی، ہم جنگ بندی کے لئے فعال کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو سراہتے ہیں، ان کی کوششوں نے ایک بڑے خطرناک تصادم کو ٹال دیا، اگر وہ بروقت اور فیصلہ کن مداخلت نہ کرتے تو مکمل جنگ کے نتائج تباہ کن ہوتے، صدر ٹرمپ امن کے علمبردار ہیں اور امن کے لئے ان کی کوششوں پر ہی پاکستان نے نوبل امن ایوارڈ کے لئے ان کا نام پیش کیا ہے۔
وزیراعظم نے چین، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، آذربائیجان، ایران، متحدہ عرب امارات اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سمیت پاکستان کے دوستوں اور شراکت داروں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے نازک وقت میں پاکستان کی سفارتی حمایت کی، پاکستان نے جنگ جیت لی، اب ہم پوری دنیا میں امن جیتنے کے خواہاں ہیں، پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے، جنوبی ایشیا کو ’’اشتعال انگیز‘‘ نہیں بلکہ ’’فعال‘‘ قیادت کی ضرورت ہے، بھارت کا سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام نہ صرف اس معاہدے کی شقوں بلکہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے، پاکستان نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے اور کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ ہم پانیوں پر اپنی 24 کروڑ آبادی کے ناقابل تنسیخ حق کا بھرپور دفاع کریں گے، اس معاہدے کی خلاف ورزی ہمارے لیے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس ایوان کے ذریعے کشمیری عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور ان شاء اللہ جلد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و جبر ختم ہو جائے گا، کشمیری عوام ایک غیرجانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے اقوام متحدہ کی نگرانی میں اپنا حق خودارادیت حاصل کریں گے۔ فلسطین کے حوالے سے وزیراعظم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار ہمارے دور کے سب سے زیادہ دل دہلا دینے والے المیوں میں سے ایک ہے، یہ طویل ناانصافی عالمی ضمیر پر دھبہ اور ہماری اجتماعی اخلاقی ناکامی ہے، آٹھ دہائیوں سے فلسطینی عوام اپنے وطن پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کو حوصلے سے برداشت کر رہے ہیں، غزہ میں اسرائیلی جارحیت نے عورتوں اور بچوں پر ایسا ظلم ڈھایا ہے جو شاید کبھی دیکھنے کو نہ ملا ہو، مغربی کنارے میں ہر گزرتا دن نئی بربریت لا رہا ہے ، غیر قانونی آباد کار دہشت پھیلاتے ہیں اور بغیر کسی جرم کے قتل کرتے ہیں، غزہ میں اسرائیل کے نسل کشی حملوں نے خواتین اور بچوں میں ناقابل بیان دہشت پھیلا دی ہے جس کا دنیا کی تاریخ میں ہم نے کبھی مشاہدہ نہیں کیا، اپنے مذموم مقاصد کے اندھے تعاقب میں اسرائیلی قیادت نے بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف ایک شرمناک مہم چلائی جسے تاریخ ہمیشہ سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھے گی۔
وزیراعظم نے یاد دلایا کہ ہم سب نے ننھی ہند رجب کی لرزتی آواز سنی جو ملبے تلے دبی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی، کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ وہ آپ کی بیٹی ہو؟ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس پر رحم نہ کیا جائے؟میرا اور پوری امت مسلمہ کا بلکہ پوری انسانیت کا دکھ یہ ہے کہ ہم ہند رجب کو بچا نہیں سکے جس پر وہ ہمیں نہ صرف اس دنیا بلکہ اگلے جہاں میں بھی معاف نہیں کرے گی، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ’’سب سے چھوٹے تابوت سب سے بھاری ہوتے ہیں‘‘، میں جانتا ہوں کیونکہ حالیہ بھارتی جارحیت کے دوران سات سالہ ارتضیٰ عباس کا ننھا تابوت میں نے بھی اٹھایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ان بچوں کو ناکام نہیں ہونے دینا چاہیے، نہ غزہ کے اور نہ دنیا کے کسی اور کونے کے، ہمیں فوری جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے اس کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے کہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، فلسطین اب مزید اسرائیلی زنجیروں میں نہیں رہ سکتا، اسے آزاد ہونا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان 1988ء میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا، ہم ان ممالک کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا ہے، ہم دیگر ممالک پر بھی فلسطین کو تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔وزیراعظم نے کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کی طرف سے عرب و اسلامی ممالک کو اقوام متحدہ میں مشاورتی اجلاس کے لئے مدعو کرنے کے بروقت اقدام پر ان کے شکرگزار ہیں، اس سے جنگ بندی کی نئی امید پیدا ہوئی، اس امن اقدام کا کریڈٹ بھی صدر ٹرمپ کو جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا دوحہ پر حالیہ حملہ اور دیگر ممالک کی خودمختاری کی خلاف ورزیاں اس کے باغیانہ رویے کی عکاسی کرتی ہیں، پاکستان برادر ملک قطر کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے، ہم یوکرین تنازع کے پرامن حل کی بھی حمایت کرتے ہیں تاکہ انسانی تکالیف اور عالمی بحران ختم ہو سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، پاکستان دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ملک کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے اور اس سلسلے میں 90 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے جن میں ہماری خواتین، بچے، بزرگ، ڈاکٹر، انجینئرز اور دوسرے شامل ہیں، نیویارک، لندن، لاہور اور دنیا کے کسی بھی مقام پر کسی کی زندگی لینا ایک جیسا ہے، پاکستان نے انسداد دہشت گردی اور دنیا میں امن کے قیام کے لئے لازوال قربانیاں دی ہیں، ہماری ان قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان 150 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان اٹھا چکا ہے، آج ہمیں بیرونی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے، ٹی ٹی پی، فتنہ الخوارج، فتنہ ہندوستان، بی ایل اے اور اس کے مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں ، یہ گروہ افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں اور جعفر ایکسپریس جیسے ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں جسے یرغمال بنایا گیا لیکن ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کرکے یرغمالیوں کو رہا کرایا اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے سکیورٹی ادارے ان دہشت گردوں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اس جنگ کو آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ قریبی ہمسائے کی حیثیت سے پاکستان کا پرامن افغانستان سے براہ راست تعلق ہے، ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ ترقی و خوشحالی کی کلید علاقائی استحکام اور رابطے میں مضمر ہے، پاکستان تمام شراکت داروں کے ساتھ ملک کر انسانی بنیادوں پر امداد ، معاشی بحالی اور افغانستان میں ایک جامع سیاسی فریم ورک کی حوصلہ افزائی کے لیے مصروف عمل ہے، عبوری افغان حکومت کو خواتین کے حقوق سمیت انسانی حقوق کی پاسداری کرنی چاہئے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف موثر کارروائی کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر، امتیازی سلوک یا تشدد کی کسی بھی شخص یا مذہب کے خلاف کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے، ہندوتوا پر مبنی انتہا پسندی نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے، اسلاموفوبیا کے خطرے کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے، پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی تقرری کا خیرمقدم کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی بحران سب سے فوری عالمی چیلنج ہے، 2022ء میں پاکستان کو شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس کے نقصانات 34 ارب ڈالر سے زیادہ تھے، اس کے علاوہ قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں، اس سال پھر ایک بڑے سیلاب نے ہزاروں دیہات بہا دئیے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، ایک ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں اور کھیت کھلیان تباہ ہوگئے، فصلوں، مال مویشیوں اور املاک کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی غیر معمولی استقامت سے اس آفت کا مقابلہ کر رہا ہے، حکومت نے موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے، 2022ء اور 2025ء کے تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان کا عالمی گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے ہمیں قرضے لینا پڑتے ہیں، یہ انصاف نہیں ہے، قرضے معیشت کے لئے تباہ کن ہیں، ہم بھرپور محنت کریں گے، اپنے ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں گے اور پاکستان کو ایک عظیم ملک بنائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے معیشت کی بہتری کے لئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی ہیں، ٹیکس نظام کو جدید بنایا ہے، سرمایہ کاری میں اضافہ کیا ہے اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت اور کرپٹو کو اپنایا ہے، انفراسٹرکچر، توانائی، صنعت، زراعت، کان کنی اور ٹیکنالوجی ہماری ترجیحات ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کے تاریخی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے تزویراتی شراکت داری ہماری ترقی میں معاون ہے۔
انہوں نے زیادہ منصفانہ اور جامع ترقی کے لئے موثر فریم ورک کے ذریعے گلوبل گورننس انیشی ایٹو سمیت صدر شی جن پنگ کے وژن اور دوراندیشی کو سراہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیرمستقل رکن کی حیثیت سے تنازعات کی روک تھا م کے لئے اپنا تعمیری کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریزیولوشن 2788 کی متفقہ منظوری کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہماری اجتماعی وابستگی کی تجدید ہے۔
وزیراعظم نے یقین دلایا کہ پاکستان ایک فعال اقوام متحدہ اور تعاون پر مبنی کثیرالجہتی نظام کے لئے ہمیشہ امن، انصاف اور ترقی کا علمبردار رہے گا جو سب کے لئے منصفانہ، مفید اور بہتر ہو۔وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کی مناسبت سے کہا کہ 80 ویں اجلاس کو صرف تاریخ کی یادگار نہ رہنے دیں، آئیے ہم آئندہ 80 برسوں کے لئے تاریخ بنائیں، ہم سب مل کر بہتری کے لئے کام کریں۔\932