Episode 25 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 25 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری رات کو جنید کے ساتھ ڈاکٹر رفاقت کی عیادت کے لئے ہسپتال چلا گیا۔ ڈاکٹر رفاقت کا آپریشن ہوچا چکا تھا۔اُسے شدید چوٹیں آئی تھیں۔کچھ دیر قبل ہی وہ ہوش میں آیا تھا۔
ہاشم زبیری نے اس کے کمرے میں جاکر جنید کے ہاتھ سے پھولوں کا گلدستہ لے کر ڈاکٹر رفاقت کے سرہانے رکھ دیا اور کرسی گھسیٹ کر اور اس کے قریب کرلی۔اس کا چہرہ ڈاکٹر رفاقت کے چہرے کے پاس ہوگیا تھا۔
جنید ایک طرف کھڑا تھا جبکہ اور کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔
”جب مجھے پتہ چلا تمہارا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے پیروں تلے سے کسی نے زمین کھینچ لی ہے۔“ہاشم زبیری بولا۔
”ہوں…“ڈاکٹر رفاقت نے محض منہ سے آواز نکالی۔
”پولیس میں رپورٹ کی ہے کہ نہیں۔اگر نہیں کی تو مجھے بتاوٴ میں پولیس کو ابھی بلالیتا ہوں۔

(جاری ہے)

“ہاشم زبیری نے پوچھا۔
”کل دیکھوں گا۔“ڈاکٹر رفاقت نے نحیف آواز میں کہا۔
”کل دیر ہوجائے گی۔“
”میرا وکیل ابھی گیا ہے۔“
”تمہارا وکیل تو محض کاغذی کارروائی کرسکتا ہے۔میرے تعلقات ایسے ہیں کہ پولیس کا بڑے سے بڑا آفسر تمہارے ا س کمرے میں آ موجود ہوگا۔“
”شکریہ۔“ 
ہاشم زبیری نے جنید کی طرف دیکھا اور وہ اشارہ سمجھتے ہی کمرے سے باہر چلا گیا۔
اب وہ دونوں ہی کمرے میں رہ گئے تھے۔
”بھابی بتارہی تھیں کہ بہت شدید چوٹیں آئی ہیں۔ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ہاتھ میں بھی فریکچر ہو گیا ہے۔تین ماہ تک تم بیڈ پر ہی رہو گے۔تین ماہ بیڈ سے اُٹھ کر تم کہیں نہیں جاسکو گے تو تم اپنے اُدھورے کام کیسے کرو گے۔“ ہاشم زبیری کہہ ایسے رہا تھا جیسے وہ ہمدردی کررہا ہو لیکن ڈاکٹر رفاقت سمجھ رہا تھا کہ وہ کس لہجے میں کیا بات کررہا ہے۔
”تمہاری مصروفیات اور پلاننگ دھری کی دھری رہ جائیں گی۔تمہاری سوچیں تمہارے دماغ میں ہی زنگ آلود ہوجائیں گی۔“
”ہاشم زبیری…اپنے اُدھورے کام کیسے پورے کئے جاتے ہیں تمہاری دوستی میں میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔“
”میری دوستی دیکھی تم نے…دوستوں سے میں کچھ نہیں چھپاتا۔خیر میں تمہیں بتانا چاہتا تھا کہ میں سحر بانو سے شادی کرنے والا ہوں۔
میری اس سے بات ہوچکی ہے۔بہت خوبصورت ہے۔لاجواب حسن کی مالکن ہے وہ۔بہت جلد ہم میاں بیوی بن جائیں گے ۔ افسوس کہ تم بیڈ پر ہوگے۔“
”میں نے ابھی جو میڈیسن کھائی ہے اس میں نیند کی گولی تھی۔مجھے نیند آرہی ہے۔“ ڈاکٹر رفاقت بولا۔
ہاشم زبیری مسکرا کر کھڑا ہوگیا۔”سو جاوٴ…اور سوچو کہ اب تم کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کیسے میری بات کسی سے کرو گے۔
“ہاشم زبیری نے تمسخرانہ مسکر اہٹ نچھاورکی اور کمرے سے نکل گیا۔ڈاکٹر رفاقت بیڈ پر تلملاتا رہ گیا۔
###
ٹھیک چار بجے جب ہاشم زبیری گاف کلب میں اپنے دوستوں کے ساتھ گاف کا کھیل کھیل رہا تھا،ظفر ایک طرف آکر کھڑا ہوگیا۔اس نے بہترین لباس پہنا ہوا تھا اور وہ بہت اچھا لگ رہاتھا۔ہاشم زبیری اسے دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ ظفر ہی ہے۔
اس نے اپنا کھیل اسی جگہ چھوڑا اور ظفر کے پاس چلا گیا۔مصافحہ کرتے ہوئے دونوں نے ایک دوسرے سے اپنا تعارف کرایا اور ہاشم زبیری اس کو ایک درخت کے نیچے لے کر کرسیوں پر بیٹھ گیا۔دور تک گاف گراوٴنڈ دکھائی دے رہی تھی اور ارد گرد اونچے درخت ایستادہ تھے۔
”تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی ینگ مین…“
”شکریہ سر۔“
”ثانیہ بتارہی تھی کہ تمہاری فیملی گاوٴں میں رہتی ہے۔
”جی…میں نے اسی شہر میں تعلیم مکمل کی اور یہیں جاب کرتا ہوں۔مجھے یہ شہر پسند ہے۔“
”فیوچر میں بھی نوکری کرنے کا ہی ارادہ ہے۔“
”نوکری نہیں کروں گا تو کماوٴں گا کہاں سے۔“ظفر مسکرا کر بولا۔ہاشم زبیری نے قہقہہ لگایا۔وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔اس کے برابر میں بیٹھا ہوا ظفر اس بات سے بے خبر تھا کہ ایک طرف گھنے درختوں کے بیچ اختر اپنے ریوالورسے اس کا نشانہ لئے ہوئے ہوشیار کھڑا ہے۔
جبکہ کار پارکنگ میں جنید کار کھڑی کررہا تھا۔ہاشم زبیر ی کا موبائل فون بند تھا اور ایک ضروری کام کے لئے اسے گاف کلب آنا ہی پڑا۔
ہاشم زبیری نے ظفر کا ہاتھ پکڑا اور اسے کھڑا کرکے بولا۔”ایک ہی جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے کی بجائے چل پھر کر باتیں کرتے ہیں۔“
”جیسے آپ کی مرضی۔“
”میں بہت دنوں کے بعد گاف کلب آیا ہوں۔“ہاشم زبیری نے کہا ۔
ایک طرف گاف کلب کے دو ملازم کھڑے تھے۔ان کے پاس جاتے ہی ہاشم زبیری نے کہا۔” تم نے اپنی مجبوری بتائی ،مجھے افسوس ہے۔لیکن میں یہاں تمہیں کیسے نوکری دے سکتا ہوں۔ اس کیلئے تمہیں میرے آفس آنا ہوگا انٹرویو دینا ہوگا۔پھر تمہاری قابلیت دیکھی جائے گی…“ظفر حیران تھا کہ ہاشم زبیری اچانک کیا کہہ رہا ہے۔ہاشم زبیری کا لہجہ اتنا بلند تھا کہ گاف کلب کے ملازم صاف سن سکتے تھے۔
 اسی اثنا میں بے آواز ریوالور سے گولی نکلی اور سیدھی ظفر کے سینے پر جا لگی۔ظفر کا سینہ خون سے بھر گیا اور وہ تڑپ کر نیچے گر گیا۔ہاشم زبیری چیخا۔
”ارے کس نے گولی چلا دی…کون ہے۔؟“
سب لوگ کھیل چھوڑ کر ان کی جانب دوڑے،جو کھیل دیکھ رہے تھے ان کی بھی توجہ ان کی جانب ہوگئی تھی۔وہاں ایک خوف اور دہشت پھیل گئی تھی۔ہاشم زبیری چیخ رہا تھا۔
اختر کا نشانہ بہت پختہ تھا۔وہ اپنا کام کرکے وہاں سے نکلا اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ایک طرف چل پڑا۔اس نے ریوالور اپنے جیکٹ کے اندر رکھ لیا تھا۔اسی اثنا میں جنید بھی اس طرف آنکلا۔اس کی نگاہ جیسے ہی اختر پٹھان پر پڑی تو اسے حیرت ہوئی کہ یہ یہاں کیا کررہا ہے۔اختر نے بھی ایک نظر اس کی طرف دیکھ لیا تھا اور اس کی چال غیر معمولی تیز ہوگئی تھی۔
حیرت زدہ نگاہوں کے ساتھ جونہی جنید گاف کلب کے اندر پہنچا تو ایک طرف لوگوں کا ہجوم دیکھ کر وہ اسی جگہ رک گیا۔پاس سے ایک لڑکا گزرنے لگا تو جنید نے اس سے پوچھا۔
”کیا ہوا۔؟“
”کسی نے گولی چلا کر لڑکے کو مار دیا۔“
جنید کے قدم برق رفتاری سے اُٹھنے لگے۔ہجوم کو چیر کر جب وہ آگے بڑھا تو یہ دیکھتے ہی وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ظفر کی خون میں لت پت لاش پڑی تھی اور ہاشم زبیری منہ دوسری طرف کئے کسی کو فون کررہا تھا۔جنید نے ایک لمحے میں کچھ سوچا اور اسی جگہ سے واپس اپنی کار کی طرف بھاگا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum