Episode 59 - Zanjeer By Farooq Anjum

قسط نمبر 59 - زنجیر - فاروق انجم

جنید سے با ت کرنے کے بعد الیاس کمرے سے باہر نکلا اور سیدھا اپنے باپ ملک خلیل کے پاس چلا گیا۔ اس کمرے میں الیاس کا بھائی سلیم بھی بیٹھا ہوا تھا۔ابھی الیاس نے کوئی بات نہیں کی تھی کہ ملک خلیل بولا۔
”یہ کسے اُٹھا لائے ہو تم۔؟کون ہے وہ۔؟“
”آپ کس کی بات کررہے ہیں۔؟“الیاس نے وضاحت چاہی۔
”میں اس کی بات کررہا ہوں جو تجھے راہ چلتے مل گیا تھا۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تم نے اس پر اعتبار کیسے کرلیا۔“ملک خلیل نے کہا۔
الیاس سمجھ گیا کہ اس کا باپ اختر کی بات کررہا تھا جس نے اپنا فرضی نام الیاس کو بتایا تھا۔
”وہ مشکوک آدمی ہے۔میں اس کی مدد کے خیال سے ہی حویلی میں لے کر آیا تھا۔ بعد میں احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔“الیاس نے اعتراف کیا۔

(جاری ہے)

”جانتے ہو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
وہ ہمارے دشمنوں کا آدمی ہوسکتا ہے۔کوئی پولیس والا ہوسکتا ہے۔کوئی مخبر نکل سکتا ہے۔ “ملک خلیل نے کہا۔
”ابا جی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔“سلیم نے بھی باپ کی بات کی تائید کی۔
الیاس نے اپنی ٹھوڑی پر خارش کرتے ہوئے کہا۔”میں بھی اس بات کو مانتا ہوں۔ بس یہ سوچ ہی بعد میں آئی۔اس کی باتیں بھی کچھ عجیب سی ہیں۔“
”اب ایک کام کرو۔
“ملک خلیل نے گہری متانت سے کہا۔
”حکم کریں ابا جی۔“الیاس بولا۔
”رات کا اندھیرے میں تم اسے حویلی میں لے کر آئے ہو۔رات کا اندھیرا اب اور بھی گہرا ہوگیا ہے۔اسی اندھیرے میں اسے لے جاوٴ اور اس کی ٹانگ میں گولی مار کر کسی کھیت میں پھینک آوٴ۔“ملک خلیل نے کہا۔
”ٹانگ میں گولی مار دوں۔؟؟“الیاس ہچکچایا۔
”اس کا یہی حل ہے۔
“ملک خلیل نے زور دیا۔
”ہم اسے ویسے بھی تو اپنی حویلی سے نکال کر کہیں چھوڑ سکتے ہیں۔“الیاس نے کہا۔
ملک خلیل نے الیاس کی طرف دیکھا۔”ملک خلیل دشمنی میں سائے کو بھی معاف نہیں کرتا۔یہ کوئی بھی ہے۔جس نیت سے بھی آیا ہے اس حویلی سے تحفہ لئے بغیر نہیں جائے گا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے الیاس…دشمن کے بھاگنے والے گھوڑے کو مارنے سے بہتر ہے کہ لنگڑا کرکے چھوڑ دیا جائے۔
“ 
”اور اگر وہ دشمن کا آدمی نہ نکلا تو۔؟“
”کیا تجھے ایسا لگتا ہے۔؟؟“ملک خلیل نے اپنی سوالیہ نگاہیں الیاس پر مرکوز کردیں۔
الیاس نے کہا۔”ایسا تو نہیں لگتا۔وہ مجھے لگتا تو فراڈ ہی ہے۔“
”تو پھر جاوٴ اور جیسا میں نے کہا ہے ویسا کرو۔کل کا سورج یہ حقیقت کھول دے گا کہ وہ کس کا آدمی تھا۔کس نے بھیجا تھا۔بس اتنا یاد رکھنا کہ جو کچھ بھی کرو احتیاط سے کرنا۔
“ملک خلیل نے تاکید کی۔
الیاس نے سلیم کی طرف دیکھا۔”چلو سلیم۔“
”صرف ایک جائے۔تم چلے جاوٴ یا پھر سلیم جائے گا۔اپنے ساتھ آدمی لے کر جانا۔“ ملک خلیل نے کہا۔
”پھر میں ہی جاتا ہوں۔“
”جنید کیا کہتا ہے۔؟“ملک خلیل نے پوچھا۔
”وہ خزانے کی چابی ہے۔اس کے پاس ہیرے ہیں اور بھی بائیس کروڑ روپے کے۔“ الیاس نے بتایا۔
اتنی قیمت کے ہیروں کا سن کر ملک خلیل کی آنکھوں کی چمک دو چند ہوگئی تھی۔اس نے ٹپکتی رال کے ساتھ دہرایا۔”بائیس…کروڑ… کے ہیرے۔“
”اس نے ایک جگہ چھپائے ہیں۔کل میرے ساتھ وہ جائے گا۔ہم اس جگہ سے دونوں جائیں گے لیکن سلیم آدمیوں کے ساتھ ہمارے پیچھے ہوگا۔جہاں بھی اس نے ہیرے رکھے ہیں وہ نکال کر ہم جنید کو مار دیں گے۔“الیاس نے اپنا منصوبہ سنایا۔
ملک خلیل تو ابھی تک بائیس کروڑ روپے کی خوشبو اپنے نتھنوں میں ایسی محسوس کررہا تھا کہ جیسے وہ مدہوش ہوگیا ہو۔
الیاس کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ اس کا باپ ٹھیک کہہ رہا ہے۔وہ شخص دشمن کا آدمی بھی ہوسکتا ہے۔رات کے کسی پہر اس حویلی میں کوئی بھی نقصان ان کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اس شخص کو باہر لے جاکر اس کی ٹانگ میں گولی مار دی جائے۔
الیاس نے اپنے ساتھیوں کو تیار کیا اور خود اختر کے کمرے میں چلا گیا۔اختر اس وقت چارپائی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔الیاس کو اندر آتا دیکھ کر وہ اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”سوئے نہیں ابھی تم۔؟“الیاس نے پوچھا۔
”ابھی مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔“اختر بولا۔
”دیر سے سونے کی عادت ہے۔“
”ہاں کچھ ایسا ہی ہے۔“
”ابھی رات زیادہ نہیں ہوئی ہے۔
لیکن گاوٴں کی رات سورج ڈوبتے ہی ہوجاتی ہے۔کمرے میں بور ہورہے ہو تو آوٴ تھوڑی دیر کے لئے باہر گھوم آتے ہیں۔“ الیاس نے کہا۔
”اس وقت کہاں گھومنا ہے۔؟“اختر ہولے سے مسکرایا ۔
”یہ میرا گاوٴں ہے۔میری یہاں زمین ہے۔میرے پاس نسلی گائیں ہیں۔ آوٴ تمہیں دکھاوٴں کچھ باتیں بھی ہوجائیں گی۔ویسے بھی جب تک میں چکر نہ لگا آوٴں مجھے نیند نہیں آتی۔
“ الیاس نے کہا۔
اختر اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ کسی بہانے سے الیاس کو ٹال بھی نہیں سکتا تھا۔طوعاً کراہاً وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔الیاس اسے لے کر اپنی جیپ تک آیا اور جیپ میں سوار ہوکر وہ حویلی سے باہر نکل گیا۔الیاس کے ساتھ اس کے دو آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اختر کی زندگی جرائم میں گزری تھی۔وہ بہت تیز طرار تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ کوئی گڑ بڑ ہے، الیاس اسے بلا وجہ حویلی سے باہر نکال کر نہیں لایا۔
اختر نے دائیں بائیں نظریں گھما کر دیکھا۔رات کے اندھیرے میں اسے وہ اکیلی جیپ دوڑتی نظر آرہی تھی جس میں وہ سوار تھا۔ کوئی ذی روح اسے کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی ایسا لگتاتھا جیسے اس خطے میں آباد انسان کہیں دور چلے گئے ہیں۔
”تم نے اپنے بارے میں بتایا نہیں کہ تم کرتے کیا ہو۔؟“الیاس اسے باتوں میں الجھانا چاہتا تھا۔
”میں بتا تو چکا ہوں۔
“اختر بولا۔
”تم نے یہ نہیں بتایا تھاکہ تم کیا کرتے ہو۔کام کیا کرتے ہو۔؟“الیاس نے پوچھا۔
”میں پراپرٹی ڈیلر ہوں۔“
”پھر تو خوب کماتے ہوگے۔“
”بس گزارا ہوجاتا ہے۔“
”گزارا کرکے جی رہے ہو۔؟“الیاس مسکرایا۔
اختر کو اس کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگی۔ اس کا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔اُسے خطرے کی بو محسوس ہورہی تھی۔
جیپ بڑی تیزی سے بھاگ رہی تھی۔کچی سڑک کی دونوں طرف فصلیں کھڑی تھیں۔دور تک اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
ایک دم الیاس نے جیپ کی بریک لگادی۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے جیپ کی ہیڈ لائیٹس آف کردی۔ابھی جو روشنی تھی ایک دم اندھیرا غالب آگیا۔ اختر کی آنکھیں دائیں بائیں طواف کررہی تھیں۔
”نیچے اُترو۔“الیاس نے سپاٹ لہجے میں حکم دیا۔
اختر کو اس کے لہجے کا تغیر عجیب سا لگا۔
”یہاں کیاکرنا ہے۔“
”ابھی بتاتا ہوں۔نیچے اُترو۔“الیاس نے ایک بار پھر اسی لہجے میں کہا۔اختر نے کچھ دیر سوچا اور جیپ سے باہر نکل گیا۔ اختر کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔خطرہ اسے اپنے اور بھی قریب محسوس ہونے لگا تھا۔
اچانک ایک گولی چلی اور اختر کی آنکھیں تکلیف سے بند ہوگئیں۔ گولی اس کی بائیں ٹانگ کی پنڈلی میں لگی تھی اور ہڈی کو نقصان پہنچ گیا تھا۔
الیاس کے آدمی نے اشارہ پاتے ہی ایک اور فائر کردیا۔ اختر کی دوسری ٹانگ میں بھی گولی پیوست ہوگئی تھی۔اختر تکلیف سے زمین پر گر گیا۔ اس کے ارد گرد خون جمع ہونے لگا تھا۔
اختر تکلیف سے دہرا ہوتا جارہا تھا۔ وہ اسی تکلیف اور کرب میں لوٹ پوٹ ہوتا رہا۔پھر اس نے ہمت کرکے آنکھیں کھولیں تو اسے اپنے پاس کوئی جیپ دکھائی نہیں دی۔ فائر کرتے ہی الیاس نے جیپ اس جگہ سے نکال لی تھی۔
اور وہ ہیڈ لائیٹس روشن کئے بغیر ہی اپنی جیپ بہت دور لے گیا تھا اور پھر اس نے ہیڈ لائیٹس روشن کی تھیں۔الیاس کی جیپ کو کسی نے بھی اس جگہ نہیں دیکھا تھا۔
اختر کا خون بہت بہہ گیا تھا۔ تکلیف بدستور تھی۔ وہ اپنا حلق پھاڑ کر چیخا۔” کوئی ہے…مجھے بتاوٴ…کوئی ہے…“
زندگی کا ایک حصہ اختر نے ہاشم زبیری کے ایک حکم پر کسی بھی بے گناہ کا خون کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔
اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اختر ایک ایسے غلام کی طرح ہاشم زبیری کے ساتھ رہا تھا جسے کبھی یہ خوف بھی نہیں محسوس ہوا تھا کہ کبھی اس کا بھی ایسا حال ہوسکتا ہے کہ رات کے اس اندھیرے میں کچی زمین پر اپنے ہی جسم کے خون پر لوٹ پوٹ ہوتے ہوئے اسے مدد کے لئے یوں اپنا حلق پھاڑ کر مدد کے لئے پکارنا پڑے گا۔
انسان جب تک اپنی طاقت کے زعم میں ہوتا ہے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔
زوال اسے نہیں آسکتا ہے۔لیکن قدرت کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جب وہ طاقت ور پکڑ میں آتا ہے تو بے بس لاچار ہوجاتا ہے۔اختر ایک بار پھر چیخا۔
”کوئی ہے…مجھے بچاوٴ…کوئی ہے…کوئی ہے…“
اچانک ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی اور اسے اس روشنی کی طرف دیکھنے کی کوشش کی۔اسے دکھائی نہیں دے رہاتھا لیکن اس سے کچھ فاصلے پر سائیکل کو ایک ہاتھ سے پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے ٹارچ کی روشنی اختر پر ڈالتے ہوئے اس علاقے کا چوکیدار کھڑا تھا۔
”کون ہو تم۔؟“چوکیدار نے اپنی کانپتی آواز میں پوچھا۔
”میری مدد کرو۔مجھے گولی لگی ہے۔“اختر کی نحیف آواز آئی۔
”گ…گولی کس نے ماری ہے۔؟“چوکیدار ڈر گیا۔
”مجھے اس جگہ سے لے جاوٴ۔مجھے یہاں سے لے جاوٴ میرا بہت خون بہہ گیا ہے۔“ اختر کی آواز ڈوب رہی تھی۔
”تم رکو…میں آتا ہوں۔“چوکیدار نے اپنی سائیکل سیدھی کی۔
”تم کہاں جارہے ہو۔“
”میں ابھی آیا۔“
”مجھے چھوڑ کر مت جاوٴ۔میں مررہا ہوں۔مجھے بچاوٴ۔گاوٴں کے لوگ اکھٹے کرو۔میں مرر ہا ہوں۔“اختر بھیک مانگ رہا تھا۔
”میں ابھی لوگوں کو لے کر آتا ہوں۔“چوکیدار اپنی سائیکل پر سوار ہوا اور تیزی سے ایک طرف چل پڑا۔اختر بے ہوش ہوگیا ۔
اس گاوٴں میں ملک خلیل کی حویلی ہی معزز تھی۔
کسی بھی مسئلے کے لئے لوگ اس دروازے کا رخ کرتے تھے۔چوکیدار نے بھی اس حویلی کا دروازہ بجایا۔ملازم نے اس کی بات سن کر الیاس کو اطلاع دی اور الیاس باہر آگیا۔پہلے تو وہ اس سے ایسے تفصیل سنتا رہا جیسے اس کے علم میں یہ بات ابھی ابھی آئی ہو کہ کسی اجنبی کو کسی نے گولی مار دی ہے۔ پھر ا س نے فون نکال کر قریبی تھانے میں فون کیا اور تھانیدار کو وقوے کے بارے میں بتانے لگا۔
”میں نے فون کردیا ہے تم اسی جگہ چلے جاوٴ اور اس کے پاس اس وقت تک رہنا جب تک پولیس نہ آجائے۔“الیاس نے فون کان سے الگ کرنے کے بعد چوکیدار کو تاکید کی۔
چوکیدار نے اثبات میں سر ہلایااور سائیکل لے کر پھر اسی جگہ چلا گیا۔ اختر بے ہوش ہوچکا تھا۔چوکیدار مضطرب پولیس کا انتظا ر کررہا تھا۔ اسے خوف بھی محسوس ہورہا تھا۔ گاوٴں کا چوکیدار تھا۔
اس کے پاس ایک ٹارچ اور لمبی لاٹھی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ہر لمحہ اسے یہی محسوس ہورہا تھا جیسے ابھی کوئی آجائے گا اور اس کی ٹانگ میں بھی گولی مار کر ایک طرف نکل جائے گا۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے اذیت ناک انتظار کے بعد پولیس وین آگئی۔پولیس بڑے نخرے سے باہر نکلی اور ایک نے چوکیدار سے پوچھ گچھ شروع کردی۔ جب اس کے سوال ختم ہوگئے تو اس نے اپنے دوسرے ساتھیو ں کو حکم دیا کہ زخمی کو اُٹھا کر وین میں ڈال دو۔
جب پولیس کی وین اس جگہ سے چلی گئی تو چوکیدار کی سانس میں سانس آئی۔اور اس نے بھی اس جگہ سے جانے میں عافیت سمجھی۔
پولیس وین زخمی بے ہوش اختر پٹھان کوشہر کے سرکاری ہسپتال میں لے گئی۔اختر کو سٹریچر پر ڈال کر ابھی آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا ہی جارہ اتھا کہ انسپکٹر زاہد اس ہسپتال میں ایک اور ہی کیس کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔ اس کی نگاہ جیسے ہی اختر پر پڑی وہ جلدی سے اس کی طرف لپکا۔
”اسے کون لایا ہے یہاں ہے۔؟“انسپکٹر زاہد نے پوچھا۔
”ہم لائے ہیں ۔“پولیس والا بولا۔
”اس کی تو ہم کو کئی دنوں سے تلاش تھی۔یہ تو ہمارا کیس ہے۔“انسپکٹر زاہد نے کہا۔

Chapters / Baab of Zanjeer By Farooq Anjum