ترکی اور سعودی عرب مد مقابل․․․مقاصد کیا ہیں؟

ہدف سعودی عرب ہے․․․جمال خاشقجی نہیں امریکہ اور اسرائیل کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جو کسی شخص کو کہیں بھی چلتا پھرتا دکھا سکتی ہے

بدھ 24 اکتوبر 2018

turkey aur Saudi arab madmuqabil maqasid kya hain
 محمد انیس الرحمن
پاکستان میں جس وقت ضمنی انتخابات ہو رہے تھے اس وقت دنیا میں ایک نیا کھیل روز مختلف شکلیں تبدیل کر رہا تھا۔ اس نئے کھیل کے لئے اس مرتبہ چاراسعودی صحافی جمال خاشقجی
کو بنایا گیا تھا۔ جو دو اکتوبر2018ء کو اچانک استنبول کے سعودی قونصل خانے میں گیا لیکن اس کے بعد سے وہ لاپتہ کر دیا گیا۔ ترکی نے پہلے الزام لگایا کہ سعودی صحافی کو قونصل خانے میں بلا کر سعودی انٹیلی جنس نے قتل کر دیا ہے۔


کیونکہ قونصل خانے میں داخل ہونے کی سی سی ٹی وی رپورٹ میں یہی د کھایا گیا تھا لیکن اس کی باہر نکلنے کی کوئی ایسی تصویر یا
کلپ نہیں مل سکی جس سے اندازہ ہو کہ وہ قونصل خانے سے نکل چکا ہے۔ سعودی قونصل خانے کا موقف تھا کہ جمال خاشقجی یہاں سے نکل گیا تھا اور قونصل خانے کے اندر لگے ہوئے سی سی ٹی وی کیمرے لائیو تود کھاتے ہیں لیکن ریکارڈنگ نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

ترکی کی جانب سے سعودی عرب پر قتل کے الزام کے بعد گویا کہ خطے میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ جس میں امریکہ اور برطانیہ ”طے شدہ“ منصوبے کے تحت کود پڑے۔ امریکی میڈیا نے کہانی کو خوب مرچ مسالے لگا کر بیان کرنا شروع کر دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ جو کچھ عر صے سے سعودی عرب کو ہلکے پھلکے انداز میں دھمکارہے تھے پورے زور شور سے اس مسئلے میں کود پڑے۔

اس سے پہلے ٹرمپ نے بین الا قوامی تعلقات عامہ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے عالمی میڈیا کے سامنے کہا کہ” سعودی عرب کے پاس کئی ٹریلین ڈالر ہیں۔ امریکہ سعودی نظام کا محافظ ہے اس لئے سعودی حکومت اس دولت کا کچھ حصہ امریکہ کو دے۔ یہ ایک طرح سے کھلی بد معاشی تھی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ شاہ سلمان کی حکومت دو ہفتے نہیں چل سکتی اگر وہاں امریکی فوج نہ ہو۔

اس قسم کے غیر اخلاقی بیانات جو بین الا قوامی تعلقات میں انتہائی غیر اخلاقی تصور ہوتے ہیں کے دوران ہی جمال خاشقجی کی پراسرار گمشدگی کا واقعہ رونما ہوتا ہے جس نے خطے کے دو اہم ملکوں سعودی عرب اور ترکی کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا۔ اس بات کو بھی نظر میں رکھا جائے کہ ترکی میں قید امریکی پادری پاسٹر اینڈ ریو برونسنPastor Andrew Brunson, جسے ترک حکومت
نے ناپسندید ہ سرگرمیوں کی وجہ سے تین سال کے لئے جیل بھیج دیا تھا اچانک اسے رہا کر کے امریکہ پہنچا دیا جاتا ہے۔

امریکہ
کے دہشت گردانہ افکار کے حامل ایونجیکل عیسائی فرقے سے تعلق رکھنے والے اس پادری کی رہائی کے لئے ٹرمپ انتظامیہ ایڑی چوٹی کا زور لگا چکی تھی لیکن اردگان حکومت نے ہر قسم
کے دباؤ کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن یوں اچانک جمال خاشقجی کے مسئلے پر ترکی اور امریکہ کے ایک ہو جانے کے بعد امریکی پادری کی پراسرار رہائی نے کئی قسم کے سوالات کھڑے کر دےئے ہیں۔


جمال خاشقجی1958ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوا اس کے
دادا محمدخوشقجی ترکی النسل تھے وہ سعودی عرب آکر سعودی مملکت کے بانی شاہ عبد العزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے ذاتی معالج کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے انہوں نے یہاں سعودی خاتون سے شادی کی تھی اور یہاں کی شہریت اختیار کرلی تھی۔ جمال خاقجی عالمی سطح پر مشہور بین الا قوامی
اسلحہ ڈیلر عدنان خاقجی کا بھیجا بھی ہے۔

عد نان خوشقجی کا نام سابق امر یکی صدر رونالڈ ر یگن کے زمانے میں ایران کو نٹرا اسکینڈل میں بھی آچکا ہے۔1980ء میں عدنان خوشقجی کی دولت کا تخمینہ چار بلین ڈالر تھا جو آج کے حساب سے کئی سوبلین ڈالر بنتا ہے۔ جمال خوشقجی لیڈی ڈیانا کے ساتھ تعلقات میں مشہور د ووی الفائد کافرسٹ کزن بھی ہے یہ وہی دودی الفائد ہے جو پیرس میں لیڈی ڈیانا کے ساتھ ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گیا تھا۔

1980 سے 1990 تک جمال خاشقجی کے اسامہ بن لادن کے ساتھ ہی دوستانہ تعلق رہا۔ یہ تعلقات اس وقت بھی قائم تھے جب اسامہ سوڈان میں تھے اس کے بعد وہ افغانستان منتقل ہوئے تو جمال خاشقجی نے افغانستان میں ان کے کئی انٹرویو بھی
کیے تھے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس ایجنسی نے جمال خاشقجی کے ذریعے سعودی حکمران خاندان کے ساتھ پرامن پالیسی اختیار کرنے کی بھی کوشش کی تھی، لیکن نائن الیون کے واقعے کے بعد جمال خوشقجی نے اپنے آپ کو اسامہ بن لادن سے الگ کرلیا تھا۔


تفصیلات کے مطابق 1980ء میں امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے بی بی اے کرنے والے سعودی صحانی جمال خاشقجی
کچھ عرصہ قبل ہی سعودی عرب سے منحرف ہو کر امریکہ میں قیام پذیر ہو گیا تھا جہاں وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے پہلے
سے منسلک تھا۔ جمال ناشقجی کا صحافتی دور خاصا درخشاں ہے اور اس نے ہمیشہ صحافتی اداروں میں اعلیٰ مناصب پر کام کیا ہے۔

لبرل افکار کا مالک جمال خاشقجی اپنے تنقیدی مضامین کی وجہ سے بہت مشہور تھا، وہ مشہور سعودی اخبار الوطن کا ایڈیٹر بھی رہا اس
نے سعودی نیوز چینل العربیہ کے جنرل منیجر اور چیف ایڈیٹر کے طور بھی خدمات انجام دیں۔ اس سے پہلے وہ سعودی اخبار الشرق الاوسط، المدینہ، لندن سے شائع ہونے والے المجلہ میں بھی کام کرتا رہا ہے۔ بی بی سی اور سی این این میں بھی اس کی گفتگو جاری ہوتی رہی۔

اس نے صحافتی پلیٹ فارموں کو سعودی معاشرے میں لیبرل افکار کی ترویج کے لئے بھی استعمال کیا جبکہ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا رہا کہ وہ خطے میں اسلامی تحر یک اخوان المسلمون کا ڈی فیکٹو سربراہ ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ جمہوریت کا بھی قائل تھا اور سلفی عقیدے سے بھی اسے کوئی لگاؤ نہ تھا پر کیسے وہ اسلامی تحریک سے وابستہ ہو سکتا تھا۔

۔۔ شاہ فیصل شہید کے صاحبزادے اور سابق سعودی انٹیلی جنس چیف امیر ترکی الفیصل کے صحافتی مشیر
کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ سعودی شاہی خاندان کے قریب تصور کئے جانے والے اس سعودی صحافی نے آہستہ آہستہ سعودی حکومت کے بہت سے معاملات پر تنقید بھی شروع کردی تھی جس کی وجہ سے ایک روز اسے محسوس ہوا کہ اگر وہ مزید سعودی عرب میں رہا تو اسے گرفتار کرلیا جائے گا اسی خوف کے پیش نظر وہ امریکہ جا کر مقیم ہو گیا۔

جمال خاشقجی ستمبر 2017ء کو اچانک سعودی عرب سے امریکہ پہنچا تھا اس کا موقف تھا کہ سعودی حکومت نے اس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی ہے اس لئے اسے خدشہ تھا کہ جلد اسے بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس کے بعد جمال خاشقجی نے واشنگٹن پوسٹ میں مضامین لکھنا شروع کردیئے وہ اس امریکی اخبار سے پہلے ہی وابستہ تھا لیکن اب اس نے سعودی شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید شروع کر دی۔

اس نے امریکی میڈیا سی این این پر آکر سعودی حکومت کی قطر کے بائیکاٹ اوریمن کے خلاف جنگ سے متعلق پالیسی کو کھل کر نشانہ بنایا۔
 اس تمام پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اب اس کھیل کا اندازہ لگایا جائے جو امریکہ اور برطانیہ اس حادثے کی آڑ میں کھیلنا چاہتے ہیں جبکہ اسرائیل اس معاملے میں بالکل خاموشی سے تماشا دیکھ رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جمال خاشقجی اپنی سعودی بیوی کو طلاق دینے کے بعد ایک ترک خاتون خدیجہ چنگیز سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

اس لئے سعودی عرب میں مقیم اپنی سابقہ اہلیہ
کے طلاق کے کاغذات کی تصدیق کے لئے اسے سعودی قونصل خانے جانا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی امریکہ میں مقیم تھا تو اسے چاہئے تھا کہ اس کام کے لئے وہ واشنگٹن کی سعودی ایمبیسی میں جاتا پھر کس نے اسے استنبول
کے سعودی قونصل خانے میں جانے پر مجبور کیا؟ دوسری بات یہ ہے کہ جمال خاشقجی امریکہ میں رہ رہا تھا پھر اسے یہ ترک خاتون کہاں سے مل گئی؟ وہ امریکہ میں بھی کسی عرب یا
کسی اور مسلم خاتون سے دوسری شادی کرسکتا تھا۔

افکار میں چونکہ موصوف بہت لیبرل تھے اس لئے وہ کسی غیر مسلم امریکی خاتون کو بھی شریک حیات بنا سکتے تھے۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے مزید تیل پرجلتی کا کام کرنے کے لئے جمال خاشقجی کی مبینہ منگیتر کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دے دی ہے۔ یاد رہے اس خاتون کا صحافتی پس منظر بھی خاصا مشکوک ہے۔ ان تمام باتوں میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں جمال خاشقجی لکھا کرتا تھا اسی اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں دعوی کر دیا کہ امریکی سی آئی اے کو اس بات کی پہلے سے خبر تھی کہ سعودی حکومت جمال خاشقجی کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنارہی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر امریکی انٹیلی جنس کے پاس اس قسم کی خبر تھی تو اس نے جمال خاشقجی کو پہلے ہی اس سے خبردار کیوں نہ کیا تا کہ وہ استنبول کے سعودی قونصل خانے نہ جاتا۔ لیکن
مزے کی بات یہ ہے کہ نہ تو جمال خاشقجی کے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اسے خبردار کیا اور نہ ہی امریکی انٹیلی جنس نے۔ واشنگٹن پوسٹ شاید اپنے ہی ہاں کام کرنے والے صحافی کو ”خبر“ بنانا چاہتا تھا۔

اس حوالے سے ایک حیرت انگیز خبر یہ بھی آئی کہ جمال خاشقجی جس وقت سعودی قونصل خانے کے اندر گیا تو اس نے ایپل کی سمارٹ واچ باندھ رکھی تھی جو انٹرنیٹ کے ذریعے باہر کھڑی ہوئی اس کی مبینہ منگیتر خدیجہ چنگیز کے سیل فون سے منسلک تھا اور جس وقت مبینہ طور پر جمال خاشقجی پر قونصل خانے میں قتل کرنے کے لئے تشدد کیا گیا تو اس کی چیخیں اس سیل فون میں سنائی دیں۔

اب امریکہ بھی یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے پاس جمال خاشقجی کی چیخوں کا ریکارڈ ہے اور ترکی کا بھی یہی بیان ہے یاللعجب۔۔۔ امریکی میڈیا اس سارے معاملے کے لئے ایک خاص ماحول بنا رہا ہے جبکہ امریکی کانگریس کے ارکان نے اسے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کی خلاف ورزی قرار دے کر تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ جی ہاں وہی امریکی کانگریں جس نے نائن الیون کے ڈرانے کے بعد اسلامی دنیا پر حملے کی اجازت دی لاکھوں مسلمان امریکہ کی دہشت گردانہ پالیسی کے تحت افغانستان، عراق، شام اور مقبوضہ فلسطین میں قتل کردیئے گئے لیکن اس وقت امریکی کانگریس کو انسانی حقوق کا کوئی چارٹر نظر نہیں آیا۔


اصل حقیقت یہ ہے کہ جمال خاشقجی سے پہلے ہی خطے میں بڑی تبدیلیوں کی ہوا چلا دی گئی ہے۔ جمال خاشقجی اس سارے بڑے د جالی صہیونی کھیل کا ایک چھوٹا سا مہرہ ہے یہ کھیل ڈونالڈ
ٹرمپ کے یہودی داماد جیراڈ کوشنر کی سرکردگی میں کھیلا جارہا ہے جسے ٹرمپ انتظامیہ نے مشرق و سطیٰ سے متعلق امور کا چارج دے دیا ہے۔ بظاہر اس کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے لیکن اختیارات کے معاملے میں اس وقت وہ امریکہ میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا ہے۔

اس سے پہلے بھی ہم اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کوشنر مشرق وسطیٰ میں نکسن دور کے وزیر خارجہ صہیونی ہنری کسنجر کا کردار ادا کررہا ہے جس نے تیل کی قیمت کو ڈالر سے منسلک کرا کر تمام دنیا کی معاشیات پر قبضہ جما لیا تھا۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ ترکی اور سعودی عرب ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ ترکی جزیرةالعرب کے ارد گرد کے علاقے میں اپنے فوجی اڈے مستحکم کررہا ہے جبکہ سعودی عرب اسے اپنے استحکام کے لئے خطرہ سمجھ رہا ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بھی یمن اور بحرین کی وجہ سے کم خراب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ قطر کے ساتھ سعودی تنازعے میں بھی ترکی نے اپنا وزن قطر
کے پلڑے میں ڈال دیا تھا اور وہاں اپنی فوجیں اتار دی تھیں جس کی وجہ سے بھی خطے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ امریکہ اسرائیل اور برطانیہ ترکی کی اس پیش قدمی کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں اور آنے والے وقت میں مسلم دنیا کے درمیان اس دراڑ کو اپنے عالمی صہیونی غلبے کے لئے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں جس کے لئے خلیج کی تیل کی دولت پر ہاتھ رکھنا سب سے ضروری ہے تا کہ آنے والے وقت میں روس اور چین کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔

پاکستانی اداروں کو یہ بات بھی مد نظر رکھنا ہوگی کہ امریکہ اور مغرب کا کارپورییٹیڈ میڈیا اپنی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر کام کرتا ہے اور کہانیاں گھڑتا ہے لیکن بہت سا آزاد میڈیا ایسا ہے جسے سامنے آنے ہی نہیں دیا جاتا لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ یہاں بہت سی خرافات کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے مغربی میڈیا کو بھی رسائی حاصل ہے جوان کے ذریعے سوئی ہوئی دنیا تک حقیقت پہنچ ہی جاتی ہے۔

ایک میڈ یا اینجل لائٹ 24 کے مطابق جیراڈ کوشنر اس وقت مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین کے حل کی آڑ میں مسجد اقصیٰ کے انہدام اور وہاں یہودی ہیکل کی تعمیر کا منصوبہ بنا چکا ہے اس سلسلے میں اسے تمام دنیا کی صہیونی قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ کوشنر درحقیقت”Antichrist “ہے اور ”بڑے منصوبے پر کام کررہا ہے اسی طرح کے ایک اور میڈیا نے امریکہ میں دس با اختیار افراد کی لسٹ جاری کی تھی جس میں سب سے اوپر نمبر ٹرمپ کے داماد جیراڈ کوشنڑ کا تھا جبکہ خود امریکی صدر ٹرمپ کا نمبر ساتواں تھا۔

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ
نے ٹرمپ کو صرف الٹی سیدھی حرکتیں کرنے کے لئے رکھا ہوا ہے جبکہ حقیقی کام خاموشی سے اس کا صہیونی داماد کوشنر کررہا ہے جس کی مین ہیٹن نیو یارک میں واقع کاروباری بلڈنگ پر آج بھی 666 کا نشان واضح ہے جس کا مطلب وہ حلقے اچھی طرح جانتے ہیں جن کی نظر عالمی صہیونی دجالی حکومت کے قیام کی کوششوں پر ہے۔

اس لئے جب ان تمام معاملات کو دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ جمال خاشقجی جیسے افراد محض ایک مہرہ ہوتے ہیں جنہیں عالمی صہیونی سیسہ گر استعمال کر کے پھینک دیا کرتے ہیں۔ آنے والے وقت میں امریکہ
کے صہیونی بینکر اور مالیاتی مافیا امریکی معیشت کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرتے جائیں گے تاکہ امریکی حکومت پر دباؤ آئے کہ وہ اپنے سعودی عرب جیسے اتحادیوں سے سرمایہ حاصل کرنے کے لئے انہیں بلیک میل کریں۔

یہ صورتحال خطے میں مزید بے چینی پیدا کرے گی سعودی عرب، قطر اور ترکی اپنے ذاتی تنازعات کے باعث ایک دوسرے کی مدد کو نہیں آئیں گے اس لئے پھر ان مسلمان ملکوں کو اکیلا کر کے وہاں اسرائیل کی عالمی سیادت کے لئے راہ ہموار کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ امریکہ اور اسرائیل کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی بھی شخص کو کہیں بھی چلتا پھرتا دکھایا جا سکتا ہے ہولو گرام اور بلیو بیم ٹیکنالوجی نے یہ سب کچھ ممکن بنادیا ہے لیکن اس کا بہت سا حصہ تاحال دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہیں بھی کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے اس کے لئے ذہنوں کو تیار رکھنا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

turkey aur Saudi arab madmuqabil maqasid kya hain is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 24 October 2018 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.