ریاست کے درپے ایک سوچ

ہفتہ 31 اکتوبر 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

 مجھے سردار ایاز صادق سے کیا لینا دینا ۔ اس زمیں کے نیچے بڑے بڑے نامی گرامی خاک ہوئے اپنا نشان تک کھو چکے ہیں لیکن اگر زندہ ہے تو ان کی تاریخ اور اس بتائے وقت میں ان کا کردار ۔ اختلافات کس کے نہیں ہوتے ۔ کون سا کوئی ایک رشتہ ہے جو ان اختلافات کے بغیر روئے زمین پہ استوار رہا ۔ جب میں ماضی میں دیکھتا ہوں تو یہی اختلاف کرہ ارض کی آباد کاری کا موجب بنا تھا ۔

رشتہ اس وقت رشتہ نہیں رہتا جب وہ عزت و احترام کا دامن تار تار کر کے باہمی محبتوں کی دھجیاں اڑا دیتا ۔ اگر غور سے دیکھیں تو یہ دھجیاں ایک انسان نہیں بکھیرتا یہ وہ سوچ بکھیرتی ہے جو نفرت کو پروان چڑھاتی ہے ۔ انسان گزر جاتا ہے لیکن نفرت و عداوت کی سوچ تاریخ میں زندہ رہتی ہے ۔ آپ بھی اس عداوت مخاصمت میں ریاست سے دست و گریباں اچھے نہیں لگے ۔

(جاری ہے)

ریاست کے سپہ سالار کے کانپتے قدم اور ماتھے پہ آئے پسینے کے اگر آپ گواہ ہیں تو میں شاہد ہوں ان لمحات کا جب آپ کسی ذاتی مفاد کے لئے ہاتھ اٹھائے اس جرنیل کی مدت ملازمت کی توسیع میں پیش پیش تھے ۔ پھر آپ کا بھیجا ایلچی سات گھنٹے اسی چیف کو کون سے مجرب نسخے کھلاتا رہا کہ حوصلہ بڑھے اور این آر او نصیب ہو یہ بھی آپ ہی بتا سکتے ہیں ۔ مجھے آج انسانوں سے بڑھ کے اس سوچ کا سامنا ہے جو قدم قدم پہ ذاتی مفاد کے گرد گھومتی ہے ۔

گھر میں کوئی ملازم رکھنا ہو تو سب سے پہلے اس کی وفاداری اور ذمہ داری کی بجا آواری کا جذبات جائزہ لیا جاتا ہے ۔ کبھی آپ نے اپنے مالک سے بھی پوچھا کہ جب وہ لرزتی ٹانگوں والے کو چن رہے تھے تو ان کی سوچ نے سب سے پہلے اس سپہ سالار کو کیسے پرکھا تھا ۔ ان کے سامنے چار نام تھے انہوں نے اسے کیوں چنا جس کے متعلق بعد میں ایک مسلمان ہونے پہ شک و شبہات ہوئے اور جس کا اظہار آپ کی صفوں کی سوچ نے اس کے قادیانی ہونے کے الزامات کی مہر لگا کر اظہار کیا ۔

لیکن شاید یہ بھی آپ کا قصور نہیں ہے یہ بھی اس سوچ کی پیداوار ہے جس کے آنگن آپ کے مالک کی سوچ پروان چڑھی تھی نہیں تو کون سی مثال کہیں ایسی ملتی ہے کہ کسی سربراہ کو پھانسی پہ لٹکا دینے کے بعد جب اتارا جائے تو اس کو اس لئے برہنہ کیا جائے کہ اس کے ختنے نہ ہونے کی صورت میں آمریت کی حکومت کو تقویت ملے گی ۔ اپنے صاحب سے یہ بھی پوچھئے گا کہ اس سوچ کو کیا نام دوں جب افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2016 میں باڑھ لگانے کے آپ بہت بڑے حامی تھے اور آج آپ کی سوچ ان کے ساتھ کھڑی ہے جو ریاست پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یہ باڑھ دونوں طرف سے اکھاڑ پھینکیں گے ۔

پاکستان کے دشمنوں نے آج تک پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے خواب دیکھے اور دکھائے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے فنڈنگ کہاں کہاں ہوتی رہی ہے یہ آپ بھی جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی کسی پاکستانی اسٹیج سے یوں اعلان نہیں ہوئے تھے جیسے آپ نے ذاتی مفاد کے لئے اپنے فورم سے بلوچستان کی آزادی کے نعرے لگوا کر دیے ۔ آپ کی موجودہ پارٹی نائب صدر نے جن جن کے ساتھ تصویریں اتروائیں وہ بھی شاید ریاست کو نیچا دکھانے والوں کو مضبوط کرنے والوں کے لئے آکسیجن تھی ۔

اپنے اسٹیج پہ کھڑی اس سوچ سے یک زبان ہو کے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگوا دیجئے تو میں مانوں کہ یہ سب ریاست کو مضبوط کرنے کی طرف آپ کا قدم تھا۔ لیکن مجھے پتہ ہے یہ سوچ نہ ایسے کرے گی اور نہ آپ کو کرنے دے گی ۔
جن کو آپ دوست کہتے ہیں وہ بیس ریال کے پیچھے کچھ ایسے نقشے نہیں چھپواتے جو زخم میں نمک بھر دیں ۔ ریاستوں کے تعلقات ریاستوں سے ہوتے ہیں لیکن جہاں تعلق شخصیتوں کے ہوں وہ کب ریاست کی ترجیحات کو گردانتے ہیں ۔

ایسے تعلقات قائم کرنے میں اس سوچ کو کیا نام دوں جس نے ایٹمی دھماکوں کی تقریب میں بٹن دبانے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کہ کل وہ اپنے ذاتی دوستوں میں سچا ہو سکے کہ وہ بٹن ایک سائنسدان نے دبایا تھا اس نے نہیں ۔ ویسے بھی ایٹم بم پاکستان نے اس وقت بنا لیا تھا جب یہ سوچ رکھنے والا لاہور میں لوہا پگھلایا کرتا تھا ۔ مجھے اس سوچ کی نفی کرنی ہے جو حکمرانی اور ذاتی مفاد کے حصول میں عزتیں نیلام کرتے ہیں ۔

ایک نشئی اپنے نشے کے حصول کے لئے بہن ۔ بیٹی ۔ بیوی اور ماں بیچ دیتا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ایک ایسا حکمرانی کے نشے کا رسیا لندن میں کرزئی اور امریکہ و اسرائیل کی لابنگ ایجینسیوں سے کیوں ملا اپنی نشے کا ساماں نہ کرتا رہا ہے ۔ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ میں لندن سے ایک بیان نہیں آیا کیونکہ اس وقت ذاتی مفاد میں یوروپین ممالک کی خوشنودی میں چپ رہنا ہی حکمت ہے ۔


یہ ہے وہ سوچ جس نے ہمیں آج تک آگے نہ بڑھنے دیا ۔ محکمہ خارجہ کی تسنیم اسلم کی گواہی ہو یا اعتزاز احسن صاحب کا اسمبلی کے فلور پہ چیلنج کہ اگر یہ کلبوشن کے نام یہاں لے دے تو اپنی گھڑی وہ خیرات کر دیں گے ۔ اگر مالک کی سوچ یہ نہ کرسکی تو سردار ایاز صادق صاحب آپ تو اس شطرنج کے پیادے ہیں ۔ آپ نے ابھینندن اور بھارت کی شان بڑھا دی تو کیا حیرانی ۔

اس سوچ کا مقصد تو فوج کو بیرکوں میں بھیج کے کھل کھیلنے کو میدان صاف چاہیئے لیکن اس کا آسان نسخہ میں بتا دیتا ہوں کہ کیسے فوج خود اپنے کام سے کام رکھے گی ۔ جب پولیس آپ کی سوچ کی چاکری کی بجائے امن و امان خود سنبھال لے گی تو فوج بیرک میں چلی جائے گی ۔ جب کچے میں ڈاکو حاکموں کی پشت پناہی سے محروم اور حکومتی اداروں سے ڈرنے لگ جائیں گے فوج بیرکوں میں چلی جائے گی جب سیلاب ۔

زلزلہ اور سڑکیں بنانے کا انتظام حاکموں کی سوچ اور قومی ادارے سنبھال لیں گے فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب جیجا جی کے لئے منصف پیسوں کے بیگ اٹھانا چھوڑ دیں گے تو فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب گندے نالوں کی صفائی ادارے اور حاکموں کی سوچ کرنے لگ جائے گی فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب پاکستان اسٹیل حاکموں کے ہاتھوں تباہی و بربادی سے بچ جائے گی فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔

جب الیکشن کمیشن انتخابات میں فوج کو بلانے کی بجائے خود ذمہ داری نبھائے گا فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب گیارہ بجے ہی جیت کی تقریر کرنے والے کو کوئی لگام ڈالنے والا ہو گا یہ فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب پانامہ جیسی منی لانڈرنگ کے کردار دھر لینے والے سول سپوت پیدا ہوں گے تو یہ فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب نظام عدل کو لوہے کے چنے للکارنا بند ہو جائیں گے ۔

فوج بیرکوں میں چلی جائے گی جب باہمی تصفییے کے لئے حاکم فوج سے مدد مانگنا چھوڑ دیں گے فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب قوم کی مظلوم ماں بہن اپنی عزت کے تحفظ کے لئے آرمی چیف کی بجائے حاکم وقت پہ بھروسہ کرنے لگ جائے گی فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب دوسرے ممالک حاکموں کی ایمانداری کے معترف ہو کے فوج کی ضمانت نہیں چاہیں گے فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔جب قوم کے محسنوں کے مزاروں کی حرمت حاکموں کی سوچ میں بیٹھ جائے گی فوج بیرکوں میں چلی جائے گی ۔ جب حاکموں کی سوچ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگ جائے گی فوج بیرکوں میں چلی جائے گی کیونکہ اندرونی اور بیرونی دفاع فوج کا فرض ہے جس میں آپ ناکام ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :