زلمے خلیل زاد کا حقیقی مشن کیا ہے؟

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا مستقبل زلمے خلیل زادافغانستان اور عراق میں کیوں امریکی سفیر بنایا گیا تھا

جمعرات 4 اپریل 2019

zalmay khalilzad ka haqiqi mission kya hai
 محمد انیس الرحمن
مذاکرات کی میز پر کوئی ملک کتنا سنجیدہ ہے اس کا اندازہ مذاکرات کے لئے بھیجے گئے وفدیا اس شخصیت کے پس منظر سے لگایا جا سکتا ہے جو اس سے پہلے انہی معاملات میں ملوث رہی ہو۔بہت سے قارئین کا سوال تھا کہ کیا واقعی امریکہ افغانستان سے بھاگ جائے گا؟کیا واقعی موجودہ امن مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے؟موجودہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے سرخیل امریکہ کی جانب سے افغان نژادز لمے خلیل زاد ہیں۔

وہ ماضی میں افغانستان میں امریکی کو پھنسانے والی عالمی صہیونی لابی کے ایک اہم پرزے کے طور پر ”خدمات“انجام دیتے رہے ہیں ان کے سیاسی پس منظر کو جاننے کے بعد قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ موصوف مذاکرات کے نام پر کیا قیامت ڈھانے آئے ہیں ۔

(جاری ہے)


اس بات کو اس انداز میں بھی لیا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کو لانے والی لابی بری طرح ناکام ہو چکی تھی جن مقاصد کی خاطر نائن الیون کا ڈرامہ رچاکر افغانستان پر فوج کشی کی گئی تھی وہ بری طرح ناکام ہو چکے ہیں تاریخ میں ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی افغان مجاہدین کے سامنے امریکہ اور اس کے صہیونی صلیبی اتحادیوں کی تمام تر عسکری قوت ریت کی دیوار ثابت ہوئی ۔


جس کے بعد اب اسی صہیونی دجالی لابی کو جس نے امریکہ کو افغانستان میں پھنسا دیا تھا نکالنے کے لئے آگے کیا جا چکا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں شروع کیا جانے والا”دجالی کھیل“مزید کسی نقصان کے جلد سے جلد پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔اس سارے معاملے میں پاکستان کو چاروں طرف سے سب سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے ۔امریکہ اور بھارت اور کچھ عرب ملکوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح افغانستان میں امریکی فوج کی جگہ پرائیویٹ دہشت گرد امریکی تنظیم”بلیک واٹر“کو قدم جمانے میں مدد مل سکے تاکہ امریکہ کے انخلا کے بعد بھی یہاں میدان گرم رہے۔


امریکیوں کا خیال تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نام پر لمبا وقت حاصل کرکے افغانستان میں جنگی بندی کرادی جائے گی تاکہ امریکہ اور اس کے صہیونی دجالی اتحادیوں کا مزید نقصان نہ ہوسکے لیکن افغان طالبان نے اس شق کو بھی نہ مان کر ان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا افغان طالبان کا موقف تھاکہ مذاکرات چاہئے کتنے ہی طویل ہوں لیکن افغانستان میں غیر ملکی حملہ آور فوج کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔


دوسری جانب بھارت اور اسرائیل پاکستان کے ہاتھوں زخم کھانے کے بعد تاحال چین سے نہیں بیٹھے ہیں اور وہ نہ آئندہ بیٹھیں گے اس لئے وطن عزیز کے دفاع کے ضامن اداروں کو ہر وقت چوکنا رہنا پڑے گا اور قوم کو اپنے دفاعی اداروں کی پشت پر پوری پا مردی کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔امریکی قوم کو نیشن آف دی نیشنز کہا جاتا ہے یعنی بہت سی قوموں پر مشتمل ایک قوم ،ایک ایسی قوم جس میں ہر قوم کے ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو بہت کم ”اچھوں“کے زمرے میں آئیں گے جبکہ بہت سے شیطان صفت انسان ایسے بھی ہیں جو اپنی ہی آبائی سر زمین کے خلاف سازشوں کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں ۔


دور جدید میں امریکہ” حسن بن سبا“کی ایک ایسی جنت بن چکا ہے جس میں داخل ہونے اور دنیاوی رنگینیوں اور رعنایوں سے معمور اس شیطانی سرزمین کا ہر کوئی معاشرتی حصہ بننا چاہتا ہے ۔امریکہ ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں تمام دنیا کے ایسے ملکوں کی حزب اختلاف کو پالاجاتا ہے جن کے خلاف امریکہ یا اس کے مغربی حواریوں نے کبھی کوئی کارروائی کرنا ہوتی ہے ۔

غرض کہ ہر مطلوبہ ملک کی حزب اختلاف یہاں تیار کی جا سکتی ہے ۔ایسے ہی افراد میں ایک نام سب سے پہلے عراق میں تعینات کئے جانے والے سابق امریکہ سفیرز لمے خلیل زاد کاہے جو اس سے پہلے اپنے آبائی ملک افغانستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے تھے ۔
زلمے خلیل زاد جسے امریکی ایوانوں میں”زال“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے بارے میں لندن سے شائع ہونے والا عربی ہفت روزہ المجلہ لکھتا ہے کہ ”وہ ایک ایسا مسلمان امریکی عہدیدار ہے جو بنیاد پرست انجیلی فرقے کی حامل بش انتظامیہ اور صہیونیت نواز ہاکس کے درمیان اپنی جگہ بنا چکا ہے “۔

اس شخص میں ایسی کیا بات ہے کہ اسے امریکی صدر بش کا قرب حاصل رہا؟اور وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنا پر اسے پہلے طالبان کے بعد افغانستان اور بعد میں نام نہاد انتخابات کے بعد عراق میں امریکہ کا سفیر بنایا گیا تھا؟اور آجکل و ہ افغان طالبان کی قیادت کے ساتھ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے بات چیت کر رہا ہے ۔
زلمے خلیل زاد کی عراق میں سفارتی ذمہ داریوں سے پہلے عراق کے حالات کو معمول پر لانے کی غیر معمولی کوششیں کی گئیں وہ الگ بات ہے کہ ان کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہو سکتے تھے اس سلسلے میں لندن کے عرب صحافتی ذرائع کے حوالے سے ایک خبر بھی نظر عام پر آئی جس کے مطابق امریکہ کے سابق وزیر دفاع ڈونالڈ رامسفیلڈ نے اپریل 2005ء کے آخری ہفتے بغداد کا انتہائی خفیہ دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کے ساتھ ملاقات کی جس کے دوران انہوں نے صدام حسین کو لالچ دیا تھا کہ اگر و میڈیا پر آکر مزاحمت کاروں سے جنگ بندی کی اپیل کردیں تو ان کو نہ صرف رہا کر دیا جائے گا بلکہ انہیں سیاسی دھارے میں دوبارہ داخل ہونے کی اجازت بھی ہو گی ذرائع کے مطابق صدام حسین نے رامسفیلڈ کی اس درخواست کو سختی سے مسترد کر دیا تھا ۔


عرب صحافتی ذرائع کے مطابق اس سفارتی سر گرمی میں بھی زلمے خلیل زاد کا مشورہ شامل تھا غالبایہ تجویز انہی کی جانب سے آئی تھی ۔زلمے خلیل زاد کو صدر بش کی پہلی صدارت کے دور میں اس وقت کی قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیز ا رائس نے28مئی2001ء کو شمالی افریقہ ،جنوب مشرق ایشیا اور شرق الاوسط کے شعبے کا نگران مقرر کیا تھا ان کی یہ تقرری گیا رہ ستمبر کے واقعات سے تقریباً چار ماہ قبل عمل میں لائی گئی تھی،اس وقت کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ زلمے خلیل زاد القاعدہ اور طالبان کے نام پر اسلام کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ میں امریکی ادارے میں نفع کمانے والا بڑا عنصر ثابت ہو گا ۔

اسے ایک ایسے ملک کے خلاف امریکیوں کا ساتھ دینا تھا جس کی بناپر چونتیس برس تک اسے شناخت ملی تآنکہ اسے اسی کی دہائی میں امریکہ کی شہریت تفویض کردی گئی۔
زلمے خلیل زادافغانستان کے شہر مزارشریف میں 1951ء کو پیدا ہوا ان کے والد پشتون اور والدہ تاجک نژاد تھیں ،ان کی ابتدائی تعلیم اور تربیت کا بل میں ہوئی ،لمے خلیل زاد کے والد افغانستان کے سابق شاہ ظاہر شاہ کی کابینہ میں مشیر کی حیثیت سے کام کرتے تھے اس زمانے میں زلمے خلیل زاد کے والد کے امریکیوں اور برطانیوں سے بھی قربی تعلقات تھے یایوں کہا جائے کہ زلمے خلیل زاد کے والد کی جو فائل امریکی اور برطانوی محکمہ خارجہ میں موجود تھی اس کے مطابق یہ شخص ”کام کا آدمی “تھا۔

۔۔۔!
 اسی ماحول میں زلمے خلیل زاد کی تربیت ہوئی انہوں نے کابل کے ”لیسہ غازی“کی درسگاہ میں ثانوی تک تعلیم حاصل کی یہ درس گاہ کابل کی اشرافیہ کے بچوں کے لئے مختص تھی یہیں پر تعلیم کے دوران زلمے خلیل زاد نے مختلف علاقائی زبانیں بھی سیکھیں جن میں دری ،فارسی اور اردو شامل ہیں ۔ستر کی دہائی کے شروع میں زلمے خلیل زاد نے بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کیا یہاں وہ قضیہ فلسطین کے حوالے سے فلسطینیویوں کو مظلوم سمجھتا تھا یہی بھی کہا جاتا ہے کہ وہ یہاں بائیں بازو کی فکر سے متاثر تھے مگر جلد ہی ان کی سوچ میں انقلابی تبدیلی آئی جب وہ دائیں بازو کی انتہا ء پسندانہ مغربی سوچ کے حامل ہو گئے یہ تبدیلی بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے امریکہ کی شکا گویونیورسٹی منتقل ہونے کے بعد آئی ۔


شکا گو یونیورسٹی سے انہوں نے 1979ء پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ان کے مقالے کا عنوان تھا”ایران کا ایٹمی پروگرام“۔۔۔!یہی وہ سال ہے جب شاہ ایران کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا جس کی سب سے بڑی وجہ شاہ ایران کے رضا شاہ پہلوی کی ایرانی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ تھا امریکی اور برطانوی تیل کمپنیاں شاہ ایران کے خلاف ہو چکی تھیں اس زمانے میں چونکہ میڈیا اتنا عام نہیں تھا اس لئے اس قسم کی خبریں زیادہ منتشر نہیں ہوتی تھیں بلکہ شاہ ایران کو امریکی ایجنٹ ہی قرار دیا جاتا تھا لیکن حقیقت میں خود امریکی کی یہودی لابی شاہ ایران کے خلاف ہو چکی تھی کیونکہ اس نے امریکی میڈیا پر کھلے الفاظ میں اس بات کا بر ملا اظہار کر دیا تھا کہ امریکہ اور اس کی پالیسیوں پر یہودی قابض ہیں اور وہی ایران کا تیل پانی کی قیمت پر خرید رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسی سال ایرانی انقلاب کے روح رواں آیت اللہ خمینی طویل جلاوطنی کے بعد ایران میں وارد ہوئے تھے ۔


زلمے خلیل زاد کے بارے میں عرب صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکیوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات بیروت کی امریکن یونیورسٹی کے دوران ہی استوار ہونا شروع ہو گئے تھے اس سلسلے میں کابل میں موجود ان کے والد کے امریکیوں سے قریبی تعلقات ذریعہ بنے تھے یہی وجہ ہے کہ زلمے کو بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے امریکہ کی شکاگویونیورسٹی میں منتقل ہونے کے لئے زیادہ جدوجہد نہیں کرنا پڑی ۔


شکا گویونیورسٹی میں ان کی بائیں بازو کی فکر کو دائیں بازو کی جانب منتقل کرنے میں دو مرحلوں سے گزرنا پڑا اس سلسلے میں کلیدی کردار ان کے اس وقت کے ایک کلاس فیلو پال وولفرڈ نے ادا کیا جو بد میں بش انتظامیہ کے ”عقابوں “میں شامل ہوا اس کے بعد اہم کردارز لمے خلیل زادا ور پال وولفرڈ کے استاد پروفیسر البرٹ فوھلسٹیٹر نے ادا کیا پروفیسر البرٹ پال وولفرڈ اور زلمے خلیل زاد کا پی ایچ ڈی کے شعبے میں نگران پروفیسر تھا۔

۔۔!
دوسرا بڑا مرحلہ شکا گویونیورسٹی سے فراغت کے بعد کا ہے جب اسی کی دہائی کی ابتداء میں زلمے تدریس کے سلسلے میں نیویارک کی کو لمبیا یونیورسٹی سے وابستہ ہوئے یہاں ان کے ساتھیوں میں زبجنیو بریز نسکی شامل تھے جو بعد میں ریگن انتظامہ میں قومی سلامتی کے مشیر مقرر ہوئے اس دور میں بریز نسکی نے زلمے خلیل زاد کو بائیں بازو کی افکار کا متشدد انسان بنانے میں اہم کردار ادا کیا یہاں پالیسی کے لحاظ سے ان سب کا ”پیر“سابق امریکی وزیرخارجہ ہنری کسنجر تھا اس لحاظ سے عالمی صہیونیت کا بڑا رکن ڈیوڈراکفلر ان کے لئے ”داداپیر“کا درجہ رکھتا ہے۔


زلمے خلیل زاد نے 1985ء میں امریکی شہریت حاصل کی اس کے بعد وہ امریکی وزارت خارجہ میں سیاسی پلاننگ کے شعبے میں مشیر کی حیثیت سے داخل ہوئے اس ادارے کی سر براہی اس وقت شکا گو یونیورسٹی میں انکا ساتھی پال وولفرڈ کررہا تھا ۔اسی دور میں جب سوویت یونین افغانستان میں افغان مجاہدین کے ساتھ پر پیکار تھا خلیل زاد کی قسمت کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا افغانی نژاد ہونا تھا اس کے علاوہ اس بڑی عالمی کشمکش کے دور میں جس کا محورومرکز افغانستان تھا انہیں افغانستان کی علاقائی زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ علاقے کی ثقافت اور لوگوں کے قبائلی مزاج سے اچھی طرح واقف تھے اس منصب پر وہ ریگن انتظامیہ کے آخر یعنی1989ء تک فائزر ہے ۔


اس دوران وہ ریگن انتظامیہ میں”خفیہ مہمات“کے انچارج رچرڈ بییرل سے بھی خاصے قریب ہو چکے تھے جسے ریگن انتظامیہ میں ”پرنس آف ڈار کنس“Prince of darknessکے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف جدوجہد کے دوران زلمے خلیل زاد کو امریکی انتظامیہ کی اگلی صفوں میں کام کرنے کا موقعہ میسر آیا اس کا تعلق ان امریکی عہد یداروں میں ہونے لگا جنہوں نے سوویت یونین کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لئے امریکہ اور دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے درمیان روابط استوار کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا تاکہ دنیا بھر سے مجاہدین بھرتی کرکے انہیں افغانستان میں سویت یونین کے خلف لڑایا جائے۔


افغانستان سے سویت یونین کے انخلاف کے بعد زلمے خلیل زاد نے امریکی انتظامیہ کو ایک یادداشت ارسال کی جس کے مطابق ”سوویت یونین کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد امریکہ کوعلاقے میں اپنے قدم جمانے کے لئے ضروری کارروائی عمل میں لانا چاہئے بصورت دیگر افغانستان بڑی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آسکتا ہے اور اس کی آڑ میں ایسے عناصر یہاں قدم جما سکتے ہیں جو آگے چل کر امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچا سکیں گے“۔


زلمے خلیل زاد کی ان تجاویز کو ان کے پرانے ساتھی پال وولفرڈ نے بش انتظامیہ کے پہلے دور میں بہت سراہا تھا پال اس وقت امریکی محکمہ دفاع پنٹا گان میں نائب وزیر خارجہ کے فرائض انجام دے رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ اگر خلیل زاد کی تجاویز پر 1989ء میں ہی غور کرکے عملی کارروائی کر لی جاتی تو وہ حالت شاید نہ پیدا ہوتے جو بعد میں نظر آئے۔۔۔
اسی طرح بعض نادیدہ قوتوں کے کہنے پر زلمے خلیل زاد نے 1988ء میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جارج شلز کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق ”صدام حسین کی قیادت میں عراق ایک زبردست فوجی قوت بنتا جارہا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کے پڑوسی ممالک کی سلامتی بلکہ تمام شرق الاوسط کے امن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اس لئے امریکہ کو چاہئے کہ و ہ صدام کی خاموش حمایت سے ہاتھ اٹھا کر ایران کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوار کرنے کی جانب توجہ مبذول کرئے اور اس کے ساتھ صدام مخالف عناصر کو مسلح کیا جائے “ان تجاویز کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اس وقت منکشف کیا جب خلیج کی دوسری جنگ کو اختتام پذیر ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا تھا رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت جارج شلز نے ان تجاویز کو ناقابل عمل اور بعید از قیاس قرار دیا تھا“مگر جب دو سال بعد صدام کی قیادت میں عراق نے کویت پر چڑائی کی تو زلمے خلیل زاد کی تجاویز کو منصوبے کے مطابق اخبارات کی زینت بنادیا گیا۔


ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے زلمے خلیل زاد کی تجاویز اسی طرح جاری رہیں اس بات کے باوجود کہ ان امریکی انتظامیہ میں ان کے قریبی دوست بھی ایران کو ایک دشمن ملک کی نگاہ سے دیکھتے تھے زلمے نے ایک کتاب ”انقلابی ایران“کے عنوان سے تالیف کی جس میں بیان کیا گیا تھا کہ ”ایرانی ملاؤوں کے ساتھ امریکہ کو قربت بڑھا کر سیاسی اعتماد کی فضا پیدا کرنا چاہئے“یہ کتاب آج بھی امریکہ میں خصوصا ایران امریکہ تعلقات کے حوالے سے بڑا مصدر تصور کی جاتی ہے اس کتاب کی تالیف میں زلمے خلیل زاد کی آسٹرین نژاد اہلیہ شیریل بینا ردنے ان کی مدد کی ۔


شیریل سے زلمے خلیل زاد کی ملاقات شکا گویونیورسٹی میں دوران تعلیم ہوئی تھی جہاں دونوں علوم سیاست کے طلاب علم تھے ان سے زلمے کی شادی 1979ء میں ہوئی۔جس وقت زلمے خلیل زاد سیاسی مبصراور استاد کے طور پر دانائیاں بکھیررہے تھے اسی دوران ان کی اہلیہ شیریل جیو سیاسی کے موضوع کے علاوہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی مصنف بن چکی تھی اس کا ایک ناول MOGUB BUFFETپاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے کے ایک قبیلے کے گرد گھومتا ہے! صدر ریگن کی دوسرے دور صدارت کے اختتام 1989ء کے بعد زلمے خلیل زاد دوبارہ درس وتدریس کی جانب لوٹ آئے وہ سان ڈیاگومیں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں دوسال تک علوم سیاست کے استاد رہے ۔


ریگن کے بعد جارج بش دور میں قلیل مدت کے لئے زلمے حکومتی امور سے دور رہے اس کے تھوڑے عرصے بعد 1991ء میں انہیں امریکی وزارت دفاع پنٹا گان میں سیاسی پلاننگ کے شعبے میں بطور مشیر لے لیا گیا اس دور میں امریکی وزیر دفاع ڈک چینی تھے زلمے خلیل زاد اس منصب پر ایک سال تک متمکن رہے ہیں اس دوران وزیر دفع ڈک چینی نے پنٹا گان میں ایک تقریب منعقد کروائی جس میں زلمے خلیل زاد کی امریکی خصوصا ًمحکمہ دفاع کے لئے خدمات کو سراہتے ہوئے”تمغہ خدمت “سے نوازا
۔


1993ء کے شروع میں زلمے خلیل زاد امریکی حکومتی اداروں خصوصاً عسکری ادارے پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے تھینک ٹینک ”رینڈکارپوریشن“سے منسلک ہو گئے جہاں زلمے خلیل زاد نے شر ق الاوسط کے امر سے متعلق ایک بڑا شعبہ تشکیل دیا۔جارج بش اول کے دور کے بعد ڈیمو کریٹک بل کلنٹن کا دور شروع ہوتا ہے ا س دور میں زلمے خلیل زاد نے ہمیشہ افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسیوں پر تنقید کی ۔


یہ جارحانہ رپورٹیں ”رینڈ کارپوریشن“کے پلیٹ فارم سے امریکی اخبارات اور رسائل میں شائع کروائی جاتیں ۔تھینک ٹینک’“رینڈ کارپوریشن“کا کمزور ممالک کے نزدیک دہشت گردی پھیلانے والا فکری ادارہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ عالمی صہیونیت کی جانب سے قائم کردہ اسی تھینک ٹینک کی رپورٹوں پر عمل کرتے ہوئے مسلم ممالک کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنائی جاتی ہے اس کے تعلیمی نظام اور ثقافت کو تباہ کرنے کے منصوبے یہیں ترتیب دےئے جاتے ہیں اس صہیونی تھینک ٹینک کے نمائندے دنیا کی تقریباً تمام اقوام سے تعلق رکھنے والے “دانشور “ ہیں جو پر کشش مراعات اور ”باعزت وابستگیویوں “کے لالچ میں ضمیر فروشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔


1993ء میں خلیل زاد نے لمبی جست لگائی اور یہاں سے امریکی تیل کمپنی ”یونوکال “میں مشیر مقرر ہو گئے ۔ایک سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور آخرکن مقاصد کے لئے تیل کی کمپنی میں کام کرتا ہے؟تیل کو آخر کون سی سیاست کی ضرورت ہے ؟ان باتوں کو ذہین میں رکھ کر زلمے خلیل زاد کو پہلے افغانستان اور پھر عراق میں امریکی سفیر بنائے جانے کا پس منظر آسانی کے ساتھ سمجھ آجانا چاہئے۔


1996ء کے شروع میں افغانستان میں طالبان کا ظہور ہواتو خلیل زاد نے کلنٹن انتظامیہ پر بلاوسطہ طور پر طالبان حکومت کی حمایت پر زبردست تنقید کی۔زلمے خلیل زاد کا موقف تھا کہ کلنٹن انتظامیہ پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد سے طالب انتظامیہ کی حمایت کررہی ہے تاکہ طالبان تمام افغانستان پر قابض ہو جائیں زلمے خلیل زاد نے کلنٹن انتظامیہ کو خبر دار کیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد یہاں پر ”بنیاد پرست“عناصر اپنے قدم جمائیں گے جو آگے چل کر امریکہ اور علاقے میں اس کے مفادات کے لئے کھلاچیلنج بن سکتے ہیں زلمے خلیل زاد کے صہیونی سر پر ست چونکہ افغانستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا منصوبہ ناکام بنوانا چاہتے تھے اس لئے وہ گھر کے بھیدی کے ذریعے ہی لنکا ڈھارہے تھے
۔


صہیوی آلہ کار امریکی رائے عامہ کو یہ باور کرارہے تھے کہ زلمے خلیل زاد کی پیش گوئی تیسری مرتبہ پوری ہورہی ہے ۔اس تمام معاملات کے علاوہ زلمے خلیل زاد کو طالبان میں بھی امید کی ایک کرن نظر آرہی تھی حیرت کی بات ہے کہ یہی وہ زلمے خلیل زاد ہے جس نے سب سے پہلے1997ء میں امریکی انتظامیہ اور طالبان نمائندوں میں ملاقات کروائی ۔زلمے خلیل زاد تیل کے کاروبار میں شامل ہو کر پہلی مرتبہ تیل پر پھسلے تھے اب نہ ان کی بائیں بازو کی کوئی فکر تھی اور نہ دائیں بازو کی ۔


اس کی سب سے بری وجہ یہ تھی کہ ”یونی کول“نامی امریکی تیل کمپنی بحیرہ قزوینCaspian Seaکے تیل اور گیس کی سپلائی کے حقوق خرید چکی تھی یایوں کہا جائے کہ وہ بحیرہ قزوین کے تیل اور گیس کے ذخائر پر بڑی سرمایہ کاری کر چکی تھی جسے پائپ لائن کے ذریعے تر کمانستان سے پاکستان میں کراچی کی بندرگاہ تک لانا تھا اس ترسیل کے مطالعاتی سروے پر ہی صرف سوملین ڈالر سرف ہوئے تھے اس منصوبے میں طالبان سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے انہوں نے افغانستان کی سر زمین کو امریکی کمپنی کی تیل پائپ لائن کے لئے استعمال سے صاف انکار کر دیا یہ ہے وہ اصل وجہ جو طالب اور زلمے خلیل زاد کے درمیان بڑی دشمنی کا سبب بن گئے اس دوران یونی کول کا دوسرا افغان ملازم حامد کرزی جسے بعد میں امریکیوں نے کابل کے تخت پر بیٹھایا مل کر ترکمانستان سے پائپ لائن گزارنے کا منصوبہ ترتیب دینے لگے ان دونوں نے ایک مرتبہ پھر طالبان کو اس منصوبے میں شامل کرنے کی کوشش کی،بار بار کی کوششوں کے بعد جب طالبان کے ساتھ امریکی تیل کمپنی کے مذاکرات ناکام ہو گئے تو یونی کول کے ترجمان زلمے خلیل زاد نے جارحانہ اور دہشت گردانہ لہجے میں طالبان کو اس طرح دھمکیاں لگائیں ”تم لوگوں کے سامنے دوراستے ہیں ایک یہ کہ اپنی سرزمین کو ہماری تیل اور گیس کی پائپ لائن کے لئے کھول دو ہم افغانستان میں خوشحالی کی شکل میں سونے کی بساط بچھادیں گے اور اگر تم نے اس سے انکار کیا تو سونے کی بجائے بموں کی بساط بچھادی جائے گی۔


ظاہری بات ہے کہ طالبان نے صہیونیوں کے نمائندوں کی دھمکیوں کو مسترد کر دیا تھا اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کلنٹن انتظامیہ کے دور میں جب زلمے خلیل زاد حکومتی مشنری سے باہر تھے طالبان کو اس نوعیت کی دھمکیاں دینے والا تیل کمپنی کانمائندہ اگلے دور میں ان پر عمل درآمد کرادے گا اور ایسا ہی ہوا ان دھمکیوں کے چار سال بعد ہی افغانستان کی سر زمین پر بموں کی بساط بچائی جانے لگی۔

۔۔!خلیل زاد نے کلنٹن کے بعد نئی انتظامیہ کا انتظار کئے بغیر ہی طالبان کے عسکری نظام کے خلا ف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔
نیروبی اور دارالسلام میں امریکی سفارتخانوں کی تباہی کے الزامات القاعدہ پر لگایا گیا اور جوابی حملہ کرتے ہوئے اگست 1998ء میں افغانستان میں قائم القاعدہ کے کیمپوں پر میزائل حملے کئے گئے۔ان حملوں پر بھی زلمے خلیل زاد نے کلنٹن انتظامیہ پر زبردست تنقید کی اور القاعدہ اور طالبان کے خلاف ناکافی قرار دیا ۔

2001ء کے شروع میں ابھی نئی بش انتظامیہ نے وائٹ ہاؤس میں قدم نہیں رکھا تھا اس وقت زلمے خلیل زاد کا امریکی جرید WASHINGTON QUARTERLYمیں ایک تفصیلی مقاملہ شائع کیا گیا تھا اس ”تحقیق مقاملے “میں بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح افغانستان کو طالبان کے قبضے سے نکالاجائے ۔۔۔!
 بش کے وائٹ ہاؤس میں آتے ہی اسلامی دنیا کے دو اہم حصوں افغانستان اور عراق کے خلاف منصوبہ بندیاں شروع ہو چکی تھیں ان کوششوں کا صرف ایک مقصد تھا کہ تیل اور گیس کے ذخائر پر عملا قبضہ کرلیا جائے ۔

افغانستان پر امریکی جارحیت مسلط کروانے کے لئے زلمے خلیل زاد نے چھ نکاتی منصوبہ امریکی انتظامیہ کو پیش کیا جس پر بعد میں سو فیصد عمل کیا گیا ،یہ نکات اس طرح تھے:
1۔طالبان کے خلاف افغانستان میں طالبان مخالف قوت”شمالی اتحاد“کو پہلے زیادہ سے زیادہ عسکری اور مالی امداد دی جائے ،اس کے ساتھ ساتھ طالبان کی حمایت کرنے والے قبائل کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ ملایا جائے۔


2۔طالبان کی قوت کمزور کرنے کیلئے افغانستان کے اندر ہی پراپیگنڈہ مہم شروع کی جائے اس غرض سے یہاں خفیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کئے جائیں ۔
3۔افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایسے عناصر کی انسانی حقوق کے پلیٹ فارم سے امداد کی جائے جنہیں ذرا بھی طالبان سے نقصان پہنچا ہو ۔
4۔پاکستان پر زبردست قسم کا سیاسی اور عسکری دباؤ ڈالا جائے تاکہ پاکستان کو طالبان کی حمایت سے روکاجاسکے۔


5۔افغانستان میں موجود اعتدال پسند عناصر کو امداد دی جائے تاکہ انہیں مناسب وقت پر طالبان کی جگہ حکومت میں لایا جا سکے ،اس سلسلے میں شمالی اتحاد کی قیادت احمد شاہ مسعود کو تفویض کی جائے اور دوسری طرف ظاہر شاہ کو افغانستان واپس لانے کی تیاری کی جائے ۔
6۔امریکی انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے اسٹریٹیجک بنیادوں پر زیادہ توجہ دے۔


ان نکات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد نا پر من وعن عمل کیا گیا بھارت کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا اس کے بعد طالبان حکومت کے بعد یونی کول کے دوسرے ملازم حامد کرزی کو اقتدار میں لایا گیا اور بھارت کو پاکستان کے مقابلے کیلئے افغانستان میں کھلا میدان مہیاکیا گیا۔
جنوری 2001ء میں بش انتظامیہ کے وائٹ ہاؤس آنے کے بعد زلمے خلیل زاد دوبارہ امریکی انتظامیہ کی اگلی صفوں میں شامل ہو گئے ۔

افغانستان کا ایک باب بند ہو چکا تھا اور دوسرا باب کھلنا چاہتا تھا ایک افغانی اپنے ہی ملک میں دوسرے ملک کا سفیر بن کر آچکا تھا۔۔۔اس سارے پس منظرکو ذہن میں رکھ کر کیا امید لگا ئی جا سکتی ہے کہ امریکہ جس زلمے خلیل زاد کو آگے کرکے افغانستان سے امریکی انخلا کے حوالے سے مذاکرات کر رہا ہے آیا وہ ان مذاکرات کے نتیجے میں واقعی امریکہ افغانستان سے نکل جائے گا ؟وہ زلمے خلیل زاد جوواشنگٹن کی اس مشنری کا اہم پرزہ تھا جس نے امریکہ کو افغانستان کے میدان میں دھکیلا کیا اب وہ امریکہ کووہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین :

zalmay khalilzad ka haqiqi mission kya hai is a Special Articles article, and listed in the articles section of the site. It was published on 04 April 2019 and is famous in Special Articles category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.