Episode 26 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 26 - زنجیر - فاروق انجم

جنید کی کار سڑک پر برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔اس رفتار سے جنید نے شاید ہی کبھی کار چلائی ہو۔وہ ٹریفک کو اوور ٹیک کرتا جارہا تھا۔اس کی کار کبھی دائیں اور کبھی بائیں ہوتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔
جنید نے کار ہاشم زبیری کے بنگلے کی پچھلی طرف کھڑی کی اور پیدل مین گیٹ کے پاس پہنچا۔اس نے بیل دی۔کچھ دیر کے بعد چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔جنید بنگلے کے اندر چلا گیا۔
اس کا رخ ممتاز بیگم کے کمرے کی طرف تھا۔دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے ہلکی سی دستک دی اور کچھ دیر کے بعد سحر بانو نے دروازہ کھولا۔
جنید نے سرگوشی کی۔”بیگم صاحبہ جاگ رہی ہیں۔؟“
”وہ سو رہی ہیں۔“سحر بانو نے جواب دیا۔
”ثانیہ کہاں ہے۔؟“جنید نے دریافت کیا۔
سحر بانو بولی۔”میرا خیال ہے کہ وہ باہر نکلی ہے۔

(جاری ہے)

یا پھر وہ آگئی ہے۔

مجھے اچھی طرح سے معلوم نہیں ہے۔“
”ہمیں ابھی اور اسی وقت یہاں سے جانا ہے۔تم کسی خزانے کی بات کررہی تھی۔“ جنید جلدی سے بولا۔
”ہاں وہ خزانہ میری نظر میں ہے۔“سحر بانو نے جواب دیا۔
”جلدی چلو اور وہ خزانہ نکالو تاکہ ہم ا س گھر کو چھوڑ دیں۔“جنید بولا۔
”ہاشم زبیری تو گھر میں نہیں ہے۔“سحر بانو نے پوچھا۔
”اس وقت وہ گھر میں نہیں ہے۔
اس کے آنے سے پہلے ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔تم جلدی کرو۔ہمارے پاس وقت کم ہے۔“جنید کو جلدی تھی۔
”میرے ساتھ آوٴ۔“سحر بانو نے باہر نکل کر آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دونوں سٹڈی روم کی طرف چل پڑے۔سٹڈی روم میں جاکر سحر بانو نے وہی شلف ایک طرف ہٹائی اور سامنے تجوری نمودار ہوگئی۔سحر بانو نے اسی جگہ ہاتھ بڑھا کر تجوری کی چابی نکال کر جنید کے سامنے لہرائی۔
جنید متحیر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔اتنے سال ہوگئے تھے وہ اس گھر کے چپہ چپہ کو جانتا تھا لیکن اس خفیہ تجوری کے بارے میں اُسے علم نہیں تھا۔
جنید نے جلدی سے چابی لے کر تجوری کھولی اور اس کی خیرہ نگاہیں غیر ملکی کرنسی پر جم گئیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا وہ اتنی کرنسی ایک ساتھ دیکھ رہا ہے۔اتنا روپیہ ہاشم زبیری نے اپنی اس خفیہ تجوری میں رکھا ہے …کیوں۔
؟
”اس میں ہیرے ہیں۔“سحر بانو نے اس بکس کی طرف اشارہ کیا۔
جنید نے اس بکس کو کھول کر دیکھا۔اندر ہیرے چمک رہے تھے۔وقت کم تھا اس لئے جنید نے جلدی سے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا اور اس کی نظر ایک شاپر بیگ پر پڑ گئی جس میں کچھ سامان تھا۔جنید نے وہ سامان اسی جگہ ڈھیر کردیا۔اس نے وہ کرنسی اور ہیروں کا بکس شاپر بیگ میں ڈالا،پھر اس کو کپڑے میں باندھ دیا۔
اس کے بعد اس نے ایک الماری کھولی اور اندر سے ایک چابی نکال کر اپنی جیب میں ڈال لی۔جنید نے شلف اُسی طرح آگے کردی البتہ عجلت میں اس نے تجوری کو مقفل کرنا اور چابی نکالنا ضروری نہیں سمجھا۔
”جلدی سے نکلو۔“جنیدنے کہا اور دونوں دروازے کی طرف بڑھے ہی تھے کہ باہر سے کسی نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر گھمایا۔جنید نے بجلی سی تیزی سے سحر بانو کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر ملحق باتھ روم میں گھس گیا۔
سٹڈی روم کا دروازہ کھلا اور ثانیہ نے اندر جھانکا۔اس کی متلاشی نگاہیں کسی کو تلاش کررہی تھیں۔دراصل جب ممتاز بیگم کے کمرے سے دونوں سٹڈی روم کی طرف جارہے تھے تو عین اس وقت ثانیہ بھی ان کے پیچھے آگئی تھی۔جنید اور سحر بانو سٹڈی روم میں چلے گئے تھے اور ثانیہ ان کے پیچھے دبے پاوٴں چلتی ہوئی جب اس راہداری میں پہنچی تو اسے دونوں دکھائی نہیں دیئے تھے۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں۔ثانیہ ان کی تلاش میں وہاں کا ہر کمرہ دیکھ رہی تھی۔آخری کمرا سٹڈی روم تھا۔وہاں بھی دونوں موجود نہیں تھے۔ثانیہ نے سوچا دونوں ایک دم کہاں غائب ہوگئے ہیں۔اُسے یہ بھی حیرت تھی دونوں کے درمیان کیا چکر ہے؟۔
ثانیہ جانے کے لئے پلٹی ہی تھی کہ اس نے ایک دم پھر اس طرف دیکھا جہاں جنید نے شاپر بیگ سے سامان اسی جگہ ڈھیر کیا تھا۔
ثانیہ کو حیرانی ہوئی کیونکہ ہاشم زبیری نفاست اور قرینے کا بہت خیال رکھتا تھا۔اس نے کبھی بھی اس طرح سے اپنی کوئی چیز نہیں رکھی تھی۔ثانیہ چل کر اس بکھرے ہوئے سامان کے پاس پہنچی اور اُسے دیکھنے لگی۔ثانیہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اسے لگ رہا تھا جیسے کچھ گڑبڑ ہے۔
ثانیہ کمرے کی طرف دیکھتی ہوئی اُلٹے پاوٴں دروازے کی طرف جانے لگی۔
کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔اس وقت وہ ڈر ہی گئی جب باتھ روم سے موبائل فون کے بیل کی آواز آنے لگی۔جنید کا موبائل فون بول پڑا تھا۔خاموشی میں اس کی آواز خوفناک ہوگئی تھی۔ثانیہ تیزی سے باہر نکلی اور چیخی۔
”چوکیدار…چوکیدار…“
ثانیہ پکارتی ہوئی مین گیٹ کی طرف بھاگی۔جنید بھی جلدی سے باتھ رو م سے باہر نکلا ۔اس نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا اور سحر بانو کو آنے کا اشارہ کیا۔
دونوں باہر نکلے اور جنید اسے لے کر ہاشم زبیری کے کمرے میں چلا گیا۔اندر جاتے ہی اس نے دروازہ مقفل کردیا۔
”جلدی سے اس کھڑکی سے باہر نکلو۔“جنید نے سامنے کھڑکی کی طرف جاتے ہوئے کہا۔جنید نے کھڑکی کھولی اور سحر بانو کو اس کھڑکی سے دوسری طرف جانے میں مدد دینے لگا۔سحر بانو جیسے ہی کھڑکی سے باہر نکلی،جنید نے کرنسی نوٹ اور ہیروں کا شاپر کپڑے میں لپٹا ہوا سحر بانو کو دیا اور خود بھی کھڑکی سے دوسری طرف کود گیا۔
یہ بنگلے کا پچھلا حصہ تھا۔سامنے باونڈری وال تھی۔ایک طرف لوہے کا دروازہ دکھائی دے رہا تھا جس کو تالا لگا ہوا تھا۔جنید تیزی سے اس دروازے کے پاس پہنچا،جیب سے چابی نکالی اور تالا کھولنے لگا۔سحر بانو پہلی بار اس طرف آئی تھی۔اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ اس طرف بھی ایک دروازہ ہے۔
تالا کھلتے ہی جنید نے دروازہ کھولا اور دونوں باہر نکل گئے۔
جنید نے دروازہ بند کردیاتھا۔جنید اسے لے کر اس طرف بڑھا جہاں اس کی کار کھڑی تھی۔جیسے ہی وہ دونوں کار کے پاس پہنچے،وہاں چوکیدار کھڑا تھا۔جنید اور سحر بانو اسے دیکھتے ہی ٹھٹک کر رک گئے۔
”تم یہاں کیا کررہے ہو۔؟“جنید نے گاڑی کے پاس جاکر چوکیدار سے پوچھا۔
چوکیدار نے سحر بانو کی طرف دیکھ کر کہا۔”آپ ان کو کہاں لے جارہے ہیں۔
اور وہ بھی پچھلے دروازے سے ۔“
”تم کیوں پوچھ رہے ہو۔؟“جنید نے اطمینان سے کار کے دروازے کا قفل کھولا۔” میں تمہارے کسی سوال کا جواب دینے کا مجاز نہیں ہوں۔“
”یہ اس گیٹ سے باہر نہیں جاسکتی ہیں۔“چوکیدار بولا۔
”کیوں۔“جنید نے کار کا دروازہ کھولا۔
”کیونکہ یہ صاحب کا حکم ہے۔“چوکیدار کو اندر کی صورتحال کا پتا نہیں تھا۔
وہ کچھ دیر سے اس جگہ کھڑا تھا۔
”اور میں کون ہوں۔؟“جنید نے پوچھا۔
”آپ جنید صاحب ہیں۔“چوکیدار کو اس کے سوال کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
”میں وہی کرتا ہوں جو مجھے ہاشم زبیری صاحب کہتے ہیں۔یہ سب ہی جانتے ہیں۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ مجھ پر سوائے ہاشم زبیری کا کوئی اور اپنا حکم نہیں چلا سکتا۔جاوٴ اپنا کام کرو۔“ جنید بولا۔
”ہمیں سختی سے منع کیا گیا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی یہ باہر نہیں جائیں گے۔“چوکیدار نے کہا۔
”میرا نام لے کر انہوں نے منع کیا تھا۔“
”نہیں لیکن…“
”لیکن یہ کہ میں ان کے کہنے پر ہی ایسا کررہا ہوں۔تجھے یہ بات بتا رہا ہوں کہ ہاشم صاحب ان سے شادی کررہے ہیں۔اس لئے مجھے اس طرف سے انہیں باہر لانے کے لئے حکم تھا۔“جنید کہہ کر اسٹیرنگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
اس نے ساتھ والے دروازے کا لاک کھولا اور سحر بانو اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔
چوکیدار کے لئے یہ بات حیران کن تھی۔اس نے کچھ سوچا اور پھر جلدی سے جنید کے پاس جاکر بولا۔”میری بات صاحب سے کرائیں۔“
”ٹھیک ہے تم ایک طرف ہٹو میں کار سے باہر نکلتا ہوں۔“جنید بولا اور چوکیدارایک طرف ہٹ گیا۔اسی اثنا میں جنید نے کار اسٹارٹ کی اور دوسرے ہی لمحے اس کا ر کے ٹائر چیخے اور کار کمان سے نکلے تیر کی طرح اس سڑک سے نکل کر دائیں مڑگئی۔
چوکیدار دیکھتا ہی رہ گیا۔
جنید تیز رفتاری سے کار کو اس علاقے سے نکال کر لے گیا۔ دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جنید کو یہ فکر تھی کہ وہ ہاشم زبیری کو اطلاع ہونے سے قبل جتنی دور جا سکتاہے وہ نکل جائے اور سحر بانو کی خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ وہ گھبرائی اور خوفزدہ تھی۔اُسے ڈر تھا کہیں اچانک ہاشم زبیری کے آدمی سامنے آکر ان کی کار کو روک نہ لیں اور اس کے بعد اُس کے لئے ہاشم زبیری کے حصار سے نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
کافی دور نکل کر ایک مارکیٹ کی پارکنگ میں جنید نے کار کھڑی کی اور کار سے باہر نکل کر مارکیٹ میں چلا گیا۔سحر بانو متوحش نگاہوں سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہ گئی تھی۔
جنید کو واپس آنے میں بیس منٹ لگ گئے تھے۔یہ بیس منٹ سحر بانو کے لئے اس قدر اذیت ناک تھے کہ اس کا اضطراب اُسے ایک پل کے لئے بھی چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ جب جنید نمودار ہوا تو سحر بانو کی سانس میں جیسے جان آگئی ہو۔
جنید کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک چھوٹا بیگ تھا۔وہ کار میں بیٹھا اور جو کرنسی نوٹ اور ہیرے ان دونوں نے ہاشم زبیری کی خفیہ تجوری سے چرائے تھے وہ اس بیگ میں رکھے اور اس کی زپ بند کرنے کے بعد سحر بانو کی طرف بیگ بڑھا کر بولا۔
”اب جلدی باہر نکلو ہمیں یہ کار اسی جگہ چھوڑ کر جانا ہے۔“
”کار اسی جگہ چھوڑ کر جانا ہے،کیوں۔؟“ سحر بانو نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
” کا ر کے بغیر ہم کہاں جائیں گے۔“
”اس کار کی وجہ سے ہم پولیس کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ہاشم زبیری کو اگر ہمارے فرار کی خبر مل چکی ہوگی تو وہ اب تک پولیس کو اطلاع کرچکا ہوگا۔پولیس اس کا رکے نمبر کی وجہ سے ہمیں کہیں بھی روک سکتی ہے۔“جنید نے وضاحت کی۔
”ہاں یہ بات تو ہے۔“سحر بانو کی سمجھ میں بات آگئی تھی۔
”ایک منٹ۔“جنید نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے بیگ لیا۔
اس کی زپ کھولی اور اندر سے کچھ کرنسی نوٹ نکال کر اپنے پرس میں رکھ کر بیگ کی زپ بند کرکے پھر وہ بیگ سحر بانو کے حوالے کردیا۔
دونوں کار اسی جگہ چھوڑ کر پیدل ہی اس جگہ سے نکل گئے۔کچھ فاصلے پر منی چینجر کا آفس تھا۔جنید نے وہاں سے وہ غیر ملکی کرنسی تبدیل کرائی اور اس آفس سے باہر نکل آیا۔جنید نے ایک ٹیکسی والے کو اشارہ کرکے بلایا۔ٹیکسی میں بیٹھتے ہی جنید نے ڈرائیور سے کہا۔
”ریلوے اسٹیشن چلو۔“
جنید کے دماغ میں پہلا نام ریلوے اسٹیشن کا ہی آیا تھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum