کیا پی ڈی ایم ٹوٹ گئی۔۔؟

جمعہ 29 جنوری 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں کہ ایک پی ڈی ایم اور کئی بیا نئے ہیں۔ بلاول کا تحریک عدم اعتمادپر زور، احسن اقبال کے شکوک و شبہات اورمریم کا لانگ مارچ پر اصرار ہے۔وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ٹویٹ میں لکھا کہ یہ پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے کا واضح ثبوت ہے۔ شاہراہوں پر عوام کو گمراہ کرنے کیلئے نکلے تھے،عوام کی جانب سے مسترد ہونے کے بعد واپس ایوانوں کا رخ اختیار کر رہے ہیں۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ پی ڈی ایم میں مثالی ہم آہنگی ہے دراڑ ڈالنے کی حکومت کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔مریم نواز نے کہا کہ دوسروں کوقبضہ گروپ کہنے والے خود ملک پرقبضہ کرکے بیٹھ گئے،نوازشریف کاساتھ دینے والوں کوانتقام کانشانہ بنایا جارہاہے،عمران خان آج بھی ناکام آئندہ بھی ناکام ہوں گے۔

(جاری ہے)

مریم نواز نے براڈ شیٹ کوفراڈ شیٹ قراردیا، مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے پی ڈی ایم میں اختلافات کی بھی تردیدکی،بولیں پی ڈی ایم کے سامنے بلاول نے ان ہاؤس تبدیلی کی بات کی تودیکھیں گے۔

اُدھر مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو اور مریم کی نوازشریف اور آصف زرداری کو شکایت کر دی۔مولانا فضل الرحمن بلاول بھٹو اور مریم نواز کی سولو فلائٹ پر برہم ہو گئے۔،انہوں نے ٹیلی فون پر آصف زرداری اور نواز شریف سے گلے شکوں کے انبار لگا دئیے۔مولانا فضل الرحمن نے شکوہ کیا ہے کہ حکومت مخالف تحریک کے فیصلے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ڈرائنگ روم میں ہو رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق انہوں نے کہا اگر فیصلے بلاول بھٹو اور مریم نواز نے ہی کرنے ہیں تو پی ڈی ایم کو بنانے کا کیا فائدہ ہوا؟انہوں نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان باقاعدہ طور پر پی ڈی ایم کی سطح پر کیا جائے۔ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو اور مریم نواز کی سولو فلائٹ سے اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کے تحفظات بھی شدید ہونے لگے ہیں۔

ضمنی انتخابات، سینٹ الیکشن اور ان ہاؤس تبدیلی کے بیانات کے بعد مولانا فضل الرحمان تنہا ہو گئے۔
پی ڈی ایم کے 5 فروری کے جلسے کا مقام بھی تبدیل کردیا گیاہے پی ڈی ایم کا جلسہ راولپنڈی کے بجائے مظفرآباد میں ہوگا۔پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے جلسے کیلئے مقام کی تبدیلی کا فیصلہ ن لیگ کی درخواست پر کیا گیا۔مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے تصدیق کر دی ہے کہ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر جلسہ میں مریم نواز شریف شرکت کریں گی۔

دوسری جانب نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، وزیراعظم آزاد کشمیر اور شاہد خاقان عباسی کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں یوم یکجہتی کشمیر پنڈی کی بجائے کشمیریوں کے ساتھ منانے کی تجویز دی گئی ہے ذرائع کاکہناہے کہ پی ڈی ایم کوراولپنڈی میں آئی ایس پی آرکی جانب سے چائے پلائے جانے کاکہنے کے بعداپوزیشن اورخاص طورمولانافضل الرحمن اورمریم نوازنے راولپنڈی نہ جانے کافیصلہ کیا اوراپنی سیاسی ساکھ کوسہارادینے کیلئے انہیں 5فروری کے دن کاموقع ملاہے جسے وہ کشمیریوں سے یکجہتی کے طورپراستعمال کرناچاہ رہے ہیں کیونکہ عملی طورپر پی ڈی ایم کی کال پرعوام کان دھرنے اورباہرنکلنے کوبالکل تیارنہیں ہے کیونکہ پی ڈی ایم خاص طورن لیگ اورمولانافضل الرحمن کے پاک فوج کیخلاف بیانئے کوپاکستان کی محب وطن پاک فوج جوکہ پاکستان کے دفاع کی ضامن ہے سے محبت کرنے والی عوام نے بالکل پسند نہیں کیااورپی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے ملک دشمن عناصرسے ملتے بیانئے نے پاکستانی عوام کواپوزیشن سے دورکردیاہے۔


مریم نواز صاحب کہتی ہیں کہ پی ڈی ایم میں کوئی اختلافات نہیں ہیں اورسب مولانافضل الرحمن کی قیادت میں متفق ہیں لیکن ہمارے خیال میں بلاول بھٹوزرداری کومولانافضل الرحمن سے کئی قسم کے تحفظات ہیں سب سے پہلا اعتراض تویہ ہے کہ مولانافضل الرحمن مریم نوازکوزیادہ پرموٹ کررہے ہیں اورن لیگ ،نوازشریف کی جنگ لڑتے دکھائی دیتے ہیں ،مریم نوازاورنوازشریف کوکامیاب کراناچاہتے ہیں اوران کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ ن کواوپرلایاجائے،اسی طرح پیپلزپارٹی اوربلاول مولاناکے مذہب کارڈکیخلاف ہیں جووہ یہ مذہب کارڈاستعمال کرتے ہوئے جہادکااعلان کررہے ہیں اورفتوے دے رہے ہیں کہ جہادفرض ہوچکاہے اب پیچھے ہٹناگناہ کبیرہ ہے۔

بلاول بھٹوزرداری کہتے ہیں مذہب اورسیاست کوالگ رکھیں ہم خالصتاََسیاسی لوگ اورسیاسی جماعت ہیں مولانافضل الرحمن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے مذہب کارڈ کااستعمال نہ کریں۔
بلاول اورپیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ مولانافضل الرحمن مریم نوازکیساتھ ملکربچگانہ حکمت عملی اختیارکئے ہوئے ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ اسمبلیوں سے استعفے دے دو،ضمنی اورسینٹ انتخابات میں حصہ نہ لو،پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ ہم نے اپنی لیگل ٹیم سے مشاورت کی ہے کیاسندھ اسمبلی تحلیل کردینے سے سینٹ انتخابات رک سکتے ہیں انہوں نے کہاکہ نہیں ،پیپلزپارٹی اوربلاول بھٹوزرداری کہتے ہیں کہ ہمارے ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لینے سے حکومت اپنے امیدوارکامیاب کروالیگی ہمارے ہاتھ کیاآئے گا؟،بلاول بھٹوزرداری کایہ بھی کہناہے کہ مولاناصاحب کوئی ایک ایساآئینی نقطہ بتائیں جس سے سینٹ انتخابات رک سکتے ہوں جس کا مولانافضل الرحمن کے پاس کوئی جواب نہیں،بلاول بھٹوزرداری جب مولانافضل الرحمن سے یہ سوال کرتے ہیں اگرآپ کے کہنے پر اسمبلیوں سے استعفے بھی دیں،استعفوں کے باوجودعمران خان کی حکومت کاخاتمہ نہ ہو ،ان خالی نشتوں پرحکومت ضمنی انتخابات کروادے توکیاکریں گے اس سوال کاجواب بھی مولاناکے پاس سوائے خاموشی کے اورکچھ نہیں ہے ۔

بلاول یہ بھی پوچھتے ہیں کہ اگرلانگ مارچ کرلیااورلانگ مارچ ناکام ہوگیاتوپھرمولاناصاحب کیاکریں گے اس کابھی کوئی جواب نہیں ملتا،بلاول بھٹوزرداری کویہ بھی اعتراض ہے کہ مولانافضل الرحمن کی جب میڈیاٹاک ہوتی ہے تووہ اپنی خواہشات کوپی ڈی ایم کااعلانیہ قراردیتے ہیں ایساکیوں ہے جس کاکوئی جواب نہیں دیاجاتا۔ان ساری باتوں کااب صرف ایک ہی جواب دکھائی دے رہاہے کہ اب بلاول بھٹوزرداری مولانافضل الرحمن کی ایک بھی سننے کوتیارنہیں ہے،کیونکہ جب مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اسمبلیوں سے استعفے دیں ،تو پیپلز پارٹی نے استعفے نہ دیے،ضمنی اور سینٹ انتخابات میں حصہ لینے کافیصلہ کیا ہے ،انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ ہوگا لیکن پی پی نے کہا نہیں ہوگا ،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دھرنا دیں گے،پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہر گز نہیں دیں ۔

مولانا فضل الرحمن نے GHQکی طرف مارچ کرنے کا کہا تو بلاول اور پیپلز پارٹی نے پھر انکارکر دیا اور مولاناسے کہا کہ آپ فوج پر جو الزامات لگا رہے ہیں تو ان کے ثبوت دیں ۔
پی ڈی ایم اوربلاول کے درمیان اختلافات کی مسلسل خبریں آرہی ہیں لیکن بلاول کی طرف سے مکمل خاموشی پائی جارہی ہے اگر اختلافات نہ ہوتے تو بلاول کی طرف سے کوئی ٹویٹ آجاتی ،اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ بلاول نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر مولانا فضل الرحمن کو فون کرکے نہیں بلایا تھا اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری نے فون کرکے بلایا تھا مگر مولانا صاحب نہ گئے اس برسی پر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ کوئی ہمیں یہ نہ بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے،ہم سے سیکھو کس طرح کسی کو نکالنا ہے ،کیا اس بات کو اتفاق کہیں گے کہ بختاور کی شادی پر آصف علی زرداری یا بلاول نے مولانا فضل الرحمن کوشادی کا دعوت نامہ نہیں بھیجا، دوسری طرف مریم نواز کو بلایا گیا ہے مگرا نہوں نے ذاتی مصروفیات کا کہہ کر شادی میں شامل ہونے سے معذرت کرلی ۔


ان سب حالات ووا قعات کو دیکھتے ہوئے بڑی آسانی سے سمجھ آجاتی ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر کیا کھچڑی پک رہی ہے ،پی ڈی ایم کے بارے میں مریم نواز یا مولانا فضل الرحمن بھلے کہتے رہیں کہ اپوزیشن کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں اگر اختلافات نہیں ہیں تو مولانا فضل الرحمن نے سابق صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو فون کرکے بلاول اور مریم کی شکایت نہ لگائی ہوتی ۔اب واضح طور پر دیکھائی دے رہا ہے کہ پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر اپنے انجام کی طرف جارہی ہے ۔اور وزیر اطلاعات شبلی فراز کی ٹویٹ حقیقت کا روپ دھارتی دیکھائی دے رہی ہے ،بہت جلد پاکستانی عوام اپوزیشن کا کوئی نیا سیاسی اتحاد بنتا دیکھیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :