Episode 64 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 64 - زنجیر - فاروق انجم

اختر پٹھان کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئی تھیں۔گولیوں نے اس کی ہڈیاں توڑدی تھیں اور خون بھی بہت زیادہ بہہ گیا تھا۔اختر پٹھان جو دوسروں کو پتھر دل سے موت کی وادی میں پہنچا کر اطمینان کی سانس لیتا تھا اب اپنے سامنے موت کو دیکھ کر اس کی حالت ایک چھوٹے بچے جیسی تھی۔پولیس نے اس کا بیان قلم بند کرلیا تھا۔ٹوٹتی ہوئی سانسوں کے درمیان اس نے بہت کچھ بتا دیا تھا۔
کئی راز اس نے عیاں کردیئے تھے۔ ہاشم زبیری کے چہرے سے اس نے نقاب ہٹا دیا تھا۔
جس وقت پولیس ہاشم زبیری کو گرفت میں کرنے کی منصوبہ بندی کررہی تھی۔ اس وقت پولیس کے ہی ایک آدمی نے ہاشم زبیری کو ساری صورتحال سے آگاہ کردیا۔وہ پولیس والا ہاشم زبیری کے لئے پہلے بھی مخبر کا کردار ادا کرچکا تھا۔تب اسے اچھا خاصا انعام بھی ملا تھا۔

(جاری ہے)

جیسے ہی ہاشم زبیری کے علم میں ساری بات آئی۔
اس نے اپنے منیجر کو اہم ہدایات کیں، اپنے وکیل کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور اپنا ایک بیگ تیار کرلیا۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ اس نے بزنس ٹور کے لئے پہلے سے ہی ٹکٹ بک کروائی ہوئی تھی،لیکن ہاشم زبیری کے جانے کا پروگرام ملتوی ہورہا تھا۔اب اچانک اس صورتحال نے ہاشم زبیری کو جانے پر مجبور کردیا تھا۔ہاشم زبیری جانے سے پہلے اپنی بیمار بیوی کے کمرے میں گیا جو بیٹی کے اچانک چلے جانے پر اور بھی بیمار ہوگئی تھی۔
ممتاز بیگم نے خالی اور اُداس نگاہوں سے ہاشم زبیری کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔
”میں کچھ دنوں کے لئے ملک سے باہر جارہا ہوں۔ملازمین تمہاری اچھی دیکھ بھال کریں گے۔فکر نہیں کرنی میں جلد لوٹ آوٴں گا۔“
ممتاز بیگم کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہاشم زبیری کچھ سننے سے پہلے ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ اپنی سیاہ شیشوں والی کار میں بیٹھا اور اپنے بڑے بنگلے کا گیٹ عبور کرگیا۔
کار کی رفتار بہت تیز تھی ۔ائیر پورٹ جانے کے لئے ہاشم زبیری کی ہدایت پر ڈرائیور نے عام راستے کی بجائے وہ راستہ اختیار کیا تھا جو کچھ دور بھی تھا اور الگ بھی تھا۔
ائیر پورٹ کی عمارت میں جونہی کار رکی۔ہاشم زبیری اپنا بیگ پکڑ کر باہر نکلا اور ائیر پورٹ کی عمار ت میں چلا گیا۔ہاشم زبیری کے اندر عجلت اور بے چینی تھی۔ اس نے اپنے کاغذات چیک کرائے اور ضروری کارروائی کے بعد وہ اندر چلا گیا۔
جیسے ہی ہاشم زبیری نے دروازہ نے دروازہ عبور کیا اس کی چال ہی بدل گئی۔ اس کے جسم میں دوڑتی ہوئی بے چینی معدوم ہوگئی۔چہرے پر اطمانیت آگئی۔وہ ایک کرسی پر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔اس کے چہرے پر فرعونیت تھی اور وہ اپنے آپ سے بولا۔
”اس ملک میں قانون عام لوگوں کے لئے ہے۔غریبوں کے لئے ہے۔ہم جیسے پیسے والوں کے لئے قانون نہیں ہے۔ہمارے پاس پیسہ ہے۔
جب چاہیں ملک سے نکل جائیں جائیں۔جب چاہیں آجائیں۔ایک ملک سے دوسر ے ملک جانا ہم لوگوں کے لئے ایسے ہی ہے جیسے ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلے جانا۔“ہاشم زبیری مسکرایا۔اور پھر بولا۔”مجھے کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ابھی کچھ دیر کے بعد جہاز آسمان کی بلندیوں پر ہوگا اور میرے سر پر ایک نیا آسمان ہوگا۔کوئی نہیں پکڑ سکتا مجھے…میں ہاشم زبیری ہوں۔
اس ملک کا امیر ترین بزنس مین…“ہاشم زبیری نے مسکرا کر دائیں بائیں دیکھا اور اپنی کلائی پر وقت دیکھنے کے بعد ٹوائلٹ جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا۔وہ خراماں خراماں، فرعونیت سے چلتا ہوں ٹوائلٹ تک گیا۔ وہاں سے فارغ ہوکر اس نے ایک بار پھر مسکرا گردن اکڑائی اور چلتا ہوا اپنی سیٹ کی طرف جانے لگا۔ اسی اثنا میں مسافر جہاز میں سوار ہونے کے لئے اس جانب جانے لگے۔
ہاشم زبیری کے اندر اور بھی زعم آگیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ مجھے کوئی نہیں پکڑ سکتا…ہاشم زبیری کسی کی گرفت میں نہیں آسکتا…“
اچانک جانے اس کے پیر کے نیچے کیا آگیا۔اسے پتا بھی نہیں چلا اور وہ اس بری طرح سے پھسلا کہ نیچے گرتے ہی اس کا سر فرش کے ساتھ ایسے ٹکرایا جیسے کسی نے ہاشم زبیری کو اُٹھا کر نیچے پٹخ دیا ہو۔سر کے جانے کونسے حصے پر چوٹ لگی،کوئی خون نہیں نکلا،بس جسم نڈھال اور بے جان سا ہوگیا۔
ہاشم زبیری کا منہ کھلا ہوا تھا۔اس کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کے اس کے ارد گرد لوگ کھڑے ہوکر اس کی طرف متحیر اور تاسف بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ہاشم زبیری کو بھی سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا اور وہ سب کے سامنے مردہ پڑا رہ گیا۔
ہاشم زبیری یہ بھول گیا تھا کہ انسان کتنے بھی جرم کرلے، وہ کتنا بھی سب سے بچ جائے لیکن جب خدا کی گرفت آتی ہے تو پھر کوئی طاقت نہیں بچا سکتی اور یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ …یہ کیسے اور اچانک کیا ہوگیا ہے۔
###
سحر بانو کئی دنوں سے اس بڑے بنگلے میں تھی۔
اس بنگلے میں دنیا کی ہر آسائش اور آرائش تھی۔کھانے پینے کا سامنا اتنا وافر تھا کہ ایک اکیلی جان سحر بانو کئی دنوں تک مزید کھا پی سکتی تھی۔سحر بانو دن اور رات کے پہر کئی بار ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں چلی جاتی تھی۔وہ کئی بار فریج کھول کر دیکھتی، جہاں پھل ،گوشت،مچھلی اور کھانے پینے کا جانے کیا کیا سامان موجود تھا۔
بنگلے کی ان خوبصورت دیواروں میں سحر بانو قید ہوگئی تھی۔یہ احساس بڑی شدت سے اسے کئی بار جھنجوڑتا تھا کہ زندگی ان آسائشوں کا نام نہیں ہے۔بلکہ زندگی ان رشتوں کا نام ہے جو انمول ہوتے ہیں،وہ رشتے جو ایک انسان سے دوسرے انسان کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں وہی زندگی ہوتے ہیں،وہی سانس ہوتے ہیں اور وہی سب سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔
سحر بانو کو جنید کی بڑی شدت سے یاد آرہی تھی۔
وہ ہی ایک ایسارشتہ تھا جو اس دنیا میں سحر بانو کی اُمید تھی۔اس تنہائی میں سحر بانو کو جنید کی یاد اور بھی شدت سے آنے لگی تھی۔رات کا وقت تھا اور سحر بانو رات کے کھانے میں ایک سیب کھاکر سیڑھیوں میں ہی اُداس بیٹھی ہوئی تھی۔ اسی اثنا میں گیٹ کی بیل ہوئی اور سحر بانو ایک دم چونک گئی۔اس کا دل زور سے دھڑکا۔ سحر بانو نے سوچا کہ کون ہوسکتا ہے۔
کچھ دیر کے بعد دو،تین بار پھر بیل ہوئی۔ سحر بانو نے گیٹ فون اُٹھا کر گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
”کون ہے۔؟“
”میں جنید ہوں۔ گیٹ کھولو سحر بانو۔“باہر سے جنید کی آواز آئی۔سحر بانو کو ایسا لگا جیسے صحرا میں بھٹکتے ہوئے کو اچانک پانی مل جائے۔وہ گیٹ کی طرف دوڑی اور گیٹ کھول دیا۔سامنے جنید کھڑا تھا۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
دونوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ایک بار پھر مل گئے ہیں۔
جنید کو سحر بانو اندر لے گئی۔جنید سجے سجائے ہوئے بنگلے کو دیکھ کر حیرت زدہ ہورہا تھا۔کئی سوال اس کے دماغ میں ابھرنے لگے تھے۔
”مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ ہم ایک بار پھر مل گئے ہیں۔مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے ہم اب کبھی نہیں مل سکیں گے ۔اور جب گاوٴں میں میں نے تم کو دیکھا تو میرا دل چاہا کہ میں ابھی تمہیں مخاطب کرلوں لیکن اس موقعے پر خاموشی ہی بھلی تھی۔
“سحر بانو نے کہا۔
”وہ موقعہ ہی ایسا تھا۔میں تم سے ملنے کے لئے بے چین ہوگیا تھا۔اور آخر کار میں تم تک پہنچ ہی گیا۔“جنید بولا۔
”تم کو یہ پتا کیسے چلا کہ میں یہاں رہتی ہوں۔؟“سحر بانو نے پوچھا۔
”تم تک پہنچنے کی قیمت ادا کرکے آیا ہوں۔“جنید کے چہرے پر متانت آگئی۔
”کیا قیمت ادا کی ہے تم نے۔؟“سحر بانو نے اس کی طرف دیکھا۔
”تم سے ملنے کی قیمت معمولی تھی۔یہ بتاوٴ تم نے یہ بنگلہ خریدا ہے۔؟“ جنید نے دائیں بائیں نظر گھمائی۔
سحر بانو کچھ تو قف کے بعد بولی۔”عجیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو الگ ہی سوچتے ہیں۔ یہ دنیا کیسے کیسے لوگوں کی دنیا ہے،انسان پیدا ہوتا ہے اور مر جاتا ہے لیکن کچھ بھی جان نہیں پاتا۔“ سحر بانو نے کہہ کر اس بنگلے میں آنے سے لے کر بنگلے کی مالکن بننے تک کی کہانی جنید کو سنا دی۔
جنید خاموشی سے سنتا رہا۔جب سحر بانو چپ ہوئی تو دونوں کے درمیان خاموشی حائل ہوگئی تھی۔ پھر اس خاموشی کو جنید نے توڑا۔
”زندگی کی سانسیں ہاشم زبیری کے سائے میں چلتی تھیں تو یہی گھمان ہوتا تھا کہ دنیا یہی ہے۔اس جگہ سے نکلا تو پتا چلا کہ دنیا تو میں نے دیکھی ہی نہیں ہے۔غلط ہے یہ کہ غلام وہی ہوتا ہے تو کسی انسان کا غلام ہو۔کسی انسان کا غلام ہوکر ہی غلامی میں زندگی نہیں گزرتی ہے۔
اس دنیا میں سبھی غلام ہیں۔کوئی دولت کا غلام بن کر انسانیت کو بھولا ہوا ہے ،کوئی کسی کے عشق میں مبتلا ہوکر غلامی کی سانسیں لے رہا ہے،کوئی ظلم کرنے میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ وہ اس غلامی میں جیتے ہوئے لطف اندوز ہورہاہے،ہم سب غلام ہیں۔لیکن سچا اور حقیقی غلام وہی ہے جو خدا اور رسول کی غلامی میں زندگی کی سانسیں لے کر اپنی آخرت سنوار جاتا ہے،ورنہ یہاں تو انا،گھمنڈ، اور غرور سے جی کر خوش ہونے والے وحشی زندگی کی شاہراہ پر ایسے رواں دواں ہیں کہ انجام کی کوئی فکر ہی نہیں ہے،انتقام کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے دل پر کوئی بوجھ ہی محسوس نہیں کرتے یہ لوگ،کوئی پیسے کے لئے کسی کو مروا رہا ہے اور کوئی اس لئے مرنے مارنے پر تلا ہوا ہے کہ وہ دوسرے سے زیادہ دولت چاہتا ہے،اسے جو مل رہا ہے وہ اسے اپنے لئے ناکافی سمجھتا ہے۔
“جنید نے کچھ توقف کے بعد سحر بانو کی طرف دیکھ کر کہا۔” ہم ایسی زندگی نہیں گزاریں گے۔ہم زندگی کا سفرکسی کے محل کو اپنا سائبان بنا کر طے نہیں کریں گے۔جس کا یہ بنگلہ ہے ہم اس کو واپس کردیں گے۔ “
”جیسا تم کہو میں ویسا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن جس کا یہ بنگلہ ہے وہ مرچکا ہے۔“
”اس کی اولاد تو زندہ ہے ناں۔“
”ہاں ان کی اولاد تو ہے۔
جنید نے دائیں بائیں دیکھا اور گلدان سے پلاسٹک کا پھول نکال کر سحر بانو کی طرف بڑھاتے ہوئے جنید نے بڑی اپنائیت سے کہا۔”کیا تم مجھ سے شادی کرو گی۔میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا۔“
سحر بانو اس کے ہاتھ سے پھول لتے ہوئے مسکرا کر بولی۔”ہاں میں تم سے شادی کرنے کے لئے تیا رہوں۔“
”شکریہ…شکریہ…“
”تمہارا شکریہ۔
”جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو میرے دل میں جانے کیوں عجیب سی ہلچل ہوئی تھی۔ اور جب تم مجھ سے جدا ہوئی تو میرے دل میں ایسی بے چینی دوڑنے لگی تھی جس کا اظہار کرنا میرے لئے مشکل ہے۔یہ محبت بھی کیسا پھول ہے۔دل کی زمین پر کھلتا ہے تو پتا بھی نہیں چلتا اور جب ایک مسحور کن خوشبو محسوس ہوتی تو پتا چلتا ہے کہ محبت ہوچکی ہے۔“
”تم سچ کہہ رہے ہو۔
”چلو اب تیا ر ہوجاوٴ ہم یہ بنگلہ اس کے مالک کو واپس کرنے کے لئے جارہے ہیں۔“ جنید نے کہا۔
”یہ بنگلہ کس کو واپس کریں گے۔“
”اس شخص کے بیٹے کو۔“ جنید نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔”تم اس بنگلے کے کاغذات لے لو۔“جنید نے کہہ کر اپنی جیب سے موبائل فون نکالا اور موبائل فون میں ایک ہی نمبر محفوظ تھا جو آج ہی اس نے محفوظ کیا تھا۔جنید نے وہ نمبر ملایا اور دوسری طرف سے موبائل فون کے آن ہونے کا انتظار کرنے لگا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum