Episode 16 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 16 - زنجیر - فاروق انجم

جنید کو چیک مل گیا تھا اور اُسے ہاشم زبیری نے ہدایت کی تھی کہ یہ چیک ریحان کی امانت ہے وہ ابھی اسے فوراًپہنچا دے۔ جنیداپنے مالک پر بہت خوش تھا اور اس کی کشادہ دلی پرحیران بھی تھا جس شخص کو ہاشم زبیری نے چلنا سکھایا،اُسی نے دھوکہ دیا اور اس پر سیخ پا ہونے کی بجائے وہ اس کے واجبات ادا کرنے کی فکر میں ہے۔اس بات نے جنید کے دل میں ہاشم زبیری کی قدر اور بھی بڑھا دی تھی۔

جنید نے پہلے ریحان کو فو ن کیا اور اس سے ملنے کے لئے وقت مانگا۔ریحان نے اسی وقت خوش دلی سے کہا۔”تم جب چاہو آجاوٴ۔تمہارے لئے وقت ہی وقت ہے۔“
”میں پھر ابھی آتا ہوں۔“جنید بولا اور اُس کے آفس کی طرف چل پڑا۔
ریحان کا آفس بہت خوبصورت تھا۔ریحان نے جنید کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور فوراً اس کے لئے کھانے پینے کا سامان لانے کے لئے آرڈر دے دیا۔

(جاری ہے)

”میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا۔اس لئے تم چائے وغیرہ کا کوئی تکلف نہ کرو۔“ جنید بولا۔
”اس میں تکلف کی کیا بات ہے۔ہمارا ایک تعلق رہا ہے۔ہم نے ایک ساتھ کام کیا ہے۔“ ریحان مسکرایا۔
”تم نے تعلق تو توڑ دیا ہے۔“جنید نے کہا۔
”نوکری سے جواب دیا ہے۔تم لوگوں کے ساتھ تعلق نہیں توڑا۔“ریحان بولا۔”کام یہاں وہاں تو ہوتا ہی رہتا ہے۔
”ایک بات کہوں ریحان۔“
”ایک کی کیا بات کرتے ہو تم مجھے جتنی چاہو باتیں کہو۔“ریحان خوشگوار موڈ میں تھا۔” کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔“
”جس شخص نے تمہیں چلنا سکھایا اس شخص کو تم نے چھوڑتے ہوئے ایسی بے رخی دکھائی کہ جیسے تمہیں قارون کا خزانہ مل گیا ہے اور تمہاری نظر میں باقی سب بونے ہوگئے ہیں۔“ جنید نے کہا۔
ا س کی بات سن کر ریحان کے چہرے پر جو مسکراہٹ رقص کررہی تھی وہ معدوم ہوگئی ۔
وہ کچھ دیر خاموشی اختیار کرنے کے بعدبولا۔”ایک بات کا جواب دو گے جنید۔؟“
”پوچھو۔“جنید نے کہا۔
”تم ہاشم زبیری کے کتنے قریب ہو۔اس کے گھر آجاسکتے ہو،وہ تم سے ہر بات کرلیتا ہے ۔لیکن تم اس شخص کے اتنا قریب ہونے کے باوجود بھی اس سے بہت دور ہو۔“ریحان کے چہرے پر متانت تھی۔”تم اس کے احسان کے بوجھ میں ایسے دبے ہوئے ہو کہ تمہیں اس شخص کی کوئی برائی دکھائی ہی نہیں دیتی۔
”ہاشم زبیری صاحب میرے لئے کیا ہے تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے۔آج میں جو کچھ بھی ہوں ان کی وجہ سے ہوں۔میں احسان فراموش نہیں ہوں۔ان کے اتنے پاس ہوں کہ وہ مجھے بہت آہستہ سے بھی پکاریں تو میری جان بھی ان کے لئے حاضر ہوگی۔“جنید کے دل میں ہاشم زبیری کے لئے احترام تھا۔
”تم اس شخص کے احسانوں کی طرف مت دیکھو ،وہ دیکھنے کی کوشش کرو جو وہ دکھائی نہیں دیتا۔
”تم صرف دولت دیکھو مسٹر ریحان۔یہ دیکھو کون تجھے کیا دے رہا ہے۔کل ہاشم زبیری، آج یہ لوگ اور کل کو کوئی اور ہوگا۔تم لالچی ہو۔پیسے کے پیچھے بھاگتے ہو۔“جنید کو کچھ غصہ سا آگیا تھا وہ ہاشم زبیری کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا تھا۔اس نے اپنی جیب سے بند لفافہ نکال کر اس کے آگے رکھا اور کہا۔”جس شخص کو تم نے چھوڑتے ہوئے پرواہ نہیں کی اس شخص کو تمہارے واجبات کی اتنی فکرتھی کہ مجھے ہر کام چھوڑ کر تمہیں تمہارے واجبات ادا کرنے کی ہدایت کی اور میں تمہارے سامنے تمہیں تمہارے واجبات کا چیک دینے کے لئے کھڑا ہوں۔
“یہ کہہ ہر جنید کھڑا ہوگیا۔
”تم جذباتی ہورہے ہو۔میں نے ہاشم زبیری کے ساتھ کام کرتے ہوئے اپنی آنکھیں بند نہیں رکھی تھیں۔مجھے اس شخص کے دوسرے روپ میں کچھ دکھائی دیا تھا تو میں نے اپنا رخ موڑا تھا۔“
”میں جوکام کرنے آیا تھا وہ میں نے کردیا ہے ،مجھے اور بھی کام ہیں اس لئے میں جارہا ہوں۔“جنید کھڑا ہوگیا۔
”تم کچھ سننے کے لئے تیا ر نہیں ہو اور میں تمہیں اس شخص کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔
“ریحان بولا۔
”بس بہت ہوگیا۔تم اگر ہاشم صاحب کو عزت سے نہیں مخاطب کرسکتے تو برائے مہربانی تم ان کا ذکر بھی مت کرو۔“جنید جانے کے لئے مڑا۔
”صرف مجھے دس منٹ کے لئے کچھ کہنے کا موقعہ دے دو۔تمہارا بھی بھلا ہوجائے گا۔“ ریحان بولا۔
”مجھے اجازت دو ،مجھے اور بھی کام ہیں۔“جنید کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔اس کے ساتھ ہی وہ جانے کے لئے مڑا۔
”چائے آرہی ہے وہ تو پی لو۔میں اب ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔لیکن اس طرح سے ناراض ہوکر مت جاوٴ۔“ریحان نے روکنا چاہا۔
جنید نے گھوم کر ریحان کی طرف دیکھا۔”مجھے کسی احسان فراموش کی چائے نہیں پینی ہے۔“
جنید کہہ کر اس کے دفتر سے چلا گیا۔ریحان نے جانے کے بعد وہ لفافہ اُٹھایا اور اسے دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔”ہاشم زبیری کے حکم کے غلام مسٹر جنید تم نہیں جانتے کہ وہ ایک سانپ ہے۔
جس کا زہر اس کے دانتوں میں ہی نہیں بلکہ پورے جسم میں ہے۔وہ اپنے چھونے والے کو بھی ڈس لیتا ہے۔لیکن تم اس بات سے بے خبر ہو۔“
ریحان کے چہرے پر تاسف تھا۔اور اس نے لفافہ کھول کر دیکھنے کی بجائے ایک طرف رکھ کر کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی پشت سے ٹیک لگالی۔
###
”ریحان کو چیک دے دیا تم نے۔؟“اپنے کمرے میں آنے کے بعد ہاشم زبیری نے جنید سے پوچھا۔
”جی سر میں نے چیک دے دیا ہے۔“جنید نے جواب دیا۔
”کچھ کہا تو نہیں اس نے۔؟“ہاشم زبیری نے سوال کیا۔
جنید کا دل چاہا کہ وہ ریحان کی وہ تمام باتیں ہاشم زبیری کو بتادے جو اس نے کہی تھیں،لیکن پھر اس نے سوچا کہ ان باتوں کے بتانے سے ہاشم زبیری کو دکھ ہوگا۔ وہ بولا۔” نہیں کوئی خاص بات تو نہیں کہی اس نے۔“
”اچھا ہو اکہ اس کا ایک بھی پیسہ میرے کندھوں پر نہیں رہا۔
چیک بھیج دیا ہے۔وہ خود کیش کروالے ورنہ اس کی فیملی والے تو اس چیک کو کیش کروا ہی لیں گے۔“ ہاشم زبیری ایک فائل کو کھول کر اپنے سامنے رکھتے ہوئے ایسے بولا جیسے کمرے میں اس کے سواکوئی دوسرا موجود نہیں تھا۔
”میرے لئے کوئی اور حکم ہے سر۔؟“جنید نے پوچھا۔
”ہاں تم ایک کام اور کرو۔“ہاشم زبیری نے کہہ کر دراز کھول لی۔
”آپ حکم کیجئے سر۔
ہاشم زبیری نے دراز سے ایک خاکی لفافہ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔”یہ لفافہ ابھی اختر کو دے آوٴ۔“
جنید نے لفافہ ہاشم زبیری کے ہاتھ سے لے کر کہا۔”میں ابھی اختر کے پاس چلا جاتا ہوں۔“
”لفافہ دیتے ہوئے اسے تاکید کرنا کہ یہ لفافہ آج ہی گاڑی میں چلا جائے۔راتوں رات اسے منزل تک پہنچانا ہے۔“ہاشم زبیری نے تاکید کی۔
”بہتر سر۔
“جنید نے سر ہلایا۔
”شام ہوگئی ہے۔میں گھر جارہا ہوں۔تم یہ لفافہ دینے کے بعد مجھ سے آکر گھر ملنا۔ “ہاشم زبیری نے فائل بند کردی۔
”میں جاوٴں سر۔؟“جنید نے اجازت مانگی۔
”ہاں تم جاوٴ۔تمہیں دیر ہورہی ہے ۔“ہاشم زبیری نے ایک نظر اپنی گھڑی کی طرف دیکھا۔جنید کمرے سے باہر نکل گیا۔
جنید اسی وقت ٹرکوں کے اڈے کی طرف چلا گیا۔
اس وقت اس جگہ بہت رش تھا۔کئی ٹرک کھڑے تھے۔ان میں کئی ٹرکوں سے مال اتارا جارہا تھا اور بہت سے ٹرکوں کو مال سے بھرا جارہا تھا۔
جنید نے گاڑی پیچھے ہی کھڑی کردی تھی اور وہ پیدل ہاشم ٹرانسپورٹ کے آفس تک پہنچا۔ ایک ملازم نے جونہی جنید کو دیکھا وہ اسے اپنے ساتھ لے کر اختر کے دفتر تک لے گیا۔اختر کو ہاشم زبیری کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ جب بھی جنید اس کے پاس آئے وہ ہر کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوجائے۔
اختر پٹھان کے پاس کچھ آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔اس نے جنید کے کمرے میں آتے ہی سب کو جانے کا اشارہ کردیا۔وہ سب باہر نکل گئے اور آفس میں وہ دونوں ہی رہ گئے۔
”تشریف رکھیں۔“اختر نے اپنی وہ کرسی چھوڑ دی جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا۔
”دیکھو اس آفس میں یہ تمہاری کرسی ہے۔اس پر بیٹھنے کا تمہارا حق ہے۔ اس لئے تم میرے لئے اپنی کرسی نہ چھوڑا کرو۔
“جنید بولا۔
”آپ کی عزت کرنا مجھ پر فرض ہے جنید صاحب۔آپ ہمارے مالک کے خاص الخاص آدمی ہیں۔“اختر پٹھان نے کہا۔
”ہاشم زبیری کا میں چھوٹا سا غلام ہوں۔“جنید نے کہتے ہوئے اپنے کوٹ کی اندر والی جیب سے بند لفافہ نکال کر اختر کی طرف بڑھا دیا۔”یہ سر نے بھیجا ہے اور تاکید ہے کہ اس کو آج ہی ڈلیور کرنا ہے۔“
”آج ہی ہوجائے گا۔
“اختر نے لفافہ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔”بالکل بھی دیر نہیں ہوگی۔“
”میں چلتا ہوں۔“جنید نے کہا۔
”بیٹھیں…ایک کپ چائے کا ہوجائے۔“اختر جلدی سے بولا۔”بہت اچھی چائے ہے۔“
”مجھے ابھی ہاشم صاحب کے پاس بھی جانا ہے۔میں چلتا ہوں۔“جنید نے ایک بار پھر لفافہ ڈلیور کرنے کی تاکید کی اور آفس سے نکل چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد اختر نے لفافے کی طرف دیکھا اور اُسے ایک طرف سے پھاڑکر اندر سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکال لیا۔
اس نے کاغذ کھولا تو اس کے ساتھ ایک تصویر منسلک تھی۔وہ تصور ریحان کی تھی۔اس تصویر کو اچھی طرح سے دیکھنے کے بعد اس نے تصویر ایک طرف کی اور کاغذ پر لکھی تحریرپڑھنے لگا۔تحریر پڑھنے کے بعد اس نے اپنی جیب سے ماچس نکالی او ر دیا سلائی جلا کر تصویر اور لکھی ہوئی تحریر کا کاغذ جلا کر اس کی راکھ کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دی۔اس نے کاغذ پر لکھی ہوئی ایک ایک چیز اپنے دماغ میں محفوظ کرلی تھی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum