الیکشن 2018ء اور پاکستان کا مستقبل !

ہمارے ملک کی تباہ حال معیشت مزید احتجاجی دھر نوں کی متحمل نہیں ہو سکتی مقبو ضہ جموں کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوا تو پاکستان اپنی تشکیل میں نا مکمل رہے گا

جمعرات 26 جولائی 2018

election 2018 hamza aur Pakistan ka mustaqbil
 ارشاد احمد ارشد
پاکستان میں انتخابات کا خو نر یز معر کہ در جنوں افراد کی جا نیں لے کر نگران حکو مت کی نگرانی میں آخر کار اختتام پذیر ہو گیا ۔الیکشن کے موقع پر نگران حکو مت کے قیام کا تصور پا کستان کے علاوہ کہیں بھی نہیں پایا جاتا ۔ نگران حکو مت غا لباََ صاف شفاف الیکشن یقینی بنانے کے لئے قا ئم کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہر نگران حکو مت الیکشن کے مو قع پر وسیع پیمانے پر بیو رو کر یسی میں تقر رو تباد لے بھی کر تی ہے ۔

اس کا مقصد بظاہر الیکشن کو صاف وشفاف بنانا ہو تا ہے ۔ وزیر اعظم نا صر المک کی نگرانی میں قائم ہو نے والی حکو مت نے بیورو کر یسی سمیت تمام محکموں میں جتنے بڑے پیمانے پر تقر رو تباد لے کئے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

(جاری ہے)

چاروں صو بوں کے لا تعداد محکموں کے افسران کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیا گیا ، صو بو ں کے اندر بھی اکھاڑپچھاڑکی گئی ، بلد یا تی اداروں کے ذمہ داران کے اختیا رات بھی معطل کر دیے گئے ۔

مقصد یہی بتا یا گیا تھا کہ ایسے شفاف الیکشن کا انعقاد کر وایا جائیگا کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے لیکن خدا کی شان ہے کہ جیسے جیسے الیکشن کے دن قریب آتے گئے الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھتے گئے ۔اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ 25جو لائی کا الیکشن پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن تھا کہ جن کی شفافیت پر سب سے زیادہ سوا لات اٹھے ہیں ۔

یوں سمجھیں کہ ابھی الیکشن ہوئے بھی نہ تھے کہ تحریک انصاف سمیت پاکستان کی تقریباََ بڑی جماعتوں نے اعتراضات جڑنے شروع کر دیے۔ سب جماعتوں نے الیکشن کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ۔ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سر براہ شہباز شریف نے واضح کردیا کہ ہم الیکشن کے نتائج تسلیم کریں گے اور احتجاجی تحریک چلائیں گے ۔ جماعت اسلامی جو گزشتہ دور حکو مت میں صو بہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی اتحادی رہ چکی تھی کے امیر سراج الحق اور جنرل سیکر ٹری لیاقت بلوچ کا کہناتھا کہ الیکشن میں ایک جماعت (تحریک انصاف ) کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے ۔

پنجاب کے وزیر اعلی حسن عسکری کا بیان کہ تحریک انصاف سب سے زیادہ سیٹیں لے گی اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ بلاشبہ حسن عسکری کا یہ بیان ان کے منصب کے منافی تھا۔ اس بیان سے شکوک وشبہات اور حالات کی سنگینی میں مزید اضافہ ہوا ۔الیکشن میں تو جو ہوا۔۔ سو ہوا ۔۔۔الیکشن کے بعد حالات مزید ابتر ہو تے نظر آرہے ہیں ۔ اس لئے کہ مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی ، جے یو آئی ، پی پی سمیت دیگر جماعتوں نے الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ پانچ سال وہی کچھ ہو گا جو گذشتہ چارسالوں میں ہوتا رہا ہے ۔دھر نے ، احتجاج ،جلسے ،جلوس ،ہڑ تالیں اور لاک ڈاوٴن وغیرہ ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب ہماری معیشت پہلے ہی تباہ حالی کاشکار ہے ہمارا ملک مزید احتجاج اور دھرنوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔یہ وہ معا ملات
 ہیں جو ہمارے ملک کی بنیادوں کو کمزور کر رہے اور جڑوں کا کھو کھلا کر ہے ہیں ۔

بہر کیف ایک طرف الیکشن کی گہما گہمی اور ہنگامہ آرائی تھی جس میں اہل پاکستان الجھے رہے ،پھنسے رہے ،ڈوبے رہے اورایک دوسرے پر الزامات کی گولہ باری کر تے ر ہے دوسری طرف اہل کشمیر تھے جوان حالات میں بھی پاکستان کی محبت کا دم بھر تے رہے ۔ جولائی کا مہینہ جس میں پاکستانی قوم نے الیکشن کا معر کہ لڑایہ جو لائی تحریک آزادی کشمیر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

جو لائی کے مہینے میں دو بہت اہم واقعات وقو ع پذیر ہوئے ہیں ۔ پہلاواقعہ 13جو لائی کو پیش آیا جو تا ریخ میں شہدائے کشمیر کے نام سے معروف ہے کہ جب 21کشمیری اذان کی تکمیل کی خاطر جام شہادت نوش کر گئے ۔اس واقعہ کی تفصیل گذ شتے شمارے میں گزر چکی ہے ۔ دوسرا واقعہ 19جولائی کو پیش آیا تھا کہ جب اہل کشمیر نے پاکستان کے ساتھ الحا ق کا فیصلہ کیا ۔

آئیے ماضی کے اور اق پلٹتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ یہ واقعہ کب اور کیوں پیش آیا اوراس کے اسباب کیاتھے ؟یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کا قیام 14اگست 1947ء کو عمل میں آیاتھا ،اسی تاریخ کو سبز ہلالی پر چم لہرا یاگیا اور ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی خوشی میں سجدہ شکر بجا لایا تھا ۔اصول یہی ہے کہ جب ملک معرض وجود میں آتے ہیں تب ان کو تسلیم کیا جاتا ، ان کا پر چم لہرا یا جاتا ، پیام تہنیت جاری کیا جاتا اور ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔

لیکن اہل کشمیر دنیا کی وہ واحد قوم ہیں کہ جنہوں نے 19جولائی 1947ء یعنی پا کستان کے معرض وجود میں آنے سے تقر یباََ ایک ماہ پہلے ” الحاق پاکستان “ کی قرارد اد منظور کر کے اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا ۔ اسے کہتے ہیں بے لوث ،غیر مشروط اور اندھی محبت یقینی بات ہے ایسا اعتماد اسی جگہ کیا جاتا ہے جہاں محبت اور تعلق بھی غیر مشروط ہو ۔

19 جولائی 1947ء تحریک کشمیر کاوہ تاریخ سازدن ہے جب ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں کشمیر مسلم کا نفرنس کی جنرل کونسل کا ایک بھر پور اجلاس سری نگر میں سردار محمد ابرا ہیم خان کی رہائش گاہ پر ہوااور اس کی صدارت چو ہدری حمید اللہ خان نے کی۔ واضح رہے کہ جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے دستورا ساسی منظور شدہ 1932ء کی دفعہ 21کے مطابق جنرل کو نسل کے کورم کے لئے کم از کم 30ممبران کا ہوناضروری تھا تا ہم اس اجلاس میں 48ممبران موجود تھے ۔

اجلاس میں خواجہ غلام الدین وانی کو قرار داد الحاق پاکستان مر تب کر نے اور خواجہ عنا یت اللہ قرار داد پیش کر نے کی سعادت حاصل ہو ئی ۔ اہم بات یہ ہے کہ قرار داد کثرت رائے سے ہی نہیں بلکہ متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی ۔ پیش کر دہ قرار داد میں کہا گیا تھا ” مسلم کا نفر نس کا یہ کنو نشن بڑے غوروخوص کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ چو نکہ ریا ست جموں کشمیر مذہبی ، ثقا فتی ، جغر ا فیا ئی اور اقتصادی لحاظ سے پاکستان کے ساتھ گہری مما ثلت رکھتی ہے ۔

ریا ست کی آبادی کا اسی فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور پاکستان کے تمام بڑے دریا جب کی گزر گاہ پنجاب ہے ،ان دریاوٴں کے منا بع وادی میں ہیں اور ریاست کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ مذ ہبی ،ثقا فتی اور اقتصادی رشتوں میں مضبو طی کے ساتھ بندھے ہو ئے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ریاست کا الحاق پا کستان سے کیا جائے ۔کنو نشن یہ قرار دیتا ہے کہ اگر حکو مت کشمیر نے ہمارا الحاق پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو کشمیری عوام اس فیصلے کی مخالفت میں اڑھ کھڑے ہوں گے اور اپنی تحریک آزادی پو رے جوش وخروش سے جاری رکھیں گے ۔


آج اس قرار داد کے پاس ہوئے پو رے ستر سال ہو چلے ہیں ۔ستر سال ایک طویل اور لمباعرصہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ ستر سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گز رجاتا ہے اورحالات کچھ سے کچھ ہو جاتے ہیں لوگ کہی ہوئی با تیں بھول جا تے ہیں اور عہد وا قرار طاق نسیاں ہو
 جاتے ہیں لیکن دنیا نے اہل کشمیر کا ساو فاشعار نہیں دیکھا جو ستر سال کا طویل عر صہ گز رنے کا باوجود بھی اپنے الحاق پا کستان کے عہد پر نہ صرف قائم و دائم ہیں بلکہ اس عہد کی پا سداری کے لئے آج بھی اپنی جا نوں کے نذ رانے پیش کر رہے ہیں۔

27اکتو بر 1947 ء کو بھارت نے کھلی جا رحیت کے ذر یعے ریا ست پر نا جائز تسلط جما لیا اور گذشتہ ستر بر سوں سے مقبو ضہ جموں کشمیر میں نسل کشی کا گھناوٴ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپنے نا جا ئز تسلط کو مستحکم کر نے کے لئے بھارتی سیکو رٹی فور سز نے مختلف طرح کے جا بر انہ قوانین نافذ کر رکھے ہیں مثلا ” اے ایف ایس پی اے “ اور ” پی ایس اے “ وغیرہ ۔

یہ بات طے ہے کہ 19جولائی کی الحاق پاکستان کی قرار داد کشمیر ی قوم کا ہنگامی یا و قتی فیصلہ نہ تھا بلکہ یہ کشمیری قوم کا سوچا سمجھا فیصلہ تھا جس پر وہ آج بھی قائم ہیں ۔اس قرار داد کے پس منظر میں اگر جھا نکا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ محض حادثہ نہ تھا بلکہ دونوں خطوں کے باہمی تعلقات اور مشتر کہ مفادات کے علاوہ مخصوص جغرا فیائی ، مذہبی ،سیاسی اور سفارتی عوامل کا نتیجہ تھا ۔

ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں بھارت کے دانشو ر ڈی ایف کڑا کا اپنی کتاب IndiainBetrylمیں لکھتے ہیں کہ :"اگر اس نظریے جس کے مطابق ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تھی یہ کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے کوئی جواز اور صداقت موجود ہے تو کشمیر لاز ما َ َ پا کستان کا حصہ ہے اور اگرکشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہو تا تو پھر اس نظریے کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پرآگرے گی اور کانگریس کے مد برین اس نظریے کی بنیاد ہی ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔

جس پر تقسیم ہند کا عمل وجود میں آیا تھا ۔ پس جہاں بھارت کشمیر کے بغیربھی زندہ رہ سکتا ہے وہاں کشمیر کے بغیر پاکستان کے زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا ہے " ۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اسی لئے قرار دیا تھا کیونکہ ریاست جموں و کشمیر اور پاکستان دونوں خطے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر کے الحاق پاکستان اور تکمیل وا ستحکام پاکستان کی تحریک کو مضبوط بنایا جائے ۔

تحریک آزادی کشمیر میں جو لائی کا مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔13جولائی 1931ء کو 21کشمیر اذان مکمل کر تے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے تھے ۔ یہ ایک ایسا ایمان افروز واقعہ ہے کہ جس کی دنیا کی کسی دوسری قوم مثال نہیں ملتی ہے۔ جولائی میں ہی بر ہان وانی شہادت کا واقعہ پیش آیا کہ جس نے ایک طرف کشمیر قوم میں نیا جوش وجذبہ پیدا کیا ہے اور دوسری طرف اس واقعہ سے دہلی کا تخت بھی دہل گیا ہے ۔

13جو لائی 1931ء 19جولائی یوم الحاق پاکستان اور اب 8جو لائی بر ہان وانی کی شہادت یکے بعد دیگر ے ان واقعات کا وقوع پذیر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری قوم تا ریخ ساز قر با نیاں دینے کے باوکود تھکے ہیں نہ ہارے ہیں ۔ آزادی اور الحاق پاکستان کی جدوجہد جاری ہے ۔۔۔۔۔جاری تھی ۔۔۔۔ اور جاری رہے گی ۔ماضی کی روایات کے عین مطابق امسال بھی اہل کشمیر نے پورے جوش و خروش کے ساتھ 19جولائی کا دن دنیا بھر میں الحاق پاکستان کے طور پر منایا ۔

مقبو ضہ جموں کشمیر میں ایک بار پھر سبز ہلالی پر چم لہر ائے گئے ،پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے اور شہد اء سبز ہلالی پر چموں میں دفنائے گئے ۔مقام افسوس ہے کہ اس دن کے حوالے سے پاکستان میں مکمل خاموشی رہی ، نہ کہیں اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی ہوا ،نہ کوئی پرگرام ،نہ جلسہ ،نہ جلوس ،نہ سیمینار اور نہ کہیں قرار داد ۔اس سے بھی ستم کی بات یہ کہ پاکستانی قوم اس الیکشن میں تو اہل کشمیر کو با لکل ہی فرا موش کر بیٹھی تھی ۔

ماضی میں جتنے بھی الیکشن ہوئے سب میں کسی نہ کسی حوالے سے کشمیر کا ذ کر ہوتاتھا بلکہ ایک وقت تھا جب پاکستان میں الیکشن ۔۔۔۔ کشمیر کے نام پر لڑے جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر کاذکر بالکل ہی غائب ہوتا چلاگیا۔ اب کشمیر سیاسی جماعتوں کے ایجنڈ ے میں تو شامل ہے لیکن عملاََ کوئی جماعت بھی کشمیر کا نام نہیں لیتی ہے ۔ سب سے زیادہ افسوس ان جماعتوں پر ہے ” مسلم لیگ“ کے نام سے پاکستان میں کام کر رہی ہیں جن میں سر فہرست مسلم لیگ (ن) ہے ۔

مسلم لیگ کے نام سے کام کرنے والی جماعتوں میں سے یہ سب سے بڑی جماعت ہے ، اس اعتبار سے سب سے زیادہ ذمہ داری بھی اسی جماعت پر عائد ہو تی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ز ندہ رکھے۔ اس کے بعد مسلم لیگ (ق) ہے۔ یہ جماعت اپنی نسبت قا ئد اعظم کی طرف کر تی ہے جبکہ قا ئد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ۔ آل پاکستان مسلم کے نام سے بھی ایک جماعت پاکستان میں موجود ہے اس جماعت کے بانی خیر سے جنرل (ر) پرویز مشرف ہیں جنہوں نے کشمیر کے نام پر پاکستان پر قبضہ کیا تھا۔

ان دونوں جماعتوں کی انتخابی مہم سے بھی کشمیر غائب رہا یہی حال باقی جماعتوں کا بھی تھا ۔ الغرض پاکستان میں اس وقت جتنی بھی جماعتوں نے الیکشن لڑا ان میں سے ملی مسلم لیگ واحد جماعت تھی جس کی پوری مہم میں مسئلہ کشمیر سر فہر ست رہا ۔ ملی مسلم لیگ کے کرا چی سے پشاور ، بلو چستان تک جتنے بھی الیکشن کے حوالے سے پروگرام ہوئے ،جلسے ہوئے ،کارنر میٹنگیں ہوئی یا جتنی بھی الیکشن مہم چلی ہر جگہ اور ہر موقع پر کشمیر کا ذکر سر فہر ست رہا ، کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا جاتا رہا ، بھارتی مظالم کے خلاف آوازہ حق بلند کیا جاتا رہا۔

بھارت کی آبی جارحیت کاذکر ہوتارہا ۔اس سے یقیناََ ایک طرف پاکستانی قوم کو مسئلہ کشمیرکی اہمیت کا احساس ہوا تو دوسری طرف مظلوم کشمیر یوں کے بھی حو صلے بلند ہوئے انہیں اس بات کا یقین ہوا کہ وہ مصیبت اور آزمائش کی گھڑی میں تنہا نہیں ہیں بلکہ پاکستان میں ایک جماعت ہے جو دل وجان سے ان کے ساتھ ہے ۔اور جب تک مقبوضہ جموں کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا تب تک ملی مسلم لیگ مظلوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

election 2018 hamza aur Pakistan ka mustaqbil is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 26 July 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.