Episode 12 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 12 - زنجیر - فاروق انجم

ممتاز بیگم کی طبیعت بہت بہتر ہوگئی تھی۔اب وہ اُٹھ کر چلنے پھرنے بھی لگی تھی۔ دن بھر کمرے میں ہی بند رہنے والی ممتاز بیگم اب خود چل کر ڈائینگ ٹیبل تک جاتی اور اپنے شوہر کے ساتھ ناشتہ بھی کرتی تھی۔
سحر بانو چاہتی تھی کہ وہ اپنے گھر سے ہو آئے۔اس گھر میں آکر اسے اپنے گھر والوں کی کوئی خاص فکر تو نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ ایک بار گھر جانا چاہتی تھی۔
بیمار باپ سے بھی اسے کوئی لگاوٴ نہیں تھا۔ساری زندگی اس باپ نے اس کی ماں کو پیٹنے کے سوا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ وہ خود باپ کی شفقت اور پیار سے محروم رہی تھی۔اور جب اس کی ماں دنیا سے چلی گئی تو جانے کیسے اس نے دوسری شادی رچا کر سوتیلی ماں کو اس کے سر پر بیٹھا دیا تھا ۔جس کا نوعمر بیٹا بھی تھا،جس کی نظریں پہلے دن سے ہی اسے اچھی نہیں لگی تھیں۔

(جاری ہے)

جب سحر بانو نے اپنے گھر جانے کی اجازت ہاشم زبیری سے مانگی تو اس نے ایک نظر سحر بانو کی جانب دیکھ کر پوچھا۔
”خیریت ہے تم کیوں جانا چاہتی ہو۔ممتاز بیگم کی طبیعت ابھی بالکل ٹھیک نہیں ہوئی ہے۔“
”میں صرف دو گھنٹوں کے لئے جانا چاہتی ہوں۔“سحر بانو بولی۔
”ٹھیک ہے چلی جاوٴ۔لیکن اکیلی مت جانا۔“ہاشم زبیری نے کہا۔
”تو پھر کیسے جاوٴں۔“سحر بانو نے پوچھا۔
”تم ایسا کرو…میں تمہارے ساتھ جنید کو بھیج دیتا ہوں۔اسی کے ساتھ جاوٴ اور اسی کے ساتھ واپس آجانا۔“ہاشم زبیری نے سوچتے ہوئے کہا۔جنید کا سن کر سحر بانو دل ہی دل میں مسکرائی۔”کب جانا ہے تمہیں۔“
”ابھی جانا ہے۔“سحر بانو نے جواب دیا۔
”میں جنید کو بلاتا ہوں۔“ہاشم زبیری کہہ کر جانے لگا تو وہ رک گیا۔
وہ واپس سحر بانو کے پاس آیا اور اس کے چہرے پر اپنی نگاہیں جما کر بولا۔”اپنے گھر والوں کو بول آوٴ کہ اب تم واپس اس گھر میں نہیں آوٴ گی۔“
سحر بانو چونکی۔”میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی۔“
”تم واپس آوٴ گی تو میں تمہیں اس بات کا مطلب بھی سمجھا دوں گا۔“ہاشم زبیری نے دھیمے لہجے میں کہا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
سحر بانو اتنی بھی بے عقل نہیں تھی کہ ہاشم زبیری کے بات کرنے کے انداز اور اس جملے میں مخفی مطلب کو نہ سمجھ سکے۔
اس کا دماغ تو پہلے بھی بہت جاگتا تھا،یہ الگ بات تھی کہ وہ کنویں کا مینڈک بن کر زندگی گزار رہی تھی ۔جس دن اس نے اس عالیشان بنگلے میں قدم رکھا تھا اُسی لمحے اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنی اس زندگی کو خیر باد کہہ کر اس زندگی کو اپنانے کی کوشش کرے گی خواہ اسے کیسی بھی قربانی دینی پڑے۔بڑے لوگوں کی چکاچوند زندگی دیکھ کر اس کی سوچوں کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے طبق بھی روشن ہوگئے تھے۔
جنید ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا۔سحر بانو جونہی کار کے پاس پہنچی،جنید نے جلدی سے اندر بیٹھے بیٹھے کا ر کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔سحر بانو ایک لمحے کے لئے رکی اور کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔جنید کو ہاشم زبیری نے یہی ہدایت کی تھی کہ وہ سحر بانو کو اپنے برابر میں بیٹھانے کی بجائے پچھلی سیٹ پر بیٹھا کر لے کر جائے۔اس بات کا سحر بانو کو غصہ تو آیا تھا لیکن اس نے اظہار کرنے سے گریز ہی کیا تھا۔
کار جونہی سڑک پر آئی اور ہاشم زبیری کا بنگلہ پیچھے رہ گیا تو سحر بانو ایک دم بولی۔”ایک منٹ کے لئے گاری روکنا۔“
جنید نے سڑک کی ایک طرف کار روک دی۔سحر بانو کار سے باہر نکلی اور کار کا اگلا دروازہ کھول کر وہ اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔
”اب چلو۔“
”تم آگے کیوں آئی ہو۔؟“جنید نے پوچھا۔
”تم نے مجھے پیچھے کیوں بیٹھایا تھا۔
“سحر بانو نے اُلٹا سوا ل کردیا۔
”یہ سر کا حکم تھا۔“جنید نے بتایا۔
”تم اس کے غلام ہو۔؟یہ کیا تم سر ،سر لگائے رہتے ہو۔“سحر بانو نے منہ بنایا۔ اس کا شوخ پن عیاں تھا۔
”ہاں میں ا ن کا غلام ہوں۔جیسا وہ کہتے ہیں میں ویسا ہی کرتا ہوں۔“جنید نے جواب دیا۔”جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں انہیں سر ہی کہتا ہوں۔“
”غلام…“سحر بانو کے ہونٹوں پر تمسخر انہ مسکراہٹ تھی۔
”ٹھیک کہتے ہو۔یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کا غلام ہے۔کوئی عورت کا غلام ہے،کوئی حسن کا غلام ہے،کوئی پیسے کا غلام ہے،کوئی اپنی خواہشوں کا غلام ہے،کوئی اقتدار کا غلام ہے ،کوئی اپنے غرور اور تکبر کا غلام ہے تو کوئی محبت کا غلام ہے،اور کوئی نشے کا غلام ہے۔ہم سب کسی نہ کسی چیز کی غلامی کی زنجیر کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔“
”تم کس چیزکی غلام ہو۔
؟“جنید نے کار چلاتے ہوئے بولا۔
”میں اپنی خواہشوں کی غلام ہوں۔“سحر بانو نے متانت سے جواب دیا۔
”میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہاری خواہشیں کیا ہیں۔؟“جنید مسکرایا۔
سحر بانو نے پیار بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔” ایک خواہش تو یہ ہے کہ …تم میرے ہوجاوٴ۔“
سحر بانو کا جواب سن کر جنید نے خاموشی اختیار کرلی اور چپ چاپ کار چلاتا رہا۔
سحر بانو کے لئے اس کا بھی دل دھرکنے لگا تھا،لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرسکتا تھا۔شاید ا س کی وجہ یہ تھی کہ جنید نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اس کے آگے ہاشم زبیر ی کا ہی حکم سب سے اہم تھا اور چند ماہ قبل ہی ہاشم زبیری نے باتوں باتوں میں اس سے کہا تھا کہ ،تمہاری شادی بھی میں ہی کروں گا۔کہاں کروں گا یہ مجھے پتہ ہے،کسی کے ساتھ دل مت لگا بیٹھنا بعد میں تمہیں تکلیف ہوگی۔
گویا ہاشم زبیری نے اپنے اس غلام سے محبت کرنے کا اختیار بھی چھین لیا تھا۔
جنید نہیں جانتا تھا لیکن ہاشم زبیری بہت آگے کی سوچتا تھا۔ہاشم زبیری کے نزدیک زندگی شطرنج کی بساط کی طرح ہوتی ہے۔کامیاب وہی ہوتا ہے جو یہ جانتا ہو کہ کونسا مہرہ کب اور کہاں استعمال کرنا ہے۔جنید نام کے اس مہرے کو کس خانے میں کب اُٹھا کر رکھنا ہے،یہ بات ہاشم زبیری سوچ چکا تھا۔
اس مہرے کو استعمال کرنے سے کس کو مات ہوگی یہ بات بھی صرف ہاشم زبیری کے علم میں ہی تھی۔
”تم چپ کیوں ہوگئے ہو۔؟“کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد سحر بانو نے پوچھا۔” تم بھی سوچتے ہوگے کہ ابھی مجھے اس بنگلے میں آئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور میں نے کس بے باکی سے تم کو تم کہنا شروع کردیا ہے اور پھر اپنے دل کی بات بھی کہہ دی ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس چیز کی قائل ہوں کہ جس سے محبت ہوجائے پھر اس محبت کو چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
محبت کی پروان اس کا اظہار ہے اور خاموشی محبت کی موت بھی بن جاتی ہے۔جو میرے دل میں آیا میں نے کہہ دیا۔تم کو اچھا نہیں لگا۔؟“
”کس طرف مڑنا ہے۔مجھے تمہارے محلے کی طرف جانے والے راستے کا پتہ نہیں ہے۔“جنید نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے سامنے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
سحر بانو نے گھو ر کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اسے اپنے محلے کی طرف جانے والی سڑک کی طرف سمجھانے- لگی۔کچھ دیر کے بعد گاڑی سحر بانو کے محلے کے باہر کھڑی تھی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum