فرض اور اتفاق

اتوار 15 ستمبر 2019

Ahmad Khan Lound

احمد خان لنڈ

ہمارے ہاں دورانِ تدریس ریاضی کے مضامین میں طلباء کو یہ اکثر ازبر کروایا جاتا ہے کہ اگر دوران سوال کسی رقم یا ہندسے کا وجود نہ ہو تو اسے فرض کر لیں۔موجودہ ملکی اور سیاسی صورتحال میں حکومت کی بنیاد اور اس کا وجود بھی ریاضی کے سوالوں کی طرح فرض کا ہی متلاشی نظر آتا ہے۔آئیے فرض کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کا 2014کا دھرنا کسی لندن پلان کا حصہ نہیں تھا اور چودھری سرور سے نواز شریف نے ناجائز استعفیٰ لیا تھا۔


سنیٹر مشاہداللہ خان نے بھی دھرنے کے پس منظر کرداروں کے بارے میں جھوٹ بولا تھا اورپاکستان تحریک انصاف کی پارٹی کا اپنا صدر جاوید ہاشمی بھی جھوٹا انسان تھا ۔آئیے فرض کرتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف نے کبھی پارلیمنٹ پر حملہ نہیں کیا تھا،عمران خان نے کبھی پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجی تھی ،تحریک انصاف کا اپنا انٹرا پارٹی الیکشن کمشنر حامد خان بھی جھوٹا انسان تھا۔

(جاری ہے)

اب عوام کو ٹیکس چور کہنے والے وزیر اعظم نے کبھی بھی عوام کو ٹیکس دینے سے منع نہیں کیا تھا۔خان صاحب نے قرضے لینے والوں اور معاف کروانے والوں بھی کو کبھی چور نہیں کہا تھا ۔خان صاحب نے یہ بھی کبھی نہیں کہا تھا کہ جب مہنگائی بڑ ھتی ہے تو اس کا طلب یہ ہوتا ہے کہ حکمران چور ہیں۔
فرض کرلیں عمران خان نے کنٹینر پر بجلی اور گیس کے کوئی بل سرِعام نہیں جلائے تھے۔

عمران خان نے عوام کو کبھی بھی پیسے بینکنگ کی بجائے ہنڈی سے بجھوانے کی تلقین نہیں کی تھی۔یہ بھی فرض کر لیجئے کہ عمران خان نے پنجاب کی میٹرو کو کبھی بھی جنگلہ سروس نہیں کہا۔یہ بھی فرض کر لیجئے کہ خان صاحب نے بی آر ٹی کے نام سے کوئی ٹرانسپورٹ منصوبہ شروع نہیں کیا اور اس پر کوئی لاگت ہی نہیں آئی۔عمران خان نے کبھی بھی ایک کروڑ نوکریوں کی کوئی بات نہیں کی۔

خان صاحب نے ڈالر کے بڑھ جانے سے قرض کے بڑھ جانے کی بھی کبھی کوئی بات نہیں کی۔خان صاحب نے عدلیہ کو بھی کبھی جانب دار نہیں کہا ۔خان صاحب نے ایک مذہبی جماعت کے دھرنے اور اس کے مطالبات کو بھی کبھی جائر قرار دے کر اس کی حمایت نہیں کی تھی۔خان صاحب نے اداروں میں یہ بھی کبھی نہیں فرمایا تھا کہ اداروں میں مداخلت سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔خان صاحب دھرنے کے دوران عوام کو کبھی بھی پولیس سے جھگڑا کرنے اور ان پر تشدد کرنے کا درس نہیں دیا تھا۔

فرض کریں کہ عمران خان نے بلین ٹری سونامی منصوبے کے تحت ایک رب درخت خیبر پختونخوا میں لگا لیے تھے۔2013کے اپنے منشور کے مطابق خیبر پختونخوا میں 300ڈیم اور100یونیورسٹیاں بھی خیبر بنا چکے تھے۔
فرض کے بعد اب کچھ بات کرتے ہیں 2013سے اب تک ہونے کچھ اتفاقات پر۔پانامہ لیکس میں دو سو افراد کے نام آنے کے باوجود صرف شریف خاندان کے خلاف ٹرائل بھی اتفاق تھا۔

پانامہ لیکس پر وٹس ایپ کے ذریعے بننے والی جے آئی ٹی میں متنازعہ ارکان کی شرکت بھی اتفاق تھا ۔بلوچستان حکومت کے ہی چند وزیروں کا اپنی جماعت اور پوری حکومت کے خلاف بغاوت بھی اتفاق تھی۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹرائل کورٹ کے اوپر مانیٹرنگ جج مقرر کرنا بھی اتفاق تھا۔عدالت عظمی سے نواز شریف کی سزا اور جہانگیر ترین کی بریت بھی اتفاق تھا۔

سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کے انتخابی نشان کا چھین جانا بھی اتفاق تھا۔نشستیں محدود ہونے کے باوجود چودھری سرور کا پنجاب سے سینیٹ کا ممبر بن جانا بھی اتفاق تھا۔محکمہ زراعت کے لوگوں کا پارٹی چھوڑنے کے لیے ن لیگی MPAپر تشدد کرنا بھی اتفاق تھا۔MPAاور MNAحضرات کو نامعلوم فون کالز کا موصول ہونا بھی اتفاق تھا۔ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک پیج پر نہ ہونا بھی اتفاق تھا۔

ڈان لیکس سکینڈل کا بننا بھی اتفاق تھا۔ انتخابات سے قبل چودھری تنویر کی گرفتاری،مریم نواز کی نااہلی اور انتخابات کے دوران RTSسسٹم کا خراب ہونا بھی اتفاق تھا۔
کراچی کے ساحل سے بیلٹ پیپرز کا ملنا بھی اتفاق تھا۔دیگر پارٹیوں سیاسی پارٹیوں سے 25-30سال سے منسلک لوگوں کا پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونا بھی اتفاق تھا۔ انتخابات کے دوران انتخاب سے صرف چند پہلے ہی بیشتر امیدواروں کا پارٹی ٹکٹ کو اچانک چھوڑ کر آزاد حیثیت میں انتخابات لڑنا بھی اتفاق تھا۔

اب بات کچھ موجودہ اتفاقات کی۔آصف زرداری کی گرفتاری اتفاق،رانا ثناء اللہ کی منشیات کے مقدمے میں گرفتاری اتفاق،شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری اتفاق،حمزہ شہباز کی گرفتاری اتفاق،مریم نواز کی گرفتاری اتفاق،فریال تالپور کی گرفتاری اتفاق،خواجہ برادران کی گرفتاری اتفاق،چئیرمین نیب کی ویڈیوں جھوٹی اور اتفاق،جسٹس فائز عیسی کے خلاف ریفرنس اتفاق،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی اتفاق،جج ارشد ملک کی ویڈیو اتفاق۔

دوران سماعت جج کا وٹس ایپ پر تبادلہ اتفاق۔سندھ اسمبلی کے سپیکر کی گرفتاری اتفاق،الیکشن سے قبل اور بعد میں نیب کا فعال ہو جا نا اتفاق،اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کا معیشت اور دیگر معاملات پر یکجا ہو جانا اتفاق۔حکومت مخالف ٹی وی چینلز کا آف ائیر ہوجانا اتفاق،حکومت مخالف اخبارات کی سرکولیشن رک جانا اتفاق،صحافیوں اور بلا گرز کا غائب ہوجانا اتفاق۔

DPOپاکپتن ،IGاسلام آبادکا تبادلہ اتفاق،غیر منتخب افراد کا اعلیٰ عہدوں پر تقرر اتفاق۔ چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی اتفاق ۔مملکت خدا داد میں اس قدر اتفاق برپا دیکھ کر اب ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں:
 بھول آئے ہیں وہ شاید
 کیسا یہ عجب اتفاق ہے 
 خدا جانے کب تلک اب
 رہتا ، باقی یہ نفاق ہے 
 پاؤ آج بھی ننگے ہیں
 گریباں اب بھی چاک ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :