Episode 29 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 29 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری کے لئے سب کچھ برداشت کرنا مشکل ہوگیا تھا۔جنید کا فرار اور سحر بانو کی بے وفائی ،جس نے اس سے شادی کرنے کی حامی بھری تھی،اب وہ ان کا انجام اپنے ہاتھ سے لکھنا چاہتا تھا۔
علاقے کا ایس ایچ او شبیر ملک کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کا دل اس وقت ہی نرم ہوتا تھا جب اس کے نتھنوں میں نوٹوں کی خوشبو جاتی تھی۔ضمیر نام کی چیز اس کے اندر نہیں تھی۔
اس کی نظر میں انصاف اسی کا تھا جو پیسہ خرچ کرنے میں دریغ نہیں کرتا تھا۔شبیر ملک پر بہت سے الزامات تھے لیکن وہ اگر پیسہ کھاتا تھا تو کھلانا بھی جانتا تھا۔ اس لئے وہ بے خوف اپنا کام کرتا رہتا تھا۔
شبیر ملک یوں تو پیسے کا دوست تھا لیکن اگر اس کے علاوہ کسی سے دوستی تھی تو وہ ہاشم زبیری تھا۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہاشم زبیری ایسے حرام خوروں کو مٹھی میں رکھنے کا ہنر خوب جانتا تھا۔

(جاری ہے)

وہ کام کے وقت ہی نہیں بلکہ کسی نے کسی بہانے شبیر ملک کو کچھ نہ کچھ بھیجتا ہی رہتا تھا۔جس سے اس کا منہ لبا لب بھرا رہتا تھا اور کان اس آہٹ کے انتظار میں رہتے تھے کہ ابھی ہاشم زبیری کا بند اآئے گا اور کسی تہوار کے بہانے،کسی خوشی کی آڑ میں اس کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال جائے گا۔ایسا ہاشم زبیری محض شبیر ملک کے ساتھ ہی نہیں کرتا تھا بلکہ اور بھی جو آفسران اس کے کام کے ہوتے تھے،ان پر بھی ایسی ہی مہربانی کی بارش ہوتی رہتی تھی۔
اسی لئے تو ہاشم زبیری ایک طاقتور سماجی شخصیت کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔
ہاشم زبیری نے شبیر ملک اور اس کی پولیس کو اپنے گھر بلا لیا۔پولیس باہر لان میں بیٹھ کر کھانے پینے میں مصروف ہوگئی اور شبیر ملک کو ہاشم زبیری نے اپنے سٹڈی روم میں بلالیا۔
”جنید کو تم جانتے ہو۔“ہاشم زبیری نے سوال کیا۔
”بالکل جانتا ہوں۔بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔
“شبیر ملک نے جواب دیا۔” اس کی شکل میری آنکھوں میں پانچ ہزار کے نوٹ کی طرح سمائی ہوئی ہے۔“شبیر ملک کہہ کر برے سے انداز میں ہنسا۔
”جنید تجھے پانچ ہزار کے نوٹ کی طرح تو نہیں دکھائی دیتا۔؟“ہاشم زبیری نے مشکوک نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
”شبیر ملک کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس بندے کا حافظہ ایسا ہے کہ ایک بار کسی کو دیکھ لے تو پھر اس کی شکل بھولتا نہیں ہے۔
“شبیر ملک مسکرا تے ہوئے بولا۔”یہ بات آپ بھی کئی بار آزما چکے ہیں۔“
”اپنے منشی کو بلاوٴ اور چوری کی رپورٹ لکھو۔میرے گھر میں چوری بھی ہوئی ہے اور اغوا بھی ہوا ہے۔“ہاشم زبیری نے مہنگے برانڈ کا سگریٹ نکال کر اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔شبیر ملک کی نظر اس سگریٹ پر تھی اور وہ بولا۔
”کیا چوری ہوئی ہے اور کون اغوا ہوا ہے۔“شبیر ملک نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی۔
” مجھے تو کوئی چوری دکھائی نہیں دیتی ہے۔“
ہاشم زبیری نے اپنے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔” یہ لو پیوٴ۔“
”آپ کو کیسے پتہ چلا میرا دل سگریٹ پینے کو چاہ رہا ہے۔“سگریٹ پکڑتے ہوئے شبیرملک مکار سی مسکراہٹ مسکرایا۔
”میں نظروں سے بندے کی نیت بھانپ لیتا ہوں۔“ہاشم زبیری نے بلاتامل اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا۔
شبیر ملک ہنسا۔”آپ بھی کمال دماغ رکھتے ہیں۔“
”یہ باتیں پھر کبھی کریں گے۔تم منشی بلا کر رپورٹ لکھو۔“ہاشم زبیری نے کہا۔” رپورٹ ایسی لکھوانا کہ جب گرفت ہو تو سانس لینا بھی محال ہوجائے۔“
شبیر ملک نے میز سے کاغذ اور پنسل اُٹھا لی۔”میرا منشی ایسی رپورٹ نہیں لکھے گا جو میں لکھ سکتا ہوں۔آپ مجھے نام بتائیں،کون اغوا ہوا ہے،کیا چوری ہوا ہے اور کرنا کیا ہے وہ سب بتادیں۔
”میرا ملازم جنید میری تجوری سے میرے قیمتی ہیرے جن کی مالیت…“ہاشم زبیری نے کہا۔
شبیر ملک نے اس کی بات کاٹ دی۔”مالیت میں خود لکھ لوں گا۔آپ صرف چیزوں کے نام لکھوائیں۔“
”میری غیر ملکی کرنسی بھی تھی،میری بیوی کا زیور تھااب اس کی بھاری مالیت جو تم لکھنا چاہو وہ لکھ لو، ایسی مالیت لکھنا کہ جنید کی گردن ساری عمر اس مالیت کے بوجھ تلے دبی رہے۔
” ہاشم زبیر نے نفرت سے کہا۔
”یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔میں اپنا کام ایسا کرتا ہوں کہ کوئی جھول نہیں رہتی۔یہ بتائیں اغوا کون ہوا ہے۔“
”میری بیوی کی نرس سحر بانو کو بھی وہ اپنے ساتھ لے گیا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ اس نے سحر بانو کو ڈر ایادھمکا یا ہے۔اور آج جو وہ لڑکا قتل ہوا ہے …کیا نام تھا اس کا …“ ہاشم زبیری نے جان بوجھ کر اس کا نام لینے کی بجائے ایسے یاد کرنا شروع کردیاجیسے واقعی وہ اس کا نام نہیں جانتا تھا۔
”اس کا نام پتہ کرلوں گا میں۔“
وہ سگریٹ جو شبیر ملک نے لکھنے سے قبل میز پر رکھ دیا تھا۔ہاشم زبیری اپنی جگہ سے اُٹھا وہ سگریٹ اس نے شبیر ملک کے ہونٹوں میں رکھا اور لائیٹر سے اس کے سگریٹ کو آگ لگائی اور اس کے کان کے پاس جھک کر بولا۔
”کوئی ایسی کہانی ایف آئی آر میں فٹ کردو کہ جنید ہی اس لڑکے کو گولی مار کر بھاگا تھا۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جنید نے مجھ پر گولی چلائی ہو اور اس کی گولی زد میں وہ لڑکاآگیا ہو۔
تم میری بات سمجھ رہے ہو۔؟“
”جنید آپ کو بھلا کیوں مارے گا۔؟“شبیرملک نے دھواں چھوڑتے ہوئے پوچھا۔” ایک طرف وہ آپ کے گھر میں چوری کررہا ہے۔آپ کے گھر کی نرس کو اغوا کرکے لے گیا ہے اور جاتے ہوئے وہ آپ کو بھی مارنے کے لئے پہنچ گیا۔؟ایسا ممکن ہوسکتا ہے کیا ۔؟“
”ایسا ممکن تم کرو۔“
”تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ اس نے آپ کے گھر میں چوری کی۔
آپ کو اس پر شک ہوا۔اس کے ساتھ گھر کی نرس بھی اس کام میں شامل تھی۔آپ نے اس سے پوچھ گچھ کی ،وہ مان گیا اور تمام سامان دینے پر اس لئے رضا مند ہوگیا کہ آپ اس کو پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔آپ نے اس سے وعدہ کرلیا۔کیونکہ وہ آپ کا پرانا خدمت گار ،غلام تھا۔لیکن اس نے سامان واپس نہیں کیا اور بہانے بازی کرنے لگا۔آپ پولیس سے رجوع کرنا چاہتے ہی تھے کہ اس نے آپ کو اس لئے گرلی مار کر ہلاک کردینا چاہا تاکہ یہ بات ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور راز راز ہی رہے۔
گولی کی زد میں وہ نوجوان آگیا اور آپ بچ گئے۔جنید فرار ہوگیا۔نرس بھی اس کے ساتھ چلی گئی۔“شبیر ملک نے کہانی گھڑ لی۔و ہ پولیس والا تھا جانے روز کتنی ایسی کہانیاں گھڑ کر وہ اپنی جیب گرم کرکے کسی بے گناہ کی جان شکنجے میں پھنسا کر دندلاتا اپنی ڈیوٹی ختم کرکے چلا جاتا تھا۔
”تم پیدائشی کمینے ہو۔ایسا تم جیسا ہی سوچ سکتا ہے۔لیکن اس نرس کو اگر بچا لیا جائے تو۔
؟“ ہاشم زبیری نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
شبیرملک کی باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔”نرس کو کیوں بچانا چاہتے ہیں۔؟“
”چلو ایسا ہی سہی۔بعد میں دیکھی جائے گی۔لیکن یاد رکھنا مجھے وہ دونوں زندہ چاہئے۔“ ہاشم زبیری نے کہا۔
”ویسے نرس کو بچانے کا کیا چکر ہے۔کوئی چکر تو نہیں ہے۔“شبیر ملک سوال کرتے ہوئے لطف اندو ز ہورہا تھا۔
”تم ایف آئی آر لکھو۔“ہاشم زبیری بولا۔
”ٹھیک ہے جناب…اب میں ایسی ایف آئی آر لکھوں گا کہ جنید کو اپنی نانی یاد آجائے گی۔اَب آپ ان لقموں کا اثر دیکھئے جو آپ میرے منہ میں ڈالتے رہے ہیں۔“شبیر ملک کہہ کر ہنسا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum