جگاڑ

جمعرات 20 فروری 2020

Atiq Chaudhry

عتیق چوہدری

پاکستانی قوم کے پاس ایک ایسا فارمولا ہے جس سے دنیا جہان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اس گیدڑسنگھی کا نام ہے ”جگاڑ“۔جگاڑ ایک ایسی اصطلاع ہے جواپنے دامن میں الفاظ ومعنی کا ٹھاٹھے مارتا سمندر سمیٹے ہوئے ہے ۔یہ اصطلاع اتنی فراوانی سے ہمارے ہاں استعمال ہوتی ہے کہ ہمیں یقین ہوچلا ہے کہ جگاڑ کے شارٹ کٹ سے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم ذہین وفطین اور عجیب وغریب قوم بھی ہے ۔

گھر ہو یا دفتر ،سکول ہویا یونیورسٹی ،کھیل کا میدان ہویادفتر یہ جگاڑ ہر جگہ فٹ ہوجاتا ہے۔ 
اب ہمارے جگاڑ دیکھیں عارفوالہ میں دیہاتی نوجوان فیاض نے جگاڑ لگاکر اڑنے والا جہاز بناڈالا، خیرپور کے شہری نے نجی ٹی وی پر پانی سے کار چلانے کا جگاڑ لگایا ،ایک سائنسدان نے کوئلہ سے پانچ سو سال کی بجلی بنانے کا جگاڑ نکال لیا ،سائیکل سے موٹر سائیکل بنانا،موٹر سائیکل سے رکشہ ،رکشہ سے مال گاڑی کا جگاڑ ،ٹریکٹر سے ٹیوب ویل کے انجن کے کام کا جگاڑ ،سبزی فروش پیناڈول کی گولیاں فروخت ہونا ایک ذہین جگاڑ ہے ،بیماریوں سے یاد آیا کہ پاکستانی حکیموں کے پاس مردانہ کمزوری کا علاج سات دن میں ہوجانے کے اشتہار نظر آتے ہیں ایسے میں اربوں روپے لگا کر سالوں کی ریسرچ کرنے والے ڈاکٹر ز،سائنسدان بھی پریشان ہوجاتے ہیں کہ یہ کون سا جگاڑ ہے جو ہمیں نہیں آتا ؟بسوں میں منجن بیچنے والے کے پاس ایک ہی منجن ،چورن سے 25 ،30 بیماریوں کے علاج کا جگاڑ ہوتا ہے،چھوٹے قد سے لیکر کرونا وائرس تک کا علاج ،دانتوں کا علاج فٹ پاتھ پر ، پنکچر کی دوکان سے دوائیاں مل جاتی ہیں اگر حکیم لقمان اس دور میں زندہ ہوتے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتے اور باقی ساری زندگی یہی جگا ڑ سیکھنے میں لگا دیتے۔

(جاری ہے)

بیماری کے آنے سے پہلے ہی ان نیم حکیموں کے پاس آزمودہ ٹوٹکے اور علاج میسر ہوتا ہے ۔رکشہ کے پیچھے اشتہار لگے ہوتے ہیں ”کینسر کا شرطیہ علاج،چند دن میں “۔پھونک سے درد کاعلاج ،تعویز دھاگوں سے یرقان جیسے مرض کے علاج کا جگاڑ۔
پاکستانی قو م کے پاس ایسے پہنچے ہوئے بابے بھی ہیں جن کے پاس محبوب کوقدموں میں لانے کا جگاڑ بھی ہے بس ایک تعویز وپھونک اور محبوب آپکے قدموں میں،مجنوں ،فرہاد ،رانجھا تو بس ایسے ہی ساری زندگی محبت کے لئے اور محبوب کے وصال کے لئے سرگرداں رہے ان کو اس جگاڑ کا پتہ نہیں تھا ورنہ وہ اپنی محبوبہ کو منانے کے لئے اتنے پاپڑ نہ بیلتے بلکہ بابے کی خدمات لیتے ۔

ہمارے پاس یہ جگاڑ ہر شعبہ زندگی میں ہے تعلیم کے میدان میں دو سال میں ہونے والی تیاری کا جگاڑ ہماری اکیڈمیوں میں ہوتا ہے ۔
ایک اشتہار کی عبارت ”بی اے کی تیاری تین دن میں وہ بھی منی بیک گارنٹی کے ساتھ “ ،IELTS کے 7+ بینڈ صرف دس دن میں۔ دنیامیں کلومیٹر دیکھ کر موٹرسائیکل،گاڑی میں ڈیزل یا پٹرول دیکھا جاتا ہے ہمارے ہاں ٹینکی ہلاکر بتا دیتے ہیں اسٹیشن تک پہنچ جائے گا ، اگر راستے میں پٹرول ختم ہوجائے تولٹا کر منزل تک پہنچنے کا جگاڑ تو ہر وقت موجود ہوتاہے ۔

اگر بجلی کا بل زیادہ آرہاہوتو مین لائین سے کنڈی لگانے کا جگاڑ موجودہے ،کسانوں کے پاس بھی جگاڑ ہوتے ہیں جو وہ لگاتے ہیں ،یہ جگاڑ صرف انفرادی طور پر کام نہیں آتے بلکہ ملکی و قومی سطح پر بھی ہم یہی جگاڑ لگاتے ہیں مگر سمجھ نہیں آتی اس قوم پر اتناقرضہ کیسے چڑھ گیا؟
سیاستدانوں کے پاس بھی جگاڑ ہیں اگر حکومت کے لئے نمبر گیم پوری نہ ہورہی ہوتو دوسری جماعت سے فاورڈبلاک بنوالیں ،اگر سینیٹ میں اقلیت ہو تب بھی اکثریت والوں کی چئیرمین سینیٹ کے خلاف قرارداد منظورنہ ہونے دینے کاجمہوری جگاڑ بھی ہے ہمارے پاس ۔

جس قوم کے پاس خادم رضوی جیسے جگاڑو موجودہوں اس نے ملک کا قرضہ اتارنے ومعیشت کی بہتری کے لئے ایسا جگاڑ بتایا جس پر دنیابھر کے ماہرین ششدرہ ہیں موصوف فرماتے ہیں اگر پاکستان دنیاکے تمام ممالک کے ساتھ مل کر کمیٹی ڈالے اور پہلی کمیٹی خود لے لے اور دوسرے ممالک کوکہہ دے کہ جب ہمارے پاس ہونگے تب دیں گے اگر کوئی کچھ کہے تو اسے کہہ دیں لو آیا جے فر۔

۔۔ غوری ۔ہماری بدقسمتی کہہ لیں یا ستم ضریفی کہ انفرادی سطح سے لیکر پورا ملک بھی آج تک جگاڑ پر چل رہا جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ہمارے حکمرانوں کا دعوی ہے کہ ملک شاندار ترقی کررہاہے،عوام کوپتہ ہوناچاہئے کہ ملک دن بدن کنگال ہورہاہے ،عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ہر شعبہ زندگی زوال کا شکار ہے ۔زوال کا یہ سفر جس تیز رفتاری سے جاری ہے پریشان کن ہے ۔

وطن عزیز پاکستان دنیا کے بلند وبالاپہاڑوں ،قطبین کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے گلیشئیر،وادی کاغان ،وادی نیلم ،سوات ،چترال ،گلگت بلتستان کی دلکش وادیوں وقدرتی حسن سے مالامال ہے ،بلوچستان میں سونے اور تانبے ،تھر میں کوئلہ کے وسیع ذخائر ،دریا ،دنیاکابہترین نہری نظام ،سرسبزوشاداب میدان ، بہترین افرادی قوت ہے لیکن ہم آج تک ترقی کیوں نہیں کرسکے اسکی وجوہات کیا ہیں ؟ آج بھی ہم آئی ایم ایف ،ورلڈبنک ،ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور عالمی طاقتوں کے پیچھے قرضے کے لئے مارے مارے کیوں پھرتے ہیں ۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں جمع کروائی گئی ایک دستاویز کے مطابق 2019 میں پاکستان کا اندرونی وبیرونی قرضہ 31 ہزار 19 ارب روپے ہے جوملک کے جی ڈی پی کا 80 اعشاریہ 4 فیصد ہے ۔دستاویزات کے مطابق 2020 میں پاکستان کا اندرونی قرضہ 22 ہزار 521 ارب روپے ہوجائے گا جب کہ 2021 میں اندرونی قرض کا حجم 24 ہزار 192 ارب روپے ہو جائے گا، 2022 میں اندرونی قرضہ 25 ہزار 310 ارب روپے، 2023 میں 25 ہزار 917 ارب روپے اور 2024 میں پاکستان کا اندرونی قرض 26 ہزار 803 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔

وزارت خزانہ کے مطابق 2019 میں پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 10 ہزار 446 ارب روپے ہے جو 2020 میں بڑھ کر 12 ہزار 769 ارب روپے، 2021 میں 14 ہزار 428 ارب روپے، 2022 میں 15 ہزار 963 ارب روپے، 2023 میں 17 ہزار 596 ارب روپے اور 2024 میں قرضوں کا حجم 18 ہزار 770 ارب روپے ہوجائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا قرضہ ،سود سمیت واپس کیسے کرنا ہے ؟ مالی خسارہ اور ادائیگیوں میں توازن کیوں قائم نہیں ہوسکا ؟تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کیوں نہیں بڑھ سکے ؟کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کیوں کنٹرول نہیں ہورہا؟برآمدات میں کمی کیوں ہورہی ہے ؟افراط زر کی شرح میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ ہمیں ہر چیز کو ڈنگ ٹپاؤ اور وقتی جگاڑ سے کام چلانے کی عادت سے چھٹکارا کب ملے گا ؟۔

بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی فچ (Fitch)نے پاکستان کومائینس بی درجہ دیتے ہوئے بتایاہے کہ B درجے میں آنے والے ممالک کی فی کس جی ڈی پی کی اوسط 3470 ڈالر ہے ۔پاکستان 1382 ڈالر کے فی کس جی ڈی پی کے ساتھ اوسط حد سے بہت پیچھے ہے ۔
پاکستان میں مالی سال 19ء-2018ء کے دوران فی کس آمدنی میں اعشاریہ 9 فیصد کا اضافہ ہوا۔ سال 18ء-2017ء میں غربت 31.3 فیصد تھی جو 19ء-2018ء میں بڑھ کر 35 فیصد ہوگئی اس طرح محض ایک مالی سال میں غربت کی شرح میں 3.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

حکومت نے دعوی کیا ہے کہ شرح نمو3.3 فیصد ہے جبکہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ شرح نمو1.9 فیصد تھی حیران کن بات یہ ہے یہ افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک سے بھی کم ہے ۔ایک کروڑ نوکریاں دینے کی دعوے دار حکومت میں لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں ۔یہ سب کچھ اس وجہ سے ہورہا کہ ہم نے کوئی لانگ ٹرم پلاننگ نہیں کہ سب نے وقتی جگاڑ لگاکر ملک کوچلایاہے ۔

جگاڑوں سے ایک گھر لمبے عرصے تک نہیں چلتا تو ملک کیسے چلے گا ؟ وزیراعظم پاکستان عمران خان سبز پاسپورٹ کودنیا میں عزت دلانے کا وعدہ و نعرہ لگاکر اقتدار کی مسند پر بیٹھے تھے مگر ہینلے پاسپورٹ انڈیکس نے 107ممالک کے پاسپورٹ کی درجہ بندی کی ہے۔ پاکستان کو مسلسل تیسرے برس بھی اس فہرست میں 104درجے پر رکھا گیا ہے۔ ہم سے نیچے صرف تین ممالک ہیں، عراق، افغانستان اور شام نیز یہ کہ ہمیں صومالیہ سے برابری کی عزت ملی ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی بے قدری میں اضافہ ہوا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 6کروڑ90 لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عام آدمی کواپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوگیا ہے ۔مزدور کی تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے وہ اس میں بجلی کابل ،گیس کابل ،بچے کی فیس ،ماں کی دوائی پھر بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑے اور پاؤں میں جوتاکیسے خریدے گا؟ روازنہ کی مزدوری کرنے والو ں کی مزدوری پانچ سو روپے ہے اس میں مکان کاکرایہ وضروریات زندگی کیسے پوری کرے گا جب اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکاہو ۔

ادویات کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کہ بس اللہ توبہ ہی توبہ ۔
عام آدمی کی زندگی میں اتنے دکھ ہیں کہ کس درد کا قصہ چھیڑوں ؟لوڈشیڈنگ یا گیس کا بحران ؟ موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال مکمل ہوگئے ہیں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ڈیڑھ سال میں بجلی3.85 روپے یونٹ ،گیس334 فیصد تک ،پٹرولیم مصنوعات 20.76 روپے لیٹر تک مہنگی ہوئی ہیں ۔مہنگائی 5.8 فیصدسے بڑھ کر 14.6 فیصد پر جاپہنچی ہے ۔

گھی ،گوشت ،مرغی ،سبزیاں ،دالیں ،آٹا،چینی ،دہی ،انڈے اور فروٹ بھی مہنگے ہوئے ہیں ۔ اب غریب آدمی کیا کرے ؟کدھر جائے ؟ وزیراعظم صاحب نے کہنے کی حد تک تو مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے سخت اقدامات کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی فرمایاکہ کسی مافیاکو نہیں چھوڑیں گے ۔مگر جناب وزیراعظم !کاش آپ رچرڈنکسن کی کتاب ”لیڈر“ کا مطالعہ فرمالیتے جس میں رچرڈنکسن نے کہاتھا”رہنماکے لئے صرف یہ ضروری نہیں کہ وہ اچھی باتوں سے واقف ہوبلکہ اس کے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل بھی کرے “ ۔

ہمارا المیہ یہ بھی رہا کہ ہر حکومت آکر اپنی معاشی پالیسیاں نافذ کرنے کی سعی کرتی ہے وہ بھی صرف اپنا وقت گزارنے کے لئے جبکہ اگر ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چین ،جاپان ،اٹلی ،برطانیہ ودیگر ممالک کی ترقی کا جائزہ لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان ممالک میں حکومتوں کے آنے وجانے سے ان کی معاشی پالیسیوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور معاشی پالیسیوں کاتسلسل برقرار رہتا ہے اور یہی ان ممالک کی ترقی کا راز ہے ۔

معروف امریکی اسکالر کریگ بیکسٹر(Craig Baxter) کے خیال میں پاکستان پانچ شعبوں میں ناکام ہوا ہے جو ایک کامیاب ریاست کے لئے انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ریاست کی تشکیل ،قوم کی تعمیر ،معاشی نظام کی تعمیر ،عوام کی شراکت ، تقسیم کا نظام ۔ اگر اس تجزیہ کو دیکھیں تو کسی حد تک یہ درست ہی نظر آتاہے 1947 میں ایک قوم کو ملک کی ضرورت تھی ،1971 ایک قوم نہ رہنے سے ملک دولخت ہوا ،2020 ملک کوقوم کی ضرورت ہے ۔

ہماری ناقص منصوبہ بندی و قومی ترجیحات کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے کچھ چشم کشا حقائق اور بھی ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہم بغیر کسی منصوبہ بندی کے جگاڑ پر گزارہ کررہے ہیں ۔
 پاکستان اس وقت 22 کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔اگرملک کی آبادی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا۔

6 کروڑ پاکستانیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ ساڑھے 6 کروڑ افراد ایک کمرے کے ڈربے جیسے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ساڑھے 8 لاکھ افراد کو صاف بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں ہے۔اقوام متحدہ کی ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق ایشیا پیسیفک خطے میں تیز رفتار معاشی ترقی کے باوجود تقریباً نصف آبادی بھوک اور خوراک کی قلت کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک کی علاقائی ڈائریکٹر جنرل کْندہاوی کادیر کا کہنا ہے کہ یہ بہت کڑوا سچ ہے کہ سال 2020 کروڑوں انسانوں کے لیے ایک تکلیف دہ سال ثابت ہوگا خصوصاً پاکستان جیسے کمزور معیشت کے حامل ممالک کے لیے۔

پاکستان میں صرف 3 فیصد بچوں کو صحت مند غذا میسر ہے۔بارش جو باران رحمت ہوتی ہے مگر پاکستان میں وہ زحمت بن جاتی ہے کیونکہ ہم نے نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں کیا ہوا ،نہ ہی ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل ہے ۔اگر کوئی قدرتی آفت آجائے ،سیلاب ،زلزلہ آجائے تو ہمارے حکمران فوٹو شوٹ کے لئے سامنے آجاتے ہیں اور بڑے بڑے دعوے وعدے کرتے ہیں مگر سیلاب کی صورتحال جس سے ہمیں ہر سال واسطہ پڑتا ہے ذمہ داران بطریق احسن نمٹنے کی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کرتے۔

پیشگی انتظامات اور بندوبست کرنے میں کون سے امور مانع ہیں ؟عوام کایہ حال ہے کہ وہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز نکاسی کے نالوں میں پھینک کران کوبند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے بارشوں کا پانی سڑکوں پر نکل آتا ہے عوام بھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ایک اور بات آج تک سمجھ نہیں آئی بڑے شہروں بلخصوص کراچی کی اربوں روپے کی لاگت سے بننے والی سڑکوں پر آخر کوئی نکاسی آب یعنی ڈرینج کا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا ؟یاسارا پیسہ کرپشن کی نذر ہوجاتاہے ؟ اگر تعلیمی نظام کا حال دیکھیں تو وہاں بھی بہت خوفناک صورتحال و تلخ حقائق ہیں ،ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں ،اعلی تعلیم کے معیار کے حوالے سے بہت سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں مگر ہمارے پاس سوائے تقریروں وباتوں کے کوئی عملی پلان نہیں ہے ؟ہمارے ادارے کمزور وتباہی کے دھانے پر ہیں ،کرپشن کا دوردوراہے ،میرٹ کی پامالی ہورہی ہے ،سماجی انصاف ناپیدہے۔

ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے طاقتور طبقوں و اشرافیہ کی ترجیح پاکستان ہے ہی نہیں امیر لوگ اپنے بنک اکاؤنٹ سوئٹرز لینڈ میں رکھتے ہیں ،وہ شاپنگ دبئی ویورپ سے کرتے ہیں ،علاج لندن سے کرواتے ہیں ،بچے امریکہ سے پڑھاتے ہیں ،سیرسپاٹے کینیڈا وسوئٹرز لینڈ کے کرتے ہیں تو ایسے میں پاکستان ان کی ترجیح کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر اس میں بہت گہرائی ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں پاکستان کی کوئی قدرو اہمیت نہیں ہے ۔

رہی حکومتوں کی بات تو وہ سارا ملبہ سابقہ حکومتوں پر ڈال کر اپنی جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔حکمران بدلتے رہتے ہیں مگر عوام کی حالت وہی رہتی ہے جہاں پر کھڑے تھے ایک گول چکر ہے بس گھوم رہے ہیں سب اور سمجھتے ہیں کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں ،کوہلوکے بیل کی طرح ۔بقول شاعر
انہیں ہتھیلی پہ سرسوں جمانا آتا ہے
شریف لوگوں سے ان کی دعا سلام نہیں
زمیں کی طرح گھما دیں یہ آسمان کو بھی
ابھی فلک کو پڑا لیڈروں سے کام نہیں
انفرادی طور پر کامیابی کے معیار وپیمانے تو منفرد ہوتے ہیں مگر قوموں کی ترقی ماپنے کے لئے ماہرین نے کچھ اصول وپیمانے دئیے ہیں جن کو مدنظر رکھ کرتجزیہ کرسکتے ہیں کہ ریاست کہاں کھڑی ہے ؟دیکھ سکتے ہیں ؟ ان کو مدنظر رکھیں اور پاکستان کو ماپیں تو ہمیں سوائے مایوسی و دکھ کے کچھ نہیں ملے گا ۔

ریاست کی ناکامی کسی فرد کی ناکامی نہیں ہوتی مگر ہمیں اس کا احسا س بھی نہیں ہے بقول علامہ اقبال 
وائے ناکامی !متاع کاروان جاتا رہا 
کاروان کے دل سے احساس زیاں جاتارہا 
ترقی کی رفتار اور شکلوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے یہ ترقی کس حد تک غیر مساویانہ ہے۔مجموعی معاشی ترقی، حالات اور تضادات دیکھے جاتے ہیں۔ یہ دیکھا جاتا ہے کے ریاست کی کس حد تک عملداری ہے۔

پبلک سروس کی سطح اور کوالٹی کا جائزہ لیاجاتا ہے۔۔امن و امان، قانون کی حکمرانی اور بیرونی مداخلت جیسے عوامل کا گہرا تجزیہ کیاجا تا ہے۔ان تما م حقائق اور اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد یہ دیکھاجاتا ہے کہ کوئی ریاست در اصل کہاں کھڑی ہے؟۔کسی قدرتی آفت، تباہی یا دوسرے ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لیے اس میں کتنی استعداد ہے۔ اور اس گہرے تجزیے کے بعد یہ نتیجہ نکالا جا تا ہے کہ کون سی ریاست ناکام ہے اور کون سی کامیاب؟۔

عالمی شہرت یافتہ سکالرز ڈارون (Daron Acemoglu) اور جیمز رابسن نے پندرہ سالہ تحقیق کے بعد ایک یادگار اور بے مثال کتاب قلم بند کی جس کا نام ''Why Nations Fail'' رکھا یعنی ریاستیں ناکام کیوں ہوتی ہیں۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔اسکالرز لکھتے ہیں”جب تک اشرافیہ پر مبنی قومی وسائل نچوڑنے والے سیاسی ادارے ریاستی اداروں کو اجتماعی، شراکتی (عوامی) نہیں بناتے قومی پیداوار (گروتھ) جمود کا شکار رہے گی اور جب تک سیاسی ادارے استحصالی اور اشرافیہ کی گرفت میں رہیں گے گروتھ مستقل اور فطری طور پر محدود رہے گی“۔

ہمارے ارباب اختیار کی ذہنی کیفیت اس بات کا اشارہ دیتی ہے کے آنے والے برسوں میں حالات مزید دگرگوں ہوتے جائیں گے۔حکمران لمبے عرصے کے لیے سوچنے کی استعدادنہیں رکھتے۔ وہ جانتے ہیں کے وہ عارضی ہیں۔ وہ اس لمحے اور اس دن سے لطف اندوز ہو نا چاہتے ہیں جو ان کو میسر ہے۔ان کو یقین ہے کہ کل ان کا نہیں ہے۔ اس لیے وہ کل کے بارے میں پریشان ہو نا نہیں چاہتے۔

مگر زوال کایہ سفر جس تیز رفتاری سے جاری ہے یہ پریشان کن ہے۔کوئی ایک قدرتی آفت،کوئی ایک حادثہ، کوئی ایک چھوٹا ساواقعہ زوال کے اس سفر کو برق رفتاری دے سکتا ہے۔پاکستان اور صومالیہ کے درمیان بہت تھو ڑا فیصلہ
 ہے جو صرف ایک چھلانگ میں طے ہو سکتاہے مگر علامہ اقبال نے کہاتھا 
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے 
زرا نم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی 
پلاننگ یعنی منصوبہ بندی کسی بھی ادارے ،قوم وملک کی ترقی وخوشحالی میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،اگر اس حوالے سے منصوبہ بندی کو ریڑھ کی ہڈی کہاجائے توکچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ جن ممالک ،اداروں یاقوموں میں منصوبہ بندی کا فقدان ہوتا ہے وہ نہ صرف بہت پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ اپنا وجود بھی کھودیتی ہیں ۔

کوئی کامیابی راتوں رات میں آسمان سے نہیں اتر تی ہے۔ ہر کامیابی کی تہہ میں،ٹھوس منصوبہ بندی ،جہد مسلسل ،انتھک محنت ،دیدہ و بینا قیادت اور اس سفر میں مشکلات کے ساتھ ساتھ کامیابی ضرورملتی ہے۔ بڑی کامیابی کے پیچھے بھی چھوٹی کامیابی پیوستہ ہوتی ہے، جس طرح کوئی تناور درخت ایک چھوٹے سے دانے سے نکلتا ہے، اسی طرح کوئی بڑی کامیابی کسی چھوٹی کامیابی سے پھوٹتی ہے۔

بس کامیابی کے اسی اصول کو جاننا ہے کہ تنکا تنکا مل کر آشیاں بناتاہے، قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے، اینٹ پر اینٹ رکھی جاتی ہے تب عالی شان محل کو وجود ملتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا زینہ طہ کرتے جائیے، وہ دن دور نہیں جب بڑی کامیابی کا ''تمغہ'' آپ کا منتظر ہوگا۔ باحوصلہ اور اولوالعزم افراد ہی، نئے نئے میدانوں میں فتوحات اور کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور انسانی زندگی کے ظلمت کدوں میں امیدوں کے چراغ روشن کرتے جاتے ہیں،اسی سے معاشرے بنتے ہیں اور اسی سے قومیں بنتی ہیں ہمیں بحثیت قوم ”جگاڑ “ چھوڑ کر لانگ ٹرم پلاننگ پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ جگاڑ سے تو گھر نہیں چل سکتا ملک کیسے چلے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :