Episode 54 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 54 - زنجیر - فاروق انجم

احتشام انتہائی زیرک اور مشاق شخص تھا۔وہ مشتاق احمد کی سوچ سے بھی کہیں زیادہ گہرا شخص تھا۔یہ بات مشتاق احمد نہیں جانتا تھا کہ جب وہ احتشام کو یہ بتارہا تھا کہ یہ بنگلہ اس نے سحر بانو کے نام کردیا ہے تو اس کے دل پر کیا گزر رہی تھی۔جب مشتاق احمد نے یہ کہا تھا کہ اس نے طویل رفاقت کے عوض اسے محض پانچ لاکھ روپے اس کے لئے مختص کئے ہیں تو احتشام کا دل چاہا تھا کہ وہ ابھی اور اسی وقت مشتاق احمد کی گردن تن سے جدا کردے۔
ان تمام باتوں کو اس نے برداشت بھی کیا اور انتہائی تحمل مزاجی سے جوا ب بھی دیا۔اس نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔اس کے اندر کیسا طوفان تلاطم مچا رہا ہے۔وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر ان کے سامنے بیٹھا رہا اور ان کے ہر فیصلے کو تسلیم خم قبول کرتا رہا۔

(جاری ہے)


جونہی وہ اس کمرے سے باہر نکلا اس کا چہرہ دہکتے ہوئے انگار کی طرح ہوگیا تھا۔
اس کی آنکھوں کی سرخی پھیل گئی تھی۔تن بدن میں آگ کے شعلے بھر گئے تھے۔وہ تیز تیز چلتا ہوا کار تک پہنچا اور جونہی وہ کار کو اس بنگلے سے باہر لے کر گیا اس نے کار کچھ دور ایک طرف کھڑی کی اور اپنا موبائل فون نکال کر ایک نمبر ملایا۔
دوسری طرف سے جس شخص کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی وہ اختر تھا۔ جیسے ہی اس کی آواز اس کے کان تک پہنچی تھی ،احتشام غصے سے لبریز بولا۔
”تم لوگوں کی سستی مجھے لے کر ڈوب گئی ہے۔تم نے میرے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔ میری اور تمہاری ایک ڈیل ہوئی تھی۔تم وقت ضائع کرتے رہے اور وہ بوڑھا اپنی ساری جائیداد تقسیم کرکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا ہے۔جانتے ہو اس بوڑھے نے مجھے اپنی کروڑوں کی جائیداد میں سے کیا دیا ہے۔صرف پانچ لاکھ روپے…سنا تم نے صرف پانچ لاکھ روپے۔ میں نے کہا تھا کہ اسے مار کر کہیں پھینک دو۔
اس قصے کو ہمیشہ کے لئے ختم کردو،لیکن تم اپنی ہی مصروفیت میں رہے اور وہ کمینی جس کی کوئی جان پہچان نہیں ہے،جو جانے کس نسل سے تعلق رکھتی ہے وہ اس کے قیمتی بنگلے کی مالکن بن گئی ہے…سن رہے ہو تم…“
”سب سن رہا ہو۔تم جو بولنا چاہتے ہو اور جتنا بولنا چاہتے ہو بول لو۔میں تمہاری ہر بات سن رہا ہوں۔“دوسری طرف سے اختربولا۔
”تم شاید سننے والی کوئی مشین ہی ہو،بس سنتے ہو اور چپ چاپ وقت ضائع کرتے رہتے ہو۔
“احتشام کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
”میں پیسے کا غلام ہوں۔ہاشم زبیری کے حکم کا غلام ہوں۔بس ان دو کی ہی سنتا ہوں۔“ اختر پٹھان نے کہا۔
”پیسہ تم مجھ سے لے چکے ہو۔میرے ساتھ ایک معاہدہ بھی کرچکے ہو لیکن پھر بھی تم نے اس کا کام تمام نہیں کیا۔“احتشام چیخا۔کار کے شیشے چڑھے ہوئے تھے اس لئے اس کی آواز باہر نہیں جارہی تھی۔
”تم سے جو بات ہوئی ہے میں اس کا پابند ہوں۔
لیکن ہاشم زبیری کا ایک کام راستے میں آگیا تھا اس لئے تمہارا کام وقت پر نہیں ہوسکا۔“
”بھاڑ میں گیا ہاشم زبیری اور اس کا کام۔“احتشام دھاڑا۔
”احتشام…ذرا سنبھل کے۔“دوسری طرف سے اختر نے نرم لہجے میں تنبیہ کی۔
”میرا یہاں سب کچھ ہاتھ سے نکل رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ سنبھل کے۔اگر تم سے یہ کام نہیں ہوتا تو مجھے میرا پیسہ واپس کردو۔
”دیکھو احتشام یہ بات یاد رکھو۔اختر جو بات منہ سے نکال دے وہ گردن کٹوا کر بھی پورا کرتا ہے۔میں نے تم سے معاہدہ کیا ہے۔ہمارے درمیان ڈیل ہوئی ہے۔اور دوسری بات یہ کہ میں کچھ بھی سن سکتا ہوں لیکن ہاشم زبیری کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا۔تمہارے ساتھ کیوں کہ دوستی ہے اس لئے برداشت کررہا ہوں۔“
”مجھے تمہاری یہ باتیں نہیں سننی۔
اس بوڑھے کا کچھ کرو۔اگر نہیں کرسکتے تو مجھے ابھی جواب دے دو۔“
”ٹھیک ہے آج رات کو میں اس کا کام تمام کردیتا ہوں۔شام ہوتے ہی تمہیں فون کروں گا۔جب وہ اپنے گھر چلا جائے تو مجھے بتادینا۔“اختر نے کہا۔
”یہ کام آج ہی ہونا چاہئے۔“
”کہہ دیا کہ آج ہوجائے گا تو اس کا مطلب ہے کہ آج ہوجائے گا خواہ طوفان آجائے یا آندھی ۔“
”اس لڑکی کا کیا کرنا ہے جس کے نام بنگلہ کردیا ہے اس بوڑھے نے۔
“ احتشام تلملا رہا تھا۔
”اسے بھی اوپر بھیج دیتا ہوں لیکن اس کے پیسے الگ ہونگے۔“اختر بولا۔
”مجھے منظور ہے۔اسے بھی مار دو۔ابھی مار دو وہ اس بنگلے میں ہے۔“ احتشام نے کہا۔
”ویسے وہ لڑکی ہے کون۔؟“اختر نے پوچھا۔
”پتا نہیں وہ کون ہے۔کہاں سے اُٹھا لایا ہے سنکی اسے۔کیا چکر ہے مجھے معلوم نہیں ۔“ 
”پھر اسے مارنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اسے میں وہاں سے اُٹھا کر لے جاتا ہوں۔ جس کا کوئی اتہ پتہ نہیں اس کا پتہ مزید گم کردیتا ہوں۔“
”جو بھی کرو بس جلدی کرو۔“
”سب جلدی ہوجائے گا۔“
”ٹھیک ہے۔“احتشام نے کہہ کر موبائل فون بند کردیا۔اس کا غصہ ابھی تک اس کے چہرے سے عیاں تھا۔وہ بار بار دائیں بائیں دیکھ کر اپنے غصے کو دبانے کی کوشش کررہا تھا۔لیکن اسے رہ رہ کر سحر بانو یاد آرہی تھی جو بیٹھے بیٹھائے بنگلے کی مالکن بن گئی تھی۔
احتشام نے کا ر اسٹارٹ کی اور سیدھا اپنے آفس میں آگیا تھا۔مشتاق احمد کا پراپرٹی کا آفس بہت خوبصورت اور کشادہ تھا،جو بہترین نقشے کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا۔احتشام نے اپنی میز کی طرف جاتے ہوئے اس کمرے کی طرف دیکھا جہاں مشتاق احمد بیٹھتا تھا۔اس کمرے میں بڑی میز اور اس کے پیچھے بادشاہوں والی کرسی دکھائی دے رہی تھی۔احتشام کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اس کرسی پر اس آفس کا مالک بن کر براجمان ہو۔
آج اس کرسی پر بیٹھنے کی خواہش کچھ زیادہ ہی اُمڈ آئی تھی۔
احتشام بے دلی سے کام کرتا رہا۔مشتاق احمد کے انتظار میں کچھ لوگ براجما ن تھے۔ان میں کچھ اخبار پڑھ رہے تھے جبکہ کچھ بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کررہے تھے۔احتشام کو آفس میں ایک گھنٹہ بیت گیا تھا۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد مشتاق احمد کی آمد ہوئی۔وہ رضوی کی کار میں آیا تھا۔
رضوی اسے باہر سے ہی چھوڑ کر چلا گیا۔مشتاق احمد اپنے کمرے میں جانے سے قبل سب سے ملا اور اندر جاتے ہی احتشام کو بلا لیا۔احتشام نے اپنے چہرے کو نارمل کیا اور مشتا ق احمد کے سامنے کھڑا ہوگیا۔آج اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ مشتاق احمد کا گلہ دبا دے۔
”احتشام…آج میری کوئی ڈیل ہے کسی کے ساتھ…“مشتاق احمد اپنے سینے پر ہاتھ ملتے ہوئے بولا۔
”جی ہاں ایف بلاک کا جو بنگلہ کل دکھایا تھا اسے خریدنے والے آگئے ہیں۔کیا میں دوسری پارٹی کو بھی اطلاع کردوں تاکہ خرید و فروخت ہوسکے۔“احتشام نے کہا۔
مشتاق احمد کے سینے میں کچھ دیر قبل ہلکی ہلکی درد شروع ہوئی تھی جو اب مزید بڑھ گئی تھی۔ اس کا ہاتھ سینے پر چل رہا تھا۔
”تم ایسا کرو کہ بلا لوتاکہ …“مشتاق احمد کہتے ہوئے رک گیا۔
اس کے سینے میں ہونے والی درد مزید بڑھ گئی تھی۔
”کیا ہوا بھائی صاحب۔“
”میرے سینے میں درد ہے…تم مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جاوٴ…“ مشتاق احمد کے سینے میں درد کی وجہ سے اس کی آواز نکلنا مشکل ہورہی تھی۔احتشام نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ مشتاق احمد کی طرف دیکھا اور دروازہ کھول کر ملازم کو آواز دی۔باہر بیٹھے ہوئے سب لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے۔
”کیا ہوا۔؟“ایک نے پوچھا۔
”بھائی صاحب کے سینے میں شدید درد ہورہا ہے۔“احتشام نے بتایا۔
مشتاق احمد کے سینے میں درد اور بھی بڑھ گیا تھا۔دل کا اچانک دورہ پڑ گیا تھا۔وہ کرسی پر ہی لڑھک گیا۔احتشام جلدی سے اس کی طرف بڑھا۔باہر سے بھی لوگ اندر آگئے تھے۔مشتاق احمد کو اُٹھا کر ہسپتال لے گئے۔احتشام کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے۔
ڈاکٹر نے مشتاق احمد کو دیکھنے کے بعد بتایا۔”ان کی موت راستے میں ہی ہوگئی ہے۔“
احتشام نے سنا تو اس کا دل ایک دم خوشی سے جھوم اُٹھالیکن اس نے اپنے چہرے پر کرب سجا لیا تھا۔اس نے سوچا مشتاق احمد تو گیا ۔اب فوراً اسے سحر بانو کو ٹھکانے لگا نا ہوگا۔
احتشام کے لئے یہ اچھی خبر تھی کہ مشتاق احمد موت سے ہمکنار ہوکردنیا سے چلا گیا ہے اور اب اس کے لئے بہت سا راستہ صاف ہوگیا ہے اور جہاں اسے کوئی رکاوٹ دکھائی دے گی وہ اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لئے اپنا دماغ استعمال کرکے اپنے لئے آسانی پیدا کرلے گا۔
احتشام نے مشتاق احمد کی لاش کو سرد خانے میں رکھوانے کے انتظامات کئے اور مشتاق احمد کے بڑے بیٹے نصیر احمد کو روتے ہوئے اطلاع کی کہ مشتاق احمد شدید دل کے دورے سے جان بحق ہوگیا ہے۔نصیر احمد نے سنتے ہی غمزدہ لہجے میں تاکید کہ اس کے والد کی تب تک تدفین نہیں ہوگی جب تک وہ نہیں پہنچے گا۔نصیر احمد نے یہ بھی کہا کہ وہ باقی بھائیوں کو بھی اطلاع کردیتا ہے۔
اس کام سے فارغ ہوکر احتشام نے مسکرا کر موبائل فون کی طرف دیکھا اور ہسپتال سے ایسے باہر نکلا جیسے مشتاق احمد کی موت کا سب سے زیادہ دکھ اسی کو ہے۔
احتشام سیدھا مشتاق احمد کے اس بنگلے میں چلا گیا جہاں وہ رہائش پذیر تھا۔ اس نے جاتے ہی اس بنگلے کے پرانے ملازم کے سامنے غمزدہ صورت بنا کر بتایا۔
”ایک افسوس ناک خبر ہے۔بھائی صاحب ہارٹ اٹیک سے زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
”یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔؟“ملازم کے سنتے ہی ہاتھ پاوٴں پھول گئے۔”یہ کیسے ہوگیا۔“
”مجھے خود بھی یقین نہیں آرہا ہے۔لیکن یہ سچ ہے۔اس وقت اس کی لاش ہسپتال کے سرد خانے میں ہے اور نصیر احمد کو اطلاع کردی ہے۔ ان کے آنے پر ہی ان کی تدفین ہوگی۔“ احتشام نے کہا۔
”یہ کیسے ہوگیا۔“ملازم کو یقین نہیں آرہا تھا۔”یہ کیسے ہوگیا۔
ہمارے صاحب ہم کو چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔“
”موت اور زندگی کے بیچ محض سانس کی لڑی حائل ہوتی ہے۔وہ ٹوٹ گئی تو زندگی موت کی بانہوں میں چلی جاتی ہے۔“احتشام بولا۔”ہمیں اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ یہ ہی حقیقت ہے۔“
”یہ بہت بری خبر ہے ۔میں ہسپتال جانا چاہتا ہوں۔مجھے ابھی ہسپتال جانا ہے۔“ ملازم روتے ہوئے بولا۔
”وہاں کوئی نہیں جاسکتا۔
تم ایسا کرو تمام ملازموں کو لو اور ان کے دوسرے بنگلے میں چلے جاوٴ۔ان کی تدفین اسی بنگلے سے ہوگی۔میں مہمانوں کو بھی اسی بنگلے کا بتاوٴں گا۔تمام انتظامات اسی بنگلے میں ہونگے۔“دراصل احتشام کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔وہ اس بنگلے کو اس لئے خالی کرنا چاہتا تھا تاکہ اس بنگلے میں محض سحر بانو رہ جائے اور اس کو ہٹانے میں کوئی رکاوٹ مانع نہ ہو۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum