Episode 48 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 48 - زنجیر - فاروق انجم

ہاشم زبیری نے اختر کو اپنے پاس بلالیا ۔ہاشم زبیری اس سے کہہ رہا تھا۔”سب سے پہلے تم ثانیہ کے باہر جانے کا انتظام کرو۔میں نے ساوٴتھ افریقہ فون کردیا ہے۔وہ ثانیہ کو ائیر پورٹ سے لے جائیں گے اور دیکھو انتظام ویسا ہی کرنا جیسا پہلے کیا تھا۔“
”آپ فکر نہ کریں ویسا ہی ہوگا۔“اختر نے کہا۔
”دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ شیرو کو میں نے بلایا ہے اس سے یہ پوچھنا ہے کہ جنید کو اس نے کس حویلی میں دیکھا تھا۔
مانتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے ختم کردینا۔تیسرا کام یہ ہے کہ تم آج رات ہی ڈاکٹر رفاقت کا منہ بند کرکے واپس جاوٴ گے۔“
”ٹھیک ہے۔“اختر نے اثبات میں سر ہلایا۔
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور ہاشم زبیر ی کی اجازت سے شیرو اندر آگیا۔شیرو ڈرا اور سہما ہوا تھا۔

(جاری ہے)

وہ ایک طرف ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔جیسے ہی اسے ہاشم زبیری کا پیغام ملا تھا وہ ڈرتا ہوا آگیا تھا۔

ہاشم زبیری نے اس کی طرف قہر آلود دیکھا ۔”بتاوٴتم نے جنید کو کس کی حویلی میں دیکھا تھا۔“
شیرو کے لئے جنید سوہانِ روح بن گیا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اب اگر اس نے جھوٹ بولا تو اس کی جان بخشی نہیں جائے گی۔ہاشم زبیری کا لب ولہجہ ہی اس کے جسم میں دوڑتا ہوا خون سلب کرنے کے لئے کافی تھا۔چنانچہ وہ بولا۔”میں نے اسے ملک خلیل کی حویلی میں دیکھا تھا۔
”پھر تم نے جھوٹ کیوں بولا تھا۔؟“ہاشم زبیری گرجا۔
”مجھے انہوں نے مارا تھا۔“شیرو کانپ گیا۔
”کس نے مارا تھا۔“ہاشم زبیری نے پوچھا۔
”ملک خلیل کے بیٹے سلیم نے مجھے مارا تھا۔اور منع کیا تھا کہ میں آپ لوگوں کو کچھ نہ بتاوٴں۔میری بیوی اور بچے اس گاوٴں میں رہتے ہیں۔مجھے ان کی فکر ہے۔میں کوئی دشمنی نہیں پال سکتا۔
“شیرو کی آواز میں لرزش تھی۔
 ”میرا نمک کھاتے رہے اور مجھ سے ہی جھوٹ بول دیا۔جانتے ہو تم نے ہمارا وقت ضائع کیا ہے۔“ہاشم زبیری اس پر برس پڑا۔شیرو پہلے سے بھی زیادہ سہم گیا۔”یہ بات نہ چھپاتے تو ااج جنید ہمارے پاس ہوتا۔“
”معافی دے دیں۔اب میں نے سچ بتا دیا ہے۔مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ وہ میری بیوی اور بچوں کے ساتھ جانے کیا سلوک کریں۔
ہاشم زبیری سوچنے لگا۔پھر وہ بولا۔”اب تمہیں ویسا ہی کرنا ہوگا جیسا میں کہوں گا،تم سمجھ رہے ہو میری بات ۔“
”آپ مجھ سے بچوں کی قسم لے لیں اب آپ کے ساتھ جھوٹ نہیں بولوں گا۔جیسا آپ کہیں گے ویسا ہی کروں گا۔“شیرو نے ہاشم زبیری کے سامنے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ اور اس کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا۔
”تم سے اس نے کیا کہا تھا۔
؟“
جواب میں شیر و نے وہ تمام باتیں بتادیں جو اس سے الیاس نے کی تھیں۔ہاشم زبیری اور اختر سنتے رہے۔پھر ہاشم زبیری بولا۔
”تم اپنے گاوٴں چلے جاوٴ اور اپنے گھر رہو،ان لوگوں سے بھی ملو اور ان کو بتاوٴ کہ تم نے پتا کرلیا ہے کہ جنید کی تلاش میں ہم لوگ کیوں ہیں۔انہیں بتانا کہ جنید کے پاس دس کروڑ روپے کے قیمتی ہیرے ہیں۔وہ ہیرے اس نے میرے چرائے ہیں۔
اس لئے ہمیں جنید کی تلاش ہے۔“ ہاشم زبیری نے جان بوجھ کر اپنے ہیروں کی قیمت زیادی بتائی تھی۔”ان پر یہ شک مت ہونے دیناکہ ہم سے کوئی تمہاری بات ہوئی تھی۔بلکہ یہ تمہیں ملازموں سے پتا چلا ہے۔“
شیرو بولا۔”جی بہت بہتر میں ایسا ہی کہوں گا۔“
”ا ن سے کہنا کہ تم ایک ہفتہ کی چھٹی پر آئے ہو۔پھر دیکھنا کہ وہ تم سے کیا کہتے ہیں۔جو وہ کہیں ان کی بات سن کر تم ہمارے پاس آجانا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ رات کے کسی پہر یہ بندا تمہارے گھر پہنچے۔تم اس کو ساری بات بتادینا۔“
”بہت بہتر۔“شیرو ان کے آگے ایسے کھڑا تھا جیسے زر خرید غلام ہو۔ایسا ہی تو تھا۔ وہ اس کے ساتھ کوئی بھی سلوک کرسکتے تھے۔ویسے بھی اس دنیا میں ایسا ہی ہورہا ہے کہ کمزور کو طاقتور اپنا غلام کی سمجھتے ہیں۔
”اب تم جاوٴ اور صبح ہوتے ہی اپنے گاوٴں کی طرف چلے جانا۔
یاد رکھنا اگر کوئی گڑبڑ ہوئی تو میں تجھے زمین میں زندہ دفن کردوں گا۔“ہاشم زبیری کا آخری جملہ بولتے ہوئے لہجہ خطرناک ہوگیا تھا۔
”کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی۔میں جاوٴں جی۔“ان کے سامنے کھڑا رہنے سے شیرو کا ڈر بڑھتا ہی جارہا تھا۔
”تم میری بات کو اچھی طرح سے سمجھ گئے ہو۔؟“ہاشم زبیری نے ایک بار پھر پوچھا۔
”جی بالکل اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں۔
“شیرو کو بس یہ تھا کہ وہ ان کے سامنے سے چلا جائے۔
”جاوٴ۔“ہاشم زبیری نے جیسے ہی کہا شیرو کمرے سے باہر چلا گیا۔
”کیا یہ اب بھی ہمارے ساتھ سچ ہی بولے گا۔؟“اس کے جاتے ہی اختر نے اپنا اندیشہ بیان کیا۔
”اس کے چہرے پر خوف نہیں دیکھ رہے تھے تم۔اب وہ اپنے بچوں کو بھی یہ نصیحت ضرور کرے گا کہ کبھی ہاشم زبیری کے آگے جھوٹ مت بولنا۔
”اب میرے لئے کیا حکم ہے۔“
”تم جاوٴ اور ڈاکٹر رفاقت کی زبان کو میٹھی اور لمبی نیند سلا دو۔بہت بولنے لگا ہے اوراس کی آواز کی چنگاریوں سے میرے گھر میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے۔ اس سے پہلے کہمیرے گھر میں آگ لگے اس چنگاری کو ہی دبا دو جو آگ کا باعث بن سکتی ہے۔“ہاشم زبیری نے کہا۔
”میں جاتا ہوں۔“اختر بولا۔
”ایک بات یاد رکھنا۔
اپنے کام میں صفائی کا خیال رکھنا۔کوئی ثبوت نہ ملے۔“ ہاشم زبیری نے تنبیہ کی۔
”پہلے کبھی ثبوت چھوڑا ہے۔“
”احتیاط بہت ضروری ہے۔“ہاشم زبیری نے کہہ کر اپنے مہنگے برانڈ کی سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبا لی۔اختر کمرے سے باہر چلا گیا۔
رات کے دس بج چکے تھے۔اختر ٹیکسی میں سوار ہسپتال تک پہنچا۔ اس نے ٹیکسی ہسپتال سے ایک چوک پہلے ہی چھوڑ دی تھی۔
وہ پیدل ہی ہسپتال تک پہنچا اور اندر جاتے ہی وہ سیدھا استقبالیہ لڑکی کے پاس چلا گیا۔وہاں جاکر اس نے پوچھا۔
”مجھے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔“
”اس کے لئے آپ کو دوسری منزل پر جانا ہوگا۔وہاں ڈاکٹرز موجود ہیں۔“لڑکی نے جواب دیا۔
اختر سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل پر پہنچ گیا۔اسی منزل کے کمرہ میں ڈاکٹر رفاقت زیر علاج تھا۔اختر چلتا ہوا سیدھا اس کمرے کے سامنے پہنچ گیا جہاں ڈاکٹر رفاقت تھا۔
جبکہ مریضوں کو دیکھنے کے لئے ڈاکٹر ز دوسری طرف بیٹھتے تھے جہاں مریضوں کا رش بھی تھا۔
اختر نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور اسے گھماتے ہی دروازہ کھول دیا۔اندر ڈاکٹر رفاقت بیڈ پر لیٹا ہوا ٹیلی وژن دیکھ رہا تھا۔وہ اختر کو جانتا تھا۔اس کو دیکھتے ہی وہ متحیر ہوکر بولا۔
”تم یہاں…“
”آپ کی خدمت کے لئے آیا ہوں۔“
”تم اور خدمت…“یہ کہتے ہی ڈاکٹر رفاقت نے بجلی سی تیزی سے انٹر کام کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
اختر نے موقعہ نہیں دیا اور سرہانہ اُٹھا کر ڈاکٹر رفاقت کے چہرے پر رکھ دیا۔اس نے پورا دباوٴ ڈال دیاتھا۔ڈاکٹر رفاقت مزاحمت کرنے لگا۔ہاتھ پیر چلانے سے سائیڈ ٹیبل سے کچھ چیزیں نیچے گر کر ٹوٹ بھی گئی تھیں۔اختر کی گرفت بہت مضبوط تھی۔کچھ دیر کے بعد ہی ڈاکٹر رفاقت کا جسم ڈھیلا ہوگیا ۔موت کی تصدیق کرنے کے بعد اختر جیسے ہسپتال میں آیا تھا اسی طرح چلا گیا۔اس کی دانست میں تھا کہ وہ اس قتل کے بعد بھی کوئی ثبوت نہیں چھوڑ کر گیا…جبکہ یہ اس کی خام خیالی تھی وہ ڈاکٹر رفاقت کے کمرے میں اپنا ایک ثبوت چھوڑ گیا تھا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum