مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک مرتبہ پھر جوڑ

14 اکتوبر کوپنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں قومی اسمبلی کی دونشستوں سمیت صوبائی اسمبلی پنجاب کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے ۔ان میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک مرتبہ پھر جوڑ پڑنے جا رہا ہے۔

جمعرات 20 ستمبر 2018

Muslim League N aur pti ke darmiyan aik martaba phir jor
فرخ سعید خواجہ

14 اکتوبر کوپنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں قومی اسمبلی کی دونشستوں سمیت صوبائی اسمبلی پنجاب کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے ۔ان میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک مرتبہ پھر جوڑ پڑنے جا رہا ہے۔ میاں حمزہ شہباز کی خالی کردہ نشست این اے 124 اور عمران خان کی خالی کردہ نشست این اے 131 جبکہ میاں شہباز شریف کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پی پی 164 اور پی پی 165 میں انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان این اے 131 سے چند سو ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے جبکہ میاں حمزہ شہبازاین اے 124 سے ہزاروں ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف بھی پی پی 164 اور پی پی 165 سے بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔

(جاری ہے)

ضمنی انتخابات میں کیا صورت بن سکتی ہے آئیے اس کا انتخابی جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے ہم این اے 124 کو لیتے ہیں یہاں سے 2013ء میں پی ٹی آئی کے معروف سیاسی کارکن محمد خان مدنی کو ٹکٹ ملا تھا۔ نوجوان محمد خان مدنی نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر لیڈر میاں حمزہ شہباز کے مقابلے میں جان توڑ محنت کی لیکن ناکامی اُن کا مقدر بنی۔

الیکشن 2018ء میں پی ٹی آئی نے سفید پوش محمد خان مدنی کی جگہ نسبتاً مالدار نعمان قیصر کو ٹکٹ دیا لیکن وہ بھی حمزہ شہباز سے ہزاروں ووٹ سے ہار گئے۔ پی ٹی آئی نے اب ضمنی الیکشن میں شہر کی معروف سیاسی شخصیت غلام محی الدین دیوان کو ٹکٹ دیا ہے۔ دیوان صاحب بِلاشبہ سیلف میڈ شخص ہیں۔ وہ ممتاز کشمیری رہنما غلام حسن ڈار کے کارکن تھے۔انہوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد اکبری منڈی میں اپنے والد کے ساتھ محنت مزدوری سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اپنی محنت اور ذہانت سے انہوں نے اپنے کاروبار کو ترقی دی اور آج فوڈ انڈسٹریز میں اُن کے ادارہ کی مصنوعات کا اچھا نام ہے۔ غلام حسن ڈار مرحوم کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادے سعید حسن ڈار آزاد کشمیر اسمبلی کا لاہور سے الیکشن لڑنے کے خواہاں تھے لیکن مرحوم کشمیری لیڈر کی اہلیہ محترمہ نے بیٹے پر غلام حسن ڈار کے کارکن غلام محی الدین دیوان کو ترجیح دی اور اسے الیکشن لڑنے کے لئے آگے کر دیا۔ غربت سے امیری کا سفر طے کرنے والے غلام محی الدین دیوان کا شمار خداترس افراد میں ہوتا ہے اور بالخصوص انہوں نے مقبوضہ کشمیر سے لاہور آنے والے کشمیریوں کے غریب گھرانوں کی دستگیری کر کے اُن کے دلوں میں اپنی جگہ بنا لی اور متعدد مرتبہ لاہور سے آزاد کشمیر اسمبلی کا الیکشن جیتا۔ اس وقت بھی وہ آزاد کشمیر اسمبلی کے حلقہ لاہور سے رکن ہیں تاہم اب ان کا پالا این اے 124 کے ووٹروں سے پڑا ہے جو کہ 1990ء سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نواز شریف، شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور میاں حمزہ شہباز کو یہاں سے کامیاب کرواتے چلے آ رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے جس امیدوار کو میدان میں اتارا ہے وہ مری کے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے تاہم اس کی سب سے بڑی خوبی مسلم لیگ (ن) کا کارکن ہونا ہے۔ وزیراعظم کے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائزہونے کے باوجود شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میرا وزیراعظم نواز شریف ہے۔یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ فوجی گھرانے کے اس سپوت کو اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے دو حلقوں میں شکست کا بندوبست کرکے سزا دی۔ لاہوریے بہادر اوروفادار لوگوں پر جان چھڑکتے ہیں ۔ ہماری این اے 124 کے بہت سے لوگوںسے بات ہوئی،ہمارا تاثر ہے کہ ان لوگوں نے شاہد خاقان عباسی کوسر آنکھوں پربٹھا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیںہماری دل و جان سے خواہش ہے کہ اُن کے سر پر فتح کاتاج رکھیں۔ اُدھر عمران خان کی خالی کردہ نشست این اے 131 میں پیدائشی لیڈر خواجہ سعد رفیق ایک مرتبہ پھر میدان میں ہیں، عام انتخابات میں انہوںنے عمران خان کولوہے کے چنے چبوا دئیے۔ پی ٹی آئی نے اُن کے مقابلے میں علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو اُتارنے کی بجائے ہمایوں اختر خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ولید اقبال کے بڑے بھائی منیب اقبال کا جو حشر مسلم لیگ (ن) نے کیا تھا اس سے کہیں بُرا ولید اقبال کے ساتھ پی ٹی آئی نے کیا ہے۔ منیب اقبال تو سیاست سے تائب ہو گئے اور مرکزیہ مجلس اقبال تک خود کومحدود کر لیا اب دیکھنا یہ ہے کہ علامہ اقبال کا دوسرا پوتا کیا کرتا ہے؟ خواجہ سعد رفیق کی تنظیمی قابلیت کا سارا زمانہ معترف ہے، وہ وقت پڑنے پر اپنے ناراض سے ناراض دوست، ساتھی اور کارکن کو منانے کی اہلیت رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ لوگوں نے الیکشن 2018ء کے موقع پر دیکھا۔ خواجہ سعد رفیق مسلسل انتخابی مہم میں ہیں، اُن کے مدمقابل ہمایوں اختر خان بھی منظم انداز میں الیکشن لڑنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اُن کے اس حلقے میں پرانے دوست اورکارکن ایک مرتبہ پھر اُن کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہیں، پی ٹی آئی کا ووٹ بنک بھی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کا ھما کس کے سر بیٹھتا ہے۔ دونوں صوبائی حلقوں پی پی 164 اور پی پی 165 میں مسلم لیگ (ن) نے اپنے دو آزمودہ افراد میدان میں اُتارے ہیں۔ پی پی 164 پر ملک سیف الملوک کھوکھر کو لایا گیا ہے جو قریبی حلقوں سے دو مرتبہ پہلے رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں اور الیکشن 2018ء میں انہیں پرموٹ کر کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ این اے 135 سے امیدوار بنایا گیا تھا لیکن وہ وہاں پی ٹی آئی کے کرامت کھوکھر سے شکست کھا گئے۔ ان کوایک مرتبہ پھر پنجاب اسمبلی کی اس نشست پر قسمت آزمائی کا موقع دیا جا رہا ہے۔ اُن کے مدمقابل پی ٹی آئی سابقہ امیدوار یوسف کو میدان میں لائی ہے۔

پی پی 165 میں مسلم لیگ (ن) نے سابق رکن قومی اسمبلی سہیل شوکت بٹ کو میدان میں اتاراہے جنہیں 2018ء کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا لیکن انہوں نے پارٹی ڈسپلن کوترجیع دی اور سردار ایاز صادق کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا اور انہیں کامیابی دلائی۔ یہاں پی پی 165 میں ان کے مقابلے پر چودھری منشا سندھو آئے ہیں جو الیکشن 2018ء میں این ا ے 132 پر میاں شہباز شریف سے دوسری مرتبہ ہار گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کا پلڑا ان حلقوں میں ا س لئے بھی بھاری رہے گا کہ الیکشن 2018ء میں ان دونوں صوبائی اسمبلی کے حلقوں سمیت قومی اسمبلی کے حلقہ این ا ے 132 کا الیکشن رانا مبشر اقبال نے لڑا تھا جو کہ خود بھی این اے 134 سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار تھے۔ رانا مبشراقبال کے ساتھ ذیلی صوبائی حلقوں پی پی 169 میں اختر بادشاہ میو اورعمران جاوید ہیں دو سیاسی کارکن امیدوار تھے جبکہ تیسرے صوبائی حلقے پی پی 168 میں خواجہ سعد رفیق پنجاب اسمبلی کے امیدوار تھے۔ رانا مبشراقبال کا اعزاز ہے کہ اس نے نہ صرف اپنی اور میاں شہباز شریف کی انتخابی مہم کامیابی سے چلائی بلکہ صوبائی اسمبلی کے متذکرہ بالا حلقوں میں بھی اپنے امیدواروں کی کامیابی میں حصہ ڈالا قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں جتوانے کا اعزاز رانا مبشر اقبال کا ہے کیونکہ میاں شہباز شریف انتخابی مہم کے دوران صرف ایک مرتبہ رات بارہ بجے اپنے حلقہ انتخاب میں گئے ا ور ایک دو مرتبہ ان کے صاحبزادے سلمان شہباز نے ان انتخابی حلقوں کا دورہ کیا باقی کام رانا مبشراقبال ہی نے سنبھالا۔ موجودہ ضمنی الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی کامیابی میں رانا مبشر اقبال کا یقیناً اہم کردار ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muslim League N aur pti ke darmiyan aik martaba phir jor is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 20 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.