Episode 58 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 58 - زنجیر - فاروق انجم

جنید کو معلوم نہیں تھا کہ جس کمرے میں اسے بند کیا گیا ہے وہاں اسے کتنی دیر ہوگئی ہے۔کمرے میں اندھیرا تھا۔اس کے ہاتھ پاوٴں کھلے تھے ۔لیکن اس جگہ سے آزاد ہونے کے لئے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا۔
جنید کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ اسے پکڑ کر یہاں تک لانے والے کو ن لوگ ہیں۔اسے اندیشہ تھا کہ ہاشم زبیری کے آدمی اسے پکڑ لائے ہیں اور ہاشم زبیری اب اس سے ایک ایک بات کا حساب وصول کرے گا۔
آدھا گھنٹہ مزید گزرنے کے بعد کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر آنے والے نے بٹن دبایا اور کمرا روشن ہوگیا۔ جنید کئی بار اس بٹن کو دبا چکا تھا لیکن کمرا روشن نہیں ہوا تھا۔اس کا مطلب تھا کہ اس کمرے کی بجلی کا کنکشن باہر تھا اور اسے بند کیا گیا تھا۔اندر آنے سے قبل ان لوگوں نے اس کنکشن کو آن کردیا تھا۔

(جاری ہے)

اندر آنے والا الیاس کا محافظ تھا اور اس کے ہاتھ میں بندوق دکھائی دے رہی تھی۔

اس کے کچھ دیر بعد الیاس بھی اندر آگیا۔جنید ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔دونوں کو دیکھتے ہی وہ چونکا۔
الیاس نے جنید کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔”کیسے ہو جنید …؟“
”تو تم لوگ مجھے یہاں لائے ہو۔؟“جنید نے سمجھتے ہی سر ہلایا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔یہ بتاوٴ بھوک لگی ہے تو کچھ کھانے کے لئے منگواوٴں۔؟ “ الیاس بولا۔
”کیا منگوا سکتے ہو۔؟“جنید نے سوال کیا۔
”جو تم کہو۔جیسا کھانا کھانا چاہو منگوا دیتا ہوں آخر تم ہمارے مہمان ہو اور تمہارے پاس ایک ایسی چابی ہے جس سے ہم دونوں کے دن پھر سکتے ہیں۔“ الیاس نے کہا۔
جنید کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ الیاس کیاکہہ رہا ہے۔”میں سمجھا نہیں کہ تم کیاکہہ رہے ہو۔ مجھے جس طرح سے تم لوگ یہاں لائے ہو مجھے اچھا نہیں لگا۔
”اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔تم اس جگہ سے فرار ہورہے تھے۔ہماری تم پر مسلسل نظر تھی۔ اگر تم بھاگ جاتے تو ہم تو ہاتھ ہی ملتے رہ جاتے۔“ الیاس بولا۔
”مجھ سے وہ کام نہیں ہوسکتا تھا۔میں کسی کی عزت کو اس کی دہلیز سے نکال کر بازار میں بے عزت نہیں کرسکتا تھا۔“
”اس کام کو مارو گولی۔وہ ہم بعد میں دیکھ لیں گے۔اس وقت اہم بات یہ ہے کہ تمہارے پاس دس کروڑ روپے کے جو ہیرے ہیں وہ کہاں ہیں۔
“ 
الیاس کی بات سن کر جنید ایک دم چونکا۔ اسے حیرت ہونے لگی کہ الیاس کو ان ہیروں کے بارے میں کیسے پتا چلا۔ اس نے جان بوجھ کر کہا۔
”تم کن ہیروں کی بات کررہے ہو۔؟“
”دیکھو ہمیں سب پتا چل گیا ہے۔تمہاری تلاش میں ہاشم زبیری…یہی نام ہے ناں اس آدمی کا جس کے تم ملازم تھے۔؟اس ہاشم زبیری کے آدمی ہماری حویلی تک تمہاری تلاش میں پہنچ گئے تھے۔
ہمیں سب پتا چل گیا ہے اب وقت ضائع کرنے کی بجائے تم صاف اور سیدھی بات کرو۔“ الیاس اس کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔
جنید نے سوچا الیاس سچ کہہ رہا ہوگا۔”ہاشم زبیری نے بتایا ہے کہ میرے پاس دس کروڑ کے ہیرے ہیں۔؟“
”جیسے بھی پتا چلا پتا چل گیا۔تم تفصیل میں جانے کی بجائے کام کی بات کرو۔“ الیاس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا تھا۔”اب تم جلدی سے فیصلہ کرلو دس کروڑ روپے کے ہیروں میں تم میرا حصہ رکھتے ہو کہ میں تجھے ہاشم زبیری کے حوالے کرکے تمہاری قیمت وصول کرلوں۔
”اس سے تم کو کیا ملے گا۔اب اگر بات کھل ہی گئی ہے تو پھر چھپانے کی مجھے بھی ضرورت نہیں ہے۔“جنید کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا۔”تم کو یہ غلط بتایا گیا ہے کہ وہ ہیرے دس کروڑ روپے کے ہیں۔“
”تو کیا قیمت ہے ان کی۔“
”وہ ہیرے چور مارکیٹ میں بھی ہنس کر بیس،بائیس کروڑ روپے کے بِک جائیں گے۔“ جنید اپنی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔
اتنی رقم کا سن کر الیاس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ جنید پھر بولا۔”ہاشم زبیری کو میں جانتا ہوں۔وہ سب کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔اپنا کام دوسروں سے لینا جانتا ہے۔دس کروڑ روپے کے ہیروں کا کہہ کر اس نے لالچ کا دانہ تمہارے آگے پھینکا ہے۔تم مجھے ان کے حوالے کردو گے تو کیا ملے گا تجھے…؟ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ہیرے میرے پاس ہیں۔مجھ سے ڈیل کرو ۔
اپنی آزادی کی قیمت میں دیتا ہوں تجھے۔“ جنید نے جان بوجھ کر ان ہیروں کی اتنی قیمت بتادی تھی تاکہ الیاس کے قدم اس کے سامنے جم جائیں۔ 
”کتنا حصہ دو گے مجھے۔؟“الیاس اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔
”تم کتنا چاہتے ہو۔؟“
”آدھا…“الیاس ایک دم بولا۔
”ایسا سوچو بھی نہیں ۔میں تجھے صرف دس لاکھ روپے دوں گا۔“جنید نے کہا۔
”دس لاکھ روپے…؟؟“یہ سنتے ہی ایک دم الیاس اُٹھ کر بولا۔ اتنی رقم کا سنتے ہی اسے غصہ آگیا تھا۔”یہ تم کیا بکواس کررہے ہو۔مجھے تم دس لاکھ روپے دے رہے ہو۔میں بھکاری ہوں۔؟“
”اگر تم کو دس لاکھ روپے نہیں چاہئیں تو تم مجھے ہاشم زبیری کے حوالے کرسکتے ہو۔“ جنید نے بڑے اطمینان سے کہا۔
”اس سے زیادہ ہاشم زبیری مجھے دے دے گا۔
”وہ تمہیں صرف ایک چیز دے گا۔“جنید نے متانت سے اس کی طرف دیکھا۔
جب کچھ ثانئے کے بعد جنید نہیں بولا تو الیاس نے پوچھا۔” کیا دے گا وہ مجھے۔“
”صرف موت۔“ جنید نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔موت کا نام سنتے ہی الیاس ایک لمحے کے لئے ٹھٹکا۔جنید نے کہا۔”وہ ایک ظالم شخص ہے۔ہاشم زبیری دراصل خود ایک غلام ہے۔اپنی ضد،انا،ہٹ دھرمی اور ہارنے کے خوف کا غلام ہے وہ ۔
وہ تجھے ختم کردے گا۔اس لئے مجھ سے ڈیل کرو اور جو میں دے رہا ہوں مجھ سے چپ چاپ لے لو۔“
الیاس اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔وہ سوچ رہا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی فیصلے پر پہنچنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور کررہا ہو۔
”ہیرے کہاں ہیں۔؟“الیاس نے پوچھا۔
”ایک اور جگہ پڑے ہیں۔“جنید بولا۔
”کہا ں ہے وہ جگہ۔؟“الیاس نے کہا۔
”وہ تو میں ایسے نہیں بتا سکتا۔
“جنید نے نفی میں سر ہلایا۔”تم مجھے آزاد کردو۔میں نے وہ ہیرے ایک جگہ چھپائے ہوئے ہیں۔وہاں سے نکالنا میرا کام ہے۔“
الیاس اس کی بات سن کر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔”تم نے یہ بات کہہ کر تومیرے لئے آسانی کردی ہے۔ہیرے تمہارے پاس ہیں۔تم نے ان ہیروں کو کہیں چھپایا ہوا ہے۔ مجھے تم صرف دس لاکھ روپے دے رہے ہو۔بائیس کروڑ کے ہیرے اور مجھے دے رہے ہو صرف دس لاکھ روپے۔
میں فقیر نہیں ہوں۔“
”تم کہنا کیا چاہتے ہو۔؟“جنید اس کا مسکراتا ہوا معنی خیز چہرہ دیکھ کر حیران ہورہا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہاہے۔
”میں نے ابھی ایک فیصلہ کیا ہے۔“
”کیا فیصلہ کیا ہے۔؟“
”میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں تم سے دس لاکھ روپے نہیں لوں گا۔نہ تم سے کوئی ڈیل کروں گا۔بلکہ میں تجھے کہیں جانے ہی نہیں دوں گا۔
اب تمہاری زندگی اس میں ہے کہ تم مجھے ان ہیروں کا پتا بتاوٴ کہ تم نے وہ ہیرے کہاں چھپائے ہوئے ہیں۔بتادو تو ٹھیک ہے ورنہ تب تک تم میری قید میں رہو گے۔ اور اذیت تمہارے ساتھ کسی سائے کی طرف رہے گی،جب تک تم مجھے ان ہیروں کا پتا نہیں بتا دیتے۔“
الیاس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر جنید بھی چونک گیا۔اس نے بائیس لاکھ روپے کے ہیروں کا بتاتے ہوئے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ یہ بات اس کے گلے کا پھندا بن جائے گی۔
وہ الیاس کی طرف دیکھ رہا تھا اور الیاس کے چہرے پر مکار مسکراہٹ عیاں تھی۔
جنید نے غلطی ہوگئی تھی۔اس معاملے کو کسی دوسرے طریقے سے حل کرنے کی ضرورت تھی لیکن اب اس کے کمان سے تیر نکل چکا تھا۔
جنید مسکرایا۔”مجھے منظور ہے۔میں تمہاری قید میں رہنے کے لئے تیا رہوں۔ میں ہر طرح کی اذیت بھی برداشت کرلوں گا۔“
”تو تم تیا ر ہو۔
”ہاں بالکل تیا رہوں۔“
”اس کی وجہ پوچھ سکتا ہوں۔؟“
”ہاں کیوں نہیں۔“جنید کا لہجہ پر اعتماد ہوگیا تھا۔”کیونکہ ہم دو لوگوں نے ہیرے چرائے تھے۔ہم دونوں نے ہی مل کر وہ ہیرے ایک جگہ چھپائے تھے۔میرا ساتھ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔مجھے خبر ملی ہے کہ اس کی ضمانت ہورہی ہے۔ایک دو دن میں اگر اس کی ضمانت ہوگئی تو وہ ہیرے نکال کر چلتا بنے گا۔
جب میرے ہاتھ سے سب کچھ نکل جائے گا تو پھر میں قید میں رہوں یا آزاد کیا فرق پڑتا ہے۔“جنید کہہ کر پھر ہنسا۔
”تم یہ سچ کہہ رہے ہو۔؟“الیاس کے چہرے پر متانت تھی۔”تم جھوٹ تو نہیں بول رہے ہو۔؟“
”مجھے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔کل سویرے میرے ساتھ اس جگہ چلو ہم وہ ہیرے نکال لیتے ہیں۔“
الیاس نے سوچا کہ یہ بات بھی ٹھیک ہے۔اسے ساتھ لے کر پہلے ہیرے نکالیں گے پھر اس کا کام تمام کردوں گا۔یہ سوچتے ہی الیاس بولا۔
”مجھے منظور ہے،ہم صبح اس جگہ چلیں گے۔“

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum