Episode 43 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 43 - زنجیر - فاروق انجم

جنید کو دیکھ کر سنبل کے دل میں گدگدی سی ہونے لگی تھی۔وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہوگئی تھی کہ یہ لڑکا کون ہے اور اس حویلی میں کیاکرنے کے لئے آیا ہے۔جنید تو اپنے کمرے میں چلا گیا تھا اور سنبل اسی جگہ کھڑی رہی تھی۔جس کے قدموں کی آواز سن کر جنید کمرے میں چلا گیا تھا وہ اس حویلی کی ملازمہ پروین تھی۔پروین کے ہاتھ میں پھلوں کی ٹوکری تھی اور وہ سنبل کے کہنے پر ہی اس کے ساتھ آئی تھی۔
سنبل چھت پر جاکر اپنے پالتو طوطے کے ساتھ پھل کھاتے ہوئے کچھ وقت گزارنا چاہتی تھی۔پروین کی عادت تھی کہ جب وہ چلتی تھی تو اس کے پیروں سے آواز ضرور پیدا ہوتی تھی۔سب کوپتا چل جاتا تھا کہ پروین چل رہی ہے۔
سنبل چھت پر چلی گئی تھی لیکن اس کے د ل و دماغ پر جنید کی صورت چھائی ہوئی تھی۔

(جاری ہے)

ایک جگہ بیٹھ کر سنبل نے اپنے طوطے کو کندھے سے اتار کر اپنے ہاتھ میں لیا اور گود میں بیٹھا کر پروین سے پوچھا۔

”ہماری حویلی میں کوئی مہمان آیا ہے۔؟“
”ہاں بی بی جی ایک لڑکا آیا ہے۔“پروین نے جواب دیا۔
”کون ہے وہ۔؟“سنبل نے پوچھا۔
”شہر سے آیا ہے۔اپنے ملک صاحب اس گاوٴں میں صابن کی فیکٹری لگانا چاہتے ہیں۔ویسے بی بی جی میرے میاں کو بھی فیکٹری میں کام کرنے کا بڑا تجربہ ہے۔ملک صاحب سے کہہ کر اسے بھی نوکری دلا دیں۔“پروین نے ساتھ ہی اپنے شوہر کی سفارش کردی۔
”کیا نام ہے اس کا۔؟“سنبل اپنے ہی خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
”میرے شوہر کا جی…؟“پروین نے پوچھا۔
”میں اس مہمان کی بات کررہی ہوں۔“سنبل بولی۔
”نام بڑا مشکل سا ہے۔پتا نہیں کیا کہہ کر ملک صاحب نے ان کو بلایا تھا۔“پروین یاد کرنے لگی۔
”کیا مشکل سا نام ہے۔؟“سنبل کی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں۔
”ا ب یاد نہیں آرہا ہے۔
“پروین نے یاد کرتے ہوئے سر کو جھٹکا دیا۔”جب یاد آئے گا تو بتادوں گی۔“
”یہ شہر سے کیوں آیا ہے۔ہماری حویلی میں رہے گا۔“سنبل نے پوچھا۔
”ملک صاحب نے یہ کمرا مجھ سے ہی صاف کرایا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ مہمان نے یہاں رہنا ہے۔ان کی ہر چیز کا خیال رکھنا ۔وہ صابن کی فیکٹری کا سارا کام کرے گا۔“ پروین نے بتایا۔”بڑا پڑھا لکھا ہے۔
سنبل سوچنے لگی۔وہ جنید کے خیالوں میں کھو گئی۔عجیب لڑکی تھی۔شروع دن سے ہی اس نے اپنے دل ودماغ میں شہر کے خواب بسائے ہوئے تھے۔ اس کے اندر ایک ہی بات سمائی ہوئی تھی کہ وہ شادی کرے گی تو کسی شہری بابو سے کرے گی۔ورنہ اس حویلی کی دہلیز کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی۔گاوٴں میں وہ پید ا ضرور ہوئی تھی لیکن گاوٴں کی رغبت کبھی اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔
اور نہ ہی وہ گاوٴں کے لوگوں کو کسی خاطر میں لاتی تھی۔
”پروین ایک کام تو کر۔“اچانک سنبل بولی۔
”بولیں جی کیا کام ہے۔“
”پتا تو کر اس کا نام کیا ہے۔“سنبل مسکرائی۔پروین بھی جانتی تھی۔وہ بھی آہستہ سے مسکرائی اور بولی۔
”میں نام کیا یہ بھی پوچھ آتی ہوں کہ وہ شادی شدہ ہے کہ کنوارہ ہے۔“پروین اُٹھ کر چلی گئی اور سنبل مسکراتی اور شرماتی رہی۔
پروین جب جنید کے کمرے تک پہنچی تو اس نے دروازہ کھولنے سے قبل کچھ دیر سوچا اور پھر دروازے پر دستک دے دی۔تین چار بار دستک دینے کے بعد بھی جب دروازہ نہ کھلا تو اس نے دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔اس نے اچھی طرح سے نظر گھما کر دیکھا اندر جنید نہیں تھا۔
پروین کو حیرت ہوئی کہ مہمان کہاں چلا گیا ہے۔
پروین کے قدم سیڑھیوں کی طرف چلے گئے۔وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں نیچے اتری اور چلتی ہوئی اس کمرے تک چلی گئی جو مہمانوں کے ساتھ بات چیت کے لئے مخصوص تھا۔پروین کیونکہ اس حویلی کی ایک ایک جگہ سے واقف تھی اس لئے وہ دروازے کے پاس کھڑی ہونے کی بجائے دوسری طرف کھڑکی کے پاس چلی گئی۔ اس جگہ سے وہ اندر دیکھ سکتی تھی۔کیونکہ لکڑی کا پٹ کھلا ہوا تھا اور جالی سے اندر دیکھنا آسان تھا۔
کمر ے میں ایک طرف جنید بیٹھا ہوا تھا جبکہ اس کے سامنے ملک صادق اور اس کا بیٹا بشارت براجمان تھا جبکہ منظور کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ملک صادق کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔جنید بڑے رعب سے ایسے بیٹھا تھا جیسے وہ ان سے افضل ہو۔بات بھی کچھ ایسی ہی تھی۔وہ اپنی اہمیت کا بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔
کاغذ ایک طرف رکھ کر ملک صادق بولا۔
”یہ سب آپ نہ بھی لکھتے تو مجھے منظور تھا۔آپ بس میری فیکٹر ی پر کام شروع کردیں۔اس فیکٹری کو راتوں رات کھڑی کردیں۔“
”معاہدہ کرنا بہت ضروری ہے ملک صاحب۔یہ سب اگر آپ کو منظور ہے تو میں کام شروع کرتا ہوں۔مجھے ایڈوانس میں پانچ لاکھ روپے دے دیں۔“
منظور نے گھور کر جنید کی طرف دیکھا۔ملک صادق کے ماتھے پر ایک بھی شکن نہیں اُبھری تھی۔
اس نے مسکرا کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
”ویسے آپ ایڈوانس کی رقم رکھیں گے کہاں۔؟“منظور نے سوال کیا۔
”بینک میں۔“جنید نے جواب دیا۔
”بینک میں…؟ “منظور کا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا۔
جنید نے مسکرا کر منظور کی طرف دیکھا۔”اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے ۔ پیسہ بینک میں ہی رکھا جاتا ہے۔
”میرا مطلب ہے کہ یہاں تو ایک ہی بینک ہے۔وہ بھی چھوٹا سا۔“منظور نے کہا۔
گاوٴں میں داخل ہوتے ہوئے جنید کی نگاہ اس بینک برانچ پر پڑی تھی۔ اس کا بھی اسی بینک میں اکاوٴنٹ تھا۔جس میں محض پانچ ہزار روپے تھے۔اس بینک کا اے ٹی ایم کارڈ اس کے پرس میں موجود تھا۔
جنید نے منظور کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور بشارت کمرے میں آگیا۔
اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پانچ پانچ ہزار روپے کے نوٹوں کی گڈی ملک صادق کو دے کروہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ملک صادق نے نوٹ جنید کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میں نے آپ کی تمام باتیں مان لی ہیں۔کوئی اعتراض نہیں کیا۔لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔“
”وہ کیا ہے۔؟“
”کام مکمل ہونے سے پہلے میں آپ کو اس گاوٴں سے جانے نہیں دوں گا۔“ ملک صادق نے متانت سے اپنی شرط بیان کی۔
”جب تک آپ کی فیکٹری چالو نہیں ہوجائے گی میں اس گاوٴں سے باہر قدم نہیں رکھوں گا۔“ جنید نے بڑے اعتماد سے کہا۔
ملک صادق اس کی بات سن کر مسکرایا اور نوٹوں کی گڈی اس کی طرف بڑھا دی۔جنید نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور ملک صادق کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔”اس کاوٴنٹ میں یہ پیسے ٹرانسفر کرکے مجھے رسید دے دیں۔“
ملک صادق نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور ایک بار پھر پیسے اور کاغذ اپنے بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
وہ دونوں چیزیں لے کر کمرے سے باہر چلا گیا۔بشارت یہ کام مجبوری سے کررہا تھا۔
”میں اس جگہ کا جائزہ لینا چاہتا ہوں جہاں آپ فیکٹری لگانا چاہتے ہیں۔“ جنید بولا۔
”ہاں کیوں نہیں۔لیکن کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا۔جیسے ہی بشارت پیسے جمع کراکے آتا ہے میں اسے آپ کے ساتھ بھیج دیتا ہوں۔“ملک صادق نے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر آپ اس ایگری منٹ پر اپنے دستخط کردیں۔
“جنید بولا۔
ملک صادق نے ایک نظر منظور کی طرف دیکھا اور قلم نکال کر بادل نخواستہ اس پر دستخط کردیئے۔جنید نے کاغذ تہہ کرکے جیب میں رکھا اورکھڑا ہوگیا۔
”تب تک میں اپنے کمرے میں ہوں۔“
ملک صادق نے ملازم کو آواز دی اور جنید کو اس کے ساتھ کمرے میں بھیج دیا۔ اس کے جاتے ہی ملک صادق نے قہر آلود نگاہوں سے منظور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”بڑا نخرا ہے۔لیکن یہ مجھے نہیں جانتا۔میری مجبوری سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔فیکٹری لگ جائے تو میں اس کو نچوڑ کر اس پر خرچ کیا ہوا پیسہ نکال کر دم لوں گا۔“
”کیوں نہیں جی کیوں نہیں۔“منظور نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔”ایسا ہی کریں گے۔اپنے آپ کو ہم پر بھی افسر سمجھتا ہے۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum