ماضی کے اوراق سے

پیر 20 اپریل 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے غالباً پہلے اجلاس میں مرحوم مخدوم امین فہیم نے ملک کے تیسری مرتبہ بننے والے وزیرِ اعظم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”میاں صاحب! آپ کی بہت تعریفیں کی جائیں گی اور آپ کے ماتحت رہ کر کام کرنے کے ارادے بھی ظاہر کیئے جائیں گے لیکن آپ نے کسی پر اعتبار یا اعتماد نہیں کرنا اور نہ ہی کسی کے دباؤ میں آنا ہے“ اسٹبلشمنٹ کو جتنا قریب سے نواز شریف جانتے ہیں،پاکستان کا شاید ہی کوئی اور سیاست دان ہو جو جانتا ہو۔

وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ پر کس حد تک اعتبار کیا جا سکتا ہے اور اس کے فیصلے کہاں تک جا سکتے ہیں۔ مرحوم امین فہیم کے لیڈر سابق وزیرِ اعظم بھٹو شہید کی پھانسی کی مثال یقینا نواز شریف کے سامنے تھی لیکن نواز شریف نے اپنی تیسری مرتبہ کی وزارتِ عظمیٰ میں بھی”یس سر“ نہ کہنے کی اپنی روایت قائم رکھی اور اسٹبلشمنٹ کو ایک مرتبہ پھر آڑے ہاتھوں لیا۔

(جاری ہے)

ڈنڈے کے زور پر استعفیٰ دینے اور کسی دباؤ میں آنے کے بجائے سرکاری مخالفین کے پسینے نکلوا دیئے۔
نواز شریف کو اپنا سر نہ جھکانے کی سزا دینے کے لیئے تیسری مرتبہ بھی انہیں اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی بلکہ انہیں ان کی اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن سے بھی بے دخل کیا گیا لیکن وہ مسلم لیگ ن کے ایک عام کارکن شاہد خاقان عباسی کی صورت میں اپنا ایسا سایہ چھوڑ گئے ہیں جس سے آج بھی اسٹبلشمنٹ اور اس کی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف خوف زدہ ہے۔

جبکہ حالات کے تحت ابھرنے والی سخت گیر اور اینٹی اسٹبلشمنٹ مریم نواز اور ن لیگ کی دیگر قیادت ابھی اسٹینڈ بائی پوزیشن پر ہے۔
 مخدوم امین فہیم اگر آج ہم میں موجود ہوتے تو وہ نواز شریف کا سیاسی بیانیہ اور ایسا اینٹی اسٹبلشمنٹ رویہ دیکھ کر بحیثیت ایک سیاسی کارکن کے یقینا حیرت زدہ ہوتے۔ نواز شریف کے حالیہ اور مختصر دورِ وزارتِ عظمی کے بعد ان سے جتنا انتقام لیا جا سکتا تھا شائد لے لیا گیا ہے، جب انہیں جیل میں زہر دے کر جان سے مارنے کی جہاں کوشش تک کی گئی تو پیچھے پھر کیا رہ جاتا ہے۔

نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے حالیہ دورِ اقتدار میں ان کے خلاف بند کمروں میں کیا کیا سازشیں ہوتی رہیں وہ ابھی منظرِ عام پر آنا باقی ہیں لیکن انہیں دباؤ مین رکھنے کے لیئے جو ہھکنڈے بظاہر استعمال کیئے گئے وہ تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں۔
ایک جانب اسپانسرڈ کنٹینر سجا کر نواز شریف کے خلاف محاذ گرم کیا گیا تو دوسری جانب جب ان کے خلاف کچھ نہیں ملا تو بھارتی بزنس مین سجن جندال کی مری میں ان سے ملاقات اور، نواز شریف پر آرٹیکل6 لگانے اور پھانسی چڑھانے کے لیئے بھارت میں ان کے کاروبار کرنے کی خبریں چلوائی گئیں، ڈاکٹر طاہر القادری نواز شریف کو بھارتی ایجنٹ قرار دلوانے کے اس عظیم مشن میں پیش پیش رہے۔

چیئرمین نیب کو ریفرنس بنانے کے لیئے الرٹ کر دیا گیا لیکن کسی قسم کا ثبوت نہ ملنے پر چیئرمین نیب نے اپنی صفائی پیش کرنے کے لیئے بیان دے دیا کہ ”میں نے تو صرف اخبار میں پڑھا تھا“ اور یوں بھارت میں بنائے گئے نواز شریف کے کاروبار کے ہوائی قلعے دھڑام سے زمین پر گر کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ آگے چلیئے
مئی2014ء کو پیش آنے والے سانحہ ماڈل ٹاون میں 10 افراد جان بحق اور 66 سے زائد زخمی ہوتے ہیں، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو قاتل قرار دیا جاتا ہے ان کے ساتھ، حمزہ شہباز، وفاقی وزراء خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، چودھری نثار، پرویز رشید، عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ کو بھی ایف آئی میں نامزد کروایا جاتا ہے۔

ایک جے آئی ٹی بنائی جاتی ہے لیکن اس کی رپورٹ کچھ اور ہی کہانی بتاتی ہے۔ جی آئی ٹی کی رپورٹ میں اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان کو بے گناہ قرار دے دیا جاتا ہے اور واضع طور پر کہا جاتا ہے کہ”چھان بین کے دوران یہ ثابت نہیں ہوا کہ وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزیر فائرنگ کا حکم دینے والوں میں شامل ہیں“
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون پر اسرار لوگ تھے جو وہاں موجود پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرنے پر اکسا رہے تھے;238; اس حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ”پولیس نے یہ بات واضح نہیں کی کہ انھوں نے فائرنگ کس عہدے دار کے کہنے پر شروع کی“۔

پھر اسٹبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے سیاسی کزن عمران خان کی حکومت قائم کی جاتی ہے۔ اصل کہانی بند کر کے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام مشکوک کرداروں کو پہلے سے بہتر عہدوں پر تعینات کر دیا جاتا ہے اور یوں ڈاکٹر طاہر القادری کے چراغوں میں روشنی باقی نہیں رہتی۔ یاد رہے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کا حتمی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے۔

نواز شریف قومی دفاع کے ذمہ داروں کو بلا کر گھر کو درست کرنے کا کہتے ہیں،انہیں سمجھاتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ دنیا ہم پر انگلیاں اٹھائے اپنے ان ”اثاثوں“ سے قطع تعلقی کر دینی چاہیئے جن کی وجہ سے ہم عالمی تنقید کے نشانے پر ہیں۔ نواز شریف اس مشورے پر انہیں غداری کے طعنوں سے نوازا جاتا ہے اور ان کے خلاف مشہورِ زمانہ ڈان لیکس بنا دی جاتی ہے۔

لیکن ہم نے دیکھا بعد میں وہی ہوا جس کا نواز شریف نے انتباہ کیا تھا یعنی دنیا کی انگلیاں ہم پر اٹھنا شروع ہوتی ہیں اور پھرہ میں عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو صفائیاں پیش کرنا پڑتی ہیں۔ تھوڑا اور آگے چلیئے
نومبر 2017ء کو دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے اہم سنگم فیض آباد پر تحریک لبیک کے قائد خادم حسین رضوی کی قیادت میں 20 روزہ دھرنا منعقد کروایا گیا۔

20 دن تک اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والی اہم ہائی وے کو ہر قسم کی آمدورفت کے لیئے بند رکھا گیا۔ یاد رہے اسی دور میں نواز شریف کے قریب تر سمجھے جانے والے احسن اقبال بحثیت وفاقی وزیرِ داخلہ جب اسٹیٹ وِد اِن اسٹیٹ کی مخالفت اور تنقید کرتے ہیں، جواب میں انہیں گولیاں مار دی جاتی ہیں۔ بحرحال دھرنے والوں کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا کہ اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد سرکاری حلف نامے میں ختم نبوت کے عظیم اور مقدس ترین عقیدہ اسلام کے حوالے سے ناجائز ترمیم کے ارتکاب کی بنا پر مستعفی ہو جائیں۔

یہ ترمیم وہ انسانی غلطی تھی جس کے سامنے آتے ہی فوری ازالہ کر دیا گیا تھا اور ن لیگی حکومت کی جانب سے مذکورہ حلف نامے کو اپنی اصلی حالت میں بحال کرنے میں ذرا برابر تاخیر نہیں رکھی گئی تھی لیکن چونکہ اصل مقصد اور مشن نواز شریف اور ان کی حکومت کو ختم نبوت کے نام پر رسوا کرنا اور ناک رگڑوانا تھا اس لیئے اس سارے دھرنے کا ناٹک رچایا گیا، جس کا پردہ سپریم کورٹ نے ایسا چاک کیا جو برسوں یاد رکھا جائے گا۔

سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں تاسف کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ”ایک باوردی افسر نے بنفس نفیس شرکاء میں واپس گھر جانے کے لیے پیسے تقسیم کیے۔ ریاستی اداروں کے سربراہان کو حکم جاری کیا جاتا ہے کہ وہ اس میں ملوث تمام اہلکاروں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کریں“۔
یہ چند مختصر گزارشات پیش کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ، ملکِ خداد اد میں مضبوط جمہوریت اور سول سپریمیسی کی بحالی کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے عناصر اور طاقتوں سے متعلق ایک بار پھر سے آگاہی دی جا سکے کیونکہ تابناک اور روشن مستقبل اس ملک کا مقدر تبھی بن سکتا ہے جب ہم اپنے ایسے ماضی کو یاد رکھیں گے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :