میرے پاس جادو کی چھڑی نہیں جو گھماؤں اور تبدیلی آجائے

اتوار 27 ستمبر 2020

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

پیپلز پارٹی کی دعوت پر اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں اے پی سی ․( پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ )جس کی قیادت مسلم لیگ ن کی مریم اورنگ زیب کی مذاق کا شکار علامہ مولانا فضل الرحمان کریں گے اس لئے کہ وہ مکمل طور پر بے کار ہیں یہ الگ بات ہے کہ ان کو نہ تو کوئی سنتا ہے اورنہ کوئی مانتا ہے بس اسے امامت کے لئے آگے لگا دیا جاتاہے اجلاس میں مریم اورنگ زیب نے ان کو بلاول زرداری والی پرچی پڑھنے کو دے کر دنیا بھر میں اس کا مذاق اڑایا ۔

سب کی تقریریں لائیو سنا ئی گئیں لیکن مولانا کے مائیک کی بولتی بند کردی گئی وہ ناراض ہوئے لیکن راضی بھی جلدی ہوئے لگتا ہے سعدی نے مولانا ہی کے لئے کہا تھا ۔ کہ اپنے عیبوں کو چھپانے والا علم وہنر کی جابجا نمایش کرنے والا فریب خوردہ اپنی بت کسی اور بے بسی کے دنوں میں کھوٹے داموں سے کیا خریدے گا اگر مولانا کو اللہ تعالیٰ ممبرِ رسول جیسی نعمت سے نوازہ ہے تو وہ عدالت کے مفرور مجرموں اور مجرموں میں بیٹھ کر اپنے مذہبی مقام سے کیوں گرنے لگے ہیں یہ تو سب کھوٹے سکے ہیں اگر قوم کہہ رہی ہے کہ اپوزیشن نے اسلام آباد میں اجتماعی طور پر اپنا مذاق اڑایا ہے تو غلط نہیں اس لئے کہ ان کی نہ صرف سوچ الگ ہے بلکہ مفادات بھی الگ ہیں۔

(جاری ہے)


 مولانا خالی ہاتھ آئے اور اپوزیشن سے کہا اسمبلیوں کے استعفیٰ مجھے دے دو لیکن مزہ تو تب آتا جب مولانا صاحب اپنے منتخب اراکین اسمبلی کے استعفے ساتھ لے کر آتے تو مطالبہ کرتے بھی اچھے لگتے وہ کہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ ن والے ساتھ تو بیٹھتے توہیں لیکن دونوں جماعتوں کو اندر سے جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے پوری قوم جانتی ہے کہ ان د ونوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں اسی لئے تو میاں صاحب نے بلاول سے کہا کہ آپ اپنے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ممبران کے استعفے مجھے دے دیں اور میں آپ کو دے دیتا ہوں اور ہم دونوں وہ استعفے مولانا کے سپرد کر د یتے ہیں میاں صاحب کی بات میں وزن تھا اس نے پیپلز پارٹی کو دبے لفظوں میں کہہ دیا کہ تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے تو میں تم پر نہیں اعتماد نہیں کرتا دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے کو اندر کی گہرائی تک جانتی ہیں میاں صاحب اگر کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو تو وہ صرف اس ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہیں جو اسے ملتا ہے ان کی نظر میں مد مقابل کو ملنے والے ووٹ کی عزت ہے اور نہ ووٹ دینے والے کی میاں صاحب صرف اپنے اقتدار کے پجاری ہیں کسی اور کی حکمرانی میں وہ پاکستان میں رہنا تک گوارا نہیں کرتے 1988سے 2008کے تک میاں محمد نواز شریف نے ۵ وزرائے اعظم اور دو صدور کے خلاف سازش کی جونیجو،بے نظیر بھٹو،یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو تختِ وزارتِ عظمیٰ سے گرانے میں قوم نواز شریف کے کردار کو کیسے بھول سکتی ہے آج کہہ رہے ہیں کہ ایجنسیوں نے وزیر اعظم کو حکمرانی کی مدت پوری نہیں ہونے دی میاں محمد نواز شریف کے قول وفعل میں تضاد ہے وہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں آج کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کا کوئی رکن انفرادی۔

جماعتی یا ذاتی حیثیت میں عسکری قیادت سے نہیں ملے گا اس لئے کہ در پردہ ملاقاتوں پر سے پردہ اٹھ گیا افواج پاکستان پر براہ راست انگلی اٹھانے والے میاں صاحب کی اجازت سے ماہِ اگست کے آخری اور ستمبر کے پہلے ہفتے میں سابق گورنر محمد زبیر نے ملاقات کی لیکن انگور ہاتھ نہیں آئے تو کھٹے ہوگئے آرمی چیف سے ملاقات میں این آر او نہ ملنے پر آرمی کے خلاف زبان بیان بازی میں میاں صاحب اخلاقیت کی تمام سرحدیں عبور کر گئے سابق گورنر کہتے ہیں کہ آرمی چیف سے ملاقات کے دوران تیسرا بندہ کوئی نہیں تھا ۔

، تیسرا بندہ تھا لیکن اس کے سر پر سلمانی ٹوپی تھی اس لئے نظر نہیں آیا آرمی چیف مسلم لیگ ن کی سیاست کو بخوبی جانتے ہیں اس لئے کھبی کسی سے تنہا نہیں ملا کرتے آرمی چیف سے ملنا جرم نہیں لیکن ان سے این آر اہ میں تعاون مانگنا جرم ہے !
 بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں جس جماعت کو بھیعوام نے اعتماد کا ووٹ دیا اس جماعت کی قیادت کے وجود میں فرعونیت کی روح سما جاتی ہے وہ اداروں کا احترام بھو جاتے ہیں ادارے حکومت کے زیرِ انتظام اور ماتحت ہوتے ہیں لیکن غلام نہیں ہوتے ادارے قوم کے غلام ہوتے ہیں اس لئے وہ ہر حکمران سے احترام کی امید رکھتے ہیں اور عمران خان بحشیت وزیرِ اعظم اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں قومی اہمیت کے فیصلوں میں وہ افواجِ پاکستان کو اعتماد میں لیتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ قومی معاملات کے ہر پہلو سے ایجنسیاں باخبر ہوتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ کون کیا کر رہا ہے!
اس لئے ہر مسئلے پر یو ٹرن لینے والے وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا میں احتساب کے عمل پر یو ٹرن نہیں لوں گا حکومت چھوڑ سکتا ہوں ان کو نہیں چھوڑ سکتا فوج سے وہ ڈرتے ہیں جن کے دل میں چور ہو ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں چور نہیں ہوں اس لئے فوج قومی عظمت کے لئے میرے ساتھ کھڑی ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میرے پاس جادو کی چھڑی نہیں جو گھماؤں اور تبدیلی آجائے ہم خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے حقیقی زندگی کی خوبصورتی کے حصول کے لئے جوجہد کرنا پڑتی اپوزیشن چاہے تو استعفیٰ دے سکتی ہے میں ضمنی الیکشن کرا دوں گا ہر کسی کو اپنی اوقات کا پتہ چل جائے گا
آرمی چیف نے بھی کہہ دیا کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹو ہم کسی کو افراتفری پھیلانے کی اجازت نہیں دے سکتے ادھر مولانا سراج الحق کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں ایک اپوزیشن والے نے قمر جاوید باجوہ سے کہا کہ عمران خان اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھتے کاش اس موقع پر سراج الحق صاحب کہہ دیتے کہ اگر میں ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تو ملک کا وزیرِ اعظم اپوزیشن کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتے ہیں !!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :