امریکہ سمیت دنیا نے افغان طالبان کو تسلیم کرلیا

ماسکو مذاکرات ماسکو کے انخلا کا فیصلہ واشنگٹن میں ہوا تھا اب واشنگٹن کے انخلا کا فیصلہ ماسکو میں ہورہا ہے

جمعہ 30 نومبر 2018

America samait duniya ne Afghan taliban ko tasleem karliya
 محمد انیس الرحمن
ماسکو میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات نے امریکہ کو اپنی تاریخ کی انتہائی مضحکہ خیز صورتحال سے دوچار کر دیا ہے ۔کیونکہ ماسکو میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اس نے ایک طرح سے انہیں افغانستان کی اہم قوت تسلیم کرلیا ہے اور یقینا یہ ایک منطقی بات ہے کہ جب کسی کے ساتھ برابر کی سطح کے مذاکرات کئے جائیں تو اس کا مطلب یہی ہوتاہے کہ آپ اسے ایک قوت تسلیم کررہے ہیں۔

یہ امریکہ کی شکست کا پہلا باضابطہ اعلان ہے ۔
اب امریکہ صرف ایک شرط کے سہارے افغان طالبا ن کے ساتھ مذاکرات کی میزپر آیا کہ افغان طالبان امریکہ کو افغانستان میں کچھ فوجی دستے رکھنے دے جسے تسلیم کرنے کا افغان طالبان کی جانب سے کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔

(جاری ہے)

کابل کی اشرف غنی انتظامیہ ان مذاکرات کی صورت میں بالکل لاتعلق کر دی گئی ہے جبکہ بھارت سانس رو کے ان مذاکرات میں شریک رہا ۔


ٹائمنگ کے علاوہ اس کانفرنس کا محل وقوع بھی اہم ہے یعنی ماسکو،سابق سوویت یونین کا وہ ماسکو جسے موجودہ افغان طالبان کے اساتذہ کمانڈروں نے کئی حصوں میں تقسیم کردیا تھا ۔امریکہ طویل عرصے تک اپنے بین الاقوامی حواریوں کے ذریعے یہ تاثر دیتا رہا کہ اگر افغان مجاہدین کی پشت پر امریکہ اور یورپ نہ ہوتے تو وہ کبھی سوویت یونین کے حصے بخرے کرنے میں کامیاب نہ ہوتے ۔

لیکن اب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ جس وقت امریکہ اور سارا یورپ نیٹو کے نام پر افغانستان میں انہی مجاہدین کے خلاف کمر بستہ ہو کر لڑنے آیا تو اس وقت کونسی قوت ان کی پشت پر تھی ؟
نائن الیون کے ڈرامے کے تناظر میں افغانستان پر امریکہ اور نیٹو کے حملے کے بعد بہت سے حلقے اس بات پر ذہنی طور پر تیار تھے کہ افغانستان کی تاریخ نے استعماریت کے خلاف اس مرتبہ اپنے آپ کو دہرانے سے انکار کردیا ہے ۔

امریکہ اور برطانیہ بھی دیگر نیٹو ممالک کے ساتھ ”برسوں کی تیاری “کے بعد افغانستان پر حملہ آور ہوئے تھے ۔افغانستان کے جغرافیائی خدوخال ذہن میں رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ میں طویل لیکن خفیہ مشقیں کی گئی تھیں ۔
ماضی کی سپر طاقتوں کی شکست کے اسباب کا بغور جائزہ اس میں شامل تھا۔برطانیہ کو مشرقی افغانستان سنبھالنا تھا کیونکہ ماضی میں وہ یہاں سے ناکام لوٹا تھا لیکن علاقے کی تزویراتی (اسٹر ٹیجک )صورتحال سے بخوبی واقف تھا۔

پاکستان جیسے پڑوسی ملک کو دھمکا کر اس کے فضائی اڈے ار انٹیلی جنس تعاون لیا گیا۔
لیکن ان تمام ترتیاریوں کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکہ ماسکو مین بیٹھ کر افغان طالبان سے کچھ فوجی دستے رکھنے کی بھیک مانگ رہا ہے تا کہ اپنا نام نہادر دباؤ چین سمیت خطے کے ممالک پر ڈال سکے۔ امریکہ ،نیٹو اور اسرائیل کا خیا ل تھا کہ افغانستان میں افغان طالبان کو شکست دینے کے بعد یہاں افغان قومی فوج تشکیل دی جائے گی ،اس کے ساتھ اس افغان طفیلی فوج کو بھارت کی عسکری چھتری مہیا کردی جائے گی ۔


یوں امریکہ بھی یہاں موجود رہے گا اور بھارت اور امریکہ مل کر ایک طرف چین کے سامنے بند باند ھیں گے تو دوسری جانب پاکستان کی جوہری صلاحیت کو پلیٹ میں رکھ کر لے جائیں گے یوں پاکستان بھی چین کے معاملے میں امریکی دست نگر ہوجائے گا اور اس سلسلے میں اگراس نے کوئی کارروائی ڈالنے کی کوشش کی تو بھارت کے ہاتھوں پاکستان کا دماغ درست کروادیا جائے اس طرح پاکستان کی وہ عسکری صلاحیت جو آگے چل کر مشرق وسطیٰ کے معاملات میں شامل ہوتی علاقے تک محدود ہو جائے گی بھارت افغانستان اور مشرق میں اپنی سرحدوں کی جانب سے پاکستان کو بے حرکت کرکے رکھ دے گا اس طرح مشرق وسطیٰ میں عرب بے یار ومددگار اور مکمل طور پر اسرائیل کے رحم وکرم پررہ جائیں گے ۔


چین کا گوادر تک پہنچے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا اس لئے افریقہ میں اس کی معاشی سرمایہ کاری اسے کوئی فائدہ نہ دے سکے گی ۔دوسری جانب روس جو قفقاز کی جنب سے نیچے جنوب میں شام تک اپنے مفادات کو تحفظ دینے آچکا ہے افغانستان کی اس صورتحال کے بعد واپس پلٹنے پر مجبور ہو گا اور مستقل میں جس وقت اسرائیل مسلمان انتہا پسندی کے مقابلے کے نام پرعربوں کے علاقے ہتھیانے نکلے گا اور اپنی دجالی صہیونی عالمی سیادت کا اعلان کرے گا تو اسے روس کی جانب سے کسی ردعمل کا خوف نہیں رہے گا ۔

دوسری طرف خلیجی ریاستوں کی جانب سے چین کو فراہم کردہ اس کی کل ضرورت کا ستر فیصد تیل بھی اسرائیل کے ہاتھوں میں ہو گا جو اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا اور ترکی جو آہستہ آہستہ مشرق وسطی میں اپنا رسوخ بڑھا رہا ہے روس اور چین کی غیر موجودگی میں خود اپنی حدود تک نہ صرف محدود ہوجائے گا بلکہ اسرائیل کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات دوبارہ سے استوار کرے گایا کوئی بھی عسکری انقلاب اسرائیل کے حق میں اس خلا کو پرکردے گا ۔


یہ تھا وہ دجالی صہیونی منصوبے جسے لیکر امریکہ نیٹو اور اسرائیل افغانستان میں وارد ہوئے تھے ۔لیکن ایک منصوبہ وہ ہوتا ہے جو شیطانی قوتیں زمین پر بناتی ہیں تو ایک منصوبہ وہ ہوتا ہے جو اللہ رب العزت آسمانوں پر تشکیل دیتا ہے اور حقیقت میں منصوبہ اللہ رب العزت کا ہی کامیاب ہوتا ہے زمین پر چاہے اس کے کیسے ہی اسباب بنیں ۔
یہ بات سب جانتے ہیں گوانٹا نا موسے آزاد ہونے والے کچھ طالبان کمانڈوں کو قطر بھیج دیا گیا تھا ان پر پہلے سال سفر کی بھی پابندی تھی بعد میں یہی افراددوحہ میں طالبان رابطہ دفتر کے نمائندے کے طور پر سامنے آئے ۔

یہ سب کچھ امریکہ کی مرضی سے ہوا تھا ورنہ قطر جیسے ملک کی اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کرسکے ۔2005ء کے بعد جب امریکہ پر افغان طالبان بھاری پڑنے لگے تو اُنہوں برسبیل احتیاط یہ قدم اٹھایا تھا تا کہ کہیں تو افغان طالبان کا کوئی ایسا مرکز ہوجہاں پر بیٹھ کر طالبان سے سودے بازی کی جا سکے کیونکہ براہ راست افغانستان میں یہ کام ناممکن تھا ۔


دوسری جانب کرزئی انتظامیہ کی تشکیل کا بڑا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں کہیں بھی امریکہ سے متعلق یہ تاثر نہ پھیلے کہ امریکہ براہ راست افغان طالبان سے مذاکرات کی سطح پر آچکا ہے لیکن امریکہ اپنی ”بڑی ناک “بچانے کے چکر میں افغان طالبان سے نہ صرف پٹتا رہا بلکہ تمام دنیا اس تماشے سے خاصی محفوظ بھی ہوئی ۔افغانستان میں ان ہی حالات نے امریکہ کو عراق سے جلدی میں جان چھڑانے میں راغب کیا اور وہ جلد بازی میں ایران کے لئے عراق میں راستہ کھلا چھوڑ کر نکل گیا۔


پاکستان کی جانب سے متعدد بار خفیہ اور اعلانیہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی گئی لیکن امریکہ نے اپنی کمزوری ظاہر ہونے کے خوف سے خود انہیں سبوتاژ کیا ۔دوسری جانب افغان طالبان کا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ امریکہ سے مذاکرات اسی صورت ممکن ہیں جب افغانستان سے غیر ملکی فوج کا آخری فوجی نکل نہیں جاتا ۔
اور اس سلسلے میں ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور یہ بات طے ہے کہ افغان طالبان یہ تو چاہتے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے لیکن امریکہ کوراستہ دینے کے معاملے پروہ کسی قسم کی ضمانت دینے کے لئے بھی تاحال تیار نہیں بلکہ ماسکو میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں بھی افغان طالبان قیادت امریکہ پر براہ راست اعتماد کرنے کے لئے تیا ر نہیں بلکہ اس سلسلے میں اسے بین الاقوامی ضمانتیں درکار ہیں ۔


یہ بھی ایک طرح سے امریکہ کے لئے خفت کا سامان ہے جس کی وجہ سے امریکہ کو سخت پریشانی کا سامنا ہے وہ ماضی میں اس معاملے سے پاکستان کو دور رکھنا چاہتا تھا اس کا خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ اس سلسلے میں ڈکٹیشن سے کام چلایاجائے جبکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کووہ دوست خلیجی ممالک کے ذریعے پورا کرنا چاہتا تھا ۔پاکستان کے عسکری ذرائع اس سلسلے میں انتہائی محتاط ہو چکے تھے اور وہ ایک خاص حد سے آگے افغان معاملے میں دخل اندازی نہیں چاہتے تھے ۔


اس حوالے سے پہلی کوشش قطر کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھی۔ امریکی ایما پر قطری کی حکومت طالبان اور کرزئی حکومت کے درمیان مصالحت کے لئے اہم کردار ادا کرتی رہی ۔اس سے قبل اس وقت طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ طیب آغا کی قطر کے حکمرانوں سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں جن کی تفصیلات عالمی اخبارات میں آچکی ہیں ۔طیب آغا کے متعلق یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ وہ جرمنی میں ان مذاکرات کے حوالے سے بات کو آگے بڑھا رہے تھے جو بعد میں بون ٹوکا نفرنس کی شکل اختیار کرنے والی تھی ۔

۔
اس دوران عرب ذرائع کے مطابق اسی طرح دبئی میں ایک غیر اعلانیہ مگر اہم خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا ۔اس ملاقات میں قطر کے شاہی حکمران خاندان کے ایک اہم فرد اور کرزئی حکومت کا ایک اعلیٰ سطحی دفد شامل تھا ۔افغان وفد کی قیادت پاکستان میں افغان سفیر محمد عمر داؤدزئی کر رہے تھے ۔اس اہم ملاقات میں طالبان کے ان ابتدائی مطالبات اور شرائط پر غور کیا گیا تھا جو دونوں فریقوں کے درمیان مفاہمت کی فضا پیدا کر سکتے ہوں ۔


ان میں سر فہرست یہ مطالبہ تھا کہ افغان جیلوں میں موجود طالبان قیدیوں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے ۔دوسری جانب قابل اعتماد عرب ذرائع کے مطابق عرب امارات کی حکومت کو اپنی سر زمین پر اس قسم کے خفیہ مذاکرات کا علم ہوا تو اس نے قطر کی حکومت سے اس بات پر احتجاج کیا تھا کہ اس کی سر زمین اس قسم کے خفیہ معاملات یا مذاکرات کے لئے استعمال نہ کی جائے بلکہ قطر کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے خفیہ معالات کے لئے اپنی ہی سر زمین استعمال کر ے ۔

۔۔اس ساری صورتحال سے اندازہ ہوتا تھا کہ عرب امارات کی حکومت امریکہ اور طالبان کے حوالے سے کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے ہچکچا رہی تھی
 ۔
ہم پہلے بھی اس بات کی جانب اشارہ کرچکے ہیں کہ ماضی میں امریکہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے اپنی شرم ناک شکست کا تاثر ختم کرنا چاہتا تھا ۔اس سلسلے میں اس نے افغانستان کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا تھا ۔

شمالی افغانستان وہ شمالی اتحاد کے سپرد کرنا چاہتا تھا کا بل سمیت وسطی افغانستان کے اہم شہروں میں اپنی قلعہ بندیاں قائم کرنا چاہتا تھا جہاں پر وہ اپنی چند ہزار فوج رکھ سکے اور اسے فضائی کمک کے ذریعے مدد بھی آسانی کے ساتھ پہنچا سکے جبکہ جنوبی افغانستان میں پاکستان سے متصل اہم علاقوں پر افغان نیشنل ارمی کو پیر جمانے کا موقع فراہم کرے تا کہ پاکستان کی جانب سے رسد کے راستے کھلے رہیں ۔


لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام ناقابل عمل منصوبے تھے کیونکہ اس صورتحال میں افغان طالبان مزید کھل کر لڑے اور امریکیوں سے مزید علاقے بزورقوت چھین لئے گئے گیا۔اس وقت افغان نیشنل آرمی اور شمالی اتحاد میں سب کے سب غیر پختون عناصر شامل تھے جبکہ افغانستان کا ستر فیصد کے قر یب علاقہ ویسے ہی طالبان کے کنٹرول میں آچکا تھا اس صورت میں اس افغان نیشنل آرمی کی کیا درگت بنی اسے سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ۔


آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ سے پہلے امریکی ساختہ سفید جھنڈوں والی داعش بھی افغانستان سے غائب ہو چکی ہے ۔ماضی میں پاکستان مقتدر اداروں اور قیادت کوان معاملات سے دور رکھنے کے لئے یہاں سیاسی اور امن عامہ کا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا تھا ۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت کراچی میں متحارب تینوں فریق یعنی پیپلز پارٹی ،اے این پی اور ایم کیو ایم امریکی فکر کے قریب تر سمجھی جاتی تھیں تینوں جماعتیں اپنے آپ کو لبرل کہتی تھیں ۔


تینوں جماعتیں طالبان کی مخالفت کے نام پر سیاست چمکاتی آئی تھیں ۔پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف تینوں جماعتوں کا ایجنڈہ بھی ایک ہی تھا ۔لیکن کراچی کے معاملے میں ان تینوں کا ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونا خاصا معنی خیز تھا ۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان مخالف قوتیں کراچی کو بیروت میں تبدیل کرکے پورے ملک کو انتشار کا شکار کرنا چاہتی تھیں ۔

ایک طرف سے امریکہ اور اس کے مغربی حواری زور لگا رہے تھے اور دووسری جانب سے بھارت بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کو پوری طرح ہوا دے رہا تھا ۔
حقیقت یہ تھی کہ اس سارے کھیل تماشے کہ جن کی جان امریکہ میں تھی جس کی گردن افغان طالبان نے سختی سے پکڑ رکھی تھی ۔جیسے ہی اس جن کی حالت پتلی ہوتی گئی ویسے ہی خطے میں امن وامان کی صورتحال بھی بحال ہونے لگی۔

وطن عزیز کی بقا کے لئے پاکستانی فوج اور عوام نے ستر ہزار کے قریب جانیں قربان کیں۔
افغانستان اور پاکستان میں دی جانے والی یہی قربانیاں ہیں جن کے نتیجے میں آج امریکہ اسی ماسکو میں سر جھکا ئے کھڑا ہے جسے تحلیل کرنے میں وہ خود بھی شامل تھا ۔یہ بھی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک ہے کہ افغانستان سے ماسکو کے انخلا کا فیصلہ واشنگٹن میں کیا گیا تھا اور آج ہی ماسکو میں افغانستان سے امریکی انخلا کا فیصلہ کیا جا رہا ہے ۔۔۔یا للعجب

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

America samait duniya ne Afghan taliban ko tasleem karliya is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 November 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.