Episode 19 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 19 - زنجیر - فاروق انجم

ثانیہ نے رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنی ماں کے کمرے کا رخ کرلیا۔ثانیہ کچھ دیر تک اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔سحر بانو ایک طرف چپ چاپ بیٹھی رہی۔رات کو ممتاز بیگم کو چیک کرنے کے لئے بھی کوئی دوسرا ڈاکٹر آایا تھا۔سحر بانو سوچ رہی تھی کہ جانے ہاشم زبیری نے ڈاکٹر رفاقت کو کیسے منع کیا ہوگا۔؟
جب ممتاز بیگم کو نیند آنے لگی توثانیہ اُٹھ کر کمرے سے چلی گئی۔
سحر بانو نے کمرے کی روشنی بند کردی اور زیرو کا بلب جلا دیا۔سحر بانو کو ابھی نیند نہیں آرہی تھی۔وہ کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی۔وہ اپنی آئندہ کی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔سحر بانو نے یہ منصوبہ بندی کرلی تھی کہ وہ ہاشم زبیری سے اتنی دولت سمیٹنے کی کوشش کرے گی کہ جس سے اس کی مستقبل کی زندگی آسان ہوجائے۔

(جاری ہے)

اگر وہ ہاشم زبیری سے کچھ حاصل نہ کرسکی تو وہ اس کی خفیہ تجوری سے ہیرے اور غیر ملکی کرنسی لے کر فرار ہوجائے گی۔

اس تجوری تک جانا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔وہ دن کو گھر میں اکیلی ہی ہوتی تھی۔ہاشم زبیری اپنے آفس چلا جاتا تھا اور ثانیہ اپنے کالج روانہ ہوجاتی تھی۔نوکر چاکر اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے،اور پھر ہاشم زبیری کے سٹڈی روم تک جانا سحر بانو کے مشکل نہیں تھا۔ممتاز بیگم کے ساتھ ہاشم زبیری کا کمرہ تھا اور اس ے ملحق سٹڈی روم تھا۔اس طرف نوکروں کا آنا جانا بھی کم ہی ہوتا تھا۔
سحر بانو ابھی ان ہی خیالوں میں مخمور تھی کہ کمرے کا درواز آہستہ سے کھلا اور ثانیہ ایک ٹرے میں کافی کے دو مگ لئے اندر آگئی۔سحر بانو دروازہ کھلنے کی آواز سنتے ہی اس طرف دیکھنے لگی تھی۔
ثانیہ ٹرے لے کر سحر بانو کے پاس چلی گئی اور مسکر اکر ٹرے اس کے آگے کردی۔” اپنے لئے کافی بنانے لگی تو سوچا تم کو بھی اپنے ہاتھ کی بنی کافی پلا دوں۔
اس اچانک تغیر پر سحر بانو کو حیرت ہونے لگی۔”آپ نے میرے لئے کافی بنائی ہے۔؟“
”سچ کہہ رہی ہوں۔کسی ملازم کو بھی اپنے اس کام میں دخل اندازی کرنے نہیں دی۔لو اور پی کر بتاوٴ کہ کیسی بنی ہے۔؟“
سحر بانو نے خوشگوار سی حیرت کے ساتھ ایک مگ اُٹھا لیا۔”شکریہ۔“
ثانیہ نے ٹرے ایک طرف رکھی اور کافی کا ایک گھونٹ لے کر بولی۔
”تم نے ابھی تک کافی پی نہیں۔“
”ہاں…“سحر بانو نے ایک گھونٹ بھرا اور کہا۔”جس ماحول اور جس گھرانے سے میرا تعلق ہے وہاں کافی بنتی نہیں ہے۔میں نے ڈاکٹر رفاقت صاحب کے ہسپتال میں ایک بار کافی پی تھی۔دوسری بار اب پی رہی ہوں۔سچ یہ ہے کہ آپ کی بنائی ہوئی کافی کے پہلے گھونٹ نے ہی بتادیا ہے کہ یہ کافی بہت زبردست ہے۔“
”واقعی زبردست ہے کہ مجھے بنارہی ہو۔
؟“ثانیہ ہنسی۔
”میری ایسی اوقات کیا کہ میں آپ کو ایسی بات کہہ سکوں۔“سحر بانو بولی۔
”دراصل یہ کافی ایک بہانہ ہے۔“ثانیہ نے متانت سے کہا۔”یہ کافی میری طرف سے بڑھا ہوا دوستی کا وہ ہاتھ ہے،جو میں تم سے کرنا چاہتی ہوں۔مجھے اپنے رویے پر افسوس ہے ۔ مجھے تم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔میں اپنی باتوں پر تم سے معافی مانگتی ہوں۔
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔“سحر بانو خوش ہوئی کہ ثانیہ کے دل پر منجمدبرف پگھل گئی ہے۔
”تو پھر دوستی۔“ثانیہ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔
سحر بانو نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔”پکی دوستی۔“
”اس خوشی میں تمہیں کچھ دینا بھی چاہتی ہوں۔“ثانیہ نے کہا۔
”مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
میرے لئے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے کہ آپ نے مجھے اپنی دوستی کے قابل سمجھا۔“
”کل میری چھٹی ہے۔تم میرے ساتھ چلو گی۔“
”کہاں…؟“
”یہ میں کیوں بتاوٴں۔بس تم کل تیار رہنا۔ہم کچھ گھومیں گے،کچھ گپ شپ لگائیں گے اور کھائیں گے۔“ثانیہ ہنستے ہوئے بولی۔اور پھر ایک دم سنجیدہ ہوگئی۔”سحر تم نے مجھے معاف کردیا ہے ناں۔“
سحر بانو نے کافی کا مگ ایک طرف رکھا اور ثانیہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔
سحر بانو نے اس کی بات پر یقین کرلیا تھا اور ثانیہ کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ کل سحر بانو کو آسانی کے ساتھ اس گھر کی چار دیواری سے باہر لے جائے گی۔
 ###
رات بہت دیر تک ثانیہ اور سحر بانو آپس میں باتیں کرتی رہیں۔باتوں باتوں میں ہنسی مذاق بھی ہوااور ثانیہ بھول گئی کہ وہ سحر بانو کے ساتھ ایک چال کھیل رہی ہے اور وہ اسے اس گھر سے باہر کرنے کے لئے یہ سب کررہی ہے۔
اُسے لگا جیسے اس کے ساتھ اس کی کوئی پرانی دوست بیٹھی ہے۔
جب ثانیہ اپنے کمرے میں گئی تھی تو وہ سوچ رہی تھی کہ سحر بانو اچھی لڑکی ہے۔لیکن مجبوری یہ تھی کہ اس کی وجہ سے اس کی ماں کا گھر تباہ ہونے جارہا تھا۔اگر ایسی بات نہ ہوتی تو وہ سحر بانو کے ساتھ اچھی دوست بن کر رہ سکتی تھی۔
صبح جب ہاشم زبیری آفس چلا گیا اور گھر میں ممتاز بیگم کے علاوہ ثانیہ اور سحر بانو رہ گئیں تو ثانیہ نے ڈاکٹر رفاقت کو فون کیا۔
”میں سحر بانو کو لے کر آرہی ہوں۔“اتنی بات کہتے ہی ثانیہ نے فون بند کردیا اور سحر بانو کے پاس چلی گئی۔
”چلو چلیں۔“
”اس وقت۔؟“سحر بانو نے پوچھا۔
”ہاں اس وقت کیا ہے۔امی کو تم نے دوائی دے دی ہے۔نئے ڈاکٹر صاحب چیک اَپ کرکے چلے گئے ہیں اب تم بھی فارغ ہو اور میں بھی…“ثانیہ نے کہا۔
”چلو۔“سحر بانو کو کیا تھا،وہ جانے کے لئے تیار ہوگئی۔
ہاشم زبیری نے کہا تھا کہ وہ اس گھر سے باہر قدم نہیں رکھے گی لیکن اسے لے جانے والی اس کی بیٹی تھی اس لئے اسے کوئی فکر نہیں تھی۔
دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ثانیہ نے گاڑی اسٹارٹ کرکے گیٹ کی طرف دیکھا۔ اُسے حیرت ہوئی کہ چوکیدار گیٹ کھولنے کی بجائے گیٹ کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔ثانیہ نے کچھ انتظار کرنے کے بعد ہارن دیا۔اس کے باوجود چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا اور ثانیہ کے پاس جاکر بولا۔
”یہ گیٹ نہیں کھلے گا بی بی جی۔“
”کیوں…کیوں نہیں گیٹ کھلے گا۔؟“ثانیہ نے متحیر نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
”یہ بڑے صاحب کا حکم ہے۔“چوکیدار نے بتایا۔ہاشم زبیری نے اپنے گھر میں کسرتی جسم کے مالک چوکیدار رکھے تھے۔
”کیا کہہ رہے ہو تم۔اب میں اس گھر سے باہر بھی نہیں جاسکتی۔یہ کیسا حکم ہے۔؟“ ثانیہ کو غصہ آگیا۔
”یہ آپ کے لئے نہیں ان کے حکم ہے۔بڑے صاحب سختی سے کہہ کر گئے ہیں کہ یہ اکیلی یا کسی کے ساتھ بھی گھر سے باہر نہیں جائیں گی۔“
”گیٹ کھولو یہ میرا حکم ہے اور سحر بانو میرے ساتھ باہر جارہی ہے۔“ثانیہ کا لہجہ تحکمانہ تھا۔ 
”میں بڑے صاحب کی حکم عدولی نہیں کرسکتا۔“چوکیدار نے احترام سے انکار کردیا۔ سحر بانو کو اس صورتحال میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔
ہاشم زبیری اسے پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ وہ اس گھر سے باہر نہیں جائے گی۔ اس لئے وہ اطمینان سے بیٹھی ان کی باتیں سنتی رہی۔
”ڈیڈی کا غلام…“ثانیہ نے غصے سے کہتے ہوئے اپنے موبائل فون سے ہاشم زبیری کا نمبر ملایا اور رابطہ ہوتے ہی وہ بولی۔”ڈیڈی یہ کیا بات ہے اس گھر کا چوکیدار اب میری بات بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔“
”اس کی ایسی جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ میری بیٹی کی بات نہ مانے۔
بات کیا ہے پہلے مجھے وہ بتاوٴ۔“دوسری طرف سے ہاشم زبیری نے نرم لہجے میں بات کی۔
”میں اور سحر بانو کچھ دیرکے لئے باہر جارہے ہیں لیکن چوکیدار گیٹ نہیں کھول رہا کہ سحر بانو اس گھر سے باہر نہیں جاسکتی…آخر کیوں۔؟“ثانیہ نے کہا۔
”اوہ…دراصل یہ میں نے ہی منع کیا تھا۔“ہاشم زبیری بولا۔
”آپ نے کیوں منع کیا تھا۔؟“ثانیہ نے پوچھا۔
”کیونکہ سحر کی جان کو خطرہ ہے۔اس کی سوتیلی ماں اور اس کا بیٹا جائیداد کے لئے اسے ماردینا چاہتے ہیں ۔مجھ سے سحر نے بات کی تھی۔“ہاشم زبیری نے اطمینان سے جھوٹ بول دیا۔
”لیکن…“ثانیہ نے کہنا چاہا۔
”لیکن یہ کہ تم ابھی اسے لے کر باہر مت نکلو۔شام کو با ت ہوگی۔“ہاشم زبیری نے کہہ کر رابطہ منقطع کردیا۔کچھ دیر تک ثانیہ اپنے موبائل فون کو دیکھتی رہی اور پھر اس نے سحر بانو کی طرف دیکھ کر سوال کیا۔
”تمہاری جان کو خطرہ ہے۔؟“
سحر بانو کے لئے یہ سوال بڑا عجیب تھا۔ایک دم اس نے سوچا کہ لگتا ہے کہ ہاشم زبیری نے دوسری طر ف سے کچھ ایسی بات کی ہے۔اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔”ہاں میری جان کو خطرہ ہے۔“
”کس سے خطرہ ہے۔؟“ثانیہ جاننا چاہتی تھی کہ سحر بانو کا کیا جواب ہوسکتا۔اس کے ڈیڈی والی بات ہوگی کہ سحر بانو کا جواب مختلف ہوگا۔
سحر بانو نے شاید زندگی میں اس سرعت سے نہ سوچا ہو جس طرح اسے اب سوچنا پڑ رہا تھا۔ اس کے دماغ میں جو پہلا خیال آیا وہ یہی تھا کہ اس کی سوتیلی ماں سے ہی اسے جان کا خطرہ ہوسکتا ہے۔رات بھی سحر بانو نے ثانیہ کے آگے اپنی سوتیلی ماں اور اپنے سوتیلے بھائی کا تذکرہ کیا تھا۔
”مجھے میری سوتیلی ماں سے خطرہ ہے۔“
جواب سن کر ثانیہ کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑگئے۔
اُسے مختلف جواب کی توقع تھی۔ثانیہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا بولے۔وہ حیرت سے سوچتی رہی ۔پھر اس نے سحر بانو کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
”تم اُتر جاوٴ۔“
سحر بانو اسی وقت کار سے باہر نکل گئی۔جونہی سحر بانو نے کار کا دروازہ بند کیا۔ثانیہ نے ہارن دیا اور چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ثانیہ کار باہر لے گئی۔چوکیدار نے گیٹ بند کردیا اور سحر بانو نے عجیب سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر عیاں کی اور اندر چلی گئی۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum