Episode 21 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 21 - زنجیر - فاروق انجم

شام کو جنید سیدھا گھر پہنچ گیا۔ہاشم زبیری اس وقت اپنے کمرے میں تھا۔اس کے سامنے پڑی ایش ٹرے سگریٹ سے بھری ہوئی تھی اور کمرے میں دھواں پھیلا ہوا تھا۔
”کیا خبر ہے جنید۔“ہاشم زبیری اس کو دیکھتے ہی بولا۔
”مجھے وہ شخص کہیں دکھائی نہیں دیا۔“جنید نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔”میں نے اسے بہت تلاش کرنے کی کوشش کی۔“
”تم نے اس کا پیچھا کیا تھا۔
؟“ہاشم زبیری کی تیز نگاہیں جنید کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔
”میں بہت دیر تک اس کی تلاش میں رہا لیکن جانے وہ کہاں چلا گیا۔“جنید بولا۔
”تم سچ کہہ رہے ہو۔؟“ہاشم زبیری کے چہرے پر سختی اور بھی اُبھر آئی تھی۔
”میں نے کبھی آپ سے جھوٹ بولا ہی نہیں ہے سر۔“جنید کو ہاشم زبیری کی آنکھوں سے خوف محسوس ہونے لگا۔

(جاری ہے)

”پھر آج جھوٹ کیوں بول رہے ہو۔؟“ہاشم زبیری نے اچانک سوال کیا اور جنید ایک دم چونک پڑا۔
”جھوٹ…نہیں تو۔“
”جنید تم مجھ سے جھوٹ کیوں بول رہے ہو۔تم بھول گئے ہو میرے احسانوں کو، میرے ان ٹکڑوں کو جو میں تجھے کھلاتا رہا ہوں۔“ہاشم زبیری ایک دم اس پر پھٹ پڑا۔ جنید پہلی بار ایسے رویے کاسامنا کررہا تھا۔وہ حیران تھا ہاشم زبیر ی کو کیسے پتہ چلا کہ وہ اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔
یہ بات جنید نہیں جانتا تھا کہ جونہی وہ اس طرف جانے کے لئے گھوما تھا، ٹھیک اسی وقت اتفاق سے فاضلی کہیں سے نمودار ہوگیا تھا۔ہاشم زبیری اور فاضلی کی آنکھیں چار ہوئیں،ہاشم زبیری نے اشارہ کیا اورفاضلی ،جنید کے پیچھے چل پڑا تھا۔ابھی جنید واپس آفس نہیں پہنچا تھا اور جو کچھ جنید نے کیا تھا،اس کی خبر ہاشم زبیری کو پہنچ چکی تھی۔
”سر…میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا۔
“جنید نے جھجکتے ہوئے کہا۔
ہاشم زبیری اپنی جگہ سے اُٹھا اور ہاتھ میں جلتی ہوئی سگریٹ اس کا بائیں ہاتھ پکڑ کر اُلٹے ہاتھ پر سگریٹ رکھ کر مسل دیا۔تکلیف سے جنید نے دانت بھینچ لئے۔ہاشم زبیری پھنکارتے ہوئے بولا۔”تم مجھ سے جھوٹ بول کر کہہ رہے ہو کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔تم نے اس لڑکے کا پیچھا کیا ہی نہیں،بلکہ یہ دیکھتے رہے کہ میں اس جگہ سے کب جاتا ہوں۔
میرے جانے کے بعد تم دائیں بائیں ٹہلتے رہے۔ اور وقت گزار کر تم واپس آگئے۔“ہاشم زبیری نے اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اپنا سگریٹ اس کے اُلٹے ہاتھ سے اُٹھا لیا۔سگریٹ بجھ چکا تھا اور جنید کی جلد جل چکی تھی جہاں جنید کو تکلیف ہورہی تھی۔
جنید ایک طرف کھڑا ہوکر اپنا جلا ہوا ہاتھ دیکھنے لگا۔ہاشم زبیری نے پھر درشت لہجے میں کہا۔”بولو تم نے ایسا کیوں کیا۔
کیا تم پہلے سے یہ سب جانتے تھے۔؟تمہیں معلوم ہے کہ اس لڑکے اور ثانیہ کے بیچ کیا چل رہا ہے۔؟“
”میں کچھ نہیں جانتا سر۔“
”پھر تم نے ایسا کیوں کیا۔تم میراحکم ماننے کے لئے دوڑ پڑتے تھے۔اس بار کیا ہوا۔ کس چیز نے تم کو ایسا کرنے سے روکا تھا۔“ہاشم زبیری کا غصہ اور بھی بلند ہوگیا تھا۔”بولو جواب دو۔“
”وہ واقعی میری نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
“جنید کو ہاتھ میں تکلیف ہورہی تھی اور وہ ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔
”تمہارے اندر ایسی سستی میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی۔“
”سوری سر…“
”ایسے ہی سوری نہیں ہوگی۔تمہاری ایک ایک حرکت مشکوک تھی۔مجھے بتانا ہوگا کہ تمہارا اس لڑکے کے ساتھ کیا تعلق ہے۔“ہاشم زبیری اس کی کوئی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔
”میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔
“ایک بار پھر جنید نے انکار کردیا۔
ہاشم زبیری نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔”تم جانتے ہو اسے۔“
”میں نہیں جانتا۔“
”پھر جاوٴ اور دو گھنٹے کے اندر اندر مجھے ساری معلومات چاہئے۔میں ابھی ثانیہ کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔مجھے پہلے تم سے اس کے بارے میں جاننا ہے۔اگر اس بار بھی تم ناکام آئے تو یاد رکھنا میں تیری کھوپڑی میں گولی مار دوں گا۔
“ہاشم زبیری کا یہ روپ جنید کے لئے عجیب تھا۔
”دو گھنٹے میں اسے تلاش کرنا مشکل ہے۔“جنید بولا۔
”صرف دو گھنٹے۔دو گھنٹے کے بعد تم یہاں میرے پاس ہوگے۔“ہاشم زبیری نے کہا۔” جانے سے پہلے اس الماری میں دوائی پڑی ہے وہ اپنے ہاتھ کے زخم پر لگالو۔“
جنید بولا۔”مجھے دوائی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”تمہاری مرضی…لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ اگر تم نے کچھ پتہ نہ کیا تو اس بار سگریٹ میں تمہاری آنکھ میں بجھا دوں گا۔
“ہاشم زبیری کے چہرے پر ایسا غصہ تھا جیسے وہ ابھی جنید کو کچا ہی چبا جائے گا۔جنید کی پہلی بار ہاشم زبیری نے ایسی بے عزتی کی تھی اور اسے جلا ہوا سگریٹ لگا کر اذیت سے بھی دو چار کیا تھا۔ہاشم زبیری کے سامنے کھڑا ہوکر جنید کو ریحان کی باتیں ایک بار پھر یاد آنے لگی تھیں۔ہاشم زبیری کا دوسرا روپ کس قدر خطرناک تھا، اس کا اسے اندازہ آج ہورہا تھا۔
”میں جاوٴں۔“جنید نے جانے کے لئے اجازت چاہی۔
”دو گھنٹے ہیں تمہارے پاس۔“ہاشم زبیری نے اپنی دو اُنگلیاں اس کے سامنے کیں۔ ”جاوٴ چلے جاوٴ۔“
جنید جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا،ہاشم زبیری نے اپنے موبائل فون سے فاضلی کا نمبر ملایا اور اُسے کچھ ہدایات کرنے کے بعد فون بند کردیا۔
جنید کو تکلیف ہورہی تھی۔ہاشم زبیری نے کس سفاکی سے اس کا ہاتھ سگریٹ سے جلا دیا تھا۔
جنید ابھی راہداری سے گزر ہی رہا تھا کہ ایک دم سحر بانو کمرے سے نکل کر اس کے سامنے آگئی۔ اس نے جنید کو ہاشم زبیری کے کمرے میں جاتا ہوا دیکھ لیا تھا اور اب اس انتظار میں کھڑی تھی کہ کب وہ آئے اور اُسے جنید سے بات کرنے کا موقعہ مل جائے۔
دراصل سحر بانو نے ایک فیصلہ کرلیا تھا ۔ وہ ہاشم زبیری کے چنگل سے فرار چاہتی تھی۔ پہلے اس نے یہ ہی سوچا تھا کہ وہ جتنا ہاشم زبیری کو اپنے اشاروں پر نچا کر ا س جو کچھ بھی سمیٹ سکتی ہے وہ سمیٹ کر رفوچکر ہوجائے گی۔
لیکن جب سے اس نے ہاشم زبیری کی خفیہ تجوری دیکھی تھی،وہ ہیرے اور غیر ملکی کرنسی اس کی آنکھو ں کے آگے سے محو نہیں ہورہی تھی۔وہ اس تجوری سے سب کچھ نکال کر فرار ہوجانا چاہتی تھی،لیکن وہ یہ کام اکیلی نہیں کرسکتی تھی۔ اس گھر سے نکلنا بھی اس کے لئے آسان نہیں تھا۔پہلی ہی نظر میں وہ جنید کو پسند کرنے لگی تھی۔ایک وہی اس کی نظر کے سامنے تھا۔
اس کی سوچ جنید پر آکر ہی رکتی تھی۔وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح سے جنید اس کے ساتھ مل جائے اور وہ دونوں اس تجوری پر ہاتھ صاف کرکے فرار ہوجائیں اور باقی کی زندگی ایک ساتھ گزاریں۔
سحر بانو کو یہ پتہ تھا کہ جنید اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔وہ ہاشم زبیری کا وفادار غلا م ہے۔لیکن اس نے دونوں کے درمیان ہونے والی باتیں سن لی تھیں اور جو سلوک ابھی ہاشم زبیری نے اس کے ساتھ کیا تھا وہ بھی جان گئی تھی، جس سے اُس کو اُمید ہوئی تھی کہ ان حالات میں جنید اس کا ساتھ دینے کے لئے شاید رضا مند ہوجائے۔
 
”اندر آجاوٴ مجھے ضروری بات کرنی ہے۔“سحر بانو کہہ کر کمرے میں چلی گئی اوراس نے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔ جنید نے چند ثانئے سوچا اور اس کے پیچھے چل پڑا۔ سحر بانو نے دروازہ بند کردیا۔یہ کمرا ممتاز بیگم کے کمرے کے برابر میں تھا اور دونوں کمروں میں آنے جانے کے لئے اس کمرے میں ایک دروازہ بھی تھا۔
”کیا بات ہے۔؟“جنید نے پوچھا۔
”ہاتھ پر دوائی لگادوں۔؟“سحر بانو کے اس سوال سے جنید چونکا حالانکہ اس نے اپنا ہاتھ لٹکایا ہوا تھا اور کسی طرح کی تکلیف اس کے چہرے سے غماز نہیں تھی۔
”تمہیں کیسے پتہ ہے۔؟“جنید نے پوچھا۔
”میں نے تم دونوں کی باتیں سن لی تھیں۔جو کچھ تمہارے ساتھ کمرے میں ہوا وہ مجھ سے چھپا ہوا نہیں ہے۔“سحر بانو نے سچ بول دیا۔
”یہی بات کرنی تھی۔
؟“جنید بولا۔
”تم ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک ہاشم زبیری کے ساتھ وفاداری نبھاتے رہے۔اس کی ایک آواز پر تم نے دوسری سانس بعد میں لی اور اس شخص کا حکم سننے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے۔آج جب اس کی بیٹی کا معاملہ سامنے آیا تو اس آدمی نے برداشت کی حد توڑ دی اور تکلیف دیتے ہوئے تمہاری ایک بھی وفاداری یاد نہیں کی،وہ ایک ظالم شخص ہے۔ یہی اس کا دوسرا روپ ہے۔
“سحر بانو یہ کہتی ہوئی پاس پڑی مرہم اُٹھا کر اس کے ہاتھ پر لگانے لگی۔ وہ واپس کمر ے میں آئی تھی تو ا س نے یہ مرہم اپنے بیگ سے نکال کر اپنے پاس رکھ لی تھی۔
جنید کے دل میں ہاشم زبیری کے خلاف نفرت سر اُٹھا چکی تھی۔جس یقین کے ساتھ وہ وفاداری نبھاتا رہا تھا وہ یقین ٹوٹ گیا تھا۔ریحان ٹھیک کہہ رہا تھا۔اس نے شاید ہاشم زبیری کا دوسرا روپ دیکھ لیا تھا اور وہ موقعہ ملتے ہی اسے چھوڑ کر چلا گیا۔
اس وقت بھی جنید کو ریحان یاد آنے لگا۔
”کیا سوچ رہے ہو۔؟“سحر بانو اس کے ہاتھ پر مرہم لگا چکی تھی۔
جنید نے اثبات میں سر ہلایا۔”زندگی میں پہلی بار مجھے پتہ چلا ہے ہاشم زبیری جو ہے وہ دکھائی نہیں دیتا۔“جنید کے منہ سے یہ بات سن کر سحر بانو مسکرائی۔ اس نے د ل ہی دل میں کہا کہ چلو جنید کی سوچ میں تغیر تو آیا۔اس کے اندر بھی بغاوت نے جنم لیا۔
”میں مجبور لڑکی اس گھر میں اس کی بیوی کے علاج کے لئے آئی تھی۔لیکن یہاں قید ہوکر رہ گئی ہوں۔میرا باپ دنیا سے چلا گیا۔میری سوتیلی ماں اور اس کے بیٹے نے میرے گھر پر قبضہ کرلیا۔میں اس دنیا میں تنہا رہ گئی۔اور ہاشم زبیری مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔میرا اس گھر سے نکلنا بند ہوگیا ہے۔ہاشم زبیری ہی نہیں ڈاکٹررفاقت بھی مجھے اپنی دلہن بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔
“سحر بانو بولی۔
جنید نے کہا۔”کیا وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔“
”ہاں…اگر میں نے انکار کیا تو وہ مجھے جان سے مار دے گا۔یہ مجھے اس نے خود کہا ہے۔“ سحر بانو بولی۔
جنید متحیر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔”اگر ایسی بات ہے تو تم یہاں سے فرار ہوجاوٴ۔“
”کہاں سے بھاگوں گیٹ پر پہرے ہیں۔“
”اس بنگلے سے نکلنے کے لئے ایک خفیہ راستہ بھی ہے۔
”تم جانتے ہو۔“ایک دم سحر بانو نے اس کی طرف اُمید بھری نگاہوں سے دیکھا۔
”میں بنگلے کا چپہ چپہ جانتا ہوں۔تم وہاں سے فرار ہوجاوٴ۔“جنید نے کہا۔
”میں فرار ہوکر کہاں جاوٴں۔میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔باہر نکلوں گی تو یہ مجھے پھر تلاش کرلے گا۔یہ نہیں تو مجھے ڈاکٹر رفاقت ڈھونڈ لے گا۔اور میں پھر ان دونوں میں سے کسی کی زنجیر سے بندھ جاوٴں گی۔
میں چاہتی ہوں کہ کہیں دور چلی جاوٴں۔“
”تو تم کہیں دور نکل جاوٴ۔جہاں یہ دونوں تم کو تلاش نہ کرسکیں۔“
”اکیلی…؟؟“
”اکیلی ہو تو اکیلی ہی جاوٴ گی۔“
”تم بھی تو اب اکیلے ہی ہوگئے ہو۔جس یقین اور وفاداری کی زنجیر سے تم بندھے ہوئے تھے وہ تو آج ٹوٹ گئی ہے۔تم بھی میرے ساتھ چلو ،ہم کہیں دور چلے جائیں گے ۔ جہاں ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔
“سحر بانو اس کی طرف محبت سے دیکھ رہی تھی۔
”میں نے اب تک صر ف اور صرف ہاشم زبیری کی وفاداری کی ہے۔جو کھانے کے لئے ٹکڑے اس نے میرے آگے ڈال دیئے وہ میں نے کھالئے۔میں تمہارے ساتھ بھاگ نہیں سکتا۔میرے پاس زندگی گزارنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔“
”اگر کچھ ہوتا توپھر کیا کرتے۔؟“
”جو کچھ آج میرے ساتھ ہوا ہے ،میں کبھی ہاشم زبیری کے سامنے نہ آتا۔
“جنید نے متانت سے کہا۔”میں تہی دست ہوں۔“
سحر بانو بولی۔”اس بنگلے میں چھپے ہوئے ایک خزانے کا میں راز جانتی ہوں۔ہم دونوں اگر وہ خزانہ نکال لیں تو ہم کہیں بھی اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں۔“
”خزانہ…؟؟“
”ہاں…میرا ساتھ دو۔میں تمہیں اس خزانے تک لے جاتی ہوں۔وہ خزانہ نکال کر ہم اس خفیہ راستے سے نکل جائیں گے جو تم جانتے ہو۔
“سحر بانو نے کہا۔
جنید کے لئے یہ بات حیرت کا باعث تھی۔ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ باہر سے ہاشم زبیری کی غراتی ہوئی آواز آئی۔وہ اپنے ملازم سے کہہ رہا تھا۔”اگر جنید باہر نہیں گیا تو وہ اس بنگلے میں کہاں ہے۔“
جنید نے فوراً دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔راہداری میں ہاشم زبیری اپنے ملازم کے ساتھ گزر رہا تھا۔وہ جنید کو دیکھ کر رک گیا۔
”تم یہاں کیا کررہے ہو۔؟“
”میں باتھ روم میں گیا تھا۔“جنید نے بہانہ کیا۔ہاشم زبیری نے اس کی طرف دیکھ کر بند دروازے پر نظر ڈالی۔جنید پھر بولا۔”ایم سوری …مجھے اس کمرے کا باتھ روم استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا مثانہ پھٹ جائے گا۔ مجھ سے چلنا مشکل ہورہا تھا اس لئے میں اس کمرے کے باتھ روم میں چلا گیا۔“
”فارغ ہوگئے ہو۔؟“
”یس سر۔“
”جاوٴ اور اپنا کام کرکے آوٴ۔“ہاشم زبیری نے کہا اور جنید اس جگہ سے چلا گیا۔اس کے جانے کے بعد ہاشم زبیری کمرے کی طرف بڑھا اور اس نے دروازہ ایک جھٹکے سے کھول کر اندر جھانکا۔کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔سحر بانو دوسرے دروازے سے ممتاز بیگم کے کمرے میں چلی گئی تھی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum