اقتدار کی مجبوریاں‎‎

جمعہ 30 جولائی 2021

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

کسی تھکی ہوئی یا لولی لنگڑی جمہوری حکومت کے حکمرانوں کی بھی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ پبلک کو مہنگائی کے حوالے سے ریلیف دیا جائے، ییلو کیب اسکیم یا عوام کے لیئے چھوٹے کاروباری قرضوں کی صورت میں روزگار کے مواقع پیدا کیئے جائیں اورہر عوامی حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے اس ضمن میں پبلک کی جانب سے گالیاں اور جوتے کھانے کا موقع نہ ملے کیونکہ اسے پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ ووٹ لینے کی غرض سے عوام کے پاس مقصود ہوتا ہے۔

تمام تر اختلافات کے باوجود یہ کہنے میں حرج نہیں ہونا چاہیئے کہ جنرل ایوب خان،جنرل ضیاء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف جیسے بد ترین آمروں نے بھی اپنے اپنے حکو متی ادوار میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے اور کم از کم مہنگائی میں اضافہ نہ ہو اور ان کے ادوارِ حکمرانی میں ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

(جاری ہے)


 ملکِ پاکستان کی تاریخ میں غالباً یہ پہلی نرالی حکومت ہے جس کے حکمرانوں کو زرہ بھر پرواہ نہیں کہ اسے شدید مہنگائی اور بے روزگاری سے ماری عام پبلک دن رات بددعائیں اور گالیاں دے رہی ہے اور اوپر سے ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وزیرِا عظم اپنے وزیروں اور مشیروں سمیت ٹس سے من نہیں ہو رہے بلکہ باجماعت ہو کر چین کی بانسری بجائے جا رہے ہیں اور ناکام ہوتے ہوئے خارجہ اور دفاعی امور سے لے کر بدترین ملکی معاشی حالات تک کے معاملات کو اپنے سر لینے کو تیار نہیں، جس کی وجہ موجودہ کٹھ پتلی حکمرانوں کی اپنے سہولت کاروں کے سامنے بے بسی، بے اختیاری اور لاچاری ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں آذاد کشمیر الیکشن اور متوقع حکومت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر فواد چودہدری کا فرمانا تھا کہ”جو وہاں کے ا لیکشن کروا رہے ہیں وہی مظفر آباد میں حکومت بھی بنوائیں گے لہذا یہ سوال انہیں سے پوچھا جائے“  اس حوالے سے نبیل گبول کاARY میں حالیہ بیان فواد چوہدری کی مذکورہ بات کی تصدیق کرتا ہے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ حکومتِ عمرانیہ تماتر اہم حکومتی معاملات سے لا تعلق ہے اور عوام کو اب یہ تاثر بھی کھلے عام دینے لگی ہے کہ ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی اور ناکام خارجہ امور سے متعلق صورتِ حال کے ذمہ دار وہی ہیں جو اصل میں طاقت اور اختیارات کا سرچشمہ ہیں۔ حکومت کو بائی پاس کر کے اشٹبلشمنٹ کے منظور نظر ریٹائرڈ افسران کی بیرونِ ممالک سفارخانوں میں بطورِ سفیر تعیناتی ہو یا سول محکوں میں ان کی تقرری،حکومت کی اس ضمن میں بے بسی اس امر کو تقویت فراہم کرتی ہے کہ ایک اَن دیکھا”کو“ ہو چکا ہے اور حکومتِ وقت اشٹبلشمنٹ کے ہاتھوں غمال بن چکی ہے۔


مرکزی حکومت کی50 سے زائد رکنی حکومتی کابینہ میں سوائے آٹھ یا دس کے علاوہ تمام وزیروں اور مشیروں کا تعلق حکمران جماعت یعنی PTI سے نہیں بلکہ مذکورہ کا تعلق سابق آمر پرویز مشرف اور پی پی پی کی سابق زرداری کابینہ سے ہے، بلکہ ابھی گزشتہ روز ہی پرویز مشرف کی ایک نشانی سابق وزیرِ اعلی سندھ ارباب غلام رحیم کو بھی مشیرِ حکومت بنا دیا گیا ہے۔

باالفاظِ دیگر اسی مشرف رجیم کا اپنی پالیسیوں سمیت اب دوبارہ پی ٹی آئی حکومت میں جنم ہے۔ جب ملکی معیشت آئی ایم ایف چلا رہا ہو اور دفاعی اور خارجہ امور سے متعلق پالیساں اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں بنائی جا رہی ہوں تو ایسی صورتِ حال میں بے اختیار اور کٹھ پتلی وزیرِا عظم عمران خان کیوں کر حکومتی ناکامیوں کا ملبہ اپنے سر لے۔ممکن ہے کہ عمران خان ماضی میں کسی عوامی فلاحی ایجنڈے کی تکمیل کی خواہش اپنے دل میں رکھتے ہوئے ہوں لیکن موجودہ وقت میں یہ حقیقت ان پر آشکارہ ہو چکی ہے کہ ان کی حکومت محض ایک ڈھکوسلا ہے،انہیں مہرہ بنایا گیا ہے،انہیں حکومتی اختیارات استعمال کرنے اور اور قومی پالیساں بنانے کی انہیں اجازت نہیں اور ان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد،ان کی سیاسی جماعت اور تبدیلی کے نعرے کو غیر سیاسی قوتوں کی جانب سے ہائی جیک کر لیا گیا ہے،جو اصل میں اس وقت ملک میں مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کر رہی ہیں۔


عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں اقتدار میں لانے کے لیئے ایک منتخب وزیرِا عظم کو سازش کر کے اسے اس کے عہدے سے ہٹایا اور پھرالیکشن میں اُس کی جماعت مسلم لیگ ن کو حکومت کو سیاسی انجیئرنگ کر کے ہرایا گیا،اس کے خلاف بدترین انتقامی کاروائیاں کی گئیں۔ اس لیئے اگر انہوں نے یعنی عمران خان نے وزیرِا عظم آفس کے مکمل اختیارات استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی،مہنگائی کم کرنے اور روز گار کے مواقع پیدا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جس سے وہ عوام میں پاپولر ہوں گے تو ان کا حشر بھی نواز شریف سے کم نہیں ہونے والا۔

  عمران خان یہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے کسی قسم کی مالیاتی کرپشن نہیں کہ لیکن اپنے سہولت کاروں کی ہدایت پر ہر جانب چور چور کا راگ الاپتے رہے،لیکن جب جانا کہ سہولت کاروں نے انہیں اب انے واہ اور بے دردی سے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے تو شہباز شریف کے ہتکِ عزت کے دعوے میں جواب جمع کروانے پر مجبور ہوئے ہیں کہ” سیاسی معاملہ تھا،سیاسی بیان تھا،کیس ختم کیا جائے“
 خاکسار، عمران خان کی لمبی زندگی کے لیئے دعا گو ہے آپ بھی ہوں کہ خان صاحب نے اپنے ردِ عمل سے ابھی اور بھی بہت سے”اعترافات“ اور”حقائق“ پاکستانی قوم کو سنانے ہیں۔

انہوں نے جنرل اسلم بیگ،جنرل اسد درانی، جنرل اکبر خان اور جنرل شاہد عزیز کی ہوش اڑا دینے والی کتابوں کے بعد اپنے اقتدار کی مجبوریوں پر پر مبنی ایک کتاب لکھنی ہے،جسے پڑھنے کے بعد مطالعہِ پاکستان کے طالب علموں اور خاص طور پر قوم یوتھ کی عقل ضرور ٹھکانے پر آئے گی اور ان کے پیروں تلے ایک شدت کا زلزلہ ضرور آئے گا کہ تبدیلی، نیا پاکستان اور نیو ریاستِ مدینہ کے نام پر ملکِ پاکستان کے ساتھ کیسا کیسا کھلواڑ ہوتا رہا اور کون کون لوگ کرتے رہے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :