کرتارپور راہداری بھارت کے گلے کی ہڈی کیوں بنا؟

مودی سرکار کی نیندیں حرام‘پاک چین راہ داری کے بعد کرتا رپور راہ داری 18 برس تک بھارت کو پاکستان کے خلاف کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیاگیا

جمعرات 13 دسمبر 2018

kartarpur raahdaari Bharat ke gilaay ki haddi kyun ban
 محمد انیس الرحمن
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی نیتا آنے والے وقت کے خوف سے سہمے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ کرتارپور بارڈر کی راہداری کھلنے سے آواز ان کے حلق میں پھنسی ہوئی ہے ۔بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اسے پاکستان کی چال قرار دے رہی ہیں ۔بھارتی میڈیا کی بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ چند روز قبل ایک دینی مدارسہ کے دو طلبہ نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر اپ لوڈ کردی جس میں دہلی تک کافاصلہ بھی تحریر تھا پھر کیا ہوا پورے بھارت میں ایک کہرامچ گیا۔

ملک کے طول وعرض میں ان دو پاکستانی طلبہ کے پوسٹر لگا دےئے گئے کہ یہ پاکستانی دہشت گردہیں اور کسی وقت بھی کارروائی ڈا ل سکتے ہیں ۔لیکن بعد میں یہی طالب علم میڈیا میں ظاہر ہوئے اور انہوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان میں ہی ایک مدر سے کے طالب علم ہیں۔

(جاری ہے)


بھارت اچانک اس ہسٹریا میں کیوں مبتلا ہوا ہے ؟کس چیز کے خوف نے اسے اس ہیجان انگیزی پر مجبور کیا ہے ؟شخصی طورپر تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن بھارتی اداروں کو کیا ہوا ؟اداروں میں تو معاملات سوچ سمجھ کر اور اچھی طرح پرکھ کر دیکھے جاتے ہیں ۔

جہاں تک ہمیں سمجھ آتی ہے بھارتی نیتاؤں کی یہ صورتحال افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحاد یوں کی درگت کی وجہ سے بنی ہے۔
مقبوضی کشمیر میں ہر طرح کے ظلم کے بعد بھی کشمیری مسلمان کسی طور بھی بھارتی غلامی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ایک لاکھ سے زائد شہادتوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے حوصلے بلند ہیں ۔خطے کے حالات امریکہ اور بھارت کی مسلسل کو ششوں کے باوجود ان کے موافق ہونے نہیں جارہے ،پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کاکام تیزی سے روبہ عمل ہے ۔

پاکستان میں چینی سفارتی مشن کے خلاف ہونے والی دہشت گردی بھی پاکستان اور چین کو اس منصوبے کی تکمیل سے ٹلنے نہیں دے رہی بلکہ پاکستان اور چین کی جانب سے اس دہشت گردی کے خلاف جو ردعمل آیا ہے اس سے دونوں ملکوں کی دہشت گردی کے خلاف مزید ڈٹ جانے کی پالیسی واضح ہوتی ہے ۔
درحقیقت جس وقت 2001ء میں نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکہ نے اپنے صہیونی صلیبی اتحادیوں کے ساتھ افغانستان اور عراق کا رخ کیا تھا تو ایک طرح سے بھارت کی صورتحال ایسی بن گئی تھی جیسے ”بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا“۔

اس دور میں بھارت ایک جانب اندرونی خلفشار کا شکار تھا سفارتی ،سیاسی اور عسکری محاذ پر اسے قدم قدم پر پاکستان کی جانب سے ہزیمت کا سامنا تھا ۔مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر پہنچ چکی تھی ،کشمیری مسلمانوں اور کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ وادی میں بھارت کی عسکری قوت کا ناطقہ بند کررکھا تھا کہ اچانک ”نائن الیون “کا واقعہ منظر عام پر آتا ہے اور دنیا تیزی سے بدلنا شروع ہوتی ہے ۔


امریکہ اس حملے کی آڑ میں پہلے افغانستان کا رخ کرتا ہے ،اس کے بعد عراق میں تباہی پھیلائی جاتی ہے ۔پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت حکمت عملی کی بجائے خوف کی بنیاد پر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتی ہے اور پل بھر میں خطے کی بساط میں سجی پاکستان کی کامیابیوں کی بازی الٹ جاتی ہے ۔یہ وطن عزیز پر انتہائی سخت وقت تھا۔پاکستان امریکہ کی اس مسلط کردہ جنگ میں ہر اول دستہ ہونے کے باوجود ایک ”مشکوک ساتھی“قرار پایا جبکہ بھارت کی تمام تر دہشتگردانہ پالیسیوں کے باوجود اسے امریکہ نے افغانستان میں اپنا ”قائم مقام “بنانے کی تیاریاں شروع کردیں ۔


اس سلسلے میں بھارت کو واشنگٹن کی صہیونی دجالی لابی اور اسرائیل کی بھر پور مگر خاموش حمایت حاصل تھی ۔اسرائیل جس انداز میں سفارتی تعلقات اور امن کے نام پر مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں کی جانب پیش قدمی کررہا ہے ۔اس وقت وہ سمجھتا تھا کہ بھارت کے کابل میں بیٹھ جانے سے اسرائیل پاکستان کی بغل میں پہنچ جائے گا۔اسرائیلی امریکہ اور بھارت کی چھتری تلے افغانستان میں کیا گل کھلاتے رہے وہ ایک الگ داستان ہے ۔


اس وقت چونکہ موضع بھارت ہے اس لئے ہم یہیں تک محدودرہتے ہیں ۔ہم نے اپنے سابقہ تجزیہ میں بیان کیا تھا کہ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگوں کی وجوہات کچھ اور تھیں جبکہ اس کی آڑ میں مقاصد الگ تھے ۔یہی صورتحال افغانستان کے حوالے سے بنی ۔امریکہ نے نائن الیون کا الزام القاعدہ نامی تنظیم پر لگایا اور اسامہ بن لادن کی شکل میں ایک ایسا دشمن ظاہر کیا جسے اگر نہ پکڑا گیا تو جانے دنیا کو کس انجام سے دو چار ہونا پڑے ۔


لیکن یہ بات بھی اب تاریخ کا حصہ ہے کہ امریکی اور ان کے صہیونی صلیبی اتحادی کبھی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر اسامہ کو اس واقعہ کا ماسٹر مائنڈ ثابت نہ کر سکے بلکہ بعد میں بہت سے امریکی اور یورپی مصنفین نے امریکی دھو کے کابھانڈاپھوڑا اور اس موضوع پر بہت سی کتابیں تحریر کی گئیں ،لیکن امریکہ نے افغانستان میں گھسنا تھا سوگھس گیا لیکن افغانستان پر حملے کی اسے کیا قیمت چکانی پڑے گی اس کا اسے ادراک نہ تھا ۔

امریکی پوری تیاری کے ساتھ اور افغانستان کے حوالے سے بھر پور تاریخی حوالہ لیکر افغانستان میں وارڈ ہوئے تھے ۔
افغانستان کی جنگ میں مار کھانے والی سابقہ سو پر طاقت برطانیہ اس کے جلو میں تھی ۔افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے حوالے سے امریکی ایک اور بڑی غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ سوویت یونین کی شکست کی بڑی وجہ افغان مجاہدین کی امریکہ اور یورپ اور تمام امت مسلمہ کی کھلی عسکری اور معاشی پشت پنا ہی تھی ۔

لیکن امریکہ اپنی باری کے وقت یہ سمجھتا رہا کہ پاکستان اور تمام مسلم ممالک کے ہاتھ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی رسی سے باندھ دےئے ہیں ،اس لئے مسلم ممالک کی جانب سے عسکری اور معاشی پشت پنا ہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا دوسری جانب خود افغانستان میں شمالی اتحاد کے نام پر ایک شیطانی اتحاد تشکیل دیا گیا اور راتوں رات جرمنی کے شہر بون میں ایک کانفرنس منعقد کرواکر وہاں ایک نام نہاد حکومت تشکیل دی گئی ۔


تیسری جانب علاقائی طاقتوں میں بھارت اس کے ہمر کاب ہو گا ،اس ہمر کابی کے عوض بھارت کے تمام گناہ نظر انداز کئے گئے ،مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کی تحریک سے ملادیا گیا ،بھارت کے ساتھ کھلے عام جو ہری اور عسکری معاہدے عمل میں لائے گئے ۔ان تمام حالت کے بعد امریکہ کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں موجود واحد مزاحمتی قوت افغان طالبان پوری طرح نہتے ہو چکے ہیں اس لئے افغانستان کے معاملے میں تاریخ اپنے آپ کو دہرانے سے قاصر ہے مگر تاریخ کا پیہ بڑا ظلم ہوتا ہے اس کی زد میں چاہئے امریکہ ہویا سابق سوویت یونین کوئی نہیں بچتا ۔

امریکہ جو خود سیاہ تاریخ کی پیدا وار ہے بھلاتاریخ کو کیسے شکست دے سکتا تھا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
2001ء میں نائن الیون کے ڈرامے کے بعد سے بھارت نے اب تک یعنی اٹھارہ برس تک خوب ”عیاشی “کی مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہا ء کی گئی کہ دنیا میں کوئی اسے پوچھنے والا نہیں بچا تھا۔بھارت میں سکھوں ،مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ برہمن اسٹیبلشمنٹ نے معاندانہ سلوک بڑھایا۔

امریکہ اوریورپ کی مدد سے این آراو کی شکل میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کا دور بھی اسی اٹھارہ برسوں کی پیداوار ہے جس میں ان دونوں حکومتوں کو امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے مخصوص ٹاسک دےئے گئے،زرداری کے حصے میں کابل اور نواز شریف کو دہلی سونپا گیا اس کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کی جودرگت بنائی گئی وہ سب کے سامنے ہے ،معاشی طور پر کنگال کرنے کے لئے پوری طرح ہاتھ صاف کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے ۔


اپنی ہی پاک فوج اور اس سے متعلق دیگر اِداروں کے خلاف مہم جوئیاں کروالی گئیں جسے ملکی اداروں نے کمال حوصلے سے برداشت کیا۔وطن عزیز کے ہزاروں افسران فوجی جوانوں اور معصوم شہریوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنے خون کے نذر انے پیش کئے جسے بے وقعت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔یہ بھارت ہی ہے جس نے ایک طرف افغانستان میں بیٹھ کر کابل کر کٹھ پتلی حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ مل کر بلوچستان، کے پی کے اور کراچی میں دہشت گردی کی لہر پیدا کی ۔


بھارتی وزیر اعظم مودی کھلے عام اس بات کا بر ملا اظہار کرتا رہا کہ بلوچستان میں بھارت سے مدد مانگی جاتی ہے ! ! سیاست کے غلاف میں لپٹے کراچی کے ایک لسانی مافیا نے بھارت کی خفیہ ایجنسی راکی مدد سے شہر کو کئی برس تک خون میں نہلائے رکھا لیکن اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں نے سب کچھ جاننے کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ۔
برطانیہ کی چھتری تلے لندن میں مقیم اس لسانی گروہ کادہشت گرد سربراہ ”قائد تحریک “کے نام پر ملک اور اس کے اداروں کے خلاف اول فول بکتا رہا لیکن کسی سیاسی حکمران نے اس کی زبان بندی کے احکام جاری نہ کئے ۔

یہ ایک محاذ تھا دوسری جانب پاکستان اور اس کے اِداروں کے خلاف میڈیا کے ذریعے محاذ کھولا گیا،ایسے ایسے لال بھجکڑا ینکروں کی شکل میں تعینات کئے گئے جن کا کام ہی فوج اور ملکی اداروں میں کیڑے نکال کر عوام الناس کو گمراہ کرنا تھا۔
جن کے پاس موٹر سائیکلیں نہیں تھیں وہ کروڑوں کے مالک بن بیٹھے ،دبئی اور دیگر ملکوں میں جائدادیں بنالیں لاکھوں میں تنخواہیں وصول کیں جونہ جانے کہاں سے آتی تھیں ۔

۔۔اور کسی بھی قدغن کو آزادی رائے کے خلاف مہم سے جوڑ نے لگے۔جو کچھ ان اٹھارہ برسوں میں بھارت ،امریکہ اور یورپ کی آشیرباد سے چند مخصوص میڈیا ہاؤ سز میں پاکستان کے خلاف کھیل کھیلا گیا کیا اس کی مثال خود امریکہ یابرطانیہ میں بھی ملتی ہے ؟کیا سی این این امریکی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح تنقید کرنے کی جرات کر سکتا ہے ؟افغانستان میں پڑنے والی مار کوکبھی امریکی میڈیا نے اپنے اداروں کے لئے تضحیک موضوع بنایا ،کیا کبھی بی بی سی اور دیگربرطانیوی میڈیا نے اپنی فوج اور اداروں کو ناکامی کا طعنہ دیا یا اپنے عوام کو ان کے متعلق گمراہ کیا؟یہ تمام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا بد قسمتی سے یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا رہا ۔

اس ملک کے خلاف ان اٹھارہ برسوں میں کیا کچھ نہیں کیا گیا۔
قوم پرست اور مین اسٹریم سیاستدانوں نے اپنا مورچہ لگا رکھا تھا ،مخصوص میڈیا اپنی ”ڈیوٹی “دے رہا تھا ،جبکہ خارجی اور سفارتی سطح پر پاکستان کو سابقہ حکمرانوں کے ذریعے نہتا کر دیا گیا تھا ۔ان سارے حالات میں بھارت میں گھی کے چراغ جلتے رہے ۔اب چونکہ سارا منظر نامہ بدل چکا ہے تو بھارت کو اپنی شامت نظر آنا شروع ہو گئی ہے ۔


امریکہ افغان طالبان کے پیر پڑا ہوا ہے کہ اسے عزت سے جانے دیا جائے،ایسے حالات میں امریکہ بھارت کو خطے میں کیا سہارا دے سکتا ہے یہی وہ صورتحال ہے کہ اسے کرتا ر پور راہد اری کھلنے کا قلق ہے لیکن چونکہ مودی کی انتہا پسند حکومت کو آنے والے الیکشن میں شکست نظر آرہی ہے اس لئے یہ وہ ہڈی بن گیا جسے نہ اگلا جا سکتا تھا اور نہ نگلا جا سکتا تھا اس لئے بادل نخواستہ اس نے راہداری کھلنے دی ۔


لیکن پاکستانی میڈیا میں موجود بچے کھچے کچھ ”سقراطوں “نے قادیانیوں کے لئے بھی اسے سہولت قرار دے کر حکومت اور اداروں کے اس اقدام کو مشکوک بنانے کی کو شش کی ہے ۔حالانکہ ہمارے نزدیک یہ بھارت پر کار گل سے بھی بڑی ضرب ہے جس کی تکلیف اسے چین نہیں لینے دے رہی ۔بھارت سمجھتا ہے کہ اس سے اٹھارہ برسوں کا قرض سودسمیت وصول کرنے کا وقت آن پہنچاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

kartarpur raahdaari Bharat ke gilaay ki haddi kyun ban is a international article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 December 2018 and is famous in international category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.