مسئلہ کشمیر، تاریخی حقائق!

جمعہ 5 فروری 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

بھارت کے 5 اگست 2019 کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے ہٹائے جانے سے پہلے اور بعد میں کئی مرتبہ اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے حق میں اور بھارتی مظالم کے خلاف ہونے والے پْر امن احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر چکا ہوں نا چیز کو سوئیڈن میں14 اگست 2018 سے پاکستان کی یومِ آزادی کار ریلی کی بنیاد رکھنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ اس کار ریلی کو 14 اگست 2019 کو یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا جس میں یورپین پارلیمنٹ کے ممبران نے شرکت کی اور یورپین پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر کو اْٹھانے کی یقین دہانی کروائی۔

اس کے علاوہ مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے حق میں احتجاج سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں بھارت کے سفارت خانے کے سامنے ہو یا سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں اقوامِ متحدہ کے دفتر کے سامنے۔

(جاری ہے)

سوئیڈن کی برسرِاقتدار جماعت سوشل ڈیموکریٹس کی یومِ مئی کی پریڈ کا حصہ بن کے اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کی آواز بن کر کشمیر کا جھنڈا ہاتھوں میں تھامے سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم کی گلیاں ہوں یا آزاد کشمیر کے صدر کوْسوئیڈن کے دورے پر بلوا کر سوئیڈن کے پارلیمنٹ کے ممبران سے ملوا کر کشمیریوں کے حق میں سوئیڈش پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کروانے کا عمل، ان سب میں اپنے کشمیری اور پاکستانی بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کی آواز کو ہر دستیاب عالمی فورم تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

ان سب کوششوں کے بعد اس بات کا بھی احساس ہوا کہ قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے کیوں نا قلم کے ذریعے بھی اس جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ میرا آج کا یہ کالم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پاکستان میں 5 فروری قومی تعطیل کا دن ہے اور اِس کو یومِ یکجہتیِ کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے مگر پانچ فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کی تاریخی اہمیت کیا ہے یہ جاننے کیلئے تحریک آزادی کے پس منظر کو جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ اس پسِ منظر کو جانے بغیر ہم اس تحریک کے مقصد کو شاید کبھی نا سمجھ پائیں گے۔

کشمیری عوام کی تحریک آزادی کشمیر اسی دن شروع ہو گئی تھی جب 16 مارچ 1846 ء جس روز معاہدہ امرتسر طے پایا، جس کو کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ تر ین دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب حق پر باطل کو تسلط کرنے کی چال چلی گئی اور آزادی کا گلا گھونٹنے کی چال چلی گئی۔جب انگریز تاجروں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے 84471 مربع میل علاقے کو پچیس لاکھ کشمیریوں سمیت صرف 75 لاکھ نانک شاہی کرنسی کے عوض راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کردیا۔

پچیس لاکھ انسانوں کا یہ شرمناک سودا انگریزوں نے کیا اور دکھ کی بات یہ ہے کہ بیچنے والاخود بھی کشمیر کا مالک نہیں تھا وہ تو خود دوسری زمین سے آیا ہوا ایک ناجائز قابض تھا، جو خود کو قانون پسند ، 1215 ء سے treaty کے طور پر سامنے آنے والے نافذالعمل میگناکارٹا کا علمبردار سمجھتے خود کو مہذب اور انسانی حقوق کا ٹھیکیدار کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔

اپنے حقوق کی جنگ لڑتے کشمیریوں پر 13جولائی 1931کو سری نگر جیل کے احاطے میں وحشیانہ فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 22مسلمان شہید اور 47زخمی ہوئے اس واقعے کے بعد قائدِ اعظم کی تجویز پر آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے لاہور میں کشمیر کمیٹی قائم کی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد نومبر 1931کو تحریک الاحرار نے مسلح جد وجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں و کشمیر کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد انگریز حکومت نے گلینس کمیشن قائم کیا اور پھر 1934میں پہلی بار ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔


1946میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سری نگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور رس نگاہوں نے سیاسی، دفاعی ،اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا کیونکہ ریاست میں مسلم اکثریت کا تناسب 78فیصد جبکہ وادی میں مسلم اکثریت کا تناسب 93فیصد تھا سڑک راولپنڈی جبکہ ریل سیالکوٹ کے راستے کشمیر سے منسلک تھی تاریخی اعتبار سے بھی 14ویں صدی سے لیکر19صدی کے آغاز تک کشمیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔

مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19جولائی 1947 کوسردارمحمد ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الہیٰ وزیر آباد کی قیادت میں 23اگست 1947کو مسلح جد و جہد کا نیلا بٹ کے مقام سے باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دیا اور ہندوستان کی فوجوں کو کشمیر میں آنے کی دعوت دی۔

کیوں کہ ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت جس کو قائد اعظم منظور کر چکے تھے گورداس پور کا علاقہ ہندوستان کو مل گیا تھا جو کہ ہندوستان کو کشمیر سے ملانے کا واحد راستہ تھا لہذا ہندوستان نے موقع سے فائدہ اْٹھا کر اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پہلی جنگ کے آغاز کا سبب بنا، اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بہت سے مسلح مجاہدین بھی کشمیر پہنچ گئے جنہوں نے کشمیریوں کی مدد سے موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ ہندوستان کے قبضہ سے آزاد کروایا۔

یہ بھی ممکن تھا کہ مجاہدین سارا کشمیر آزاد کروا لیتے لیکن بھارت اپنی شکست سامنے دیکھ کر فورا بھاگا بھاگا اقوامِ متحدہ پہنچ گیا۔عالمی طاقتوں نے بھارت کے مسئلہ کشمیر کو استصوابِ رائے سے حل کروانے کی یقین دہانی پر جنگ بندی کروا دی۔ بھارت نے اْس وقت عالمی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔

لیکن جب بھی بھارت اپنے وعدے کی پاسداری کا تقاضا کیا گیا تو وہ اس سے مسلسل مکرتا رہا اور ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ مسئلہ کشمیر ہی دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگوں 1965 اور 1971 کا سبب بنا جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بھی مغربی پاکستان سے جدا ہوگیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جدو جہد جاری رکھی اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب کشمیریوں نے مسلم متحدہ محاذ کے نام سے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھارت سے علیحدگی کی قرار داد پاس کروانا تھا۔

اس الیکشن میں حریت کانفرنس کے موجودہ سربراہ سید علی گیلانی اور سپریم کمانڈر سید صلاح الدین نے بھی حصہ لیا لیکن بھارت نے محسوس کیا کہ مسلم متحدہ محاذ واضح اکثریت سے انتخاب جیت رہاْہے تو بھارت نے الیکشن کو سبوتاژ کر دیا جس سے کشمیری عوام کو اس بات کا مکمل ادراک ہو گیا کہ اْنہیں سیاسی محاذ کو چھوڑ کر مسلح جدوجہد کرنی پڑے گی۔ جس کے بعد کشمیریوں نے 1989میں باقاعدہ مسلح جد و جہد کا آغاز کر دیا۔

جس کی وجہ سے کشمیر سے پہلے درجنوں پھر سینکڑوں اور بعد میں ہزاروں افراد کے قافلے آزاد کشمیر پہنچنا شروع ہو گئے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد نے 5جنوری 1989کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی جس کا مقصد پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنا تھا۔ اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ماہ کا وقفہ دیکر 5فروری 1989کو ہڑتال کی اپیل کر کے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یوم کشمیر منایا جائے جس کی پہلے اْس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی میاں محمد نواز شریف اور بعد میں وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے بھی اس اعلامیہ کی تائید کی۔

1989کو یوم یکجہتی کشمیر پہلی مرتبہ اور1990کو تمام سیاسی جماعتوں نے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر پوری قوم کے ساتھ مل کر منایا۔ اس کے بعد گزشتہ 31 برسوں سے 5فروری کو آزاد و مقبوضہ کشمیر ،پاکستان اور دنیا بھر میں موجود تقریباً 16 لاکھ کشمیر ی تارکین وطن ہر سال یوم یکجہتی کشمیر اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ آزادی کے حصول تک یہ سلسلہ جاری رہیگا کیونکہ مسئلہ کشمیر تقسیم بر صغیر کے نا مکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔

کشمیری عوام اپنی آزادی کیلئے 73 سال سے مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق 1989سے لیکر آج تک بھارت نے تقریبا 1لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا،ہزاروں خواتین بیوہ ہوئیں ،لاکھوں بچے یتیم ہوئے ،لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ،سات لاکھ بھارتی افواج مسلسل کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہیں حریت کانفرنس کی قیادت کو اکثر نظر بند کیا جاتا ہے، خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے،بات انسانی حقوق کی پامالی سے بڑھ کر نسل کشی تک پہنچ گئی ہے۔

5اگست 2019 سے کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے لوگ بند کمروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے کشمیر ی عوام اس صدی کے سب سے بڑے ظلم کا شکار ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے ذریعے کرے جو کہ انکا بنیادی حق ہے جس سے اْنہیں مسلسل 73 سالوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کو اب اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ انہوں نے جنگ بندی کرواتے وقت کشمیریوں سے جو وعدے کئے تھے انہیں اب پورا کروانے کا وقت آگیا ہے۔

اب کشمیریوں کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا۔ اگر اس وقت اقوامِ متحدہ دخل اندازی نا کرتی تو آج کشمیری عوام آزاد فضا میں سانس لے رہے ہوتے۔ لہذا اب عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیے کیونکہ یہ اْن کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر ایک ایسی سلکتی چنگاری جو بھڑکی تو ہر شے کو راکھ بنا دے گی!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :