سی پیک کو افغانستان سے منسلک کرنے کی چینی خواہش

امریکہ”امن مذاکرات “سے کیوں فرار ہوا؟

جمعہ 13 ستمبر 2019

CPEC Ko Afghanistan Se Munsalik Karne Ki China Khawahish
 محمد انیس الرحمن
آخر وہی ہوا جس کے بارے میں ہم بہت پہلے سے اپنے قارئین کو آگاہ کرتے آئے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ یہاں سے فوجی انخلاکرے گا،امن مذاکرات ایک ڈرامہ ہے جس کا مقصد وقت حاصل کرنا،داعش کو قدم جمانے کی مہلت فراہم کرنا،افغان طالبان کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ کابل انتظامیہ کے ساتھ منسلک ہو کر مستقبل کی سیاسی حکمت عملی وضع کریں۔

امریکہ کو محدود انداز میں افغانستان میں اپنے عسکری اڈے قائم رکھنے کی سہولت بد ستور موجود ہے وغیر ہ وغیرہ۔ظاہری سی بات تھی کہ افغان طالبان نے امریکہ کے ان مطالبات کو تسلیم نہیں کرنا تھا اس بات کو امریکی بھی جانتے تھے اور افغان طالبان کی لیڈر شپ روز اول سے امریکہ کے اس صہیونی دجالی حربے سے واقف تھی وہ”امن مذاکرات“کی میز پر اس لئے بیٹھے تھے تاکہ امریکہ دنیا کو یہ کہہ کر گمراہ نہ کر سکے کہ افغان طالبان کسی طور امن کے حامی ہی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)


اس لئے دوحہ میں امن مذاکرات کے دورانیے میں افغان طالبان نے امریکہ کا یہ شوق بھی پورا کر دیا۔اس سارے کھیل میں امریکہ کے نزدیک اس کے دو اہم مقاصد پورے نہیں ہوئے ،مثلاً افغان طالبان پر بذریعہ پاکستان دباؤ ڈلوانا کہ وہ امریکی شرائط کے سامنے سرنگوں ہو جائیں لیکن یہ سب کچھ پاکستان کے بس میں نہیں تھا جو امریکہ جیسی قوت کو نہیں مان رہے وہ بھلا پاکستان کو کیوں خاطر میں لاتے ۔

اسی مقصد کی بار آوری کے لئے امریکہ نے مودی کو تھپکی دی تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنا دیرینہ خواب پورا کرلے یعنی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ایک طرف رکھ کر مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرجائے باقی دنیا کو امریکہ دیکھ لے گا لیکن امریکہ کا دوسرا حربہ مودی کے گلے کا کا نٹا بن گیا امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر تھپکی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مودی کے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ بھارت کی وہ ریاستیں جہاں پر ایک زمانے سے علیحدگی کی تحریکیں جاری تھیں انہیں ایک نیا ولولہ مل گیا اس لہر میں آکر نا گا لینڈ کی ریاست نے بھارت سے علیحدگی کا اعلان کرکے اپنا الگ جھنڈا لہرا دیا ہے۔


ڈونالڈ ٹرمپ نے افغان امن مذاکرات کی معطلی کا اعلان عین اسی دن کیا جس دن اسلام آباد میں سہہ فریقی کا نفرنس ہوئی یعنی چین،پاکستان اور افغانستان کے وزرا خارجہ کے درمیان”امن مذاکرات “کی کامیابی کے بعد کی صورتحال میں خطے میں کامیاب معاشی پیش رفت کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔
ان سہہ فریقی مذاکرات کے تیسرے دور میں چین نے سی پیک کا دائرہ افغانستان تک بڑھانے کا منصوبہ پیش کر دیا تھا پاکستان اور افغانستان کے وزرا خارجہ کے ساتھ ملاقات میں چینی ہم منصب وانگ ژی نے پاک افغان سرحد پر کولڈ اسٹوریج ،پانی کی سپلائی ،طبی مراکز اور امیگریشن کے مراکز کے قیام میں پاکستان کی مدد کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر امن معاہدے کے مطابق کام تیز کرنے کے خیال کا اظہار شامل تھا۔


اسلام آباد کے ذرائع کے مطابق تینوں ممالک نے اکتوبر کے مہینے سے سفارتکاروں کی تربیتی پروگرام کے ساتھ ساتھ سکیورٹی،انسداد دہشت گردی ،انسداد منشیات اور معاشی ترقی کے منصوبوں پر تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔چین کے مطابق پر امن افغانستان کو سی پیک کے منصوبے میں شامل کیا جا سکتا ہے یقینی بات ہے کہ سی پیک جس نے ایک طرف گوادر کے ذریعے آگے کی دنیا تک تجارتی رسوخ کو باقی ماندہ دنیا تک پہنچانا ہے وہیں پرامن افغانستان کی سر زمین بھی سی پیک کے منصوبے کے دائرے میں آنے سے وسطی ایشیا سے ہوتی ہوئی روس اور وہاں سے مشرقی یورپ تک دراز ہو جائے گی،اسی بنیاد پر چین کی جانب سے بیان آیا تھاکہ چینی حکومت افغان طالبان اور اشرف غنی حکومت کے درمیان پر امن مذاکرات کی حامی ہے جو اس افغانستان سمیت سارے خطے میں امن اورخوشحالی کا سبب بنے گا۔

لیکن امریکہ کو خطے میں امن منظور ہی نہیں ہے اور اس جانب ہم کئی ماہ سے مسلسل اشارہ کئے جارہے ہیں کہ امریکہ کی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کسی طور بھی خطے کی پرامن صورتحال سے چین اور پاکستان کو مستفید نہیں ہونے دے گی۔
اس سارے معاملے میں ٹرمپ نے جو بیان دیا ہے جس میں بتایا گیا کہ کابل پر حملے کی وجہ سے امریکہ افغان طالبان کے ساتھ معاہدے کو معطل کر رہا ہے کیونکہ اس حملے کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کی ہے ۔

تو یہ بڑی عجیب بات محسوس ہوتی کہ امریکہ اب تک اپنے اور اپنے اتحادیوں کے ہزاروں فوجی افغانستان میں مروا چکا ہے اس وقت اسے اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ جن افغان طالبان کے ساتھ وہ قیام امن کے لئے مذاکرات کر رہا ہے انہیں کے ہاتھوں امریکہ اور نیٹو کے فوجی مارے گئے ہیں اور اب جبکہ کابل کے”گرین علاقے“میں خود کش دھماکے میں امریکہ سمیت بہت سے غیر ملکی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں تو اسے اس نے امن مذاکرات کی معطلی کا سبب گرداننا شروع کر دیا ہے ۔

یہ عجیب ہی نہیں بلکہ خاصی مضحکہ خیز صورتحال ہے ۔
افغانستان کی جنگ دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ امریکہ کی دجالی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے لئے تقریباً اسی ارب ڈالرکی سالانہ منفعت کا سبب ہے وہ بھلا اسے کیسے ختم کرنے پر راضی ہوں گے۔پیسے بے شک وار ٹیکس کے طور پر امریکی عوام کی جیبوں سے نکلیں لیکن یہی پیسہ تو امریکی صہیونی سیسیہ گروں کی جیبوں میں جاتا ہے۔

اس لئے افغانستان سے نکلنے کا میں مینڈیٹ انہوں نے ٹرمپ کو نہیں دیا تھا ۔افغانستان کے معاملے میں ٹرمپ کا کام صرف بڑھکیں لگا نا تھا، دوسرے اسے وائٹ ہاؤس لانے کا اصل سبب یہ تھاکہ اس کے صہیونی داماد جیرالڈکو شنر کو کھل کر وائٹ ہاؤس میں اپناکھیل کھیلنے کا موقع میسر آسکے اور اس نے یہ کھیل مشرق وسطیٰ میں اب تک کامیابی سے کھیلا ہے ۔بہت پہلے ایک امریکی جرید ے میں امریکہ کے پہلے دس با اختیار ترین اشخاص کی لسٹ دیکھی تھی جس میں سب اوپر یعنی پہلا نمبر جیرالڈ کو شنر کا تھا!!یعنی وہ بغیر کسی حکومتی عہد ے کے پہلے نمبر پر تھا جبکہ امریکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا نام ساتویں نمبر پر تھا۔

۔۔ارے۔۔۔تو پھر جیرالڈ کو شنر کیاہے ۔۔۔؟یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔
کوشنر نے مشرق وسطیٰ میں آگ لگانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ،امریکی صدر سے مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کا افتتاح کر وایا،اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈایم فرائڈ مین سے مسجد اقصیٰ کی بنیاد میں سے پتھر نکلوا کر اس بات کا افتتاح کر وایا کہ یہاں مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے یہاں یہودیوں کا ”ہیکل سلیمانی“تعمیر کیا جائے گا جس کی پلاننگ کئی برس قبل ہی مکمل کر لی گئی تھی ۔

یہ تھے وہ اصل کا م جو امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹ اور صہیونی اسٹیبلشمنٹ ڈونالڈٹرمپ سے کرانے کے لئے اسے وائٹ ہاؤس تک لائی تھی ورنہ ڈونالڈٹرمپ کسی سنجیدہ عہدے کے لئے موزوں شخصیت تو نہیں ہے وہ تو صرف ایک تماشا ہے جسے دنیا کو دکھاکربے وقوف بنایا جاتاہے۔
امریکی سی آئی اے اور پینٹا گان یعنی امریکہ کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے ان دو بڑے مہروں کا کھیل افغانستان میں اس وقت زیادہ خطر ناک نظر آتا ہے جب وہاں داعش کے وجود کے حوالے سے بات کی جاتی ہے ۔

دوسری جانب امریکہ کے افغانستان میں اٹھنے والے بے تحاشہ اخراجات کے حوالے سے یہ خبر بھی آئی تھی کہ بد نام زمانہ دہشت گرد تنظیم ”بلیک واٹر“کے مالک ایرک پرنس نے امریکی حکومت کو پیش کش کی تھی کہ افغانستان سے سرکاری فوجیں نکال کر اس کی جگہ اس کی تنظیم بلیک واٹر کو افغانستان کا ”جنگی ٹھیکہ“دے دیا جائے جو امریکی خزانے پر کم بوجھ ثابت ہو گا۔

ماضی قریب میں ہونے والے ان تمام معاملات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش کے روپ میں بلیک واٹر کے لوگ ہی عراق اور شام میں کارروائیاں کرتے رہے ہیں اور اب افغانستان میں جب سے ان کی تصاویر اور جنگی تربیت کی نوعیت ظاہر ہوئی ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ تمام کے تمام تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں جنہیں خاص مقاصد کے تحت مشرق وسطیٰ سے افغانستان منتقل کیا گیا تھا تاکہ افغان طالبان اور اس کی حمایتی گروپوں کو شکست دی جا سکے ۔


خبروں اور تصاویر کے ذریعے جو اطلاعات ہیں ان کے مطابق داعش کے ارکان نے کمانڈوز کی طرز کی وردیاں زیب تن کر رکھی ہیں اور چہرے مکمل طور پر ڈھانپ رکھے ہیں اس کے ساتھ ان کے پاس جدید ترین فوجی گاڑیاں بھی ہیں جنہیں فوجی انداز میں کیمو فلاج کیا جاتاہے۔اس تمام صورتحال سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ اب کھل کر اپنے ترکش کے آخری تیر یعنی داعش کو چلا کر خطے کو بڑی خانہ جنگی میں جھونکنا چاہتا ہے یہ کام اس نے افغانستان میں دہشت گردگروپوں اور بھارت کی مدد سے کے پی کے اور بلوچستان میں کرنے کی کوشش کی تھی جسے پاکستان کے سر فروش بیٹوں نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر ناکام بنا دیاہے اب یہ کھیل افغانستان میں نئے سرے سے شروع ہونے جارہا ہے تاکہ اس آگ کی تپش میں چین اور پاکستان سی پیک کے ثمرات سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔


حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس خطے میں اس وقت سنہری موقعہ تھا کہ وہ کسی حد تک عزت بچا کر خطے سے نکل جائے لیکن لگتا ہے عزت امریکہ کی قسمت میں نہیں جو حال اس کا ویت نام ،کوریا اور صومالیہ میں ہوا تھا اس سے بد تر حال افغانستان میں ہونے جا رہا ہے۔افغان طالبان نے مذاکرات کے روزاول ہی کہہ دیا تھاکہ وہ مذاکرات اپنی جگہ لیکن افغان طالبان جنگ نہیں روکیں گے اور اس دوران امریکیوں کی جو درگت بنتی رہی وہ تمام دنیا کے سامنے ہیں لیکن اس وقت امریکی کی جانب سے جنگ بندی پر اصرار تو ہوتا رہا لیکن کسی موقع پر اس جنگ کو مذاکرات کی تعطلی کا سبب نہیں بنایا گیا پھر اچانک کا بل دھماکے کو کیوں بنیاد بنالیا گیا؟حقیقت یہ ہے کہ امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کو اس سے کیا ان کے نزدیک اگر اسرائیل کی عالمی دجالی سیادت قائم کرنے کی کوشش میں سارے امریکی بھی مرجائیں تو ان کی بلاسے۔


اب اگر ساری امریکی قوم دھنیا پی کر امریکیوں کی تابوت بند لاشیں واپس آتے دیکھنا چاہتی ہے اور آنکھیں بند کرکے امریکہ کی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی جیبیں ٹیکس کے ڈالروں سے بڑھنا چاہتی ہے تو پھر کو ئی کیا کر سکتا ہے۔ماضی میں جب کوریا اور ویت نام کی جنگوں کے خلاف امریکی عوام سڑکوں پر نکلے تھے تو امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے فیصلوں سے رجوع کرنا پڑا تھا مگر آج صہیونی کار پور یٹیڈ میڈیا کی پٹی ان کی آنکھوں سے باندھ دی گئی ہے۔

اس تمام صورتحال میں پاکستان کو سب سے زیادہ اپنی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔امریکہ اور اسرائیلی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو پہلے ہی پھنسا چکے ہیں اب کسی وقت بھی وہ افغانستان میں اپنے اڈوں کومحدود کرنے کا یکطرفہ اعلان کرکے داعش یا بلیک واٹر کو اپنی جنگی بساط پر آگے لا سکتا ہے تاکہ خطہ خانہ جنگی کا شکار ہو سکے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جغرافیائی طور پر افغانستان اور عراق وشام میں بہت فرق ہے جو کھیل آسانی سے داعش کے ذریعے وہاں کھیل لیاگیا ہے وہ افغانستان میں ممکن نہیں کیونکہ یہاں”چاروں طرف“ایسی قوتیں ہیں جو داعش یا اس کے بھیس میں بلیک واٹر کو کچل کر رکھ دیں گی۔اس سارے کھیل میں بھارت اپنی خیر منائے۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

CPEC Ko Afghanistan Se Munsalik Karne Ki China Khawahish is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 September 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.