مسلم لیگ ن نواز شریف اور مریم کی رہائی کی خواہاں!

صوبہ پنجاب میاں شہباز شریف کی توجہ کا طلبگار سردارعثمان بزدار،چوہدری سرور،چوہدری پرویزالہی اورعلیم خان وزیراعظم عمران خان کے سو روزہ پلان پر عمل درآمد کے لئے کوشاں

جمعرات 13 ستمبر 2018

Muslim League N Nawaz shareef aur maryam ki rihayi ki khwahan
فرخ سعید خواجہ

الیکشن 2018کے بعدہرخاص وعام محسوس کر رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار باہم شیروشکرہیں ۔ ان کی ہم آہنگی یقینا قوم و ملک کیلئے سود مند ثابت ہو گی۔ مزید بہتری کیلئے ضروری ہے کہ قومی ایشوز طے کرکے اس پر اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے ،اس طرح قوم یکسو ہو کر آگے بڑھ سکے گی۔ جہاں تک حکومت اور اپوزیشن کے کردار کا تعلق ہے دونوں اپنے اپنے فرائض آئینی اور قانونی طور پر ادا کریں۔ادھرملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدار، گورنر چوہدری سرور ، سپیکر چوہدری پرویز الہی اور پنجاب کے سینئر وزیر عبد العلیم خان باہم مشاورت سے وزیراعظم عمران خان کے 100روزہ پلان پر عملدر آمد کی راہ ہموار کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔

(جاری ہے)

اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ چاروں مل کر عوام کو کس قدرریلیف دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے وہ اگرچہ الائنس فارفری اینڈ فیئر الیکشن کے پلیٹ فارم پر اکھٹی ہیں لیکن وزیر اعظم اور صدر مملکت کے انتخاب میں قوم نے دیکھا کہ دال جوتیوں میںبٹ رہی ہے ۔سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کا حال دیکھیں تو اس کی تنظیمی حالت پتلی ہے۔ میاں شہباز شریف نے حال ہی میںصوبہ سندھ میں پارٹی کی تمام تنظیمیں توڑ دی ہیں اور 25رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے ذمے تنظیم نو کی ذمہ داری لگائی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی طرف میاں شہباز شریف کب توجہ کرتے ہیں جہاں پارٹی کا نہ صوبائی صدر ہے نہ جنرل سیکرٹری اور نہ ہی سیکرٹری اطلاعات۔ لوگ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن )کی میڈیا مینجمنٹ کمال کی ہے اور ان کے صحافیوں سے گہرے مراسم ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا سرے سے کوئی میڈیا سیل ہی موجود موجودنہیںہے ۔ الیکشن 2018کے لئے سوشل میڈیا اور میڈیا سیل کے لئے جن تیس پینتیس لوگوں کو دو ماہ کی مدت کے لئے ہائرکیا گیا تھاانہیں 31جولائی کو فارغ کر دیا گیا تھا ۔ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کے سلسلے میں بھی سیٹھوں والارویہ اختیار کیا گیا۔ انہیں نہ صرف طے شدہ ماہانہ معاوضے سے کم ادائیگی کی گئی بلکہ دو ماہ کام کروا کر ایک ماہ کا معاوضہ دے کر ٹرخا دیا گیا۔سو 31جولائی کو فارغ ہونے والے یہ لوگ رضاکارانہ کام کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔مسلم لیگ کے قائد نواز شریف اوران کی صاحبزادی اڈیالہ جیل میں ہیں، مسلم لیگ ن ان کی رہائی کے لئے بھرپور کوششیں شروع کرنے کی خواہاں ہے ۔ لیکن اس بے سروسا مانی میں بھلامطلوبہ نتائج نکل سکیں گے؟ اب ہم اس جماعت کا ایک اور پہلو مسلم لیگ کے بہی خواہوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوںتحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور ممتاز مسلم لیگی رہنما سید احمد سعید کرمانی کی یاد میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ایک تعزیتی ریفرنس ہوا۔ جس میں ان کے فرزند ڈاکٹر آصف کرمانی، ان کے سینیٹر دوست پرویز رشید،قریبی عزیز خواجہ سعد رفیق کے علاوہ کوئی اہم مسلم لیگی رہنما موجود نہیں تھا البتہ مسلم لیگ ن لائرز فورم کے صدر نصیر بھٹہ کی قیادت میں متعدد وکلاء شریک مجلس تھے ۔ دیگر مقررین میں سینئر وکیل اور ممتاز سیاستدان احسان وائیں،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر پیر سید خورشید کلیم، استقلال پارٹی کے کے سربراہ سید منظور علی گیلانی ایڈووکیٹ ، احمر بلال صوفی ایڈووکیٹ ، نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چئرمین ڈاکٹر رفیق احمد، سیکریٹری شاہد رشیدسمیت دیگر معززین شامل تھے۔مقررین نے قائداعظم سمیت دیگر مسلم لیگی اکابرین کے حوالے سے بہت سی باتیں کیں لیکن میاں نواز شریف کے دست راست سینٹر پرویزرشید نے قائداعظم کی 11اگست کی تقریر کے حوالے سے جو کچھ ارشاد فرمایا اس پر مجلس میں موجود بیشتر شرکاء نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ نواز شریف کبھی دینی قوتوں کے پسندیدہ تھے لیکن آج وہ جس انجام سے دو چار ہیں اس کی وجہ ان کا اپنی ’’پچ‘‘ چھوڑ کر لادین عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنا ہے ۔جہاں تک نواز شریف کے فوج کے سیاست میں عمل دخل کے خلاف موقف کا تعلق ہے اس کی تائید ملک کے تمام باشعور طبقات کرتے ہیں لیکن نواز شریف کی اصل طاقت دینی سیاسی طبقہ تھا جس کی حمایت اب وہ کھو چکے ہیں بات دور نکل گئی ۔ الیکشن2018کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں بن چکی ہیں اور ڈاکٹر عارف علوی نے نو منتخب صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے یوں پارلیمنٹ مکمل ہوگئی ہے ۔پاکستان کی سیاست پر اگرچہ پیسے والے لوگ چھائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود متوسط طبقے کے افراد کا پاکستان میں صدر مملکت کے عہدے پر انتخاب خوش آئند ہے۔ نئے صدر ڈاکٹرعارف علوی اور سبکدوش ہونے والے صدر ممنون حسین دونوں ہی کا تعلق متوسط طبقے سے ہے ان سے قبل جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ بھی متوسط طبقے ہی سے تھے ۔ شہری علاقوں میں لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں کے کم از کم پچاس فیصد ارکان اسمبلی بھی متوسط طبقے سے ہیں الیکشن2018کے ذریعے نئی اسمبلیوں کے قیام کے بعد وزیراعظم اور وزراء اعلی کے انتخاب کے بعد صدر مملکت کے انتخاب سے موجودہ انتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے الیکشن2018میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن ضرور قائم کرنا چاہئے ، خواہ اس سے دھاندلی ثابت ہو یا نہ ہو لیکن قوم کو آگاہی ملنی چاہئے تاکہ قوم اس کے بعد آگے کی طرف بڑھے البتہ موجودہ پارلیمنٹ کو انتخابی عمل کو مزید شفاف بنانے کے لئے انتخابی اصلاحات کے کام کو بھی آگے بڑھانا چاہیے ۔وزیراعظم عمران خان کے 100روز ہ پلان پر عملدر آمد کا معاملہ قوم کے سامنے ہے ۔ اکیس بائیس روز گزر چکے جبکہ ستتر اٹھتر دن باقی رہ گئے ہیں امید رکھنی چاہیے کہ عمران حکومت ان دنوں میں ایسے کام بھی کرے گی جس سے عام آدمی کو ریلیف ملے ۔ تاحال بجلی گیس اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے اعلانات سے لوگ خاصے بدمزہ ہوئے ہیں ۔ادھر اپوزیشن جماعتیں بھی اپنی صفیں درست کر رہی ہیں اسی ماہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہونا ہے جس سے نو منتخب صدر مملکت خطاب کریں گے ۔اور اس کے بعد نیا پارلیمانی سال شروع ہو جائے گا۔ عام خیال یہی ہے کہ اسمبلیوں کے اجلاس خاصے ہنگامہ خیز ہوا کریں گے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز ، داماد کیپٹن صفدر اور ان کی قریبی ساتھی جب تک جیلوں میں بند ہیں سیاسی ٹمپریچر نارمل نہیں ہو سکتا ۔تاہم حکمران جماعت پی ٹی آئی کی قیادت کاامتحان ہے کہ وہ کتنی فہم و فراست کا مظاہرہ کر پاتی ہے حکومت کے تجربے سے محروم پی ٹی آئی کی قیادت نے اپوزیشن دور والے طور طریقے اپنائے تو سیاسی ماحول میں موجود تلخی برقرار رہے گی جس کے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوںگے ۔جہاں تک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا تعلق ہے اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی نسبت ان کی سیاست میں اعتدال رہا ہے۔ شہباز شریف کو اپنی جماعت اور میڈیا کی طرف سے طعنہ دیا جاتا رہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں پارٹی قائد کی پالیسی سے انحراف کرتے رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ حکمران اور حکمران جماعت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثالی تعلقات قائم ہونے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا مسلم لیگ ن کے ساتھ بگڑا ہوا تعلق مزید بگڑے گا یادونوں اطرف سے اصلاح احوال کے لئے کوئی کوشش ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

Muslim League N Nawaz shareef aur maryam ki rihayi ki khwahan is a political article, and listed in the articles section of the site. It was published on 13 September 2018 and is famous in political category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.