Episode 23 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 23 - زنجیر - فاروق انجم

ڈاکٹر رفاقت کو اسی کے ہسپتال میں پہنچا دیا گیا ۔ جب ایمبولینس آئی اور ڈاکٹر رفاقت کو انہوں نے کار سے باہر نکالا تو وہ کچھ ہوش میں تھا۔ اس نے شدید تکلیف کی حالت میں بتایا کہ اس کا اپنا ذاتی ہسپتال ہے اس لئے اسے وہی لے جایا جائے۔اس کے بعد ڈاکٹر رفاقت شدید تکلیف کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا۔
ڈاکٹر رفاقت کو جب ہسپتال میں پہنچایا گیا تو ا س کی بیوی بھی وہاں موجود تھی۔
ڈاکٹر رفاقت کو فوری ایمرجنسی وارڈ میں پہنچادیا گیا۔وہاں سے ڈاکٹر رفاقت کو اپریشن تھیٹر لے گئے۔کیونکہ ڈاکٹر رفاقت کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی اور اس کے علاوہ اور بھی کئی زخم آئے تھے۔
جنید بھی ہسپتال میں موجود تھا۔جب ڈاکٹر رفاقت کو اپریشن تھیٹر لے گئے تو وہ بوجھل قدموں کے ساتھ ہسپتال سے باہر چلا گیا۔

(جاری ہے)

وہ سوچ رہا تھا اس حادثے میں ہاشم زبیری کا ہاتھ ہے۔

اختر یقینا اس کے حکم کا غلام ہے۔وہ اسی کے کہنے پر ایسا کرتا ہوگا۔پھر ایک دم اسے یاد آیا کہ جب بھی اس نے ہاشم زبیری کا کوئی نہ کوئی لفافہ اختر کو پہنچایا تھا،اس کے بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور پیش آیا تھا جس سے ہاشم زبیری کا کوئی دوست ،جاننے والا، کسی حادثے کا شکار ہوکر یا تو دنیا سے چلا گیا،یا پھر وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچ گیا۔
جب اس نے آخری بار اختر کو ایک بند لفافہ دیا تھا تو اسی رات ریحان کو گولیاں ماردی گئی تھیں۔جنید اپنے آپ سے کہنے لگا کہ اس نے اب تو کوئی لفافہ اختر کو نہیں پہنچایا تھا پھر ڈاکٹر رفاقت کے ساتھ حادثہ کیسے پیش آگیا۔؟
جنید کا ذہن ان باتوں کے بیچ معلق تھا۔وہ ایک دم چونکا۔اُسے ہاشم زبیری کی وہ گفتگو یاد آگئی جو اس نے کار میں بیٹھے ہوئے کی تھی۔
ہاشم زبیری نے ڈاکٹر رفاقت کا دماغ خراب ہونے کی بات کی تھی۔بظاہر جنید کو یہی لگا تھا ہاشم زبیری اسے کہہ رہا ہے لیکن اس کے کانوں کو ہینڈ فری لگی ہوئی تھی اور ہاتھ میں موبائل فون بھی موجود تھا۔ممکن تھا کہ اس نے یہ بات اختر سے کی ہو۔؟
جیسے جیسے جنید سوچ رہا تھا کئی باتیں اس پر منکشف ہورہی تھیں۔جس ہاشم زبیری کے لئے وہ جان دینے کے لئے بھی تیار تھا،اس کا دوسرا روپ جان کر اسے دکھ بھی ہوا تھا اور افسوس کے ساتھ نفرت بھی ہونے لگی تھی۔
جنید نے سوچا وہ سحر بانو کے ساتھ مل کر اس گھر سے فرار ہوجائے گا۔جانے سحر بانو کی نظر میں کونسا خزانہ تھا۔وہ اس خزانے کو سحر بانو کے ساتھ چرا کر فرار ہوجائے گا۔تاکہ اس کے پاس زندگی گزارنے کے لئے روپیہ موجود ہو۔سحر بانو نے کچھ دیکھا ہوگا تو اس نے بات کی ہے۔ سحر بانو کے ساتھ فرار ہونے کے لئے ایک با ر گھر جانا ضروری تھا۔ہاشم زبیری کو ظفر کے بارے میں بتانا بھی اس کی مجبوری بن گیا تھا۔
کیونکہ اس نے ظفر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن ضدی ظفر کچھ سننے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔جنید نے فیصلہ کرلیا اب وہ سحر بانو کے ساتھ فرار ہوکر کہیں اور زندگی کا آغاز کرے گا۔
ایک دم اس کا موبائل بول پڑا اور اس نے چونک کر اپنی جیب سے موبائل فون نکال کر اس کی اسکرین دیکھی تو ہاشم زبیری کا نام عیاں تھا۔
”ہیلو…“
”کہاں ہو۔
؟“دوسری طرف سے پرسکون آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
”میں ڈاکٹر رفاقت کے ہسپتال میں ہوں۔“جنید نے جان بوجھ کر سچ بولا تاکہ وہ ہاشم زبیری کا اس پر رد عمل جان سکے۔
”یہاں کیا کررہے ہو۔؟“ایک بار پھر ویسا ہی لہجہ اسے سنائی دیا۔
”ڈاکر رفاقت کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔وہ شدید زخمی ہیں ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور…“ جنید نے تفصیل بتانی شروع کی۔
”تم یہاں ڈاکٹر رفاقت کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں گن رہے ہو۔میں نے تمہیں دو گھنٹے کا وقت دیا تھا۔جانتے ہو کتنا وقت گزر گیا ہے۔؟“دوسری طرف سے پرسکون آواز سنائی دی۔
”یہ حادثہ میرے سامنے ہوا تھا میں بھی ان کے ساتھ ہسپتال میں آگیا۔وہ آپ کے دوست ہیں۔“جنید نے کہا۔
”وہ میرے دوست ہیں۔یہ میرا معاملہ ہے۔تم ابھی میرے پاس پہنچو۔
“ہاشم زبیری نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور فون بند کردیا۔جنید کو یقین ہوگیا تھا کہ اس حادثے کے پیچھے ہاشم زبیری کا ہاتھ ہے۔کیونکہ سحر بانو نے بتایا تھا ڈاکٹر رفاقت بھی اس سے شادی کرنے کا خواہش مند ہے۔ہاشم زبیری کسی کو اپنے مدمقابل کیسے دیکھ سکتا تھا۔
 ###
ہاشم زبیری بے چینی سے جنید کا انتظار کررہا تھا۔جونہی جنید اس کے سٹڈی روم میں پہنچا ہاشم زبیری نے اس کی طرف دیکھتے ہی کہا۔
”میں نے کبھی سوچا نہیں تھا تم اپنے فرض سے ہٹ کر دوسرے کاموں میں لگ جاوٴ گے۔تمہار ے کام اور زمہ داری کی میں دوسروں کو مثالیں دیا کرتا تھا۔اور آج تم مجھے ہی انتظار کی سولی پر لٹکا کر خود ڈاکٹرر فاقت کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔“
”وہ سر…“
”بس رہنے دو۔اور مجھے بتاوٴ کیا ہوا۔؟“
”اس کا نام ظفر ہے اور وہ خلیل روڈ پر واقع ایک عمارت کے فلیٹ میں رہتا ہے۔
“ جنید نے بتایا۔
”بڑی مشکل سے تم نے تلاش کیا ہوگا مسٹر ظفر کو۔؟“ہاشم زبیری کا لہجہ معنی خیز تھا۔” تمہیں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔“
”وہ جس بائیک پر سوار ہوکر نکل گیا تھا میں نے اس کی بائیک کا نمبر نوٹ کرلیا تھا ۔ رجسٹریشن آفس میں میرا ایک دوست ہے میں نے اس کے ذریعے سے اس کا ایڈریس معلوم کرلیا تھا۔“جنید نے جھوٹ بولا۔
”خوب…خوب…“ہاشم زبیری ایسے تعریف کررہا تھا کہ جیسے وہ اس کے جھوٹ بولنے کی داد دے رہا ہو۔ 
”تم بتاوٴ میں کیا کروں۔تم جانتے ہو کہ میں ثانیہ کی بات اپنے دوست کے بیٹے سے کرچکا ہوں۔اس ظفر کا کیا علاج ہونا چاہئے۔“کچھ دیر کے بعد ہاشم زبیری نے سوال کیا۔
”میں کیا کہہ سکتا ہوں سر۔“جنید بولا۔
”اسے معاف کردیں۔اسے سمجھا دیں کہ وہ اپنی اوقات سے باہر نکل کر جھانکے گا تو اس کی آنکھیں چوندا جائیں گی اور وہ دیکھنے کے قابل نہیں رہے گا۔
“ہاشم زبیری نے مہنگے برانڈ کا سگریٹ اپنے ہونٹوں میں دبا لیا۔
”اس بارے میں آپ بہتر جانتے ہیں۔“جنید نے کہا۔
”اگر میں تم سے مشورہ مانگوں تو تم مجھے کیا مشورہ دو گے۔“ہاشم زبیری نے پوچھا۔
جنید چپ کھڑا رہا۔ہاشم زبیری نے اطمینان سے سگریٹ سلگایا اور منہ سے دھواں چھوڑتے ہوئے کہا۔”تم جاوٴ اور آرام کرو۔“جنید کمرے سے باہر نکل گیا۔ہاشم زبیری نے معنی خیز انداز میں اپنا سر ہلاتے ہوئے اپنے دل ہی دل میں کہا۔
”وقت سے پہلے ہی تم میرے بارے میں جاننے لگے ہو۔گھر کے بھیدی ہو۔مجھے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہو۔اس لئے اب تمہیں بائے…بائے کہنے کا وقت آگیا ہے۔“ہاشم زبیری نے اپنا سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum