”بندہ تابع دار ہے“

ہفتہ 9 جنوری 2021

Ahmad Khan Leghari

احمد خان لغاری

 مریم نواز نے پی ڈی ایم کے مختلف جلسوں میں وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کر تے ہوئے ایک تکرار کرتی رہیں ” بندہ تابعدار ہے “ اہل فکر و نظر کو اندازہ ہے کہ با الواسطہ اور بلا واسطہ اس تنقیدی تکرار کا منشا اور معانی کیا ہے ۔ مریم نواز کی تقریر لکھنے والے اور اہم پوانٹس جس پر تکرار کرنی ہے وہ لوگ ہمہ وقت ان کے ہاتھ فاتحانہ انداز میں موجود ہوتے ہیں اور جب وہ بول رہی ہوتی ہیں تو ایسے جعلی جنگجوؤں کا سینہ تنا ہوا ہوتا ہے لیکن وہ اُس وقت سے بھی ڈرے ہوئے ہوتے ہیں نجانے یہ خاندان بوٹ پالش کا نعرہ مستانہ بلند کردیں۔

” کم چک کے رکھو “ کے مشورے دینے والے بہت گھبرا ئے ہوئے بھی ہوتے ہیں جب مریم اور اُن کے پاپا کے ٹویٹر اکاؤنٹ خاموش ہوتے ہیں اور پھر اچانک لندن میں اجلاس بلا کر قرآن پاک پر حلف لینے کے بعد عملاًجنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں تو سیع کر دی جاتی ہے اور کئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔

(جاری ہے)

ایسے جمہوریت پسند ساتھیوں کو شاید اس بات کا بھی اندازہ ہو چلا ہوگا کہ عدالتوں سے سزا یافتہ لیڈر آخر کیسے لندن چلا گیا؟ ۔

یہ گتھی ابھی سلجھنے والی ہے سوائے چند کے دیگر لیگی ساتھیوں کو خبر ہی نہیں ۔ سوچنے اور غور وفکر کی صلاحیت اللہ کے فضل سے زیادہ تر میں ہے ہی نہیں ۔ بندہ تابعدار ہے کے ہاتھ بندہ ایماندرا ہے کا تکرار مسلسل بھی جلسوں میں جاری رہا جس سے سا معین اور ناظرین خوب لطف اندوز ہوتے رہے ۔
ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔

یہ بھی سنا ہے کہ سیاست میں اتنا جھوٹ بولیں کہ سب کچھ سچ لگنے لگے۔ ستر کی دھائی سے تو پاکستانی سیاست کو بڑے قریب سے دیکھا ہے ۔ سیاستدانوں کو ایک سیاسی اتحاد میں ھار کی طرح پروئے ہوئے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو ملک کیلئے سیکورٹی رسک قرارر دیا گیا ۔ چور لٹیرے اور نگریزوں کے کتے نہلانے والے کہنے والوں کو پھر ایک ساتھ دیکھتے رہے ۔ جہازوں سے غیراخلاقی تصویریں گرائی گئیں اور دیگر قابل اعتراض تصویر یں پھیلائیں گئیں ، پیلی ٹیکسی جیسے ناموں سے خواتین کو پکارا جاتا رہا لیکن چشم فلک نے اس قوم کو سیاستدانوں کا ہر انداز دکھایا اور اس قوم نے یہ سب کچھ دیکھا۔

مجال ہے جو اس قوم نے عبرت حاصل کی ہو۔ آج بھی ” وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سواب بھی ہے “ مریم نواز کو کاش کوئی سمجھاتا یا سیاسی تاریخ کا مطالعہ ہوتا۔ انہیں تو میڈیکل سائنس کے بنیادی چند اصولوں کا شاید پتہ ہو کیونکہ وہ بھی سب کچھ اوپر سے گزرگیا اور خاتون خانہ بننے پر اکتفا کیا۔ حالات کی ستم ظرفی دیکھئے کہ اسے سیاست میں کودنا پڑا کہ وہ اپنے پاپا کو چوتھی بار وزیر اعظم دیکھنے کی خواہشمند ہے ۔


محترم قارئین کرام! کاش مریم نواز کو بھی پتہ ہوتا کہ اُن کے والد نواز شریف پاکستانی سیاست میں” بندہ تابعدار تھا “ جنرل جیلانی کے چرنوں میں بیٹھ کر سیاست کی ابجد سیکھی کیونکہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا میں پتہ چلا کہ ضیا الحق اور میاں شریف ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تو وہ شاید ایک ہی ضلع سے تعلق رکھتے تھے ۔ خوب خدمت کی چونکہ ” بندہ تابعدار تھا “ اُس وقت سے صوبہ پنجاب اُن کے ہاتھ میں رہا۔

ہر بار دو تہائی اکثریت سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی چونکہ بندہ تابعدار تھا ضیاالحق کی شہادت کے بعد جنرل حمید گل نے بھی دیکھا کہ بندہ تا بعدار ہے ۔ پاکستان کے انتہائی ایماندار اور شریف النفس وزیر اعظم محمد خان جو نیجو کو برطرف کیا گیا تو اسی مسلم لیگ کے رہنما نواز شریف نے صوبہ پنجاب کے عبوی وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھالیا کیونکہ بندہ تابعدار تھا۔


پی ڈی ایم اتحاد وجود میں آیا تو شہباز شریف نے جیل میں رہنے میں ہی عافت سمجھی اور سیاست مریم نواز کو منتقل ہوگئی۔ پی پی پی کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے اور مولانا فض الرحمن کو اپنا سیاسی امام بنانے کیلئے ہر کام کیا۔ تاکہ حکومت وقت سے چھٹکارا مل سکے ۔ مریم نواز نے نوڈیرو جاکر پی پی پی کے جلسہ میں نہ صرف بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا بلکہ بلاول بھٹو زرداری نے خود گاڑی ڈرائیو کی اور شہداء کے قبرستان لے گئے ، ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو کے مزاروں پر حاضری دی اور ثابت کیا کہ ” بندہ تابعدار ہے “ مریم نواز کے شوہر نامدار کیپٹن صفدر نے امام انقلاب فضل الرحمن کے ہاتھ پر بیعت کر کے اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور مریم نواز کی موجودگی میں مکمل پیغام دیا کہ ”بندہ تابعدار ہے “ اسی تابعداری کے توسط سے آصف علی زرداری نے شریف برادران سے انتقام لیاہے ۔

پی ڈی ایم کی تحلیل ہونے کا عمل جاری ہے ۔ ضمنی انتخابات اور سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ہو چکا ہے ۔ استعفےٰ نہیں ہونگے۔ لانگ مارچ پنڈی کا نہیں ہوگا۔ اگر ہوا تو اسلا م آباد کی طرف ہوگا۔ ایسے کئی لانگ مارچ اور دھرنے ہوچکے ہیں۔ اس سے حکومتیں نہیں جایا کرتیں۔ مریم نواز کواب اگر آسرا ہے تو مولانا فضل الرحمن کا ہے ۔ اور یہ مرشد ہمیشہ سے ہی مفاد پر ستی کی سیاست کرتے رہے ہیں۔

ہر دور میں اُن کیلئے ممدو معاون ثابت ہوئے ہیں۔ مرشد کو نوٹ دکھا کر ہمیشہ موڈ بنوالیتے ہیں۔ مریم نواز سے کوئی پوچھے کہ بلاول بھٹو سے اُسے کیا ملا؟ جو محض نام کا بھٹو ہے ۔ کسی نے خوب لکھا ہے کہ بلاول کے نام کے ساتھ بھٹو ایسے ہی ہے جیسے لاہور کے رکشے کے پیچھے ’ ’ ایف 16“ لکھا ہوتا ہے ۔ لاہور مینار پاکستان کے ”پُھُس “ جلسے کے بعد پی ڈی ایم بجا طور پر ’ ’ ٹھس“ ہوچکی ہے ۔

مسلم لیگی ارسطو احسن اقبال کہتے ہیں کہ آصف زرداری اور نواز شریف کی سوچ میں ہم آہنگی ہے ۔ عمران کا دعویٰ تو سچا ثابت ہوا کہ دونوں ایک ہی ہیں۔ نالائق نہیں مسلط کر نے سے عمران خان کئی درجے بہتر ہے۔ لیگی کارکناں ایک دوسرے کو اب یہی بتاتے ہیں کہ فوج دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے یہ تحریک نہ چلتی جسکے نتائج برآمد ہونگے۔ لیکن قوم جانتی ہے کہ نوازشریف بھی بندہ تابعدار تھا اور مریم نواز کے حالیہ رویے نے ثابت کر دیا کہ بندی تا بعدار ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :