تیسری دنیا ،تیسری عدالت اور تیسرا کالم

بدھ 27 نومبر 2019

Hasnat Ghalib Raaz

حسنات غالب راز

 انسان کی فطرت اور نفسیات کا تقاضا ہے کہ یہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرم رہتا ہے اور اس کے بعد خوب ترین کے پھول اپنے کندھے پر سجانے کا خواہاں ہوتا ہے ۔خواہش کے بعد نصیب کا معاملہ ہوتا ہے ۔ نصیب ساتھ دے تو دل کے ارمان پورے ہوجاتے ہیں ، نہ دے تو ساری زندگی ادھوری ہو کر رہ جاتی ہے ۔ اس کے بعد انسان سہارے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے ۔

وہ ہر دروازے پر دستک دینا شروع کردیتا ہے ۔ وہ انسانوں کو اپنا حاجت روا سمجھنے لگتا ہے ، وہ اپنوں کو اولیت دیتا ہے ، ان سے مایوس ہوتا ہے تو بیگانوں کوبادلِ نخواستہ اپنا مونس و غمخوار بنا لیتا ہے، جب ان سے مایوس ہوتا ہے دل کی تنہائی کو بیساکھی بنا لیتا ہے ۔ زندہ انسانوں سے مایوس ہوتا ہے تو وہ قبروں کا رخ کرتا ہے ، وہ اپنی التجائیں قبروں والوں کی خدمت میں پیش کرتا ہے مگر جب زندہ اور آنجہانی،سب لوگوں سے مایوس ہوجاتا ہے تو کسی تیسری طاقت کے بارے میں سوچتا ہے اور آخرش سب سے بڑے غمگسار کی طرف رغبت کرتا ہے ،ہر طرف کی مایوسی کے بعداسے ’اللہ والی گلی ‘ دکھائی دیتی ہے ۔

(جاری ہے)

وہ اللہ سے لو لگاتا ہے۔ وہ ہر صورت اپنے مسائل کے حل کے لیے سرگرداں رہتا ہے ، کسی تیسری عدالت کے فیصلے ،کسی تیسری طاقت کی امداد کا منتظر رہتا ہے ۔ الغرض انسان اپنے ارمانوں کی تکمیل میں حصولِ منزل کا سفر بہر صورت جاری رکھتا ہے ۔ 
انسانی حسرتوں کی تکمیل میں اکثر ناموافق حالات کی تلخیاں رکاوٹ بن جاتی ہیں،خیالوں کے تاج محل سنگریزوں میں بدل جاتے ہیں، آرزووٴں کے بلند و بالا پلازے زمیں بوس ہو جاتے ہیں ۔

ارمانوں کے آشیانے تنکا تنکا ہوکر بکھر جاتے ہیں ۔امیدوں کے سیکڑوں چراغ گل ہوجاتے ہیں۔ زندگی کے ہر نئے موڑ پر یاس و ناامیدی کے کئی آثار نمودار ہوتے ہیں،کچھ ان سے ہار جاتے ہیں ، مگر کچھ جفاکش اور دل والے اپنی امنگوں میں روح پھونک کر اپنے پر جھاڑتے ہیں اور ایک سرکش اور باغی پرندے کی طرح قفس اور جیل خانے کیا، محلات اور کوٹھیوں کی قیدو بند سے بھی بے نیاز ہوکر آزادفضا ؤں میں اڑان کی ٹھان لیتے ہیں ،ان کے سامنے ایک مشن کی تکمیل ہوتی ہے اوران کا مطمعٴ نظر ان پر واجب و لازم ہوتا ہے کہ جس کے خواہاں ہوتے ہیں۔

 
چوں کہ آج کا اظہارتیسری عدالت ،تیسری دنیا اور تیسرا کالم سے معنون ہے ،لہٰذا مقصدیت کے تحت حسب موضوع گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ تین کا ہندسہ انسان کے روزمرہ معاملات میں نہایت اہم ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ انسانوں کے تمام جھگڑوں میں کسی تیسرے کا نوے فیصد حصہ ہوتا اوراسی طرح جھگڑے مٹانے میں بھی نوے فیصد کردار تیسرے کا ہوتا ہے ۔ دس فیصد جھگڑے خود بخود حل ہوتے ہیں ۔

گویا تیسرے فرد کا ہر جگہ اور ہر بکھیڑے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔تیسر ے کے کئی نام ہیں عربی والے یا دیہی پنچایت والے تیسرے کو ’ثالث ‘ کے اسم سے موسوم کرتے ہیں ، انگریزی والے تیسرے کو تھرڈ پرسن ،جب کہ بعض ایلیٹ کلاس لوگ اس کے لیے ’ تھرڈ کلاس ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔کئی لوگ اسے’ خواہ مخواہ ‘ کے لقب سے ملقب کرتے ہیں ،اہلِ ادب اسی لیے کہتے ہیں :’ تو کون ، میں خواہ مخواہ ‘ وغیرہ ۔

تاہم اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ تھرڈ پرسن جتنا بھی تھرڈ کلاس ہو اہمیت سے خالی نہیں ہوتا مثلاً ،جب دو لڑنے والے تھک جائیں تو انھیں کسی تیسرے کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر تیسرابروقت پہنچ جائے تو دونوں کا بھرم رہ جاتا ہے ۔عمومی بازاری جھگڑوں سے عدالتوں تک تھرڈ پرسن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ عدالتوں میں تیسر ے کے لیے کبھی شاہد ، کبھی گواہ ،کبھی وکیل کبھی جسٹس کے عہدے بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔

حکومتوں کی تشکیل، تکمیل ، تذلیل اور تحلیل کے لیے بھی کسی تیسرے ہی کاکردار تریاق یا زہر قاتل ثابت ہوا کرتاہے ۔ حکومت ،عدالت اور عوام باہم مربوط خطوطِ مثلث ہیں ، حکومت اور عوام کے جھگڑوں میں عدالتیں تیسرے کا کردار ادا کرتی ہیں ، عدالتوں اور عوام کے معاملات کے حل کے لیے حکومتیں ثالث بنتی ہیں اور حکومت و عدالت کا جھگڑا پیدا ہواجائے تو عوام ثالث بن کردونوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں ۔

حکومت اور حکومت کے فیصلوں میں عدالتیں تیسری طاقت کا کردار ادا کرتیں ہیں ، عدالت کے فیصلے مدھم کرنے لیے صدر اور وزیراعظم کی کابینہ تیسرے کا کردار ادا کرتی ہے ۔ اگر حکومت پسند نہ آئے تو کسی تیسری پارٹی سے دھرنا کروایا جاتا ہے ۔ اگر کوئی حکومت گر جائے تو گرانے والے کی بجائے کسی تیسری غائبانہ طاقت پر شک کیا جاتا ہے ۔ چھوڑیے ،جتنے منھ اتنی باتیں ،حکیم کہتے ہیں معاملات کو سنجیدہ نہیں لینا چاہے ،اس سے وہم کا مرض ہوجاتا ہے۔

 
ایک مرتبہ دو آدمی کسی منصف کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے ۔ پہلے نے اپنی بات ختم کی تو منصف نے کہا : ’ تم سچے ہو ‘۔ اس پر دوسرے نے رونا رویا تو منصف نے کہا : ’ تم بھی سچے ہو‘۔ ایک تیسرا جو قریب کھڑا یہ فیصلہ سن رہا تھا ۔نہ رہ سکا اور جھٹ سے بولا : ’جناب آپ نے ایک کو بھی سچا کہ دیا اور دوسرے کو بھی ‘۔ تو منصف بولا : ’ تم بھی سچے ہو ‘ ۔

یوں تیسرے کو ایک صاف ستھری پگڈنڈی نظر آئی، حقوق ثالثی ادا کرنے کے بعد اپنی راہ لگا اور پھدکتا ہوا دور چلا گیا ۔
تھرڈ پرسن کی وضاحت جاری ہے مگر فی الوقت تیسری دنیا کو، جس تیسری نوعیت کے رویے کا سامنا ہے اس کاذکر کرنا لازم ہے ،جس میں ایک تیسری طاقت نمودار ہے اور یہ طاقت تیسری طرز کی نئی دنیا تشکیل دینے پر غور کررہی ہے ۔ عصرِ حاضر کی یہ واحد طاقت ہے ،جس کے لیے کسی تیسرے کے مشورے کی ضرورت نہ ہے ۔

اربابِ بصیرت و دانش ہوں یا احبابِ جاہ وحشمت ، اربابِ اختیار ہوں یا بے اختیار ، اربابِ انصاف ہوں یا اربابِ قانون، اسی طرح کوئی گاما پہلوان ہو یا رستم ،کوئی ماجا ہو یا تاجا ،کوئی جوگی یا روگی، تمام کے تمام پر حضرتِ امریکا کا یہ حکم لاگو ہے کہ اس کے کسی معاملے میں تیسرے کا کردار ادا کرنے سے باز رہیں ، اس وقت دنیا میں، جس طرح دلفریب انداز سے دہشت گردی کے خاتمے اور تیسری دنیا کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جارہا ہے ، وہ کسی مضحکہ سے کم نہیں ۔

سنا ہے امریکا نامی لائسنس کمپنی چودھراہٹ کے لائسنس جاری کرنے کے جملہ حقوق محفوظ رکھتی ہے ، وہ خود چاہے ،جہاں چاہے ،جس وقت چاہے، ڈرون حملے کر اسکتی ہے ، جس ملک کو چاہے دہشت گرد قرار دے سکتی ہے ، جس کے معاملات کو چاہے اپنی ثالثی کی پیش کش کر سکتی ہے ، تیسرے کا کردار ادا کر سکتی ہے اور بغیر ثالثی کیے خود کو سمجھ دار ثالث قرار دے سکتی ہے ۔

ٹی وی کے عینی شاہدین کے مطابق پچھلے دنوں مسئلہ کشمیر پرمزاحیہ ثالثی کی پیشکش اس کی واضح مثال سمجھی جاسکتی ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر بغیر کچھ کیے دیے ٹرمپ صاحب بطور ثالث مطمئن ہیں کہ وہ دنیا کے لیے ثالث ِ اول ہیں۔ 
دنیا میں کہیں سے اینٹ اکھیڑو ایک ثالث برآمد ہو گا ، مگر المیہ دیکھو کہ کشمیر کو بھارت کے نرغے میں آئے115 دن بیت گئے ،مگر کسی ثالث کے کان پر جوں نہیں رینگی، اگر یہی ثالثی ہے تو سو بار سبحان اللہ ! او آئی سی ،اقوامِ متحدہ ، عالمی عدالت ، انسانی حقو ق کی تنظیمیں ، سارے ثالث خاموش کیوں، فلسطین اور اسرائیل ، امریکا اور طالبان ، ایران اور سعودی عرب ، پاکستان اور بھارت ، چین اور امریکا ، روہنگیا مسلمان اور برما کے بدھ ، شمالی کوریا اورجنوبی کوریا ، مغربی تہذیب اور اسلامو فوبیا ،سکھ اور ہندو توا، مسیح اور ہندوتوا، مسلمان اور ہندوتوا، مودی اور عمران ،حکومت اور اپوزیشن، عدالت اور فوج ،پراڈو گروپ اور ریڑھی بان ، مزدور اور سرمایہ دار، مالک اور نوکر ، ڈاکو اور پولیس ،حبیب اور محبوب ، عاشق اور رقیب الغرض براعظم ایشیا سے انٹار کٹکا تک ، کارگل سے کشمیر تک ، کراچی سے تاشقند تک اوربخارا سے سمرقند تک کوئی انسانی ٹھکانا ایسا نہیں ،جوکسی ثالث، کسی تیسری عدالت کا طلب گار نہیں ۔

ترقی یافتہ ممالک ا ور طاقتور ملوک تو جنگل کے بادشاہ ہیں ،انڈے دیں بچے دیں ، مگر تیسری دنیا آج تک کسی ثالث کی منتظر ہے اور مدتوں رہے گی ۔سنا ہے ثالث کی سنگ تراشی کا سلسلہ جاری ہے ،مگر یہ مجسمہ تیار ہونے کا نام نہیں لیتا ، اگر لامحالہ تیار ہوجاتا ہے تو بولنے کا نام نہیں لیتا ۔ ایسا خاموش ہوتا ہے کہ حاجی عالم لوہار کی روح کو آج بھی کہنا پڑتا ہے 
’ بول مٹی دیا باویا ۔

۔۔۔۔ کیوں نہیں بولدا ‘
عالم لوہار کی طرح سلطان راہی مرحوم ساری زندگی فلموں میں ثالث اور مصلح کا کردار ادا کرتے رہے۔ ’ کالی چرن ‘ نامی فلم میں تیسری عدالت کے نام سے انھوں نے کئی برے لوگ ڈرامائی موت مارے، جو بعد میں زندہ ہوکر کئی فلموں میں کام کرتے رہے مگرسلطان راہی کو کسی تیسرے نے9جنوری 1996ء قتل کر دیا۔خبر چھپی ’ مَولے‘ نے ’ مَولے ‘ کو ماردیا تو اس کے بعدکئی بار مرنے اور زندہ ہونے والاسلطان راہی آج تک زندہ نہ ہوسکا۔

اسے کس نے قتل کرایا ،کسی تھرڈ پرسن نے ،مگر آج تک اس تھرڈ پرس کا پتا نہ چل سکا ۔اسی طرح بے نظیر صاحبہ مرحومہ مغفورہ کا جھگڑا تو سیاسی لوگوں کے ساتھ تھا ،مگر 27دسمبر 2007ء کو کسی تھرڈ پرسن کی گولی کا نشانہ بن گئیں ۔ قبل ازیں جنرل ضیاء الحق کو دریائے ستلج کے قریب کسی تھرڈ پرسن نے C-130ہرکولیس طیارے سمیت 17اگست 1988ء بارودکی نذر کر دیا ،آج تک تھرڈ پرسن کاپتا نہ چلا ۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو 16اکتوبر 1951ء راولپنڈی میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سعد نامی شخص نے گولی کا نشانہ بنا ڈالا اورہوشیارباش پولیس نے اسے ٹھکانے لگا دیا ، یوں آج تک اس قتل کے پیچھے چھپے تھرڈ پرسن کا بھی پتا نہ چل سکا۔اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوئے ، کچھ کے قاتل پھانسی سے جھولے ،کچھ کے بچ نکلے مگر حقائق کے پیچھے چھپے تھرڈ پرسن ظاہر نہ ہوسکے ۔

قتل و گارت ، بھتہ خوری ، اغوا براے تاوان ، ٹارگٹ کلنگ ،سلنڈر پھٹنے سے گھریلو بیبیوں کی اموات ،خود کشی کرنے والوں اور کرانے والوں کی طویل داستانوں سے قطع نظر ہمارا معاشرہ ہمیشہ سے کسی تیسری عدالت کا منتظر ہے ۔ اس کو شدت سے انتظار ہے کہ کوئی تیسرا کب آئے گا، جودنیا کے لا ینحل جھگڑوں میں ثالث کا کردار ادا کرے گا، مابین جملہ فریقین صلح ہوجائے گی ، دنیا امن کا گہوارابن جائے گی، دکھی انسانیت سکھ کا سانس لے گی ۔

شام ، فلسطین اور کشمیر کے معصوم بچے باردو کی گھن گرج سے محفوظ ہوجائیں گے۔ کون ایسا ثالث ہوگا، جوکشمیرمیں 72برسوں سے جاری غیر انسانی جارحیت اور115روز سے جاری بھارتی سیاہ کاری اورکرفیو کا خاتمہ کرے گا۔
سچ تو یہ ہے کہ تیسری دنیا کے لوگ کسی تیسری عدالت کے منتظرہیں ،جو دنیا کی عدالتوں اور سر پنچوں سے بڑا فیصلہ دے ، جو تمام انسانوں کو جینے کا حق دے ، جو دنیا سے خوف کاخاتمہ کردے ، جو کتوں کو انسانوں پر ترجیح دینے والوں کو راہِ راست کی ویکسین لگائے،جو ہر کمپنی کے کتے کے کاٹے کا علاج دریافت کرے ،جو دنیا سے کتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے مضبوط قانون بنائے ،جو سرکش ڈینگی اور ٹڈی دل کی بغاوت کا خاتمہ کرے ،جو جنسی تشدد اور سٹریٹ کرائم کے مجرموں کی سرپرست جھوٹی پنچایتوں اور جرگوں کاخاتمہ کرے ، جو مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دلائے۔

مگر اس تقاضا میں غیر سنجیدہ نہیں سنجیدہ ثالث درکا ر ہے۔ مظلوموں کے لہو کا مذاق اڑانے والا ، قاتل کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر پوری بتیسی نکالنے والا ثالث نہیں ، مظلوم انسانوں کو سچا ثالث درکار ہے ۔ تیسری دنیا ہی نہیں پوری کائنات کے مہذب لوگ لوگ کسی ایسے ثالث اور مسیحا کی تلاش میں ہیں ، کسی ایسی # تیسری عدالت کی تلاش میں ہیں ، کسی ایسی دنیا کی تلاش میں ہیں ،جہاں بقولِ شاعر’پیار ملے ،جہاں پیار کا دشمن کوئی نہ ہو‘ ،جہاں انصاف ملے ، جہاں سکھ کی سانسیں میسر ہوں ،جہاں جینے کی آزادی ہو ۔

اگر ایسا ہوجاتا ہے اورکوئی ایساثالث ،کوئی ایسی تیسری عدالت دنیا کو مل جاتی ہے تو خدا کی کائنات جنت نظیر بن جائے گی ۔
 جہاں تک منادی کی آواز جارہی ہے ، دنیا کے تمام سچے ثالثوں کو شرکت کی دعوت عام ہے اور یہ ندائے حسرت رسیدہ #
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :