Episode 18 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 18 - زنجیر - فاروق انجم

سحر بانو اور ثانیہ کی ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ثانیہ صبح جلدی ہی چلی گئی تھی۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ سحر بانو کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اس برف کر پگھلا دے جو ثانیہ نے خود ہی حائل کردی تھی۔وہ ایسا اس لئے چاہتی تھی تاکہ وہ سحر بانو کو اس گھر سے نکال کر باہر لے جائے۔ کالج سے سیدھی ثانیہ اپنی ایک دوست کی طرف چلی گئی اس کی سالگرہ تھی ۔اور پھر اسے ظفر کے ساتھ بھی ملاقات کرنی تھی۔
اس مصروفیت میں ہاشم زبیری کو گھر آنے کا موقعہ ملا تو راستے میں ہی اس کے موبائل فون پر فاضلی کا ثانیہ اور ڈاکٹر رفاقت کی ملاقات کا پیغام موصول ہوگیا۔ فاضلی نے کچھ باتیں وہ بھی لکھ دی تھیں جو اس نے قریب کی میز پر بیٹھ کر ٹوٹے پھوٹے انداز میں سنی تھیں۔جیسے اشارے اس نے لکھے تھے،ہاشم زبیری جیسا زیرک شخص فوراً سمجھ گیا کہ دونوں کے درمیان کیا ملاقات ہوئی ہوگی۔

(جاری ہے)

وہ مکمل طور پر تو نہیں جان سکا تھا لیکن ان اشاروں کی مدد سے اسے کچھ اندازہ ہوگیا تھا۔
اس پیغام کو پڑھ کر ہاشم زبیری کو غصہ آگیا تھا۔وہ اپنے کمرے کی طرف جارہا تھا کہ کمرے سے سحر بانو نکلتی دکھائی دی۔ہاشم زبیری اس کو دیکھ کر رک گیا۔سحر بانو نے اس کی طرف دیکھا اور نا چاہتے ہوئے بھی اپنے چہرے پر مسکراہٹ نمودار کرکے اس کے پاس چلی گئی۔
”باہر سے آرہا تھا تو موڈ بہت خراب ہورہا تھا۔تمہیں دیکھا تو دل جیسے کھلے ہوئے گلاب کی طرح ہوگیا۔“
”ایسی کیا بات ہوگئی تھی کہ آپ کا موڈ خراب ہوگیا تھا۔“سحر بانو نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہاشم زبیری سے شادی تو نہیں کرے گی البتہ اچھی زندگی گزارنے کے لئے ہاشم زبیری سے اسے جو کچھ اپنی اداوٴں سے حاصل کرنا پڑا تو وہ اس سے گریز نہیں کرے گی۔
”چھوڑو اس بات کو۔تم اپنی کہو۔کیا سوچا ہے تم نے۔؟“ہاشم زبیر ی نے بات کا رخ موڑا۔
”کس بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں۔“سحر بانو جان بوجھ کر انجام بن گئی۔
”اب مجھے پھر اپنی بات یاد دلانی پڑے گی۔“
”اوہ…میں نے کیا سوچنا ہے۔“سحر بانو نے کہا۔”میں کیا سوچ سکتی ہوں۔ میری کیا سوچ ہوسکتی ہے۔“
”تم نے کوئی فیصلہ تو کیا ہوگا۔
؟“ہاشم زبیری بولا۔
”آپ نے مجھے فیصلہ کرنے کا اختیار ہی کب دیا تھا کہ میں کوئی فیصلہ کروں۔“ سحر بانو پاس پڑے گلدان کے پھولوں کو چھونے لگی۔
”میں نے تو کوئی ایسی پابندی نہیں لگائی تھی۔“ہاشم زبیری نے کہا۔”تم کچھ بھی سوچ کر کوئی بھی فیصلہ کرسکتی تھی۔“
”جب آپ کو انکار سننا ہی نہیں ہے تو پھر میرا کیا فیصلہ…مجھے تو ہر حال میں اقرار ہی کرنا ہے۔
“سحر بانو نے کہہ کر اس کی طرف دیکھا اور ایک خوبسورت مسکراہٹ اپنے چہرے پر عیاں کرلی۔ہاشم زبیری مسکرایا۔
”میں تجھے کھونا نہیں چاہتا۔“
”اور میں آپ سے دور ہونا نہیں چاہتی۔“سحر بانو نے گلدان سے پھول نکال کر ہاشم زبیری کی طرف بڑھا دیا۔
ہاشم زبیری نے اس کے ہاتھ سے پھول لے لیا۔”تم نے مجھے آج خوش کردیا ہے۔میرا دل چاہتا ہے کہ اس خوشی میں میں تمہیں ہیروں کا بنا نیکلس تحفے میں دے دوں۔
مجھ لگ رہا ہے جیسے مجھے کوئی بہت بڑی دولت مل گئی ہے۔“
”نیکلس کی بات تو بعد کی میں نے آج تک اصلی ہیرے بھی نہیں دیکھے۔آپ نقلی ہیروں کا بھی مجھے نیکلس بنا کر دے دیں تو میرے لئے وہ اصلی ہیروں کا ہی ہوگا۔“ سحر بانو بولی۔
”تم نے کبھی اصل ہیرے نہیں دیکھے۔؟“
”کبھی بھی نہیں دیکھے۔“سحر بانو نے نفی میں سر ہلایا۔
”چلو آج ابھی تمہیں دکھاتا ہوں کہ اصلی ہیرے کیسے ہوتے ہیں۔
آوٴ میرے ساتھ۔“ ہاشم زبیری موج میں تھا۔ اس نے کہا اور اپنے سٹڈی روم کی طرف چلا گیا۔اس کی بات سن کر سحر بانو نے کہا کہ اس موقعے پر وہ کچھ مانگ لیتی تو اچھا تھا،ہیرے دیکھ کر وہ کیا کرے گی۔وہ اس کے پیچھے چل پڑی۔
سٹڈی روم میں جاکر ہاشم زبیری نے کتابوں کی شلف کو ایک طرف ہٹایا تو ایک تجوری دکھائی دی۔ہاشم زبیری نے ایک طرف ہاتھ بڑھا کر تجوری کی چابی نکالی اور اسے کھول دیا۔
سحر بانو کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔تجوری میں ڈالرز اور پانڈ کی گڈیاں ایک طرف رکھی ہوئی تھیں۔ساتھ ایک بکس تھا۔ہاشم زبیری نے بکس باہر نکال لیا۔
”میری بیوی کے بعد تم دوسری عورت ہو جس نے میرا یہ خفیہ حصہ دیکھا ہے۔لیکن آج میں خوش ہی بہت ہوں۔“ہاشم زبیری اس بکس کو کھولنے لگا اور سحر بانو کی خیرہ نگاہیں ابھی تک اس کی تجوری کے اندرونی حصے میں پڑی غیر ملکی کرنسی پر مرکوز تھی۔
”یہ دیکھو…“ہاشم زبیری نے کہہ کر کھلا ہوا بکس اس کے سامنے کردیا۔اندر کئی چھوٹے چھوٹے قیمتی ہیرے چمک رہے تھے۔سحر بانو کے لئے یہ سب عجیب اور حیران کن تھے۔وہ ہیروں کو دیکھتے ہوئے آنکھ کو حرکت دینا بھی بھول گئی تھی۔
”ان ہیروں کی قیمت اتنی ہے کہ دولت کا انبار تمہارے قد سے اونچا ہوجائے۔“ ہاشم زبیری نے فخرسے بتایا۔
ہاشم زبیری نے بکس بند کیا اور تجوری کے اندر رکھ کر اس کا دروازہ مقفل کیا اور چابی ایک طرف رکھ کر شلف آگے کردی۔
کوئی یہ قیاس بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہاں کوئی ایسی تجوری بھی پڑی ہے جس میں دولت کا انبار موجود ہے۔سحر بانو ابھی تک اس تجوری میں رکھی دولت میں کھوئی ہوئی تھی۔
”کب مجھ سے شادی کررہی ہو۔؟“ہاشم زبیری نے اچانک سوال کیا۔
سحر بانو چونکی۔”آپ کیا چاہتے ہیں۔؟“
”آج ابھی اور اسی وقت…نکاح ہی تو کرنا ہے۔بینڈ باجا اور بارات کا تو اہتما م کرنا نہیں ہے۔
“ہاشم زبیری کا چہرہ دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے وہ کسی نشے میں ہو۔اور یہ نشہ سحر بانو کو پانے کا تھا۔اسی نشے میں ا س نے اپنی خفیہ تجوری بھی اس کو دکھا دی تھی۔سحر بانو کو پانے کا جنون اُس کے حواس پر غالب ہوگیا تھا۔
سحر بانو کو اس بوڑھے سنکی شخص سے شادی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔وہ اس سے شادی کئے بغیر ہی جو اس کے ہاتھ لگے،وہ سمیٹنے کے چکر میں تھی،اس لئے وہ بولی۔
”کیا ہم ایک ماہ رک نہیں سکتے۔؟“
”وہ کیوں۔؟“ہاشم زبیری نے پوچھا۔
”مجھے اپنے باپ کی موت کا غم ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اولاد ہونے کے ناطے میں کم ازکم چالیس دن تو کوئی خوشی نہ کروں۔“سحر بانو نے کہا۔
اس کی بات سن کر ہاشم زبیری سوچنے لگا۔سحر بانو جیسی حسین لڑکی اس کی دسترس میں تھی۔ اُسے کوئی فکر نہیں تھی۔سحر بانو بھی اس سے شادی کرنے پر راضی تھی۔
اور پھر ڈاکٹر رفاقت اور ثانیہ کی ملاقات کا بھی مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔اس مسئلے کو بھی دودھ میں پڑی مکھی کی طرح حل کرنا تھا۔ایک ماہ کی بات ہی کیا تھی۔وہ تو ایسے گزر جانا تھا جیسے کوئی نیند سے جاگ جائے۔ اس لئے ہاشم زبیری بولا۔
”ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔میں ایک ماہ انتظار کرلیتا ہوں۔لیکن تم اس دوران گھر سے باہر بھی نہیں جاوٴ گی اور ڈاکٹر رفاقت سے بھی کوئی ملاقات نہیں رکھو گی۔
اب تم اسی گھر میں رہو گی اور جب تک ہم شادی نہیں کرلیتے تم نرس بن کر میری بیوی کی خدمت کرتی رہو گی۔“
”ڈاکٹر رفاقت سے ملاقات کیسے روک سکتی ہوں۔وہ آپ کی مسز کے ڈاکٹر ہیں اور صبح شام ان کو چیک کرنے کے لئے آتے ہیں۔“سحر بانو نے کہا۔
”میں ڈاکٹر بدل رہا ہوں۔“ہاشم زبیری کا لہجہ خشک تھا۔
”ڈاکٹر بدل رہے ہیں لیکن کیوں۔؟“سحر بانو کو فکر ہوگئی کہ اگر ڈاکٹر رفاقت سے ملاقات بند ہوگئی تو وہ اُسے بھی لوٹنے کی جو منصوبہ بندی کرچکی ہے وہ ختم ہوجائے گی۔
وہ ڈاکٹررفاقت کے ساتھ بھی پیار کا ڈرامہ رچا کر اس کی دولت پر اپنے دونوں ہاتھ جمانا چاہتی تھی۔
”یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں۔ہم دونوں کے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں وہ اسی کمرے تک رہنی چاہئیں۔اب تم جاوٴ اور اس گھر کی مالکن بننے کے دن گننا شروع کردو۔میں نے آج کی تاریخ سے تمہارے دلہن بننے کی تاریخ اپنے دل کی ڈائری پر لکھ لی ہے۔
اس سے ایک دن نہ کم ہوگا اور نہ زیادہ۔میں جو کہہ دوں اور جو سن لوں اس پر پکا رہتا ہوں۔اپنی بات سے کسی کو پھرنے نہیں دیتا اور جو پھرجائے اسے میں زندہ نہیں چھوڑتا۔“ہاشم زبیری کا لہجہ بے شک نرم تھا لیکن اس لہجے میں عجیب سی سفاکی بھی مخفی تھی۔
ہاشم زبیری کا آخری جملہ ایسا سنسنی خیز تھا کہ سحر بانو کو اپنے جسم میں خوف سرایت کرتا محسوس ہوا۔
کیونکہ اس کی کوئی نیت ہاشم زبیری سے نکاح کرنے کی نہیں تھی۔اس نے تو ابھی سے اُسے دھوکہ دینے کے لئے شادی کی حامی بھر لی تھی۔پھر ایک دم سحر بانو نے اپنے دماغ سے ایسے تمام خیالات نکال دیئے جس سے اسے خوف محسوس ہو۔اُس نے ہمت سے اپنے آپ سے کہا۔
”میں بھی سحر بانو ہوں۔وعدے کی جو زنجیر میں نے تمہارے گلے میں ڈال دی ہے اسی زنجیر -سے ایسا کھینچوں گی کہ تم سب کچھ بھول جاوٴ گے۔“-

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum